کیمرونین افسانہ
( فرانسیسی سے )
ٹھنڈ کی حِدت (Froid dans le dos)
(In from the Cold)
میکس لوب (Max Lobe)
بُوبا اس عمارت کے باہر کھڑا میرا منتظر ہے جس میں ، میں رہتی ہوں ۔ ایسی تیز ہوا چل رہی ہے کہ سردی کا احساس اپنے عروج پر ہے ۔ ہلکی ہلکی برف بھی پڑ رہی ہے جس نے ہوا کے ساتھ ساتھ ہر شے کو ایسے لپیٹ رکھا ہے جیسے سب کچھ ایک اجلی سفید چادر ہو ۔ بُوبا اپنے خاکستری کوٹ میں سُکڑا کھڑا ہے ۔ یہ میرے پرانے ’ کاریتاس ‘ * سے مِلے کوٹوں میں سے ایک ہے جو میں نے اسے دو سال پہلے دیا تھا ۔ جب وہ مجھے دیکھتا ہے تو مسکراتا ہے اور مجھے احساس ہوتا ہے کہ میری موجودگی اس کے لئے اطمینان کا باعث ثابت ہوئی ہے ۔ میں بِنا کچھ کہے ، جلدی سے عمارت کا دروازہ کھولتی ہوں اور وہ میرے پیچھے پیچھے اندر آ جاتا ہے ۔
میں ایک چھوٹے سے سٹوڈیو اپارٹمنٹ میں رہتی ہوں ۔ یہ تیرہ مربع میٹر کا ہے ، بہت بڑا ہوا تو پندرہ کا ہو گا ۔ بُوبا ایک پرانے ’ ریڈی ایٹر‘* ، جو اس جگہ کو گرم رکھتا ہے ، پر بیٹھ جاتا ہے۔ وہ اپنا کوٹ اور دستانے نہیں اتارتا ۔ مجھے اس کے بجتے دانتوں سے چِڑ ہو رہی ہے ۔
”کیا تم چائے پینا چاہو گے ؟ “
” ہاں “ ، اس نے گردن ہلاتے ہوئے کہا ۔
” سادہ کالی یا لیموں کے ساتھ؟ “
میں اُبلتی چائے کے دو کپ بناتی ہوں اور ایک بُوبا کوپکڑا دیتی ہوں ۔ وہ احتیاط برتتے ہوئے اسے اپنے ہونٹوں سے لگاتا ہے اور چائے پیتا ہے ۔ کچھ منٹوں بعد جب اسے کچھ گرمائش محسوس ہوتی ہے تو اپنا کوٹ اور دستانے اتارتا ہے ۔ میں اس کے گیلے جوتوں کی طرف دیکھتی ہوں ۔ وہ سمجھ جاتا ہے کہ اسے یہ بھی اتارنا ہوں گے ۔
ہم دونوں پر خاموشی طاری ہو جاتی ہے اور میں بُوبا کا چہرہ پڑھنے لگ جاتی ہوں ۔ اس کی بڑی بڑی دھوئیں جیسی آنکھوں نے اس کی نظر اورچہرے کے تاثرات کو گداز کر رکھا ہے ۔
” بُوبا ، تم کس لئے آئے ہو؟ “
” سردی یہاں لطیفے نہیں بکھیرتی، یا بکھیرتی ہے ! “
” یہ سال کا وہ حصہ ہے جب یہ ایسی ہی ہوتی ہے ۔ اور تمہیں اس کا پتہ ہے ۔“
” ہاں ، لیکن اس بار ، یہ تو پتھر کر دینے والی ہے ۔ “
وہ مجھے بتاتا ہے کہ جب ہم آخری بار ملے تھے تو اس کے بعد اُس نے اپنے جیسوں ، پناہ کے طلب گاروں ، کے ایک گروہ میں شمولیت اختیار کر لی تھی ۔ وہ سب مدعی تھے ، جیسا کہ ہم انہیں یہاں کہتے ہیں ۔ ان میں سے کچھ نقلی و جعلی پناہ گیر تھے جبکہ کچھ واقعی حقدار ، لیکن آخر میں یہ بات اہم نہیں رہتی ہے ، وہ سب ایک سے گردانے جاتے ہیں ۔ گو انہیں پناہ تو نہ دی گئی ، لیکن انہوں نے واپس نہ جانے کا فیصلہ کیا اور وہیں بسے رہے ۔ وہ بیس تھے ۔ انہوں نے مل جل کر شِکمی پٹے پر ایک چھوٹا سا اپارٹمنٹ لیا اور وہاں رہنا شروع کر دیا تھا ۔ وہ وہاں باری باری سوتے ؛ دس ایک رات جبکہ دس دوسری رات ۔ انہوں نے کھٹملوں بھرے گدے فرش پر ڈال رکھے تھے ۔ اُنہیں سر رکھنے کے لئے بھی کافی جگہ میسر نہ تھی ۔ پھر ایک روز ان میں سے ایک نے اپنے حصے کا کرایہ نہ دیا ، اس کی جگہ ، فوراً ہی ، کسی اور کو دے دی گئی ۔ یہاں کوئی یک جہتی نہیں ہے ۔ اور ٹھنڈ بھی اس معاملے میں کسی کے ساتھ رعایت نہیں کرتی ۔ خاص طور پر سردیوں میں ، گرمیوں میں تو بندہ گزارا کر ہی لیتا ہے ۔ بندہ باہر ہی ، کوڑے کے ڈرموں کے درمیان ، شراب خانوں کے پچھواڑے ، ریلوے سٹیشنوں کے پلیٹ فارموں پر ، کہیں نہ کہیں سو ہی جاتا ہے ۔ جس بندے سے انہوں نے اپارٹمنٹ شِکمی طور پر کرائے پر لیا ہوا تھا ، اس نے مالک کو چھ ماہ سے کرایہ نہیں دیا تھا اور جب اسے اس ساری بات کی ہوا لگی تو بُوبا اور باقیوں کو وہاں سے نکال دیا گیا تھا ۔
جب بُوبا اپنی کہانی ختم کرتا ہے تو سر اٹھاتا ہے ۔ ہماری نظریں چار ہوتی ہیں ۔ باہر کی ٹھنڈی ہوا کی سرسراہٹ اندر در آتی ہے ۔ بُوبا اپنے ہاتھ آپس میں رگڑتا ہے ۔ مجھے معلوم نہیں ہے کہ میں اس سے کیا کہوں ۔ میرے اپنے پاس بھی کافی جگہ نہیں ہے ۔ ایک سنگل بیڈ ہے ۔ میرے سٹوڈیو میں پڑھائی کے لئے ایک میز ہے ، ایک تنگ اور چھوٹا سا غسل خانہ ہے ۔ چھوٹی موٹی چیزیں رکھنے کے لئے ایک چھوٹا سا طاقچہ ہے ۔ فرش پر ایک ’ ہاٹ پلیٹ ‘ * اور ایک ’ مائیکرویو اوون‘ * پڑا ہے ۔ میں اپنے کپڑے غسل خانے کی دیوار کے ساتھ ٹانگتی ہوں اور ہاں میں نے پچھلے ہی دنوں ایک غالیچہ ’ ایکیا ‘* سے ۔ ۔ ۔
میں بُوبا کو باہر نہیں نکال سکتی ۔ میں اسے عفریتی ٹھنڈ کے شکنجے میں واپس نہیں بھیج سکتی ۔ میں اسے اس لئے بھی نہیں نکال سکتی کہ افریقی مہمانداری کا تقاضا ہے کہ میں اس کی مدد کروں ۔ میں اسے اس لئے بھی باہر نہیں نکال سکتی کیونکہ ۔ ۔ ۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ یہیں رہے ۔ میں چاہتی ہوں کہ میرے قریب رہے ۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ میرے قریب سوئے ۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ میری تنہائی کو دور کرے ۔ مجھے اس کی ضرورت ہے ۔
میں اس سے دو سال پہلے ملی تھی ۔ وہ میرے سٹوڈیو اپارٹمنٹ کے قدمچے پر سُکڑا پڑا سو رہا تھا ۔ اسے میری آمد کا پتہ نہ چلا تھا ۔ اس وقت ویسے ہی دیر ہو چکی تھی ۔ میں ’ میگروس‘ * سے واپس لوٹی تھی جہاں میں کبھی کبھار اس لئے چلی جاتی تھی کہ وہاں کافی اچھی اشیاء مل جاتی تھیں جنہیں سپر مارکیٹ والے ردی کرکے کباڑ کے ڈھیر میں بدل دیتے تھے ۔ میں بہت سے تھیلے اٹھائے ہوئے تھی جن میں دہی ، پائیز* ، دودھ ، ڈبل روٹیاں ، کریسوں* روٹیاں ، ان پر لگانے والے سپریڈز* ، کچھ گوشت ، بہت سے پھل اورسبزیاں وغیرہ تھے ۔
میں نے اسے ہلکے سے ہلایا کہ وہ جاگ جائے ۔ جب اس نے مجھے دیکھا تو وہ ایک دم اُچھلا اور سیڑھیوں کی طرف بھاگا اور زناٹے سے نیچے اترتا گیا ۔
