(Last Updated On: )
اردو ہے جسکا نام ہمیں جانتے ہیں داغ
سارے جہاں میں دھوم ہماری زباں کی ہے
— داغ دہلوی
بادِ رواں تاکہ بود مہرو ماہ
سکّہ اردوے جہانگیر شاہ
— بادشاہ جہانگیر
اردو ہے جس کا نام .. لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ جس قدر اردو زبان پر ظلم ہو رہا ہے ، اردو کی مقبولیت بڑھ رہی ہے . فرمان جاری ہوا ، مدرسوں کو سرکاری امداد نہیں ملے گی . فرمان جاری ہوا ، اردو کو میٹرک کے کورس سے الگ رکھا جائے گا . فرمان جاری ہوا ، اردو ہندوستانی زبان نہیں ہے . انگریز بھی اردو مخالف نہیں تھے . مگر فسطائی چہرے اس زبان کو ملک کی زبان تسلیم نہیں کرتے . در حقیقت اردو ایک ہندوستانی آریہ زبان ہے جو بھارت کے آئین کے آٹھویں شیڈول ہا جدول میں ۲۲ زبانوں میں سے ایک ہے۔۔
اردو ۔۔۔۔عربی اور فارسی سے متاثر ہے اور یہ زبان ہندی سے بھی قریب ہے۔۔۔اردو زبان کی ابتدا اور نشونما اس خطہ میں ہی پروان چڑھی۔۔
ہندی کے لیے دیوناگری کا استمعال ہوتا ہے اور اردو فارسی کے لیے فارسی اور عربی ا سپکرٹ استمعال ہوتی ہے جسے ضرورت کے مطابق علاقائی شکل میں تبدیل کر لیا جاتا ہے۔
اردو زبان بھارت اور پاکستان کے پڑوسی ممالک جن میں افغانستان ۔۔بنگلہ دیش۔۔نیپال میں بولی جاتی ہے۔۔بنیادی طور پر اردو جنوبی ایشیائی مسلمانوں کی اور اس بر صغیر سے باہر مخصوص خلیج ممالک اور درمیانی مشرقی اور مغربی یورپ ۔۔امریکہ اور کنیڈا میں تہذیب اور گفتگو کی زبان ہے۔۔
اردو پاکستان کی سرکاری زبان ہے. پاکستان کے مردم شماری ۲۰۱۰ کے مطابق اردو بولنے والے دو کروڑ سے زائد لوگ ہیں اردو بولنے والے کراچی اور پنجاب میں زائد ہیں۔۔بھارت کی مردم شماری ۲۰۱۱ کے مطابق بھارت میں ۶ کروڑ لوگ اردو بولتے ہیں جن میں سب سے زیادہ اتر پردیش ہے اسکے بعد بہار۔۔تلنگانہ۔۔مہاراشٹر ۔کرناٹک اور مغربی بنگال کا مقام ہے۔۔اردو جموں وکشمیر صوبے کی سرکاری زبان ہے۔۔
اردو ادب کی اشاعت طباعت اور تشہیر کا مرکز دہلی ہے۔۔
لفظ اردو بنیادی طور پر ترکی زبان کا لفظ ہے۔۔۔جسکے لغوی معنی ” شاہی خیمہ “یا” لشکر” ہے۔۔ترکوں کے ہمراہ لفظ اردو آیا تھا۔۔۔شاہجہان نے دہلی میں جب لال قلعہ تعمیر کروایا یہ بھی ایک طرح سے یا شاہی خیمہ ہی تھا۔۔۔۔چنانچہ اسے اردو نہ کہہ کر اردو معلی کہا گیا تھا۔۔جہاں بولی جانے والی زبان اردو معلی کہلائی۔۔۔
علم لسانیات میں اردو لفظ ، اردو معلی کی ہی شکل ہے
محمد حسین آزاد اردو کی پیدائش برج بھاشا سے مانتے ہیں وہ اپنی کتاب “آب حیات ” میں لکھتے ہیں کہ ہماری زبان برج بھاشا سے نکلی ہے اور اس برج بھاشا کا جنم بھی سنسکرت سے ہوا ہے۔۔۔۔
نیشنل انسایکلو پیڈیا
کے مطابق ۲۰۱۰ میں اردو دنیا میں بولی جانے والی زبانوں میں ۲۱ ویں مقام پر ہے۔۔
