(Last Updated On: مارچ 29, 2022)
اردو کی ادبی تحریکوں پر نظر ڈالنے سے پہلے مغرب کی کچھ اہم ادبی تحریکوں پر بھی غور کیا جائے ۔ ان تحریکوں میں کلاسیکیت اور رومانیت کی تحریکیں زیادہ اہم ہیں جنھوں نے مغرب کی ادبی فضا کو ایک عرصے تک متاثر رکھا ۔
ہر اصطلاح کے پیچھے اس کی اپنی تاریخ ہوتی ہے ۔ کلاسیکیت اور رومانیت کی اصطلاحیں مغرب کی دین ہیں ۔ اس لئے اردو میں ان کے مفہوم کی جد بندی اس وقت ممکن ہے جب یہ طے ہوجائے کہ مغرب میں ان کا مفہوم کیا تھا ۔
کروچے نے کلاسیکل کی اصطلاح کو بے معنی قرار دیا تھا ۔ ایک مفکر رومانیت کے سلسلے میں یہ کہتا ہے کہ یہ لفظ اتنے معنوں میں استعمال ہوتا ہے کہ اب خود بے معنی معلوم ہوتا ہے ۔ انگریزی میں فطرت کے مظاہر گم ہونا بھی رومان ہے ، کسی عورت سے عشق کرنا بھی رومان ہے اور پہاڑوں میں خوفناک درندوں سے مقابلہ بھی رومانٹک ایڈونچر کہلائے گا ۔ اس طرح لفظ رومان بھی کہنے والے کے ہاتھ میں ایسا حربہ ہے جسے ہر موقع ہرمحل استعمال کیا جاتا ہے اور اس سے نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لفظ کے کوئی محدود یا مخصوص معنی نہیں ہیں ۔ محل استعمال کی وجہ سے معنی پیدا ہوگئے ہیں لیکن اس ابہام کے باوجود یہ اصطلاحیں ادبی دنیا کا سکہ رائج الوقت ہیں ۔
پروفیسر یوسف سرمست لکھتے ہیں:
’’سب سے پہلی بات یہ کہ کلاسیکی اور کلاسکیت اور رومانی اور رومانیت میں جو فرق ہے اسے سامنے رکھنا بے حد ضروری ہے‘‘ (ادب کی مائیت منصب اور تعریف ، کلاسکیت اور رومانیت ۔ ادب برائے ادب ص 63)ٹی ایس ایلیٹ نے بھی اس فرق کی طرف اشارہ کیا ہے ۔
اگر لغوی اعتبار سے دیکھا جائے تو لفظ کلاسیکل ، یونان سے آیا جس میں لفظ (clasis) کے معنی ہی اعلی طبقے کے ہیں اس طرح کلاسیکل کے معنی اعلی درجے کی شاعری کے لئے گئے ۔ عموماً (Neo-classical) شاعری سے کلاسکیت مراد لی جاتی ہے اور اس کا سلسلہ سترھویں اور اٹھارویں صدی تک پھیلا ہوا ہے ۔ اس سلسلے کا سب سے اہم نام ڈرائیڈن کا ہے جو انگریزی تاریخ میں بازیابی (Restoration) کے دور میں ملٹن کے ساتھ یاد کیا جاتا ہے ۔
کلاسیکل شاعری کے سلسلے میں دانشوری ، ضبط اور نظم ، تغافل تنظیم ، تناسب اور وضاحت بہت اہم نکات ہیں ، دوسرے یوروپی نقادوں نے بھی کلاسکیت کی تعریف کی ہے اور یہ ساری تعریفیں تقریباً مشترک عناصر رکھتی ہیں ۔ ان میں سب سے اہم بات یہ ہے کہ کلاسیکل ادب میں وہی تخلیق شامل ہوتی ہے جو ادبی روایت کا جزو بن جاتی ہے اور کلاسیک کو صرف اسی ادب تک محدود نہیں رکھنا چاہئے جس ادب سے وہ وابستہ ہے بلکہ کلاسیک کے ایسے آفاقی انداز ہوتے ہیں جن کی حیثیت عالمی ہونے کی وجہ سے دوسری زبانوں کے ادب میں بھی مستند سمجھے جاتے ہیں ۔
ایلیٹ کے خیال میں کلاسکیت ، اکملیت کا دوسرا نام ہے ’’تہذیب کامل ، زبان اور ادب کامل اور تخلیق کار کا ذہن بھی کامل‘‘ ۔ یہ اس کے خیالات کا نچوڑ ہے لیکن اس کے باوجود کلاسکیت اور عظمت کو ہم معنی نہیں سمجھتا ۔ کوئی تخلیق کار کلاسیکل نہ ہونے کے باوجود عظیم ہوسکتا ہے اور یہ ضروری نہیں ہے کہ وہ کلاسیکل عظیم بھی ہو ۔ ایلیٹ نے اس پر بھی روشنی ڈالی ہے کہ عظیم شاعر صرف ایک صنف کے امکانات نہیں ختم کرتا البتہ اگر عظیم شاعر کلاسیکل بھی ہے تو اپنے عہد کی زبان کے امکانات مکمل کرتا ہے وہ اتنی جامع اور مکمل ہوجاتی ہے کہ اس کے آگے کوئی امکان نہیں رہ جاتا ۔
اس طرح یہ واضح ہوجاتا ہے کہ کلاسکیت بہرحال ایک ایسا معیار اور پیمانہ ہے جسے بنیاد بنا کر ہر عہد کی تخلیق کو پرکھنا ہوگا ۔
رومانوی تحریک کے سلسلے میں ایف اے لوگاس اپنی کتاب Decline and fall of the Roman Empire میں لکھتا ہے کہ :
’’رومانیت کی گیارہ ہزار تین سو چھیانوے تعریفیں ہیں ، کسی نے اس کو تحیر کی نشاۃ الثانیہ کہا ہے اور کسی کے نظر میں یہ تخلیقی شعور کا غیر معمولی ارتقاء ہے‘‘ ۔
