دوسرے معاشروں کی طرح مسلمانوں کی تاریخ بھی بھائیوں، باپ بیٹوں اور دیگر رشتہ داروں میں تخت وتاج کے لیے جنگوں اور قتل یا اندھا کردینے کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔
شورشوں اور سازشوں سے بچنے کیلئے ترکی کی اسلامی خلافت عثمانیہ میں یہ طریقہ نکالا گیا تھا کہ سلطان کے باقی تمام بھائی مار ڈالے جائیں۔
آج کل ایک ڈرامہ سیریز سلطان احمد اول اور ان کی اہلیہ قُسم سلطان کی زندگی پر چل رہی ہے۔ انہی سلطان احمد اول کے والد سلطان محمت سوم کی تخت نشینی 1595میں ہوئی۔
لیکن اس دن کو تاریخ میں جس وجہ سے یاد رکھا جاتا ہے وہ شاہی محل میں نئے سلطان کی آمد سے زیادہ وہاں سے 19 شہزادوں کے جنازوں کا نکلنا تھا۔
یہ جنازے نئے سلطان محمت سوم کے بھائیوں کے تھے جنھیں سلطنت میں اس وقت رائج بھائیوں کے قتل کی شاہی روایت کے تحت نئے سلطان کے تخت پر بیٹھتے ہی باری باری گلا گھونٹ کر ہلاک کر دیا گیا تھا-
شہزادوں کو ایک ایک کر کے سلطان کے سامنے لایا گیا۔ ان میں سے عمر میں سب سے بڑے شہزادے نے جو خوبصورت اور صحت مند جسامت کا مالک تھا التجا کی کہ "میرے آقا، میرے بھائی، جو اب میرے والد کی جگہ ہو ، میری زندگی اس طرح مت ختم کرو"
غم سے نڈھال سلطان نے اپنی داڑھی نوچ لی لیکن جواب میں ایک لفظ نہ بولا۔
یہ جنازے گلیوں سے گزرتے دیکھ کر استنبول کے شہریوں کے دل ہل گئے تھے۔
مؤرخ لیسلی پی پیئرس نے لکھا ہے کہ سلطان مراد سوم کے جنازے کے ایک روز بعد ان کے 19 شہزادوں کے جنازوں میں دگنے لوگ شریک ہوئے، استنبول میں ہر آنکھ اشکبار تھی۔`
1595 سے اکیس برس پیچھے جائیں تو معلوم ہوگا کہ سلطان محمت سوئم کے والد سلطان مراد سوئم کی حکمرانی کا پہلا دن بھی مختلف نھیں تھا اور انھیں بھی ایسے ہی مشکل فیصلے کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
سلطان مراد کے والد سلطنت عثمانیہ کے 11ویں سلطان سلیم دوئم کا سنہ 1574 میں 50 برس کی عمر میں انتقال ہو گیا۔
سلطنت کی باگ ڈور ان کے سب سے بڑے بیٹے مراد سوئم کے ہاتھ آئی جو اپنے بعد والے بھائی سے 20 سال بڑے تھے اور باقی تو بچے ہی تھے اور ان کی جانشینی کو بظاہر کسی سے خطرہ نھیں تھا۔ پھر بھی انھوں نے اپنی تخت نشینی پر اپنے سب بھائی مروا دیے۔ جنھیں پھر اپنے والد سلطان سلیم دوم کے پہلو میں دفن کیا گیا۔
