’’ وہ دیکھو! ٹوٹا ہوا تارا۔۔۔۔! میں نے سنا ہے کہ ٹوٹے ہوئے تارے کو دیکھ کردعا مانگی جائے تو وہ ضرور قبول ہوتی ہے۔'' شام کے سائے گہرے ہو رہے تھے۔ وہ سب بچے بہت دیر سے گھر کے وسیع لان میں مختلف کھیل ، کھیل رہے تھے جب ان میں سے ایک بچے نے آسمان پر روشنی کی تیز لکیر کو نمودار ہوتے ہوئے دیکھا تو خوشی سے کہا تھا ۔ یہ سنتے ہی سب نے سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا تھا ۔ دعا مانگنے سے زیادہ ، وہاں موجود پانچوں بچوں کو ٹوٹا ہوا تارا دیکھنے کا شوق تھا۔ جبکہ مجتبیٰ جو بہت مگن سے انداز میں پزل کے ٹکڑے جوڑ رہا تھا ۔ یہ سنتے ہی فورا اپنی جگہ سے اٹھا اور آنکھیں بند کر کے دعا مانگنے لگا ۔ چھ سالہ مجتبیٰ یہ نہیں جانتا تھا کہ اس بات میں کتنی صداقت ہے ؟ وہ صرف یہ چاہتا تھا کہ اس کی ایک دعا کسی طرح بھی بس قبول ہو جائے اور اس کے لئے وہ کچھ بھی کرنے کے لئے ہر وقت تیار رہتا تھا ۔
وہ اپنی دعا مانگنے میں مگن تھا ، جب اس نے باقی بچوں کے ہنسنے کی آوازیں سنیں۔ مجتبیٰ نے آنکھیں کھول کر ان کی طرف دیکھا اور بغیر کچھ کہے دوبارہ پزل کے ٹکڑوں کی طرف متوجہ ہو گیا ۔ اسے اپنی زندگی بھی پزل کے ان ٹکڑوں کی طرح بے ترتیب لگتی تھی ۔ جسے کسی نے بہت بے دردی یا بے دھیانی سے بکھیر دیا ہو ۔’’ کیا میری دعا کبھی قبول نہیں ہوگی۔۔۔!‘‘پزل کے ٹکڑے جوڑتے ہوئے اس نے اداسی سے سوچا تھا اس کی بڑی بڑی کالی آنکھوں میں چمکتے آنسو بہت واضح تھے ۔
’’ٹوٹا ہوا تارا، اتنی جلدی میں تھا کہ میری دعا سنے بغیر آسمان میں کہیں گم ہو گیا‘‘۔ اس کے چہرے پر پھیلی اداسی دیکھ کر باری باری سب نے یقین دہانی کروائی کہ وہ جب بھی ٹوٹا ہو اتارا دیکھیں گے تو اس کے لئے ضرور دعا مانگیں گے ۔ یہ سن کر مجتبیٰ کے دل میں اطمینان کی لہر اٹھی تھی ’’اگرسب بچوں کی دعائیں ایک ساتھ اللہ میاں کے پاس جائیں گی تو وہ ضرور قبول کریں گے !‘‘ مجتبیٰ نے اپنی اسلامیات کی استانی سے سنا تھا کہ بچوں کی دعا بہت جلد قبول ہوتی ہیں اور اگر بچے اچھے اچھے کام کریں اور کسی کی مدد کریں تو اللہ میاں بہت خو ش ہوتے ہیں ۔مجتبیٰ نے اس بات کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیا تھا اور پوری طرح عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتا تھا ۔اس نے سوچا کہ وہ یہ بات بابا جی کو بھی ضرور بتائے گا ۔جن کے ساتھ وہ ہر شام قریبی پارک میں سیر کرنے جاتا تھا ۔ باباجی کی تنہائی اور اداسی سے سب واقف تھے ۔اسی تنہائی اور اداسی نے ان کا گہرا رشتہ مجتبیٰ کے ساتھ بنا دیا تھا ۔ اکثر ایک فرد کی اداسی کا ، کسی دوسرے فرد کی تنہائی سے بننے والا رشتہ مقناطیسی طاقت رکھتا ہے ۔ اسی لئے ہزاروں انجان چہروں میں ، ایک دوسرے کو دور سے پہچان کر اپنی طرف کھینچ لیتا ہے ۔