(A History of English Literature by Legouis page no. 997)
رومانیت کا نقطہ آغاز فرانس کا انقلاب ہے (1789) روسو کا وہ مشہور زمانہ نقرہ ’’انسان آزاد پیدا ہوا ہے لیکن ہر جگہ پابہ زنجیر ہے‘‘ ۔ روسو تقلید اور تخلیق کے خلاف ہے وہ آزادی کا تصور بغاوت کے ساتھ وابستہ کرتاہے ۔
عام طور پر انگریزی میں ورڈزورتھ ، شیلی ، کالراج ، کیٹس اور بائرن ، رومانی شاعری کے علمبردار سمجھے جاتے ہیں حالانکہ ان میں کہیں بھی نقطہ اشتراک نہیں ہے ۔ ان کے موضوعات الگ ہیں اور ان کا رویہ الگ ہے ۔ لیکن اتنا سب میں مشترک ہے کہ یہ سب روایات ، قوانین اور ضوابط کے زنجیروں کے توڑنا چاہتے تھے ۔ دراصل رومانی تحریک اپنے عہد کی ادبی روایت کے خلاف بغاوت تھی ۔
اس سلسلے میں یہ بھی عرض کرنا ہے کہ رومانیت کے اجزا مکمل طور پر کبھی ختم نہیں ہوسکتے ۔ ایک دنیا تعمیر کرنے کی آرزو (چاہے یہ آرزو اپنی کوئی بنیاد نہیں رکھتی ہو) ہمیشہ سے تھی اور ہمیشہ رہے گی ۔ اسی لئے نیاز فتح پوری اور احتشام حسین نے رومانیت کو جذباتی آرزو مندی کہا ہے
دبستان لکھنؤ
دبستان لکھنؤ سے مراد شعر و ادب کا وہ رنگ ہے جو لکھنؤ کے شعرائے متقدمین نے اختیار کیا اور اپنی بعض خصوصیات کی بنا پر وہ رنگ قدیم اردو شاعری اور دہلوی شاعری سے مختلف ہے۔ جب لکھنؤ مرجع اہل دانش و حکمت بنا تو اس سے پہلے علم وادب کے دو بڑے مرکز دہلی اور دکن شہرت حاصل کر چکے تھے۔ لیکن جب دہلی کا سہاگ لٹا۔ دہلی میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہوا تو دہلی کے اہل علم فضل نے دہلی کی گلیوں کو چھوڑنا شروع کیا جس کی وجہ سے فیض آباد اور لکھنؤ میں علم و ادب کی محفلوں نے فروغ پایا۔
پس منظر
سال 1707ء اورنگزیب عالمگیر کی موت کے بعد مغل سلطنت کا شیرازہ بکھر گیا۔ اُن کے جانشین اپنے تخت کے لیے خود لڑنے لگے۔ ان نااہل حکمرانوں کی وجہ سے مرکز مزید کمزور ہوا۔ اور باقی کسر مرہٹوں، جاٹوں اور نادرشاہ افشار اور احمد شاہ ابدالی کے حملوں نے پوری کر دی۔
سال 1722ء میں بادشاہ دہلی نے سعادت علی خان کو اودھ کا صوبیدار مقر ر کیا۔ مرکز کی کمزوری سے فائد ہ اٹھاتے ہوئے جلد ہی سعادت علی خان نے خود مختاری حاصل کر لی۔ اور اودھ کی خوشحالی کے لیے بھر پور جدوجہد کی جس کی بنا پر اودھ میں مال و دولت کی فروانی ہوئی۔
صفدر جنگ اور شجاع الدولہ نے اودھ کی آمدنی میں مزید اضافہ کیا اور عوام کی فلاح و بہبود کے لیے کوششیں کیں۔ آصف الدولہ نے مزید اس کام کو آگے بڑھایا۔ لیکن دوسری طرف دہلی میں حالات مزید خراب ہوتے گئے۔ امن و سکون ختم ہو گیا۔ تو وہاں کے ادباءو شعراءنے دہلی چھوڑنے میں ہی عافیت سمجھی۔ اور بہت سے شاعر لکھنؤ میں جا کر آبا د ہوئے۔ جن میں میرتقی میر بھی شامل تھے۔
دولت کی فروانی، امن و امان اور سلطنت کے استحکام کی وجہ سے اودھ کے حکمران عیش و نشاط اور رنگ رلیوں کے دلدادہ ہو گئے۔ شجاع الدولہ کو عورتوں سے خصوصی رغبت تھی جس کی بنا پر اس نے محل میں بے شمار عورتوں کو داخل کیا۔ حکمرانوں کی پیروی امرا نے بھی کی اور وہ بھی اسی رنگ میں رنگتے گئے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بازاری عورتیں ہر گلی کوچے میں پھیل گئیں۔ غازی الدین حیدر اور نصیر اور نصیر الدین حیدر نے آبائو اجداد کی پیروی جاری رکھی اور واجد علی شاہ نے تو اس میدان میں سب کو مات دے دی۔
سلاطین کی عیش پسندی اور پست مذاقی نے طوائف کو معاشرے کا اہم جز بنا دیا۔ طوائفوں کے کوٹھے تہذیب و معاشرت کے نمونے قرار پائے جہاں بچوں کو شائستگی اور آداب محفل سکھانے کے لیے بھیجا جانے لگا۔
شعر و ادب پر اثرات
