اِررئیل فکشن ( Irreal Fiction ) ۔ 4
افسانچہ
ریل گاڑی ؛ تغیرات ( Versiones Del Tren )
( Train Variations)
اَگستن کیڈنا (Agustín Cadena)
اردو قالب ؛ قیصر نذیر خاورؔ
میں نے قصبے کے بیرونی حصے کے ایک گھر میں ایک کمرہ کرایے پر لیا ۔ یہ قصبہ ہنگری اور سلواکیہ کی سرحد کے نزدیک ، سب سے الگ تھلگ ’ کارپیتھین ‘ پہاڑوں میں گم ہے ۔ اسے لینے کا مقصد یہ تھا کہ میں پُرامن ماحول میں شانتی سے لکھ سکوں ۔
اس گھر میں جو خاندان آباد ہے ، اس میں ماں ، باپ ، دادی اور بلوغت پاتی دو بیٹیاں ہیں ۔ ۔ ۔ پھر بھی یہ ایک خاموش جگہ ہے ؛ یہ سب بہت کام کرتے ہیں ، کم گو ہیں اور کبھی موسیقی بھی نہیں سنتے ۔ یہاں کوئی ٹیلی ویژن نہیں ہے ۔ لیکن کبھی کبھی وہ ، رات میں کچھ عجیب سنتے ہیں ۔ تینوں بڑے ، یہ سننے کے عادی ہیں اور دن بھر دیر تک کام کرنے کی تھکاوٹ کے بعد گہری نیند سوتے ہیں ۔ لیکن دونوں لڑکیاں ، جن کے کمرے کی لکڑی کی دیواریں ہوا سے چرچراہٹ پیدا کرتی ہیں ، خوف کے مارے بتی بھی جلا نہیں پاتیں ۔ انہیں کہیں دور سے آتی ، کسی ریل گاڑی کی اُداس سیٹی سنائی دیتی ہے لیکن اس قصبے سے تو ریل کی کوئی پٹڑی گزرتی ہی نہیں ۔ کبھی ، شاید ، بہت پہلے، ایک ہوا کرتی تھی ۔
ماں کہتی ہے کہ یہ ریل جسے جرمن فوجی چلاتے ہیں ، ان قیدیوں سے بھری ہے جنہیں جبری کیمپوں میں لے جایا جا رہا ہے ۔ یہ ستر سالوں سے دُھند کی پٹریوں اور دھواں ہوئے اپنے عملے کے ساتھ چل رہی ہے ۔ اس کے مسافر ، جو کسی خوفناک بددُعا کے ہاتھوں یوں سزا بھگت رہے ہیں جیسے اسی تاریخ میں مر مر کر بار بار زندہ رہنے پر مجبور ہوں ۔ وہ ایک دوسرے کے ساتھ ٹھنسے انتہائی اذیت کے عالم میں اُس جگہ کی طرف سفر کر رہے ہیں جو خود اُن کی طرح ہی نظر کا فریب ہے ۔
باپ کہتا ہے کہ یہ سچ نہیں ہے ، یہ ریل گاڑی اس وقت گم ہو گئی تھی جب پہلی عالمی جنگ میں یہ ، فوجیوں اور سامان رسد سے لدی ، خندقوں کی جانب جا رہی تھی ۔
اور ، دادی کے پاس اِس کی ایک اور ہی کہانی ہے ؛ انیسویں صدی کے اختتام پر یہ ریل گاڑی ' ویانا ' سے آئی تھی اور ' سینٹ پیٹرزبرگ ' جا رہی تھی ۔ اس میں نابود اشرافیہ ہے ؛ ایسے بھوت جو شاندار لباسوں میں ملبوس ، ڈائننگ کاروں جن میں قلمی فانوس اور مخملی پردے ٹنگے ہیں ، میں باتیں کرتے اور ہنستے ہوئے اپنے اپنے گلاس ہوا میں بلند کیے جام ِ صحت تجویز کر رہے ہیں ۔ ان کے ساتھ سازندے ہیں جو والز کی اُداس لیکن خوبصورت دھنیں بجا رہے ہیں ۔
میں ہمیشہ رات میں کام کرنا پسند کرتا ہوں اور اپنی کہانیوں سے تب ہی سر اٹھاتا ہوں جب پو پھٹتی ہے ۔ میں اپنا کام بہت آرام سے کر سکتا ہوں ؛ ریل گاڑی کی سیٹی میرا ساتھ دیتی ہے گو مجھے معلوم ہے کہ یہاں کسی بھی ریل گاڑی کے لئے کوئی پٹریاں نہیں ہیں ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ افسانچہ مُصنف کی کتاب ' Dibujos a lápiz ' ( Pencil Drawings ) میں شامل ہے جو 2015 ء میں میکسیکو سے شائع ہوئی ۔
یہ افسانچہ مُصنف کی اجازت سے ترجمہ کیا گیا ہے ۔
مشاہدات زنداں از حسرت موہانی۔ ایک مطالعہ
ہندوستان کو ایک طویل جد وجہد کے بعد برطانوی حکومت کے اقتدار سے چھٹکارا نصیب ہواجس کے لئے ہمارے بزرگوں...