’’مگر یہ سب میرے لئے دعا کیا مانگیں گے ؟ انھیں تو پتا ہی نہیں کہ میری دعا کیا ہے؟‘‘ مجتبیٰ نے اپنے مہربان دوستوں کی طرف دیکھ کر سوچا تھا ۔
’’ میری دعا یہ ہے کہ ۔۔۔!‘‘ اس وقت ملازم نے مجتبیٰ کے ماموں کے آنے کی اطلاع دی ۔ مجتبیٰ نے جلدی سے اپنے دوستوں سے ہاتھ ملایا اور تیزی سے گیٹ کی طرف بھاگا ۔ کیونکہ ماموں کو زیادہ انتظار کرنے پر بہت غصہ آتا تھا بلکہ مجتبیٰ کو لگتا تھا کہ ماموں کو اس کی ہر بات پر بہت غصہ آتا تھا ۔وہ اپنے ماموں اور ان کے بیوی بچوں سے بہت ڈرتا تھا ۔ اس لئے نہیں کہ وہ ڈرپوک بچہ تھا ۔ بلکہ اس لئے کہ اس کی ماں نے ہمیشہ یہ کہا تھا کہ اس کی وجہ سے کسی کو شکایت نہیں ہونی چائیے۔
اگلے دن وہ حسب معمول اپنے مقررہ وقت پر باباجی کا کمزور ہاتھ تھام کر پارک پہنچا ۔ اپنے دوست کی سالگرہ کی تقریب کا احوال بتانے کے علاوہ آج اس کے پاس ایک بہت خاص خبر بھی تھی ۔ بڑے سے پارک کا ایک چکر لگانے کے بعد وہ دونوں اپنی مخصوص جگہ پر بیٹھ گئے ۔پارک کے اس کونے والے بینچ کی طرف بہت کم لوگ آتے تھے۔
مجتبیٰ نے باباجی کو ٹوٹے ہوئے تارے کے بارے میں بتا یا تو ان کے بوڑھے ، اداس چہرے پر ہلکی سے مسکراہٹ پھیل گئی ۔
’’ کیا تمہیں سچ میں یہ لگتا ہے کہ ٹوٹے ہوئے تارے ، احساس اور محبت کے ٹوٹے رشتے بھی جوڑ سکتے ہیں !اگر ایسا ہوتا تو کئی سال پہلے ہی میں سب تارے توڑ کر، اپنے انتظار کے بوسیدہ اور منہدم ہوتے مکان کے درودیوار پر سجا دیتا ۔۔! مگر افسوس کہ عمر کے اس حصے میں محبت کی طرح ، خوش فہمیاں بھی ہاتھ نہیں آتی ہیں ۔‘‘ مجتبیٰ یہ سن کر کچھ سمجھا تو نہیں مگر اسے ان لفظوں میں چھپی ناامیدی کی آنچ محسوس ہو گئی تھی ۔ باباجی اس کے دل کی ہر بات سمجھتے تھے ۔ دونوں کی عمروں میں موجود فرق کے باوجود ، وہ ایک دوسرے کے سب سے اچھے دوست اور ہم راز تھے ۔ مجتبیٰ کو آج بھی یاد ہے کہ وہ اکثر اپنے کمرے کے ساتھ ملحق بالکونی میں کھڑے ہوکر ،سامنے والے گھر کے کشادہ اور ویران صحن کی طرف دیکھتا رہتا تھا۔ جہاں باباجی درخت کی گھنی چھاوں میں کرسی پر بیٹھے اخبار یا کوئی میگزین پڑھتے ہوئے نظر آتے تھے ۔مجتبیٰ کو ان کے گھر کی خاموشی سے بہت ڈر لگتا تھا ۔ باباجی اکثر اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے ، گلی میں کھیلنے والے بچوں کو رنگ برنگی ٹافیوں کا لالچ دیتے تھے ۔ اس لئے عصر کے بعد ، بچے جب بابا جی کو گھر سے باہر نکلتے ہوئے دیکھتے تو بھاگ کر ان کے ارد گرد جمع ہو جاتے ۔ سب کی کوشش ہوتی کہ آج بابا جی اس کا ہاتھ پکڑ کر پارک تک جائیں ۔ کیونکہ جو بھی بچہ انھیں سڑک کے دوسری طرف بنے پارک میں لے کر جاتا او ر مغرب کے وقت واپس لے کر آتا تھا ، باباجی اسے انعام میں ضرور کچھ نہ کچھ دیتے تھے ۔مجتبیٰ یہ سب خاموشی سے دیکھتا رہتا ۔پھر ایک دن اتفاق سے اسے یہ موقع مل گیا اور وہ باباجی کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ساتھ پارک لے گیا واپسی پر باباجی نے اسے انعام دینا چاہا، تو اس نے لینے سے انکار کر دیا ۔