عیش و نشاط، امن و امان اور شان و شوکت کے اس ماحول میں فنون نے بہت ترقی کی۔ راگ رنگ اور رقص و سرور کے علاوہ شعر و شاعری کو بھی بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ دہلی کی بے امنی اور انتشار پر اہل علم و فن اودھ اورخاص کر لکھنؤ میں اکھٹا ہونا شروع ہو گئے۔ یوں شاعری کا مرکز دہلی کی بجائے لکھنؤ میں قائم ہوا۔ دربار کی سرپرستی نے شاعری کا ایک عام ماحول پیدا کر دیا۔ جس کی وجہ سے شعر و شاعری کا چرچا اتنا پھیلا کہ جابجا مشاعرے ہونے لگے۔ امرا، روساء اور عوام سب مشاعروں کے دیوانے تھے۔ ابتدا میں شعرائے دہلی کے اثر کی وجہ سے زبان کا اثر نمایاں رہا لیکن، آہستہ آہستہ اس میں کمی آنے لگی۔ مصحفی اور انشاء کے عہد تک تو دہلی کی داخلیت اور جذبات نگاری اور لکھنؤ کی خارجیت اور رعایتِ لفظی ساتھ ساتھ چلتی رہیں۔ لیکن آہستہ آہستہ لکھنؤ کی اپنی خاص زبان اور لب و لہجہ بھی نمایاں ہوتا گیا۔ اور یوں ایک نئے دبستان کی بنیاد پڑی جس نے اردو ادب کی تاریخ میں دبستان لکھنؤ کے نام سے ایک مستقل باب کی حیثیت اختیار کر لی۔
دبستانِ لکھنؤ کی خصوصیات
دبستانِ لکھنؤ کی سب سے نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ یہاں کی شاعری میں نشاطیہ عنصر غالب نظر آتا ہے۔ یہ لکھنؤ کی پُرامن زندگی اور خوشحالی کا عطیہ ہے۔ لکھنؤ کی شاعری میں عورت کے حسن کا بھرپور بیان ملتا ہے۔ اس کے زیور اور لباس کا ذکر جابجا نظر آتا ہے۔ لکھنوی شاعری میں تصوّف کے مضامین نہ ہونے کے برابر ہیں۔ یہاں کے رنگین ماحول میں نہ صوفیوں کا گزر تھا، نہ صبر و قناعت کی تعلیم کی ضرورت۔ دبستانِ لکھنؤ کی شاعری زبان کے نقطۂ نظر سے زیادہ دلکش اور پرکشش ہے۔ زبان کے سلسلے میں لکھنؤوالوں نے اہل دہلی سے اپنا راستہ الگ نکالا۔ شعرائے لکھنؤ نے جذبات سے زیادہ الفاظ کی نوک پلک سنوارنے اور زبان میں لطافت پیدا کرنے پر زور دیا۔ اس سے دبستانِ لکھنؤ کی زبان زیادہ دلآویز ہو گئی۔
نمائندہ شعرا
شیخ غلام علی ہمدانی مصحفی
(1751ء۔۔۔۔1825ء)
مصحفی دہلی سے ہجرت کرکے لکھنؤ آئے۔ ان کی شاعری کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ ان کا شعری مزاج دہلی میں صورت پزیر ہوا لیکن لکھنوکے ماحول، دربارداری کے تقاضوں اور سب سے بڑھ کر انشائ سے مقابلوں نے انہیں لکھنوی طرز اپنانے پرمجبور کیا۔ ان کا منتخب کلام کسی بھی بڑے شاعر سے کم نہیں۔ اگر جذبات کی ترجمانی میں میر تک پہنچ جاتے ہیں تو جرات اور انشائ کے مخصوص میدان میں بھی پیچھے نہیں رہتے۔ یوں دہلویت اور لکھنویت کے امتزاج نے شاعری میں شیرینی، نمکینی پیدا کر دی ہے۔ ایک طرف جنسیت کا صحت مندانہ شعور ہے تو دوسری طرف تصوف اور اخلاقی مضامین بھی مل جاتے ہیں۔
جمنا میں کل نہا کر جب اس نے بال باندھے
ہم نے بھی اپنے جی میں کیا کیا خیال باندھے
وہ جو ملتا نہیں ہم اس کی گلی میں دل کو
در و دیوار سے بہلا کے چلے آتے ہیں
تیرے کوچے میں اس بہانے ہمیں دن سے رات کرنا
کبھی اس سے بات کرنا کبھی اس سے بات کرنا
سید انشاء اللہ خان انشاء
(1756ء۔۔۔۔1817ء)
انشاء کے والدین دہلی سے مرشد آباد گئے جہاں انشاءکی ولاد ت ہوئی۔ انشاء کی ذہانت اور جدت پسندی انہیں اپنے ہم عصروں میں منفرد نہیں کرتی بلکہ تاریخ ادب میں بھی ممتاز مقام دلاتی ہے۔ غزل، ریختی، قصیدہ، اردو میں بے نقط دیوان ”رانی کیتکی کی کہانی“ جس میں عربی، فارسی کا ایک لفظ نہ آنے دیا۔ یہی نہیں انشاءپہلے ہندوستانی ہیں جنہوں نے ”دریائے لطافت“ کے نام سے زبان و بیان کے قواعد پر روشنی ڈالی۔
انشاءنے غزل میں الفاظ کے متنوع استعمال سے تازگی پیدا کرنے کی کوشش کی اور اس میں بڑی حد تک کامیاب بھی رہے۔ تاہم بعض اوقات محض قافیہ پیمائی اور ابتذال کا احساس ہوتا ہے۔ انشاءکی غزل کا عاشق لکھنوی تمدن کا نمائندہ وہ بانکاہے جس نے بعد ازاں روایتی حیثیت اختیار کر لی۔ انہوں نے غزل میں مزاح کی ایک نئی بنیاد ڈالی۔ زبان میں دہلی کی گھلاوٹ برقرار رکھنے کی کوشش کی۔
گر نازنیں کہے کا برا مانتے ہیں آپ
میری طرف دیکھیے میں نازنیں سہی
لے کے اوڑھوں بچھائوں یا لپیٹوں کیا کروں روکھی پھیکی سوکھی ساکھی مہربانی آپ کی
