یک سِنگھے
پانچواں افسانہ ؛ رقصاں بونا
( The Dancing Dwarf , 1984 )
اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورؔ…
آغاز ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اقتباس
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک بونا میرے خواب میں آیا اور اس نے مجھ سے ناچنے کی درخواست کی ۔
مجھے معلوم تھا کہ یہ خواب ہے لیکن میں اپنے خواب میں بھی اتنا ہی تھکا ہوا تھا جیسے کے اس وقت حقیقی زندگی میں تھکا ہوا تھا چنانچہ میں نے شائستگی سے انکار کر دیا ۔ بونے نے اس کا برا نہ منایا اور اکیلے ہی رقص کرنا شروع کر دیا ۔
اس نے ایک دستی ریکارڈ پلئیر زمین پر رکھا اور موسیقی پر ناچتا رہا ۔ پلیئر کے اردگرد ریکارڈ بکھرے پڑے تھے ۔ میں نے ان میں سے کچھ کو مختلف جگہوں سے اٹھا کر ڈھیری بنا دی ۔ یہ مختلف النوع موسیقی پر مبنی تھے اور ایسے لگتا تھا جیسے بونے نے انہیں آنکھیں بند کرکے منتخب کیا تھا اور جو اس کے ہاتھ آ گیا تھا اس نے اٹھا لیا تھا ۔ ان میں سے کوئی بھی ریکارڈ اپنی درست ’ جیکٹ ‘ میں نہیں تھا ۔ بونا بجتے ریکارڈ کو مکمل بجنے سے پہلے ہی درمیان سے ہی اٹھا کراس کی جیکٹ میں ڈالے بِنا ڈھیری پر پھینک دیتا ۔ کون کس کے ساتھ کا ہے اس کا دھیان کئے بغیر وہ بعد میں انہیں جیکٹوں میں ڈال رہا تھا ۔ ۔ ۔’ رولنگ سٹونز ‘ کا ریکارڈ ’ گلین مِلر ‘ کی اور ’ مِچ مِلر‘ کا کورس ’ ریول‘ کے بیلے ’ ڈیف نِس اور چلوئی ‘ کی جیکٹ میں ۔
لیکن بونے کو اس انتشار سے کوئی سروکار نہ تھا ۔ جو بھی بج رہا تھا اس پر جب تک وہ رقص کر سکتا تھا وہ مطمئن تھا ۔ اس وقت وہ ’چارلی پارکر‘ کے ریکارڈ پر رقص کر رہا تھا جو اس جیکٹ سے نکلا تھا جس پر ’ کلاسیکی گٹار کا عمدہ انتخاب ‘ لکھا تھا۔ وہ ایک ’ واورولے ‘ کی طرح گھوم رہا تھا اور چارلی پارکر کے سیکسوفون سے بکھرتے سُروں کے بے قابو ہنگامے کو جذب کرتا جا رہا تھا ۔ میں انگور کھاتا ، اسے رقص کرتے دیکھتا رہا ۔
وہ پسینے سے شرابور تھا ۔ اس کے سر کے ہر جھٹکے کے ساتھ اس کے چہرے سے پسینے کے قطرے ہوا میں بکھرتے ، اس کے بازوﺅں کی ہر حرکت پر اس کی انگلیوں سے پسینے کی ندیاں بہہ نکلتیں لیکن یہ سب اسے ناچنے سے روک نہیں پا رہے تھے۔ جب ایک ریکارڈ ختم ہو جاتا تو میں انگوروں کا پیالہ نیچے رکھتا اور نیا ریکارڈ لگا دیتا ۔ وہ پھر سے رقصاں ہو جاتا ۔
” تم ایک عمدہ رقاص ہو “ ، میں نے چیخ کر اسے بتایا ، ” تم بذات خود موسیقی ہو ۔ “
”شکریہ“ ، اس کے کہنے کے انداز میں بناوٹ جھلک رہی تھی ۔
” کیا تم اسی طرح رقص کرتے ہو ؟ “
” ہاں کچھ ایسے ہی “ ، اس نے جواب دیا ۔
تب بونا اپنے پیروں کی انگلیوں کے بل انتہائی خوبصورت انداز میں گھوما اور اس کے نرم وگھنگریالے بال ہوا میں لہرائے ۔ میں داد دئیے بِنا نہ رہ سکا ۔ میں نے اس سے زیادہ خوبصورت رقص زندگی بھر نہیں دیکھا تھا ۔جب گانا ختم ہوا تو بونا تعظیم سے جھک گیا ۔ اس نے ناچنا بند کر دیا اور تولیے سے پسینہ صاف کرنے لگا ۔ سوئی ریکارڈ کی آخری جھری میں گھومے جا رہی تھی ۔ میں نے پلیئر کے سوئی والے دستے کو اٹھا دیا اور اسے بند کر دیا اور پہلی جو بھی جیکٹ میرے ہاتھ میں آئی ، اس میں ریکارڈ رکھ دیا ۔
” میرا خیال ہے کہ تمہارے پاس میری کہانی سننے کے لئے وقت نہیں ہو گا “ ، بونے مجھ پر نظر ڈالتے ہوئے کہا ، ” یہ ذرا لمبی ہے ۔“
میں شش و پنج میں تھا کہ اُس کی اِس بات کا کیا جواب دوں ، میں نے ایک اور انگور منہ میں ڈالا ۔ وقت میرے لئے مسئلہ نہ تھا لیکن مجھے ایک بونے کی زندگی بھر کی کہانی سننے میں کچھ زیادہ دلچسپی نہ تھی ۔ یہ بات بھی تھی یہ سب ایک خواب تھا اور کسی لمحے بھی غائب ہو سکتا تھا ۔
میرے جواب کا انتظار کئے بغیر ہی بونے نے انگلیوں سے چٹکی بجائی اور بولنا شروع کر دیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
( مکمل افسانہ پڑھنے کے لئے ہاروکی موراکامی کے افسانوں کی کتاب ' یک سِنگھے ' دیکھیں ۔)
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