’’ پھر تمہیں کیا چائیے ؟‘‘ باباجی نے حیرت سے سوال کیا تھا ۔ ’’ دعا ‘‘ سادہ سے انداز میں دئیے جواب نے باباجی کی آنکھیں نم کر دی تھیں ۔’’ بہت انمول چیز مانگی ہے بیٹا!‘‘ باباجی نے اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تھا ۔ مجتبیٰ نہیں جانتا تھا کہ انمول چیز کیا ہوتی ہے ؟ اس کے لئے سب کچھ بس اس کی دعا تھی ۔ابھی بھی وہ بے چین ہو کر اپنی جگہ سے اٹھا تھا ۔
’’ آپ کو پتا ہے کہ میں نے بہت سے اچھے کام بھی کئے ہیں ۔ سب گھر والوں سے چھپ کر ، پرانے سٹور میں پڑی زخمی بلی کو کئی دن دودھ بھی ڈالا تھا اور میں روز انہ صبح کے وقت چڑیوں کے لئے پانی اور دانے کے چھوٹے چھوٹے برتن بھی بھر کر رکھتا ہوں ۔ کیا پھر بھی میری دعا قبول نہیں ہو گی ؟‘‘ مجتبیٰ نے اپنے بڑوں سے سن کر مدد اور خدمت کے سب طریقے اپنائے تھے ۔ صرف اپنی دعا کی قبولیت کے لئے ۔اس لئے وہ پریشان ہو رہا تھا ۔ باباجی کی اداسی شام کی طرح گہری ہوگئی تھی ۔’’میں نے بھی ساری عمر اپنے بچوں کو سینے سے لگا کر پروان چڑھایا تھا ،سردی گرمی ، بھوک ، تکلیف، درد سے بچایا تھا ، انگلی پکڑ کر چلنا سکھایا ، مگر جب ان کے پروں نے پرواز کا ہنر سیکھ لیا تو وہ دور دیس میں جا بسے !جہاں میری کوئی صدا، کوئی فریاد ان تک نہیں پہنچتی ہے !میں ہر روز ، صبح کی پہلی کرن کے ساتھ آس کے پرندے ، انتظار کے آسمان پر اڑنے کے لئے چھوڑ دیتا ہوں اور شام ڈھلتے ہی ان کے زخمی وجود کو اپنے شکستہ بازوں میں سمیٹ کر مرہم پٹی کرتے ہوئے ، ساری رات درد کی چیخیں سنتا ہوں ! شاید اپنی اپنی کہکشاوں سے جدا ہو کر جینے والے سب لوگ ہی ٹوٹے ہوئے تارے بن جاتے ہیں ۔جن کے مقدر مں اندھیرے کے سوا کچھ اور نہیں ہوتا مگر تم امید کے جگنو اپنی مھٹی میں قید رکھنا کہ اکثر اندھیرے میں راستہ جگنو ہی دکھاتے ہیں ۔'' اس شام مجتبیٰ گھر لوٹا تو بہت اداس تھا ۔مجتبیٰ کی ماں کو گھر کے سب افراد کی خوشی اور ناراضی کا خیال رہتا تھامگر ان سب میں’’ وہ ‘‘ شامل نہیں تھا ۔
مجتبیٰ نے اپنی ماں کو ہمیشہ سب سے ناراض ، بہت دکھی ، اکثر اداس او ر تنہائی میں روتے ہوئے دیکھا تھا ۔ اس لئے مجتبیٰ کی ہر ممکن یہ کوشش ہوتی تھی کہ اس کی وجہ سے ماں کا دل نہ دکھے ۔ اس لئے وہ اپنی ماں کی ہر بات مانتا تھا بغیر کسی ضد کے ۔ ۔۔!
مگر سوائے ایک بات کہ ۔۔!