شیخ قلندر بخش جرات
(1749ء۔۔۔۔1810ء)
جرات دہلی میں پیدا ہوئے۔ ان کی شاعری کا مخصوص رنگ معاملہ بندی ہے۔ جو دبستان دہلی کی اہم ترین خصوصیت ہے۔ روایت ہے کہ شریف زادیوں سے آزادنہ میل ملاپ اور زنان خانوں میں بے جھجک جانے کے لیے خود کواندھا مشہور کر دیا۔ بہر حال نابینا ہونے کے شواہد ملتے ہیں۔
ان کے ہاں محبوب کی جوتصویر ابھرتی ہے وہ جیتی جاگتی اور ایسی چلبلی عورت کی تصویر ہے جوجنسیت کے بوجھ سے جلد جھک جاتی ہے۔ اس لیے یہ کہا جاسکتا ہے کہ جرات کی غزل کی عورت خود لکھنؤ ہی کی عورت ہے۔ زبان میں سادگی ہے اس لیے جنس کا بیان واضح اور دو ٹوک قسم کا ہے۔ شاید اسی لیے حسن عسکری انہیں مزے دار شاعر سمجھتے ہیں۔
کل وقت راز اپنے سے کہتا تھا وہ یہ بات
جرات کے جو گھر رات کو مہمان گئے ہم
کیا جانیے کم بخت نے کیا مجھ پہ کیا سحر
جو بات نہ تھی ماننے کی مان گئے ہم
حیدر علی آتش
(1778ء۔۔۔۔1846ء)
آتش فیض آباد میں پیدا ہوئے۔ آتش نے نہایت سادہ زندگی بسر کی۔ طبیعت میں قناعت اوراستغناہ کا مادہ تھا۔ انہوں نے کسی دربارسے تعلق پیدا نہ کیااور نہ ہی کسی کی مدح میں کوئی قصیدہ کہا۔
آتش کی شاعری لکھنؤ ¿ میں پروان چڑھی مگر ایک دہلوی استاد مصحفی کے زیر سایہ، اس لیے دہلی اور لکھنؤ نے دبستانوں کی خصوصیت کا امتزاج پیدا ہو گیا۔ آتش ناسخ کے مدمقابل تھے۔ ناقدین نے ناسخ پر ان کو فوقیت دیتے ہوئے۔ لکھنؤ دبستان کا نمائند ہ شاعر قرار دیا ہے۔ ان کے اکثر اشعار میں روانی موسیقیت کی حد تک پہنچ گئی ہے۔ محاوارت ایسے برمحل استعمال ہوتے ہیں کہ شاعری مرصع سازی معلوم ہوتی ہے۔ آتش کا بھی نظریہ تھا۔
بندشِ الفاظ جڑنے میں نگوں سے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا
آتش کے کلام کی اہم خصوصیات میں نشاطیہ انداز ،صفائی اور محاورات کا بہترین استعمال ہے۔ کہیں کہیں ان کے کلام میں تصوف کی چاشنی بھی پائی جاتی ہے۔ انہوں نے روایتی شاعری سے ہٹ کر کیفیت و مردانگی و خوداری کے جذبات کو قلم بند کیا۔
بہت شور سنتے تھے پہلو میں دل کا
جو چیرا تو اک قطرہ خوں نہ نکلا
صوفیوں کو وجد میں لاتا ہے نغمہ ساز کا
شبہ ہو جاتا ہے پردے سے تیری آواز کا
سفر ہے شرط مسافر نواز بہتیرے
ہزار ہا شجرِ سایہ دار راہ میں ہے
شیخ امام بخش ناسخ
(1772ء۔۔۔۔1838ء)
ناسخ کی شاعری میں نہ تو جذبات و احساسات ہیں اور نہ ہی ان کی پیدا کر دہ سادگی ملتی ہے۔ انہوں نے مشکل زمینوں، انمل قوافی اور طویل ردیفوں کے بل پر شاعری ہی نہ کی بلکہ استادی بھی تسلیم کرائی۔ آج ان کی اہمیت زبان کی صفائی پیدا کرنے اور متروکات کی باقاعدہ مہم چلانے کی وجہ سے ہے۔ انہوں نے زبان و بیان کے قوانین کی خود پیروی ہی نہ کی بلکہ اپنے شاگردوں سے ان کی پابندی کرائی۔
یوں اردو غزل کی زبان کو جھاڑ جھنکار سے پاک صاف کرنے والوں میں انہیں مستقل اہمیت حاصل ہے۔ لیکن صرف الفاظ کی بازیگری شاعری نہیں ہوتی۔ ان کے ہاں جذبے کا فقدان ہے۔ مولوی عبد الحق ان کے کلام کے بارے میں لکھتے ہیں:
” ناسخ بلاشبہ ایک اچھے اور پاکیزہ طرز کاناسخ اور ایک بھونڈے طرز کے موجد ہیں۔ ان کے کلام میں نہ نمکینی ہے نہ شیرینی۔“
ہو گئے دفن ہزاروں ہی گل اندام اس میں
اس لیے خاک سے ہوتے ہیں گلستان پیدا
رشک سے نام نہیں لیتے کہ سن لے کوئی
دل ہی دل میں ہم اسے یاد کیا کرتے ہیں
خصوصیات
اکثر و بیشتر نقادوں نے دبستان لکھنوکی شاعری کا ذکر کرتے ہوئے لکھا ہے کہ دلی کے مقابلے میں لکھنؤ کی شاعر ی میں خارجیت کا عنصر نمایاں ہے۔ واردات قلبی اور جذبات و احساسات کی ترجمانی اور بیان کی بجائے شعرائے لکھنوکا زیادہ زور محبوب کے لوازم ظاہری اور متعلقات خارجی کے بیان پر ہے۔ دوسری بات یہ کہ لکھنوی شاعری کا دوسرا اہم عنصر نسائیت ہے۔ اس کے علاوہ معاملہ بندی، رعائیت لفظی، صنعت گری اور تکلفات پر زیادہ زور ہے ذیل میں ہم اس کا تفصیل سے جائزہ لیں گے۔