مؤرخ کیرولائن فنکل نے اپنی کتاب ’عثمان کا خواب: سلطنت عثمانیہ کی کہانی 1300-1923‘ میں سلطان سلیم دوم کے یہودی طبیب ڈومینیکو ہیروسولیمیتانو کے حوالے سے شہزادوں کی ہلاکت کا منظر کچھ یوں بیان کیا: ’لیکن سلطان مراد نے، جو بہت رحم دل تھے اور خون بہانا برداشت نھیں کر سکتے تھے، اٹھارہ گھنٹے انتظار کیا، اس دوران وہ تخت پر بیٹھے اور نہ ہی شہر میں اپنی آمد کا اعلان کیا اور اپنے 9 بھائیوں کی جان بچانے کے طریقوں پر غور کرتے رہے۔ سلطنت عثمانیہ کے قانون کی خلاف ورزی کے ڈر سے انھوں نے روتے ہوئے اپنے (خاص طور پر اس کام کے لیے تیار کیے گئے گونگے بہرے) اہلکاروں کو شہزادوں کا گلا گھونٹ کر ہلاک کرنے کے لیے روانہ کردیا اور اس کام کے لیے ان اہلکاروں کے انچارج کو اپنے ہاتھوں سے نو رومال دیے۔
درجنوں شہزادوں اور شہزادیوں کی ان ہلاکتوں کی قابل ذکر بات یہ ہے کہ ان کا مارے جانا کسی بغاوت یا کسی اور جرم کا نتیجہ نھیں تھا بلکہ ان میں سے کچھ تو غلطی کرنے کے قابل بھی نہیں ہوتے تھے۔
جس قانون یا روایت کے تحت ان شہزادوں اور شہزادیوں کو ہلاک کیا گیا اس کی بنیاد تقریباً ایک سو سال قبل 15ویں صدی میں سلطان محمت دوم کے دور میں رکھی گئی تھی جنھوں نے سنہ 1481 میں اپنی موت سے چند برس قبل ہدایت دی تھی جس کے تحت نیا سلطان اپنے بھائیوں کو ہلاک کر سکتا تھا۔
فنکل نے لکھا ہے کہ سلطان محمت دوم نے اپنا جانشیں نامزد نھیں کیا تھا لیکن اپنے انتقال سے کچھ عرصہ پہلے کہا تھا کہ ان کا جو بھی بیٹا سلطان بنے ، اگر وہ دنیا کی بہتری کے لیے باقیوں کو ہلاک کر دیتا ہےتو ٹھیک کرے گا۔
ترکی کے تاریخ اور قانون کے استاد پروفیسر ڈاکٹر اکرم بورا اکنجے نے لکھا ہے کہ سلطان محمت دوم کے اپنے الفاظ میں یہ قانون ’نظام عالم` کی بہتری کے لیے بنایا گیا اور علماء کی اکثریت اس کے حق میں ہے اس لیے اس کے مطابق کارروائی کی جائے۔‘
ترکی کے اخبار ’روزنامہ صباح‘ کی ویب سائٹ پر شائع ہونے والے مضمون میں ڈاکٹر اکنجے لکھتے ہیں ’بے شک، بھائیوں کے قتل کا قانون عثمانوی تاریخ کے سب سے متنازع موضوعات میں سے ایک ہے۔سلطنت کی تاریخ میں کئی بار اس طرح کے واقعات ہوئے جن میں سے زیادہ تر کو جائز سمجھا گیا لیکن کچھ ہلاکتیں/قتل ایسے بھی ہوئے جنھیں غلط سمجھا گیا اور تنقید کی گئی۔ کسی شہزادے کے مارے جانے کے لیے اس کا کچھ غلط کرنا ضروری نھیں تھا اور کئی بار صرف اس خطرے کی بنیاد پر ہلاکت کو جائز سمجھا گیا کہ وہ شہزادہ/شہزادے مستقبل میں بغاوت کر سکتے ہیں۔
لیکن سلطان محمت دوم نے اس قانون کی ضرورت کیوں محسوس کی۔ اس کو سمجھنے کے لیے ہمیں عثمانوی سلطنت کی تاریخ میں تقریباً 70 برس مزید پیچھے جانا ہو گا جب جولائی 1402 میں انقرہ کے قریب عثمانوی حکمران سلطان بایزید اور سلطان تیمور(تیمور لنگ) کے درمیان ایک بڑی جنگ ہوئی۔ تیمور لنگ اور بایزید کی فوجیں 28 جولائی 1402 کو انقرہ کے قریب آمنے سامنے آ گئیں۔ اس جنگ میں سلطان بایزید کو شکست ہوئی اور وہ اس کے بعد زیادہ دیر زندہ نہیں رہے۔ اگلے 20 برس تک بایزید اول کے چاروں بیٹے آپس میں لڑتے رہے۔ سب سے چھوٹا بیٹا محمت اول اپنے بھائیوں کو شکست دے کر 1413 میں سلطنت عثمانیہ کا واحد وارث بنا۔
