جب وہ سڑک پر پہونچا تُو تیز دوڑتی ہوئی موٹریں سڑک سے لِپٹی ہوئی گرد چاٹ رہی تھیں۔ سُورج تپ رہا تھا۔ جیسے کسی نے اُسے شراپ دے دیا ہو۔ پھر اُسے بچپن میں سُنی کہانی یاد آگئی۔ جِس میں سُورج کی ماں اُس سے ناراض ہوکر اُسے بددُعا دیتی ہے کہ تُو ہمیشہ جلتا رہے۔ تب ہی سے یہ سُورج جل رہا ہے‘ لیکن آج یہ زمین کیوں جل رہی ہے۔ اُس نے کیا قصور کیا ہے‘ اِک کی کرنی دُوسرا کیوں بُھگتتا ہے۔ تپتی ہوئی سڑک اور اُس کے پیروں کے بیچ صرف اِک بوسیدہ سی چپّل حائل تھی۔ اُس کا جی چاہ رہا تھا کہ چپّل اُتاردے اورسڑک کی ساری حِدّت کو پی جائے۔ نہ جانے کیوں آج اُس کا جی چاہ رہا تھا کہ اپنے آپ کو اذّیت دے۔ خُود کو تکلیف پہونچائے۔
صبح جب وہ گھر سے نِکل رہا تھا تب ہرطرف بادل چھائے ہوئے تھے۔ بادل دیکھ کروہ سوچ بھی نہ سکا تھا کہ دوپہرتک اتنی کڑی دُھوپ نِکل آئے گی۔ نہ جانے وہ بادل کونسے تِشنہ صحراؤں کو سیراب کرنے چلے گئے۔ صبح دروازے کے باہراُس کی بیٹی گھروندے بنارہی تھی‘ اُسے جاتا ہوا دیکھ کربولی۔ ”باپو آپ جارہے ہیں۔ ذرا رُکئے مجھے ایک راکھی چاہیے۔ اُس نے مٹّی میں سنا ہوا ہاتھ آگے بڑھادیا۔
”ہاتھ دھوکرآنہیں توراکھی گندی ہوجائے گی“ اُس نے راکھیوں کا بوجھ اپنے کاندھے سے اُتارتے ہوئے کہا۔ وہ ہاتھ دھوکرآئی اور باپو کے سامنے آکر کھڑی ہوگئی۔ اُس نے ایک راکھی پسند کی اور بھائی کو پُکارا۔
”بھیّاذرااِدھرآنا“ جب بھائی آیا تواُس نے کہا ”ذرا ہاتھ تو آگے بڑھانا“۔ پِھر اُس نے بھائی کے ہاتھ پرراکھی باندھ دی دونوں دیر تک ایک دُوسرے کا ہاتھ تھامے آنکھوں میں پیار لئے کھڑے رہے۔ کیا یہ ہمیشہ یُونہی ہاتھ تھامے رہیں گے؟۔ دونوں کے چھلکتے ہوئے پیار نے اُس کے ذہن میں ایک سوال اُچھال دیا۔ جو بُہت دیر تک گُونجتا رہا۔
”ذرا ہاتھ تو چھوڑ“ بھائی نے کہا۔ ہاتھ چُھڑا کروہ بھاگا بھاگا اندرگیا اورتھوڑی دیرمیں بھاگتا ہُوا واپس آگیا۔ اُسے دیکھ کر بہن نے کہا ”دیکھ کر بھیّا کہیں میرے گھروندے نہ ٹُوٹ جائیں“۔
”کیا میں اندھا ہُوں؟“ بھائی نے پُوچھا اور اپنی ساری پُونجی اُس کے ہاتھ میں رکھ دی۔ باپُو سوچنے لگا اندھا ہونا تھوڑی ضروری ہے۔ گھروندے تو تب بھی اُجڑتے ہیں جب منتشِر ذہن اندھیرے اور اُجالے میں فرق نہیں کرپاتے ہیں۔
بہن نے بھائی کے دیئے ہوئے پیسوں میں سے ایک روپیہ نکال کر اُس کی ہتیلی داغ دی۔ ”باپو یہ رہے راکھی کے پیسے“۔ اِک آگ اُس کے رگ و پے میں دوڑ گئی۔ ”ارے آج تو بہت بِکری ہوگی“اُس نے ہنستے ہوئے کہا۔ اُسے یقین تھا کہ اگر وہ نہ ہنستا تو آنکھ سے آنسُو ٹپک پڑتے لیکن اب وہی آنسُوحلق سے نیچے اُتر کرنشتر کی طرح اُس کے دِل کوچھیدے ڈال رہے تھے۔ نہ جانے کب یہ نشترموم بنیں گے۔ کیا پتہ اِن کی قسمت میں پِگھلنا لِکھا بھی ہے کہ نہیں۔
سڑک پر چلتے ہُوے وہ ایک عجیب سی کیفیت سے دو چارتھا۔ اُسے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے اُس کا وجُود نیزوں کی زد میں ہے۔ وار کھا کھا کر بِکھر رہا ہے۔ لیکن اُس کا ایک ہاتھ ایک اور ہاتھ کو تھامے ہوئے اُسے بچانے کی ان تھک کوشش کررہا ہے کہ اچانک اُس کے وجُود نے سرکا بوجھ سنبھالنے سے انکارکردیا ہے۔ اُس نے دہشت زدہ ہاتھ کو اپنے ہاتھ سے مضبوطی سے پکڑنے کی کوشش کی لیکن وہ ہاتھ مُتہرِک ہاتھوں کی بِھیڑ میں گُم ہوچُکا تھا۔ پھر اُس کا بے سروجُود ہاتھ کی تلاش میں اُوپراُٹھنے لگا لیکن جلد ہی ہوا اُترے ہوئے غُبّارہ کی طرح زمین چاٹنے لگا۔