وہ اپنے باپ سے محبت کرنا نہیں چھوڑ سکا تھا ۔ اسے جتنی محبت اپنی ماں سے تھی ، اپنے باپ سے بھی اتنی ہی محبت کرتا تھا ۔ جبکہ ہوش سنبھالتے ہی ، اس نے اپنے آس پاس کے لوگوں سے ،اپنے باپ کے بارے میں برا ہی سنا تھا مگر مجتبیٰ جب بھی ان سے ملا تھا ، وہ اسے بہت مہربان اور شفیق لگے تھے ۔ پتا نہیں کیوں اس کے والدین میں نہ بن سکی ، جس کا نتیجہ طلاق کی صورت نکلا اور اس کی ملکیت کے دعویدار بنے کے لئے دونوں نے عدالت کا دروازہ کھٹکھٹایا تھا ۔ ہر پیشی پر اسے لگتا کہ آج یہ کالے کوٹ والے انکل ، اس کے ماں باپ میں صلح کروا دیں گے اور اپنا ہتھوڑا میز پر مارتے ہوئے آرڈر دیں گے کہ وہ تینوں ساتھ رہیں گے ۔۔۔۔۔!
یہ مجتبیٰ کی وہ دعا تھی جو کسی پل بھی اس کے لبوں سے جدا نہیں ہوتی تھی ۔اس کی زندگی کی سب سے بڑی خواہش تھی کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ رہے ۔وہ روز اپنے ذہن کے سادہ کینوس پر ، اپنی خواہش کے رنگوں سے ایک مکمل اور خوش باش فیملی کی تصویر بناتا تھا کہ جس میں بچے کا ہاتھ ایک طرف سے باپ نے مضبوطی سے ہاتھا ہوا تھا اور دوسری طرف سے ماں بچے کا ہاتھ تھامے مسکرا رہی تھی اور بچہ ان کے درمیان شرارت سے ہنستا ، کھلکھلاتا ، مسلسل ہاتھ چھڑانے کی کوشش کر رہا ہوتا مگر اس یقین کے ساتھ کہ والدین کو اس کی فکر اور پراوہ ہے۔ مجتبیٰ کو اس لمحے کا انتظار بہت شدت سے تھا ۔
مجتبیٰ کو لگتا تھا کہ وہ لمحہ اس کی زندگی کا سب سے خوبصورت لمحہ ہو گا ۔ مگر ایسا نہیں ہوا تھا ۔ مجتبیٰ کی ماں نے اسے بہت بار سمجھایا تھا کہ کچھ مہینوں کے بعد جب و ہ سات سال کا ہو جائے گا تو اسے یہ فیصلہ کرنا ہو گا کہ وہ کس کے ساتھ رہنا چاہتا ہے ، ماں کے ساتھ یا باپ کے ساتھ ؟
اس کی ماں نے اپنی مجبوریوں اور دکھوں کی داستان سناتے ہوئے اسے بہت بار کہا تھا کہ وہ فیصلہ اپنی ماں کے حق میں دے مگر مجتبیٰ سوچتا تھا کہ کیا سات سال کا ہو کر وہ اتنا سمجھدار ہو جائے گا کہ وہ یہ فیصلہ کر سکے کہ اسے اپنی ماں کے ساتھ رہنا ہے یا باپ کے۔۔!
اگر مجتبیٰ کسی بات میں بولتا یا اپنی مرضی کرنا چاہتا توسب اسے یہ کہہ کر چپ کروا دیتے کہ ابھی وہ بچہ ہے ۔پھرکچھ مہینوں کے بعد ایسا کیا ہو جائے گا کہ اسے اپنے ماں ، باپ میں تفریق کر نا آ جائے گا اور جج کے سامنے وہ یہ بتا سکے گا کہ اس کا مستقبل کس کے ساتھ زیادہ محفوظ ہے ؟ یہ اگر سچ میں اتنا آسان تھا تو یہ فیصلہ عقل اور سمجھ رکھنے والے اس کے والدین کیوں نہیں کر سکے تھے کہ ان کے لڑائی جھگڑوں اور علیحدگی سے اس پر کیا اثر پڑا تھا ؟ اس کی زندگی کتنے ٹکڑوں میں بٹ کر رہ گئی تھی ۔ اپنے ننھیال میں رہتے ہوئے اسے قدم قدم پہ قربانی دینی پڑتی تھی ، خاموش رہنا پڑتا تھا ۔ اپنی ماں کا مان رکھنا پڑتا تھا ۔
ایک ڈھلتی دوپہر میں ماں نے اسے بتا یا کہ تین دن کے بعد عدالت میں پیشی ہے ۔ جہاں اس نے اپنے باپ کے خلاف بولنا ہے اور اپنی ماں کے حق میں بات کرنی ہے ۔مجتبیٰ نے سن کر سر جھکا دیا تھا مگر وہ دل ہی دل میں دعا کرنے لگا کہ کوئی ایسا جادو ہو جائے کہ اس پیشی پہ اس کے والدین کو ساتھ رہنے کا حکم مل جائے ۔ ۔ان تین دنوں میں اس نے ساری رات جا گ جاگ کر ٹوٹے ہوئے تارے کا انتظار کیا ۔ اپنے نانا کے ساتھ مسجد گیا اور بہت دعا کی۔ پیشی والے دن حسب معمول اس کی ماں کا موڈ صبح سے بہت خراب تھا ۔ اس کے ماموں نے ان دونوں کو عدالت کے باہر اتا را اور بہت ضروری کام کا کہہ کر چلے گئے ۔مجتبیٰ گھبرائی ہوئی ماں کے تیز تیز قدموں کا ساتھ دیتے ہوئے ہانپنے لگا تھا ۔ پتا نہیں کیوں اکثر شدت سے محبت کا دعوی کرنے والے ، اپنے ساتھ چلنے والوں کی تھکن اور اذیت سے بے خبر ہوتے ہیں ۔۔!!
