مدرسہ کے قیام سے پہلے مذہبی تعلیم یا تو استاد کے گھر پر دی جاتی تھی اور یا پھر مسجد میں کہ جہاں بیک وقت کئی استاد اپنے حلقے بنا کر طالب علموں کو پڑھایا کرتے تھے۔ یہ تعلیم عام طور پر نجی ہوتی تھی اور ریاست بہت کم ان کی مالی امداد کیا کرتی تھی۔ اگر کوئی علماء استادوں اور مذہبی تعلیم کے لئے چندہ دے اور ان کی مالی اعانت کرے تو اسے نیک کام سمجھا جاتا تھا۔ اس وجہ سے اکثر جلد ہی تعلیم کا خرچہ گاہے بگاہے مخیر حضرات کی مدد سے چلا کرتا تھا۔ جن میں تاجر امراء اور حکومت کے اعلیٰ عہدے دار شامل ہوا کرتے تھے۔
جب عباسی خلافت کی کمزوری کی وجہ سے خلافت کے صوبوں میں آزاد حکومتیں قائم ہونا شروع ہوئیں تو ان کو ایسے تربیت یافتہ علماء کی ضرورت تھی کہ جو قاضی مفتی اور صدر کے عہدوں کے لئے مناسب ہوں۔ چنانچہ اس ضرورت کو پورا کرنے کی غرض سے مدرسہ کی ضرورت پڑی تاکہ ایک ایسا ادارہ ہو کہ جہاں با قاعدہ تعلیم و تربیت کے بعد علاء کو تیار کیا جا سکے۔ کہا جاتا ہے کہ پہلا مدرسہ خراساں میں قائم ہوا۔
اور اس کے بعد اس کی تقلید کرتے ہوۓ اسلامی دنیا کے مختلف حصوں میں مدرسے قائم ہونا شروع ہو گئے۔
چونکہ ایک مدرسہ کے لئے ضروری تھا کہ اس کی ایک عمارت ہونی چاہیے کہ جس میں استادوں و طالب علموں کے لئے کتب خانہ ہو ، اس میں باقاعدہ تنخواہ دار اساتذہ ملازم ہوں اور طالب علموں کی رہائش کے لئے ہاسٹل ہو، اس لئے ایک ایسا ادارہ چندوں کے سہارے نہیں چل سکتا تھا۔ اس کے لئے باقاعدہ آمدنی کی ضرورت تھی۔ اس لئے ان مدرسوں کو ریاست نے مالی امداد فراہم کی اور اس طرح ریاست نے نہ صرف مدرسوں پر اپنا تسلط قائم کر لیا بلکہ مذہبی تعلیم کو بھی اپنے مفادات کے لئے استعمال کیا۔
ان مدرسوں کا پہلا مقصد تو یہ تھا کہ ایسے لوگوں کی تربیت کی جاۓ جو شریعت و فقہی امور میں مہارت رکھتے ہوں تا کہ یہ لوگ عدالتی عہدوں پر مقرر کئے جائیں۔ اس لئے بہت جلد ایسے مدرے قائم ہونا شروع ہو گئے کہ جو چار سنی فقہی مذاہب میں طالب علموں کو تعلیم دیتے تھے اس کی وجہ سے مدرسہ ایک ایسا مرکز ہو گیا کہ جو معاشرے کی مذہبی ضروریات کو پورا کرتا تھا اور مذہبی اقدار کا تحفظ کرتا تھا۔
سنی عالم اسلام کے مقابلہ میں، مصر میں فاطمی خلافت (909 سے 1171) نے مشہور الازھر کی بنیاد ڈالی جو کہ اگرچہ مسجد کا نام تھا مگر یہ ایک مدرسہ تھا کہ جس کا مقصد یہ تھا کہ یہاں ایسے مشنری علماء کی تربیت کی جائے کہ جو سنی عقائد کے خلاف تبلیغ کر کے لوگوں کو شیعی عقائد کی طرف مائل کر سکیں۔ فاطمی ریاست نے الازھر کی مکمل طور پر سرپرستی کی اور اس میں مشہور علماء کو بحیثیت استاد کے مقرر کیا اور ان کی اچھی تنخواہیں مقرر کیں تا کہ وہ اطمینان کے ساتھ درس و تدریس میں مشغول رہ سکیں۔ تقریبا دو سو سال تک الازھر شیعی عقائد کی تعلیم کے لئے مشہور رہا کہ جس کے تربیت یافتہ مبلغ علماء پوری اسلامی دنیا میں پھیل گئے اور بڑے موثر انداز میں انہوں نے اپنے عقائد کی تبلیغ کی۔ ان مشنری علماء کی سرگرمیاں اس قدر خفیہ اور اس قدر اثر کرنے والی تھیں کہ اس سے سنی معاشرے پریشان ہو گئے اور انہیں ان سے زبردست خطرے کا احساس ہوا۔