دِن بھروہ اِسی کیفیت سے دوچاررہا۔ دِن بھروہ شہرمیں گُھوم گُھوم کرراکھیاں بیچتا رہا۔ جب بھی کوئی راکھی خریدتا وہ اپنا ہاتھ پھیلا دیتا۔ خواہشات کی موجیں اُس کے وجُود کے پتھرسے ٹکرانے لگتیں اورآگے پھیلی ہوئی ریت کو دیکھ کر مایوس لوٹ جاتیں۔ وہ ریت کی پیاس سے خوفزدہ تھا جو کچھ بچا اُسے بھی ریت پی جائے تو کیا ہوگا۔ لوگ اُس کی پھیلی ہوئی ہتیلی کو سکّوں سے داغ دیتے اوربِھیڑمیں گُم ہوجاتے۔
دوپہرڈھل چُکی تھی۔ گرد میں اٹا ہوا سُورج اِتنا تھک چُکا تھا کہ نظروں کی گِرفت میں پڑا سسک رہا تھا۔ اُونچی اُونچی عِمارتوں کے سائے گلیوں پرقبضہ کرچُکے تھے۔ پھر بھی روشنی مغرب کی طرف مُنہ کئے ہوئے گلیوں کا سہارا لے کر اُن سایوں پرشب خون ماررہی تھی۔ اوروہ اندھیرے اُجالوں کی نگری میں کھڑا سوچ رہا تھا کہ وہ اِدھرکیوں چلا آیا۔ اِدھر راکھیاں بِکنے کی کوئی اُمید نہیں تھی۔ یہاں کے رہنے والے تو بڑی بڑی دُکانوں سے مہنگی راکھیاں خریدتے ہیں۔
”اے راکھی والے‘‘ کسی نے اُسے آواز دی۔ وہ چار قدم پیچھے ہٹا اور سر اُٹھاکر کھڑکیوں اور بالکنیوں میں اِس آواز کا چہرہ ڈھونڈنے لگا۔ اُس کے سر کے سِیدھ میں اُوپر چھٹی منزل سے کسی نے پُکارا تھا۔ ایک نسوانی ہاتھ کی اِلتجا نے اُس کے پیرتھام لئے۔
کُچھ ہی دیرمیں وہ عورت چھ منزلیں طے کرکے اُس کے پاس آپہنچی۔ اُس کے بِکھرے ہوئے بال کسی کشمکش کا پتہ دے رہے تھے۔ اُس کی آنکھوں میں انتظار کا کرب اُترچلا تھا۔ اُس کے ہونٹوں پرناتمام حسرتوں کی پپڑیاں جمی ہوئی تھی اورچہرہ اُلجھا ہُوا تھا۔
وہ راکھیاں دیکھنے لگیں۔ اُس نے اپنا ہاتھ آگے پھیلا دیا۔عورت کی نظراُس کے ہاتھ پر پڑی۔”راکھی بیچنے والے کے ہاتھ ننگے؟“۔ اُس نے حیرت سے کہا۔ اور راکھیاں دیکھنے میں مصروف ہوگئی۔ اور وہ جو آنکھوں میں سوال لئے گلی گلی بھٹکتا رہا تھا مُجّسم سوال بن گیا۔ عورت نے راکھی پسند کرنے کے کے بعد اُس کا ہاتھ تھام لیا۔ اُسے اک عجیب سی راحت کا احساس ہوا۔ اُس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ عورت راکھی اُس کے ہاتھ پر لپیٹ چُکی تھی اورگِرہ باندھنے والی ہی تھی کہ اُس آواز نے جس کا وہ گلا دبائے بیٹھا تھا اُس نے اُس کا ہاتھ جھٹک دیا۔ ”نہیں کوئی فائدہ نہیں ہے۔ میں راکھی کی لاج نِبھا نہ سکُونگا۔ وقت پڑنے پر بھاگ جاؤنگا۔ یُونہی ایک وقت بھاگ چُکا ہوں۔ بہن کو فسادیوں کے بِیچ چھوڑکر“۔
عورت ٹِکٹکی باندھے اُسے دیکھتی رہی۔ آنسوؤں سے اُس کا عکس دُھندلاگیا۔ ”میں بھی فساد میں بہت کُچھ کھو چُکی ہوں“ وہ لمحہ جِسے شِکست دے کر وہ یہاں تک چلی آئی تھی پھراُس پرقابو پاچُکا تھا۔ وہ مرے ہوئے قدموں سے واپس لوٹ گئی۔
٭٭٭
اردو لسانیات
زبان اصل میں انسان کے تعینات یا اداروں میں سے ہے۔ وہ ان کی معمول ہے جن کی کار بر...