مجتبیٰ نے اپنی ماں کے چہرے کی طرف دیکھنا چاہا مگر تیز رفتاری کے باعث یہ ممکن نہیں ہو سکا ۔عدالت کے احاطے میں بہت رش تھا ۔ آج کسی بہت خاص کیس کی سنوائی تھی ۔ اس لئے میڈیا کے نمائندے بھی وہاں موجود تھے ۔مجتبیٰ آس پاس کے لوگوں کو غور سے دیکھتا ہوا آگے بڑھ رہا تھا ۔ ان سب انجان چہروں میں اسے اپنے باپ کہیں نہیں نظر آرہا تھا ۔ وہ پریشان ہو گیا کہ اگر آج وہ اس سے ملنے نہ آئے تو!
مگر کچھ دور اس نے اپنے باپ کو کھڑے ہوئے دیکھ لیا ۔ جو اسے دیکھتے ہی فورا آگے بڑھا تھا ۔اس کی ماں نے منہ دوسری طرف پھیر لیا ۔ وہ چہرے پر خوشی سجائے اپنے باپ کر طرف بڑھا تھا ۔ اس کے باپ نے ، اسے گود میں اٹھا کر پیا ر کیا ۔ پھر اس کی ماں کی طرف کن انکھیوں سے دیکھتے ہوئے جو کہا اسے سن کر اس کی ماں حیرت زدہ رہ گئی تھی ۔ا
’’ بیٹا ! کبھی اپنی ماں کا دل مت دکھانا اور نہ انھیں کوئی تکلیف دینا۔میں تمہاری کسٹڈی کا کیس واپس لے رہا ہوں ۔ تم اپنی ماں کے ساتھ ہی رہنا بس کبھی کبھی مجھ سے مل لیا کرنا ۔ میرے لئے یہ ہی بہت ہو گا ۔‘‘ مجتبیٰ نے اپنی ماں کے چہرے کی طرف دیکھا تھا ، آج بھی ماں کی آنکھوں میں اداسی تھی مگر کچھ اور بھی ضرور تھا جسے آج اس نے پہلی بار دیکھا تھا ۔ شاید وہ پچھتاوے کا کتھئی رنگ تھا جو ندامت کے آنسووں میں بہت واضح تھا ۔ جسے چھپانے کے لئے ماں نے سر جھکا لیا تھا ۔مجتبیٰ باپ کی گود سے اترا اور ان کا مضبوط ہاتھ تھام کر ضد کرنے لگا ’’ مگر بابا میں آپ کے اور مما کے ساتھ رہنا چاہتا ہوں ۔ مجھے آپ دونوں ہی چاہئے ہیں ۔میں آپ دونوں سے بہت محبت کرتا ہوں ۔‘‘ اس کے والدین اپنے اپنے ضمیر کی عدالت میں آج شرمندہ کھڑے تھے ۔وہ دونوں ہی اس سے محبت کا دعوی کرتے تھے اور آج وہ دونوں ہی اس کی زندگی کی سب سے بڑی محرومی کا باعث بنے تھے ۔وہ کیسے روتے ، بلکتے بچے کو صبر کا درس دیتے ! صبر کا کڑوا گھونٹ پلاتے ، جو وہ خود کبھی بھی نہیں پی سکے تھے !مجتبیٰ نے اپنے باپ کی مایوسی میں ڈوبی آواز سنی تھی
’’ یہ ممکن نہیں ہے میرے بچے !‘‘
’’ کیوں ؟ اس لئے کہ میں نے ٹوٹے ہوئے تارے کو دیکھ کر دعا نہیں مانگی نا؟‘‘ مجتبیٰ کے لہجے میں افسوس تھا ۔ اس کے باپ نے جھک کر اس کا ماتھا چوما اور خاموشی سے سر جھکا کر رہ گیا ۔
’’ نہیں ۔۔! اس لئے کہ تم خود ایک کہکشاں کے ٹوٹے ہوئے تارے ہو میرے بچے ۔۔!جس کے مجرم ہم دونوں ہیں ۔‘‘