خارجیت اور بیروں بینی:۔
دلی کی شاعری کے مقابلے میں لکھنؤ کی شاعری فکر اور فلسفے سے بالکل خالی ہے۔ نتیجتاً اس میں گہرائی مفقود ہے۔ اور ظاہرداری پر زور ہے۔ دروں بینی موجود نہیں۔ سوز و گداز کی شدید کمی ہے۔ خارجیت اور بیروں بینی کے مختلف مظاہر البتہ نمایاں ہیں لکھنؤ کی شاعری میں واردات قلبی کی بجائے سراپا نگاری پر زور ہے۔ ان کی شعری خصوصیات کا ذکر کرتے ہوئے سید وقار عظیم لکھتے ہیں،
” لکھنویت تکلف اور تصنع کا دوسرا نام ہے۔ جہاں شاعر محسوسات اور واردات کی سچی دنیا کو چھوڑ کر خیال کی بنی ہوئی رنگین فکر کی پیدا کی ہوئی پر پیج راہوں پر چل کر خوش ہوتا ہے۔ اس کاسبب یہ بتایا گیا ہے۔ کہ لکھنؤ کی ساری زندگی میں ظاہر پر اس قدر زور تھا کہ شعراءکو دروں بینی کی مہلت ہی نہیں ملی۔ ان کی نظروں کے سامنے اتنے مناظر تھے کہ ان کے دیکھنے سے انہیں فرصت ہی نہیں ملی تھی۔
ایسے میں دل کی کھڑی کھول کرمیر کی طرح اپنی ذات کے اندر کون جھانکتا۔ جب انھوں عیش و عشرت اور آرائش و زیبائش کی محفلوں سے فرصت نہیں تھی
دیکھی شب وصل ناف اُس کی
روشن ہوئی چشم آرز و کی
کتنا شفاف ہے تمہارا پیٹ
صاف آئینہ سا ہے سارا پیٹ
بوسہ لیتی ہے تیرے پالے کی مچھلی اے صنم
ہے ہمارے دل میں عالم ماہی بے آب کا
روشن یہ ہے کہ سبز کنول میں ہے سبز شمع
دھانی لباس پہنے جو وہ سبز رنگ ہے
مضمون آفرینی:۔
دبستان لکھنؤ کی شاعری کی دوسری نمایاں خصوصیت مضمون آفرینی ہے۔ مضمون آفرینی کا مطلب یہ ہے کہ شاعر روایتی مضامین میں سے نئے مبالغہ آمیز اور عجیب و غریب پہلو تلا ش کر لیتا ہے۔ ایسے مضامین کی بنیاد جذبے کی بجائے تخیل یا واہمے پر ہوتی ہے۔ شعراءلکھنو نے اس میدا ن میں بھی اپنی مہارت اور کمال دکھانے کا بھر پور مظاہر ہ کیا ہے۔ اس کی چند مثالیں مندرجہ ذیل ہیں۔
گلبرگ تر سمجھ کے لگا بیٹھی ایک چونچ
بلبل ہمارے زخم جگر کے کھرنڈ پر
چشم بدور آج آتے ہیں نظر کیا گال صاف
سبزہ خط کیا غزال چشم کا چارہ ہوا
اس نے پونچھا پسینہ روئے عالمتاب کا
بن گیا رومال کونہ چادر مہتاب کا
معاملہ بندی:۔
سراپا نگاری اور مضمون آفرینی کے علاوہ دبستان لکھنؤ کی شاعری کی ایک اور خصوصیت جس کی نشان دہی نقادوں نے کی ہے وہ معاملہ بندی ہے۔ چونکہ دلی کی تباہی کے وقت لکھنؤ پر امن تھا۔ دولت کی ریل پیل تھی۔ لوگ خوشحال اور فارغ البال تھے۔ بادشاہ وقت امرا، وزراءاور عوام الناس تک سب عیش و عشرت میں مبتلا تھے۔ خصوصاً طوائف کو اس ماحول میں بڑی اہمیت حاصل تھی۔ چنانچہ ماحول کے اثرات شاعری پر بھی پڑے جس کی وجہ سے بقول ڈاکٹر ابوللیث صدیقی جذبات کی پاکیزگی اور بیان کی متانت جو دہلوی شاعری کا امتیازی نشان تھی یہاں عنقا ہو گئی۔ اس کی جگہ ایک نئے فن نے لے لی جس کا نام معاملہ بندی ہے۔ جس میں عاشق اور معشوق کے درمیان پیش آنے والے واقعات پردہ دروں، کو کھول کر بیان کیا جاتا ہے۔ اگرچہ ایسے اشعار خال خال دہلوی شعراءکے ہاں بھی موجود ہیں اور یہ بات بھی درست ہے کہ اس فن میں جرات پیش پیش تھے جو دلی سے آئے تھے۔ لیکن لکھنؤ کا ماحول ان کو بہت راس آیا۔ چنانچہ ان کے ساتھ لکھنؤ کے دیگر شعراءنے جی بھر کر اپنے پست جذبات کو نظم کیا۔ ان کی گل افشانی کے چند نمونے ملاحظہ ہوں،
کھولیے شوق سے بند انگیا کے
لیٹ کر ساتھ نہ شرمائیے آپ
کل وقت راز اپنے سے کہتا تھا وہ یہ بات
جرات کے یہاں رات جو مہمان گئے ہم
کیاجانیے کمبخت نے کیا ہم پہ کیا سحر
جو با ت نہ تھی ماننے کی مان گئے ہم
کچھ اشارہ جوکیا ہم نے ملاقات کے وقت
ٹال کر کہنے لگا دن ہے ابھی رات کے وقت
منہ گال پہ رکھنے سے خفا ہوتے ہو ناحق
مس کرنے سے قراں کی فضیلت نہیں جاتی
تلخ بادام کا منہ میں میرے آتا ہے مزہ
چشم کا بوسہ جو وہ ہو کے خفا دیتا ہے
رعایت لفظی:۔