لہذا اس صورت حال سے نمٹنے کے لئے سلجوق خاندان کے مشہور وزیر نظام الملک (وفات- ۱۰۹۲) نے مدرسوں کا ایک سلسلہ شروع کیا جو اس کے نام سے مدرسہ نظامیہ مشہور ہوا۔ یہ مدرسے بغداد نیشاپور ہرات، اصفہان اور موصل میں قائم ہوۓ۔ بغداد کے مدرسہ کے پرنسپل مشہور مذہبی عالم غزالی (وفات -111 ) تھے ان مدرسوں کی مذہبی تعلیم میں حفی و شافعی فقہی مسالک پر زور دیا جاتا تھا اور ساتھ میں انہیں اس مقصد کے لئے تربیت دی جاتی تھی کہ وہ شیعہ اسما عیلی اور قرامطی تحریکوں کا مقابلہ کرتے ہوۓ ان کے عقائد کو رد کریں۔
اس مذہبی تصادم کا نتیجہ یہ ہوا کہ دونوں جانب سے علماء کو انتہائی اہمیت مل گئی اور انہیں سنی و شیعہ حکومتوں کی جانب سے نہ صرف مالی امداد ملنے لگی بلکہ ان کی سرپرستی حاصل ہو گئی۔ اس کی وجہ سے معاشرے میں ان کا سماجی رتبہ بڑھ گیا اور ان کو بھی یہ احساس ہو گیا کہ ان کا تعلق اس گروہ سے ہے کہ جو صراط مستقیم پر ہیں۔ اس لئے یہ ان کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کی راہنمائی کریں اور حکمرانوں کے اعمال کی بھی جانچ پڑتال کریں تاکہ وہ مذہب سے روگردانی نہیں کر سکیں۔ لیکن مدرسہ کے دو نتائج نکلے ایک طرف تو اس نے علماء کو منظم کیا۔ انہیں اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی ہوا کہ ان مدرسوں نے ایک بڑی تعداد میں فارغ التحصیل طالب علموں کو پیدا کرنا شروع کر دیا، جس کی وجہ سے ریاست میں جتنی مانگ تھی یہ اس سے بڑھ گے۔ اور جب انہیں کوئی کام کرنے کو نہ رہا تو غربت اور بےروزگاری کے ہاتھوں مجبور ہو کر انہوں نے مذہبی مسائل اور تنازعے پیدا کرنے شروع کر دیے اور فرقہ واریت کو خوب ہوا دی۔ چونکہ انہیں ریاست میں عہد نے نہیں ملے۔ اس لئے انہوں نے حکومت کی بھی مخالفت شروع کر دی اور ساتھ ہی میں ان علماء کو بھی اپنی تنقید کا نشانہ بنایا کہ جو ریاستی عہدے دار تھے۔ ان کی نظر میں یہ علماء مذہب کا کاروبار کر رہے تھے اور دینی احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوۓ ان سے رو گردانی میں مصروف تھے۔
اس لئے انہوں نے ان علماء کو علماء سو کہا اور خود کے لئے علماء حق کا لقب اختیار کیا۔ مگر اس سارے مسئلہ نے ایک نئی صورت حال اختیار کر لی کیونکہ علما سو اور علماء حق میں کبھی بھی متفقہ فیصلہ نہیں ہو سکا اور ہر گروہ ایک دوسرے کو اس سے مخاطب کرتے رہے۔
اپنے مقدمہ کو مضبوط کرنے کی غرض سے علماء نے لوگوں کی طرف توجہ دی اور ذہبی معاملات پر ان کے جذبات کو ابھارنا شروع کر دیا اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مسلمانوں میں فرقہ واریت کی بنیادیں پڑ گئیں اور مذہبی بنیادوں پر ایک دوسرے سے نفرت کی ابتداء ہو گئی۔
ہڑپہ اور موہنجو داڑو کے مقامات سے ملی تختیوں کی لکھائی کو اب مصنوعی ذہانت سے پڑھا جائے گا
ترجمہ و تلخیص: قدیر قریشی مارچ 25، 2024 وادیِ سندھ کی تہذیب کو میسوپوٹیمیا (جدید عراق کا علاقہ) اور مصر...