کچھ نقاد ' نینکیچی نیمی ' کے اس افسانچے کو ' Weird tale ' کہتے ہیں ۔ ۔ ۔ آپ کا کیا خیال ہے ؟
لال موم بتی ( The Red Candle… 1936 )
نینکیچی نیمی
اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورؔ
ایک بندر ، جب ، پہاڑ سے نیچے اتر کر ، کھیلنے کے لئے ایک گاﺅں میں آیا تو اسے لال رنگ کی ایک موم بتی ملی ۔ چونکہ موم بتیاں عام طور پر لال نہیں ہوتیں اس لئے بندر کو خیال آیا کہ یہ ایک پھلجھڑی ہے ۔ وہ اسے احتیاط سے واپس پہاڑ پر لے گیا ۔ جلد ہی پہاڑ پر ایک ہنگامہ کھڑا ہو گیا کیونکہ نہ تو ہرن اور نہ ہی سور نے کبھی پھلجھڑی دیکھی تھی ۔ اسی طرح خرگوش ، کچھوے ، نیولے ، لومڑ اورکتے نے بھی اسے نہ دیکھا تھا ۔
” اوہ ، یہ کتنی عجیب و غریب اور دلکش ہے ۔ “
” یہ بہت پیاری ہے ۔ “
ہرن ، سور ، خرگوش ، کچھوا ، نیولا ، کتا اور لومڑ ایک دوسرے کو دھکے دیتے آگے بڑھ کر پاس جا کر لال موم بتی کو اچھی طرح دیکھنا چاہتے تھے ۔
بندر نے البتہ انہیں روکا اور کہا ؛
” رکو، تمہیں اس کے نزدیک بالکل نہیں جانا چاہیے ۔ یہ پھٹ جائے گی ۔“
اور وہ سب ڈر کے مارے پیچھے ہٹ گئے ۔
تب بندر نے انہیں بتایا کہ یہ شے جسے ’ پھلجھڑی ‘ کہتے ہیں جب ہوا میں اوپر جاتی ہے تو زوردار دھماکے کے ساتھ پھٹ کر آسمان کو مختلف رنگوں سے بھر دیتی ہے ۔ سارے جانوروں نے بندر کی بات دھیان سے سنی اور سوچا کہ ایسا دلکش نظارہ دیکھنا ان کے لئے کتنا بھلا ہو گا ۔ انہوں نے بندر کو اپنے دل کی خواہش بتائی ۔
” اگر ایسا ہی ہے تو چلو رات میں اسے پہاڑ کی چوٹی پر لے چلیں گے اور وہاں اسے چھوڑیں گے ۔ “ ، بندر نے کہا ۔
یہ سن کر سب خوش ہو گئے ۔ اس خیال نے کہ پھلجھڑی ہوا میں جا کر رنگ برنگے تاروں کو فضا میں بکھیرے گی ، انہیں بے خود کر دیا ۔
رات ہوئی اور ان کے دل اچھلنے لگے ۔ وہ دوڑتے ہوئے پہاڑ کی چوٹی پر جا پہنچے ۔ بندر نے پہلے ہی لال موم بتی کو شاخوں اور تیلیوں کے درمیان رکھا ہوا تھا اور ان کا منتظر تھا ۔
بالآخر پھلجھڑی کو چھوڑنے کا سمے آ گیا لیکن ایک مسئلہ درپیش تھا کہ اسے آگ دکھانے کوئی آگے نہ بڑھا ۔ وہ سب تو پھلجھڑی کا نظارہ دیکھنا چاہتے تھے لیکن انہیں یہ بات پسند نہ تھی کہ وہ اسے آگ بھی دکھائیں ۔ یوں لال موم بتی وہیں پڑی رہی جہاں بندر نے اسے رکھا تھا ۔
تب انہوں نے تیلیاں اٹھا کر قرعہ ڈالا کہ اسے آگ کون دکھائے گا ۔ یہ قرعہ کچھوے کے نام نکلا کیونکہ اس کی تیلی سب سے چھوٹی تھی ۔
کچھوے نے پوری کوشش کی کہ وہ بہادری سے کام لے لیکن جیسے ہی وہ موم بتی کے پاس پہنچا ۔ ۔ ۔ تو کیا اس نے موم بتی کو آگ دکھائی؟ ۔ ۔ ۔ نہیں ، بالکل نہیں ، جیسے ہی وہ موم بتی کے پاس پہنچا ، جبلی طور پر اس نے اپنا سر سکیڑا اور وہ اس کی ڈھال میں ایسا گھسا کہ باہر ہی نہ آ پایا ۔
انہوں نے پھر سے قرعہ ڈالا ، اس بار نیولے کے نام قرعہ نکلا ۔ نیولا کچھوے کی نسبت کچھ بہتر نکلا اور اس کا سر اس کے کندھوں میں نہ سکڑا لیکن اس کی نظر بری طرح کمزور تھی وہ موم بتی کے گرد بے معانی انداز میں گھومتا رہا ۔
آخر کار سور اچھل کر سامنے آیا ، وہ شروع سے ہی خطرات مول لینے کا عادی تھا ۔ اس نے بالآخر موم بتی کو آگ دکھا ہی دی ۔ سارے جانور گھبرائے اور گھاس کے اندر چھپ گئے اور اپنے کانوں کو اچھی طرح ڈھانپ لیا ۔ اس پر بھی ان کی تسلی نہ ہوئی اور انہوں نے اپنی آنکھیں بھی بھینچ لیں ۔
لیکن موم بتی بِنا ہلکے سے بھبھاکے کے خاموشی سے جلتی رہی ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نینکیچی نیمی ( Nankichi Niimi) 30 جولائی 1913 ء کو ہنڈا شہر ، جاپان میں پیدا ہوا ۔ 18 برس کی عمر میں وہ ٹوکیو گیا تاکہ بدیسی تعلیم حاصل کر سکے لیکن جیسے ہی اس نے تعلیم مکمل کی وہ تپ ِ دق کا شکار ہو گیا اور 29 برس کی عمر میں 22مارچ 1943 ء کو فوت ہو گیا ۔
وہ سکول کے زمانے میں ہی لکھنے کی طرف راغب ہوا ۔ اس کی تحریریں انسانوں کے حقیقی انداز زندگی کی عکاس ہیں اور ان میں زندگی کی پر امیدی بہت واضح نظر آتی ہے ۔ ’Gon, the Little Fox‘ ، ’ Buying Mittens‘ اور ’ Grandfather’s Lamp ‘ اس کے کام میں نمایاں ہیں ۔
اُس کی کہانی' گون ؛ ننھی لوکڑی ' ( Gon, the Little Fox ) جو پہلی بار 1932 ء میں شائع ہوئی تھی کے75 ویں سال ( 2007 ء ) میں اس کہانی پر مبنی چھ سکوں پر مشتمل ایک یادگاری سیٹ جاری کیا گیا تھا ۔ اس سیٹ کے ساتھ ایک کتابچے میں مکمل کہانی بھی ڈبے میں پیش کی گئی ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