نئے سلطان اور تیمور لنگ(جو وفات پا چکے تھے) کے بیٹے شاہ رخ کے درمیان خطوں کے ذریعے ایک دلچسپ مکالمہ ہوا۔ کیرولائن فنکل لکھتی ہیں کہ 1416 میں شاہ رخ نے سلطان محمت اول کو خط لکھا اور بھائیوں کو ہلاک کرنے پر احتجاج کیا تو عثمانوی سلطان کا جواب تھا کہ ’ایک ملک میں دو بادشاہ نہیں رہ سکتے۔ ہمارے دشمن جنھوں نے ہمیں گھیرا ہوا ہے ہر وقت موقع کی تلاش میں رہتے ہیں۔‘
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ سلطان بایزید خود اپنے بھائی کو ہلاک کروانے کے بعد تخت پر بیٹھے تھے۔ سنہ 1389 میں سلطنت عثمانیہ کے تیسرے سلطان مراد اول سربیا کے خلاف جنگ کے دوران ہلاک ہو گئے۔ اس موقع پر شہزادہ بایزید نے اپنے بھائی کو مروا کر سلطنت کا انتظام سنبھال لیا تھا۔
شہزادہ بایزید کے ہاتھوں ان کے بھائی شہزادہ یعقوب کا قتل ریکارڈ پر موجود عثمانی خاندان میں بھائی کا پہلا قتل ہے۔
ڈاکٹر اکرم اکنجے نے اپنے مضمون میں آسٹریا کے ایک سفیر اوگیئر غسلِن دی بسبیک کے تاثرات کا ذکر کیا جو سلطان سلیمان اول کے دور میں وہاں موجود تھے۔
’عثمانوی سلطان کا بیٹا ہونا کوئی خوش نصیبی نھیں ہے کیونکہ ان میں سے ایک جب سلطان بن جاتا ہے تو باقیوں کے لیے موت کا انتظار ہی رہ جاتا ہے۔ اگر سلطان کے بھائی زندہ ہوں تو فوج کے سلطان سے تقاضے ہی ختم نھیں ہوتے اور سلطان اگر ان کی بات نھیں مانتا تو وہ کہہ دیتے ہیں خدا تمہارے بھائی کو سلامت رکھے، جس کا مطلب یہ بتانا ہوتا ہے کہ وہ اسے بھی تخت پر بٹھا سکتے ہیں۔‘
مؤرخ پیئرس لکھتی ہیں، محمت سوم کے بعد سلطان احمد اول تخت نشین ہوئے لیکن انھوں نے اپنے بھائی کو دباؤ کے باوجود ہلاک نھیں کروایا لیکن یہ روایت مکمل طور پر ختم نھیں ہوئی۔
تاریخ سے معلوم ہوتا ہے کہ سلطان احمد اول کے سات بیٹوں میں سے چار ان کے تخت پر بیٹھنے والے دو بیٹوں سلطان عثمان دوم اور سلطان مراد چہارم کے حکم پر مارے گئے۔
ڈاکٹر اکرم نے لکھا کہ جب سلطان احمد اول کا انتقال ہوا تو ان کی جگہ ان کا بھائی تخت نشین ہوا حالانکہ ان کے بیٹے موجود تھے۔ یہ پہلا موقع تھا کہ ایک سلطان کی موت کے بعد ان کی جگہ ان کے بھائی نے لی۔
اپنے وقت کی سپر پاور سلطنت عثمانیہ کا دور کئی صدیوں پر محیط تھا جس میں اس نے یورپ، مشرق وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے بڑے حصے پر حکومت کی۔