” ارے! تم کہاں جا رہے ہو؟ رُکو! میرے پاس کافی کھانا ہے جو ہم دونوں کے لئے کافی ہو گا ۔“
لیکن وہ جا چکا تھا ، میں نے لاپروائی سے کندھے جھٹکے اور دروازہ کھولا ۔ جیسے ہی میں نے ایک قدم اندر کیا تو وہ ایک شرمیلے بلونگڑے کی طرح میرے گرم سٹوڈیو میں گھس آیا ۔ ہم نے کھانا کھایا اور بہت کھایا ۔
” تمہارا نام کیا ہے ؟“
” بُوبا “
” میں ایتوبی ہوں ۔“
ایک لال بیگ ہمارے پاس سے دوڑتا گزرا ۔ بُوبا اپنی جگہ سے اچھلا ۔ ہم پاگلوں کی طرح ہنسے ۔ پھر میں ، اسے نظروں سے دعوت دیتی اپنے چھوٹے سے بستر پر لیٹ گئی ۔ کمرے میں خاموشی تھی ۔ میں نے اسے اشارہ کیا کہ وہ میرے پہلو میں سو سکتا ہے ۔ اس نے چاروں طرف نظر گھما کر دیکھا کہ میں کن حالات میں وہاں رہ رہی تھی ۔ مجھے لگا جیسے اسے مجھ پر رشک آ رہا ہو ۔ وہ زمین پر ہی بیٹھا رہا ۔ میں سو گئی ۔ لیکن جب آدھی رات کو پیشاب کی حاجت نے مجھے جگا دیا تووہ بستر میں تھا اور میں اس کی بانہوں میں ۔ اس نے ، مجھے مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا ۔ مجھے یہ بہت اچھا لگا ۔ میں جب سے یہاں آئی تھی ، میں نے ایسا پہلے کبھی محسوس نہیں کیا تھا ۔
اس رات کے بعد بُوبا اور میں نزدیک ہوتے گئے ۔ میں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ ’ ماری جُوانا ‘ * یا اس قسم کی دوسری غیر قانونی اشیاء کو بیچنا ترک کرے ۔ میں نے اسے پڑھنے کے لئے کتابیں دیں اور اس کی ٹوٹی پھوٹی گرائمر کو درست کیا ۔ ہم اکٹھے میگروس کے ان انباروں پر جاتے جہاں اشیاء سستی ہوتیں ۔ میں کالج جاتی تھی ۔ بُوبا چھوٹی موٹی نوکریاں کرتا اور یوں ہم اپنا خرچہ پورا کرتے ۔ ہم ہنستے ، سگریٹ پیتے ، تاش کھیلتے اور ٹی وی دیکھتے ۔ ہم ایک ہی بستر میں سوتے ۔ بیڈ ، فرنیچر کا یہ چھوٹا سا ٹکڑا ، ہمارے ایک دوسرے میں دھنسے جسموں کو خوش آمدید کہتا جس میں ہمارے پسینے اور ہماری پیڑیں ایک تھیں ۔ ہمارا ساتھ ٹھیک جا رہا تھا ، تب ایک دن مجھے ایک برا خیال آیا اور میں نے اس کے لبوں پر اپنے لب رکھ دئیے اور انہیں دبایا ۔ وہ نیند میں تھا اس لئے اسے احساس نہ ہوا ۔ میں نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور مزید پیش رفت کی اور اس ناگ کو باہر نکالنا چاہا جسے بُوبا نے خود میں چھپا رکھا تھا ، خود میں ، دور کہیں نیچے ۔ اس حریص ناگ نے میرے ذہن میں ایک مضبوط شکل اختیار کر لی تھی جو بربریت اور بے رحمی سے ڈنگ مارنے کو تیار تھا ۔ یوں میں نے اسے دیکھا ؛ پہلے بل کھائے ہوئے اور پھر کھلے بل کے ساتھ اور بالآخر سخت تناﺅ میں ۔ میں اس رینگنے والے جانور ، جسے میں نے اپنے ہم جماعت لڑکوں کی رانوں کے درمیان کئی بار پھسلتے دیکھ چکی تھی ، کا ڈنگ کھانے کے لئے برفیلے سایئبیریا میں بھی ننگے بدن دوڑنے کو تیار تھی ۔