دبستان لکھنؤ کی ایک اور خصوصیت رعایت لفظی بتائی جاتی ہے اس پہلو کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر خواجہ محمد ذکریا لکھتے ہیں۔
” لکھنؤ کا معاشرہ خوش مزاج، مجلس آراءاور فارغ البال لوگوں کا معاشرہ تھا۔ مجلس زندگی کی جان لفظی رعایتیں ہوتی ہیں۔ مجلوں میں مقبول وہی لوگ ہوتے ہیں جنہیں زبان پر پوری قدرت ہو اور لفظ کا لفظ سے تعلق اور لفظ کا معنی سے رشتہ پوری طرح سمجھتے ہوں۔ لفظی رعایتیں محفل میں تفریح کا ذریعہ ہوتی ہیں اور طنز کو گوارا بناتی ہیں۔
لکھنؤ میں لفظی رعایتوں کا از حد شوق تھا۔ خواص و عوام دونوں اس کے بہت شائق تھے۔ روساءاور امراءتک بندیاں کرنے والوں کو باقاعدہ ملازم رکھا کرتے تھے۔ ان ہی اسباب کی بناءپر لکھنوی شاعری میں رعایت لفظی کی بہتات ہے اور لفظی رعایتیں اکثر مفہو م پر غالب آجاتی ہیں۔ بلکہ بعض اوقات محض لفظی رعایت کو منظوم کرنے کے لیے شعر کہا جاتا تھا۔ مثال کے طور پر
ہندو پسر کے عشق کا کشتہ ہوں باغباں
لالہ کا پھول رکھنا امانت کی گور پر
غسل کرلے یہیں دریا میں نہانے کو نہ جا
مچھلیاں لپٹیں گی اے یار تیر ے بازوسے
وصل کی شب پلنگ کے اوپر
مثل چیتے کے وہ مچلتے ہیں
قبر کے اوپر لگایا نیم کا اس نے درخت
بعد مرنے کے میری توقیر آدھی رہ گئی
طویل غزلیں:۔
لکھنوی شاعری کی ایک اور نمایاں بات طویل غزلیں ہیں۔ اگرچہ اس میں شبہ نہیں کہ ابتداءجرات مصحفی نے کی جو دلی دبستا ن سے تعلق رکھتے تھے۔ جو دلی کی تباہی کے بعد لکھنؤ جا بسے تھے۔ لیکن لکھنوی شعراءنے اس کو زیادہ پھیلایا اور بڑھایا اور اکثر لکھنوی شعراءکے ہاں طویل غزلیں بلکہ دو غزلہ اور سہ غزلہ کے نمونے ملتے ہیں۔ اس کا سبب یہ بتایا جاتا ہے۔ کہ لکھنؤ کے اس دور میں پرگوئی اور بدیہہ گوئی کو فن قرار دے دیا گیا تھا۔ نیز لوگ قافیہ پیمائی کو عیب نہیں سمجھتے تھے۔ اس لیے طویل غزلیں بھی لکھی جانے لگیں چنانچہ ٥٢۔٠٣١ اشعار پر مشتمل غزلیں تو اکثر ملتی ہیں۔ بلکہ بقول ڈاکٹر خواجہ زکریا بعض اوقات اس سے بھی زیادہ طویل غزلیں بھی لکھی جاتی تھیں۔
قافیہ پیمائی:۔
طویل غزل سے غزل کو فائدے کی بجائے یہ نقصان ہوا کہ بھرتی کے اشعار غزل میں کثرت سے شامل ہونے لگے۔ شعراءنے زور کلام دکھانے کے لیے لمبی ردیفیں اختیار کرنی شروع کر دیں جس سے اردو غزل میں غیر مستعمل قافیوں اور بے میل ردیفوں کا رواج شروع ہوا۔ معمولی قافیوں اور ردیفوں کو حقارت کی نظر سے دیکھا جا نے لگا۔ اس نے قافیہ پیمائی کا رواج شروع ہوا۔ ذیل میں بے میل ردیفوں سے قافیوں کی چند مثالیں درج ہیں۔
انتہائی لاغری سے جب نظرآیا نہ میں
ہنس کر کہنے لگے بستر کو جھاڑا چاہیے
فوج لڑکوں کی جڑے کے وں نہ تڑا تڑ پتھر
ایسے خبطی کو جو کھائے ہے کڑا کڑ پتھر
لگی غلیل سے ابرو کی، دل کے داغ کو چوٹ
پر ایسے ہی کہ لگے تڑ سے جیسے زا غ کو چوٹ
بات طویل غزلوں اور، بے میل ردیفوں اور قافیوں تک ہی محدود نہیں رہی بلکہ شعراءلکھنو نے اپنی قادر الکلامی اور استادی کا ثبوت دینے کے لیے سنگلاخ زمینوں میں بھی طبع آزمائی کی۔
پیچ دار تشبیہ اور استعارے کا استعمال:۔
اگرچہ تشبیہ اور استعارے کا استعمال ہر شاعر کرتا ہے لیکن یہ چیز اس وقت اچھی معلوم ہوتی ہے جب حد اعتدال کے اندر ہو۔ شعراءدلی کے ہاں بھی اس کا استعمال ہوا لیکن لکھنؤ والوں نے اپنی رنگین مزاجی کی بدولت تشبیہوں کا خوب استعمال کیا اور اور ان میں بہت اضافہ کیا۔ محسن کاکوروی، میرانیس، نسیم، دبیر، نے پرکیف، عالمانہ اور خوبصورت تشبیہیں برتی ہیں لیکن اس کے ساتھ ساتھ کئی شعراءصرف تشبیہ برائے تشبیہ بھی لے آئے ہیں جس سے کلام بے لطف اور بے مزہ ہو جاتا ہے۔
سبزہ ہے کنارے آب جو پر
یاخضر ہے مستعد وضو پر
محو تکبر فاختہ ہے
قد و قامت سر و دلربا ہے
کیاری ہر ایک اعتکاف میں ہے
اور آب رواں طواف میں ہے
ساقی کی مست آنکھ پہ دل ٹوٹ جاتے ہیں
شیشے جھکے ہوئے ہیں پیالوں کے سامنے
آگیا وہ شجر حسن نظر جب ہم کو