ہندی آریہ زبان میں وہ زبان ہے جسکی ابتدا سنسکرت زبان سے ہوئی ہے جیسے اردو ہندی پنجابی وغیرہ۔۔۔اردو میں سنسکرت زبان کے تتسم لفظ بہت کم ہے اور عربی فارسی کے تدبھاؤ لفظ زیادہ ہیں۔۔
تتسم لفظ وہ ہے جو سنسکرت سے جیوں
کی تیوں لے لی گئی ہے اور تدبھاؤ لفظ وہ ہے جو سنسکرت سے تبدیل ہو کر مقامی زبان میں گھل مل گئی ہے۔
اس لیے ہم کہتے ہیں اور اس سے انکار بھی نہیں کر سکتے ہیں کی اردو زبان بھی سنسکرت عربی اور فارسی زبان کا ایک مرکب اور مخلوط زبان ہی ہے۔
زبان وہ ہے جو فقط بولی جاتی ہے زبان کو کسی بھی سپکرٹ یا نوشہ میں لکھا جا سکتا ہے۔۔۔کسی بھی زبان کے لکھنے کا ڈھنگ طریقہ یا پھر کسی زبان کو کس طرح لکھا جاتا ہے اس کے لکھنے کے طریقے کو ہی سپکرٹ یا نوشہ کہتے ہیں
ا سپکرٹ یا نوشہ کسی بھی زبان کے لکھنے کا ڈھنگ ہے کسی زبان کے حرفوں کو لکھنے کا طریقہ ہے
اردو نستعلیق۔ سپکرٹ یا نوشہ میں لکھی جاتی ہے جو فارسی عربی کی ہی ایک شکل ہے جو دائیں سے بائیں جانب لکھی جاتی ہے۔۔
نستعلیق سپکرٹ یا نوشہ کی پیدائش ایران میں چودھویں پندرھویں صدی میں ہوا۔۔یہ ایران جنوبی ایشاء اور ترکی کے علاقوں میں بہت زیادہ استعمال ہوئی تھی۔۔۔اس سپکرٹ یا نوشہ کا استمعال اردو فارسی عربی زبان کے لکھنے میں کیا جاتا تھا۔۔
ریختی۔۔دکھنی وغیرہ اردو زبان کی ہی ایک شکل ہیں اگر موجودہ دور کی بات کی جاۓ تو اردو زبان کی بہت خاص اہمیت ہے۔۔
ابوالحسن امیر خسرو چودھویں صدی کے مشہور شاعر تھے۔۔اردو ادب تاریخ ساز ولی اورنگ آبادی بھی اپنے زمانے کے مشہور شخصیت تھے۔۔مولانا محمد حسین آزاد کی مشہور تصنیف “آب حیات” کو کوئی کیسے فراموش کر سکتا ہے۔۔
اردو کو مذہبی شناخت “جان گل کرسٹ”
نے دی تھی۔۔اس نے اس ہندوستانی زبان کو دو حصوں میں منقسم کر کے رکھ دیا تھا۔۔۔ایسے لفظ جو عربی اور فارسی سے آئے تھے انکو اس نے اردو میں رکھ دیا اور۔۔۔ایسے لفظ جو سنسکرت سے آئے تھے انکو ہندی کہا گیا۔۔
یقینن جان گل کرسٹ کی یہی کوشش اس زبان کی مذہبی شناخت بن کر رہ گئی ہے۔۔
سر سید احمد خان نے کہا تھا اردو۔۔”مہذب لوگوں کی زبان ہے”
اور بھار تیندو ہریش چندر نے اردو کو
“مجرا کرنے والیوں اور طوائفوں کی زبان کہا ۔۔” اور آج وہی زبان اپنی بےقدری پر زار و قطار روتی ہے۔۔
آج اردو زبان دنیا کی تیسری بڑی زبان ہے تو ہم اپنی نئی نسل کو اپنی قومی زبان سیکھنے کی ترغیب کیسے دیں اور اپنی زبان سے دوری ہماری نسل کو دین سے بھی دور کر چکی ہے۔۔
لہذا اردو کی ترویج و ترقی کے لیے ہم سب اس مہم میں شریک ہو جائیں۔۔
اردو زبان کی بقا تحفظ اور اس کو اسکا حق دلوانے میں سنجیدگی سے سوچیں اور آپ اس مہم کا حصہ بنیں۔۔
غفلت تو ذرا قوم کی دیکھو کاظم
وہ سوتی ہے بجھتا ہے چراغ اردو
جاوید اختر ذکی خان