میں نے اس پر اپنی زبان رکھی ۔ بُوبا اب تک جاگا نہیں تھا ۔ لیکن مجھے ایک مثبت رد عمل مل چکا تھا ۔ ناگ تناﺅ میں تھا ، شاید ایسا اضطراری طور ہوا تھا ۔ میرے ذہن میںاس اژدہے کے میٹھے ڈنگ کا خیال آیا ۔ لیکن یہ میرا ایک خواب تھا ۔ تب بُوبا جاگ گیا ۔ وہ مجھ پر چلایا ۔ اس نے مجھے برا بھلا کہا ۔ مجھے بے عزت کیا اور مجھ پر لعن طعن کے تیر برسائے ۔ ا س نے میری طرف سے منہ پھیرا اور دھاڑ سے دروازہ بند کرکے چلا گیا ۔ میں نے اسے پھر دوبارہ نہیں دیکھا ۔ مجھے شرمندگی ہوئی ۔ مجھے افسوس ہوا ۔ میں تڑپی اور پھر وقت نے اِن ناخوشگوار یادوں پر مرہم رکھ دیا ۔
” تم غالیچے پر سو سکتے ہو ۔“
” بلا کی سردی ہے ۔“
” میں تمہیں کمبل دے دیتی ہوں ۔“
میں اپنے بستر میں لیٹتی ہوں اور بُوبا کی طرف پشت کرلیتی ہوں اور اپنے خیالوں میں کھو جاتی ہوں ، کن میں ، یہ اب مجھے یاد نہیں ۔ میں غنودگی میں ہوں اور محسوس کرتی ہوں کہ ایک جسم میرے کمبل میں گھسا ہے ۔ اور پھر میرے سر کو ایک کندھا مل جاتا ہے ۔ ایک بازو مجھے سمیٹ لیتا ہے ۔ میں ایک بھاری سانس منہ سے نکالتی ہوں اور اپنی آنکھیں بند کرلیتی ہوں ۔ #
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
* ’ کاریتاس ‘ = Caritas ، مسیحیوں کا ایک خیراتی ادارہ جس کی شاخیں دنیا بھر میں ہیں ۔
* ’ ریڈی ایٹر‘ = Radiator ، کمرہ گرم کرنے والا وہ آلہ جس میں گرم پانی یا تیل گردش میں رہتا ہے ۔
* ’ ہاٹ پلیٹ ‘ = Hot Plate ، ایک طرح کا برقی چولہا
* ' مائنکروویو اوون ' = Microwave Oven ، جلدی کھانا گرم کرنے کی مشین
* ’ میگروس‘ = Migros ، یورپ کے سُپر سٹورز کی ایک چین
* ’ ایکیا ‘ = Ikea ، یورپ میں گھریلو اشیاء و فرنیچر سٹورز کی ایک چین
* پائیز = Pies ، ایک طرح کی پیسٹری
* کریسوں = croissant ، ایک طرح کی فرانسیسی روٹی جو ہلال یا کیکڑے کی شکل میں پکائی جاتی ہے ۔
* سپریڈز = spreads ، جیسے چکن سپریڈ وغیرہ
* ’ ماری جُوانا ‘ = Marijuana ایک طرح کی چرس
میکس لوب (Max Lobe) 13 ، جنوری 1986 ء کو’ ڈوﺅلا ‘ ، کیمرون میں پیدا ہوا ۔ 2004ء میں وہ سوئسزرلینڈ میں گیا اور وہاں ابلاغیات اور صحافت میں تعلیم حاصل کی ۔ پھر اس نے ’ لوسین ‘ کے انسٹی ٹیوٹ آف پبلک ایڈ منسٹریشن سے ڈگری حاصل کی ۔ وہ جنیوا میں رہتا ہے ۔ اب تک اس کی پانچ کتابیں شائع ہو چکی ہیں ۔ ان میں ایک ناول ’ 39 Rue de Berne ‘ بھی ہے ۔ اس کا یہ ناول اور اس کے کئی افسانے مختلف انعام حاصل کر چکے ہیں ۔ اس کے کام میں مختلف سماجی و ثقافتی تھیمز کا ایسا پھیلاﺅ ملتا ہے کہ آپ اسے پڑھے بغیر نہیں رہ سکتے ۔ غیر قانونی ہجرت اور روایتی معاشروں میں جنسی اقدار اُس کے کام میں ایک اہم موضوع ہے ۔
یہ افسانہ مصنف کی اجازت سے اردو میں ڈھالا گیا ہے ۔