میں نے جب سے ہوش سنبھالا، اکثر امی کے منہ سے یہ کلمات سنے" جاو، یہ لے جا کر اس کے منہ پر مارو۔ " کبھی نا پسندیدہ کپڑے کے تعلق سے اور کبھی کھانے پینے کی اشیا کے تعلق سے بھی۔ اگر کسی نے کوئی غلط چیز بھیج دی یا غلط چیز گھر میں آ گئی، تو اسے لوٹاتے وقت امی ایسا کہا کرتیں۔
میرے بچپن کا واقعہ ہے، ہم جہاں رہتے تھے اس علاقے میں انڈے، پاؤ کی ایک چھوٹی سی دوکان ایک بڑے میاں اپنے گھر کے ور انڈے میں چلاتے تھے۔ علاقے میں سب انہیں نانا کہتے تھے۔
ایک روز امی نے نانا کی دوکان سے براون پاو( ممبئی میں جسے کڑک یا برون پاؤ بھی کہتے ہیں). منگوایا۔
میں پاؤ لے کر گھر پہنچی، امی نے کہا" یہ تو بہت سخت اور باسی پاؤ ہے، جاو ، جا کر دینے والے کے منہ پہ مارو اور اپنے پیسے واپس لے آؤ۔ "
یہ سنتے ہی میں نے سرپٹ دوڑ لگائی، جس کی وجہ سے میرا پیر پھسلا اور گر گئی، بارش کا موسم تھا جگہ جگہ گڈھوں میں بارش کا پانی جمع تھا۔ میرے ہاتھ سے پاؤ اچھل کر پانی میں گر گیا اور اس میں تیزی سے پانی جذب ہونے لگا۔ میں نے پاؤ اٹھایا اور اپنے دائیں ہاتھ کی ہتھیلی پر رکھا۔ نانا کی دوکان پرپہنچ گئی ۔ نانا سامنے ہی کھڑے تھے، میں نے ہاتھ گھما کر نانا کے منہ پر پانی سے ہھولا ہوا پاؤ دے مارا۔ ان کی حالت ایسی تھی جیسے کسی نے سالگرہ کا پورا کیک ان کے چہرے پر لگا دیا ہو۔ نانا کی آواز سن کر سب جمع ہو گۓ ۔ نانا نے سب سے میری شکایت کی، تو وہاں کسی کو بھی یقین نہیں آ رہا تھا کہ یہ حرکت میں نے کی ہوگی۔
لوگوں کے پوچھنے پر " بیٹا، تم نے ایسا کیوں کیا؟ " میں نے بڑی معصومیت سے کہا۔ " میری امی نے کہا تھا، جہاں سے یہ پاو لائی ہو ان کے منہ پر مارو، تو میں نے مار دیا۔ " میرا جواب سن کر لوگوں کو غصہ آگیا، کچھ لوگوں نے امی کو بلوا لیا۔ امی آئیں، تو صورت حال سے ہریشان۔
امی نے سب کے سامنے کہا " منہ پہ مارنے کا مطلب لوٹا دینا ہوتا ہے۔ منہ پر سچ میں مار نا نہیں۔ " امی نے اور ہم نے نانا سے معافی مانگی۔ اس دن سے امی نے یہ جملہ کبھی نہیں کہا اور بات میری سمجھ میں آگئی۔
اس سے یہ سبق ملتا ہے کہ بچوں کے سامنے ہمیشہ اچھے جملے ادا کرنا چاہیے اور انہیں محاوروں کا اصل مطلب بھی سمجھانا چاہیے۔
محمد اکمل فخری کا افسانہ استاد بمقابلہ ڈینگی کا فنی و فکری مطالعہ
محمد اکمل فخری کی مختصر کہانی، "استاد بمقابلہ ڈینگی" ایک طنزیہ اور مزاحیہ داستان کو سامنے لاتی ہے جو سماجی...