اس کی ماں نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ تھاما تھا۔ مجتبیٰ نے پہلے حیرت اور پھر خوشی سے اس منظر کو دیکھا ۔ اس کے ایک طرف اس کا باپ اور دوسری طرف اس کا ہاتھ تھامے ہوئے اس کی ماں کھڑی تھی ۔یہ ہی تو اس کی دعا تھی ۔ اس کی سب سے بڑی خواہش ، جس کے لئے وہ راتوں کو اٹھ اٹھ کر ٹوٹے ہوئے تارے ڈھونڈتا تھا ۔اسے ایسے لگا کہ جیسے اس کی خوشی میں ساری کائنات شامل ہو گئی ہے ۔ اس نے اپنے آس پاس لوگوں کی آوازیں اور شور سنا ۔ کیا سب جان گئے تھے کہ اس کی زندگی کی سب سے بڑی تمنا آج پوری ہوگئی تھی ۔ پھر ساری فضا فائرنگ کی آواز سے گونج اٹھی ۔ اس نے اپنی ماں کی چیخ سنی ۔ اس کے باپ نے دونوں کو کھینچ کر قریبی شیڈ کے نیچے کیا ۔ اس کے باپ نے ان دونوں کو اپنی پناہ میں لیا ہوا تھا ۔ بڑھتے ہوئے شور کے ساتھ ساتھ لوگوں کی چیخ وپکار اور چیزوں کے گرنے کی آوازیں واضح آنے لگیں تھیں ۔آس پاس کی کھڑکیوں کے شیشے ٹوٹے تو اس کی کرچیاں بہت دور تن پھیلی تھیں ۔ لکڑی کے بنے شیڈ پر سے کچھ ٹکڑے ٹوٹ کر ان پر بھی گرے تھے ۔ مجتبیٰ کو تکلیف کا شدید احساس ہوا اور وہ اپنی ماں کے مزید قریب ہو گیا ۔ وہ اپنے والدین کی پنا ہ میں تھا ۔ دونوں اسے ہر تکلیف اور آفت سے بچانے کی کوشش کر رہے تھے ۔ ان کے لئے آج وہ اہم تھا ۔ ’’ میری دعا قبول ہو گئی !‘‘ مجتبیٰ نے مسکرانے کی کوشش کی مگر اندھیرے کی چادر نے اسے تیزی سے ڈھانپ لیا ۔ کچھ دیر کے بعد جب صورتحال قابو میں آئی تب دونوں نے ایک دوسرے کی طرف مسکرا کر دیکھا مگر بہت جلد ہی ان کی مسکراہٹ چیخوں میں بدل گئی تھی ۔کچھ دیر کے بعد ہر چینل پر ایک ہی بریکنگ نیوز چل رہی تھی۔
’’عدالت کے احاطے میں دو مخالف سیاسی گروپوں کی اندھا دھند فائرنگ سے چھ سالہ بچہ جاں بحق ہو گیا ۔بچہ اپنے والدین کی اکلوتی اولاد تھا ۔
باپ غم سے نڈھال ، ماں کو غشی کے دورے ۔۔۔۔!!!!‘‘
پارک کے ویران کونے میں بینچ پر تنہا اور اداس بیٹھے باباجی نے یہ خبر سن کرسرد آہ بھری اور سر اٹھا کر آسمان کی طرف دیکھا تھا۔
دور بہت دور کہیں ۔۔۔۔!
اس گرد آلود شام میں آسمان پر ایک ٹوٹا ہوا تارا بہت دیر تک نموادر رہا تھا ۔۔!
https://www.facebook.com/groups/1690875667845800/permalink/1749513318648701/