بوسے لے کے لب شریں کے چھوراے توڑے
مستی میں زلف یارکی جب لہر اگی
بوتل کا منہ ہمیں دہن مار ہو گیا
نسائیت:۔
ڈاکٹر ابوللیث صدیقی نے لکھنوی دبستان کی شاعری کاایک اہم عنصر نسائیت بتایا ہے۔ ڈاکٹر صاحب لکھتے ہیں کہ ہر زمامے ہر قصہ اور ہر زبان میں عورت شاعری کا بڑا اہم موضوع رہا ہے۔ لیکن لکھنؤ کی سوسائٹی میں عورت کو اہم مقام حاصل ہو گیا تھا۔ اس نے ادب پر بھی گہرا اثرا ڈالا۔ اگر یہ عورتیں پاک دامن اور عفت ماب ہوتیں تو سوسائٹی اور ادب دنوں پر ان کا صحت مند اثر پڑتا لیکن یہ عورتیں بازاری تھیں۔ جو صرف نفس حیوانی کو مسسل کرتی تھیں۔ جبکہ دوسری طرف عیش و عشرت اور فراغت نے مردوں کو مردانہ خصائل سے محروم کرکے ان کے مردانہ جذبات و خیالات کو کمزور کر دیا تھا۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مردوں کے جذبات خیالات اور زبان پر نسائیت غالب آگئی۔ چنانچہ ریختہ کے جواب میں ریختی تصنیف ہوئی۔ اس کا سہرا عام طور پر سعادت یا ر خان رنگین کے سر باندھا جاتا ہے۔ رنگین کے بعد انشاءاور دوسرے شعراءنے بھی اسے پروان چڑھایا۔ ان شعراءکے ہاں ریختی کے جو نمونے ملتے ہیں ان میں عورتوں کے فاحشانہ جذبات کو ان کے خاص محاوروں میں جس طرح ان لوگوں نے نظم کیا ہے وہ لکھنؤ کی شاعری اور سوسائٹی کے دامن پر نہ مٹنے والا داغ بن کر رہ گیا ہے۔
سوز و گداز:۔
اس ساری بحث سے ہر گز یہ مقصود نہیں کہ لکھنوی شعراءکے ہاں اعلی درجے کی ایسی شاعری موجود نہیں جو ان کے سوز و گداز جذبات اور احساسات اور واردات قلبیہ کی ترجمان ہو۔ تمام نقادوں نے اس بات کی تائید کی ہے بلکہ عذلیب شادنی جنہوں نے لکھنوی شاعری کے خراب پہلوئوں کو تفصیل کے ساتھ نمایاں کرکے پیش کیا ہے وہ بھی تسلیم کرتے ہیں کہ شعرائے لکھنوکے ہاں ایسے اشعار کی کمی نہیں جو پڑھنے والے کے دل پر گہرااثر چھوڑتے ہیں۔ ایسے نمونے ناسخ اور آتش کے علاوہ امانت اور رند وغیرہ کے ہاں سب سے زیادہ ملتے ہیں۔ یہاں اس بات کے ثبوت میں مختلف شعراءکا کلام سے کچھ مثالیں
رشک سے نام نہیں لیتے کہ سن لے نہ کوئی
دل ہی دل میں اسے ہم یاد کیا کرتے ہیں
تاب سننے کی نہیں بہر خدا خاموش ہو
ٹکڑے ہوتا ہے جگر ناسخ تیری فریاد سے
آئے بھی لو گ بیٹھے بھی اٹھ بھی کھڑ ے ہوئے
میں جاءہی ڈھونڈتا تیری محفل میں رہ گیا
کسی نے مول نے پوچھا دل شکستہ کا
کوئی خرید کے ٹوٹا پیالہ کیا کرتا
بتوں کے عشق میں کیا جی کو اضطراب دیا
یہ دل دیا کہ خدا نے مجھے عذاب دیا
دل نے شب فرقت میں کیا ساتھ دیا میرا
مونس اسے کہتے ہیں غم خوار اسے کہتے
آعندلیب مل کے کریں آہ و زاریاں
تو ہائے گل پکار میں چلائوں ہائے دل
ہم اسیروں کو قفس میں بھی ذرا چین نہیں
روز دھڑکا ہے کہ اب کون رہا ہوتا ہے
حرم کو اس لیے اٹھ کر نہ بتکدے سے گئے
خدا کہے گا کہ جور بتاں اٹھا نہ سکا
مجموعی جائزہ:۔
اردو ادب میں دونوں دبستانوں کی اپنے حوالے سے ایک خاص اہمیت ہے۔ دبستان لکھنؤ نے موضوعات کی بجائے زبان کے حوالے سے اردو ادب کی بہت خدمت کی اور ناسخ کی اصلاح زبان کی تحریک نے اردو زبان کو قواعد و ضوابط کے حوالے سے بہت زیادہ ترقی دی۔ جبکہ دبستان ِ لکھنؤ کا اثر دہلی کے آخری دور کے شعراءغالب، مومن، ذوق پر بھی نمایاں ہے۔
دبستان دہلی
دبستان دہلی اردو ادب کا اولین اور مخصوص دبستان ہے جو دہلی شہر اور خصوصاً قلعہ معلی کی زبان و ادب کا نمائندہ سمجھا جاتا ہے۔ اورنگزیب کی وفات کے بعد اُس کا بیٹا معظم تخت نشین ہوا لیکن اس کے بعد معظم کے بیٹے معز الدین نے اپنے بھائی کو شکست دے کر حکومت بنائی۔ معز الدین کے بھتیجے ”فرخ سیر“ نے سید بردران کی مدد سے حکومت حاصل کی لیکن سید بردران نے فرخ سیر کو بھی ٹھکانے لگا دیا۔ اس طرح 1707ء سے لے کر 1719ء تک دہلی کی تخت پر کئی بادشاہ تبدیل ہوئے۔ محمد شاہ رنگیلا کی عیاشی کے دور میں نادرشاہ درانی نے دہلی پر حملہ کر دیا اور دہلی کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ پھر احمد شاہ ابدالی کے حملے نے مزید کسر بھی پوری کر دی۔ دوسری طرف مرہٹے، جاٹ اور روہیلے آئے دن دہلی پر حملہ آور ہوتے اور قتل عام کرتے اس دور میں کئی بادشاہ بدلے اور مغل سلطنت محدود ہوتے ہوتے صرف دہلی تک محدود ہو کر رہ گئی۔ اور آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کو انگریزوں نے معزول کر کے رنگوں بھیج دیا۔ یہ تھی دہلی کی مختصر تاریخ جس میں دبستان دہلی کا ادب پروان چڑھا۔ یہ ایک ایسا پرآشوب دور تھا جس میں ہر طرف بدنظمی، انتشاراور پستی کا دور دورہ تھا۔ ملک میں ہر طرف بے چینی تھی۔ اس حالت کی وجہ سے جس قسم کی شاعری پروان چڑھی۔ دبستان دہلی کے چند شعرا کا ذکر درج زیل ہے۔
اہم شعرا
میر تقی میر
میر تقی میر 1723ء آگرہ میں پیدا ہوئے اور 1810ء لکھنؤ میں انتقال کیا۔ اردو شاعری کے خدائے سخن کہلاتے ہیں۔ پروفیسر مجنوں گورکھپوری نے کہا کہ :اردو شاعری بھی اگر اپنا خدا رکھتی تو وہ میر تقی میر ہوتے ۔ میرتقی میر کی شاعری کا اہم بنیادی عنصر غم سب سے نمایاں ہے۔ خود میر نے اپنی شاعری کے بارے میں کہا ہے:
مجھ کو شاعر نہ کہو میر کے صاحب میں نے
درد و غم کتنے کیے جمع تو دیوان کیا
میر کا غم آفاقی نوعیت کا ہے جس میں غم عشق سے لے کر غم دنیا کا احوال موجود ہے۔ انہوں نے جو کچھ محسوس کیا بڑی صداقت کے ساتھ دنیا کے سامنے پیش کر دیا۔ ان کی شاعری اپنے تجربات اور احساسات کاصحیح اور سچا اظہار ہے۔ ان کے اشعار جو بھی پڑھتا ہے اس کے دل میں اتر جاتے ہیں۔
ابتدا ہی میں مر گئے سب یار
عشق کی کون انتہا لایا
میر کی شاعری ہندوستانی اور ایرانی تہذیب کی آمیزش کی بہترین مثال ہے۔ ان کے ہاں فارسی تراکیب کے ساتھ ساتھ ہندوستانی کا ترنم اور موسیقیت بھی ملتی ہے۔
اب تو جاتے ہیں مے کدے سے میر
پھر ملیں گے، اگر خدا لایا
پتا پتا بوٹا بوٹا حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
درد و غم
درد و غم میر صاحب کی شاعری کا بنیادی موضوع ہے، خود کہتے ہیں :
س رہانے میر کے کوئی نہ بولو
ابھی ٹُک روتے روتے سو گیا ہے
ایک اور غزل میں کہتے ہیں :
جو اس شور سے میر روتا رہے گا
تو ہمسایہ کاہے کو سوتا رہے گا
میرزا محمد رفیع سودا ترميم
سودا، میر کے ہمعصر تھے۔ ان کا شمار اردو زبان کے اہم شعراءمیں ہوتا ہے۔ انہوں غزل، قصیدہ، مثنوی، مخمس، ہجو، رعبایاں، قطعے، ترجیع بند، واسوخت، سلام، مرثیے غرض کہ ہر صنف سخن میں طبع آزمائی کی۔ لیکن ان کی شہرت بحیثیت قصیدہ گو اور ہجو گو کے زیادہ ہے۔ ان کی غزلوں کی تعداد نسبتاً کم ہے لیکن غزل میں ان کے مقام اور مرتبہ سے انکا ر نہیں کیا جاسکتا۔ بقول خلیق انجم :
” سودا کے ہاں زور بیان، معنی آفرینی ،خیال بندی ،پرواز تخیل، جدت بیان، قدرتِ اظہار، نشاط انگیزی اور جو جوش و خروش ملتا ہے وہ انہی کا حصہ ہے۔“
لیکن یہ بات یاد رہے کہ سودا کی غزلوں میں خلوص اور جذبات کی سادگی، بے ساختگی اور درد و سوز بھی ہے۔ جو میر کی غزل کا طرہ امتیاز ہے۔
جس روز کسی اور پہ بیداد کرو گے
یہ یاد رہے ہم کو بہت یاد کرو گے
کیفیت چشم اس کی مجھے یاد ہے سودا
ساغر کو میرے ہاتھ سے لینا کہ چلا میں
سودا جو تیرا حا ل ہے اتنا تو نہیں وہ
کیا جانیے تو اسے کس حال میں دیکھا
*خواجہ میر درد*
میردرد ایک مشہور خاندان کے چشم وچراغ تھے اور ایک صوفی باپ کے بیٹے تھے۔ انہوں نے تصوف کو صرف روایت سے مجبور ہو کر نہیں اپنایا بلکہ وہ خود ایک باعمل صوفی تھے۔ ان کے مزاج میں اعتدال، توازن،حلم، تحمل اور بردبادی کی صفات موجود تھیں۔ اس لیے جہاں جاتے عزت و احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ قناعت اور خوداری ان میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ ان کی انہی صفات کا عکس ان کی شاعری میں بھی نظر آتا ہے۔ بقول عظمت اللہ :
”خواجہ میر درد اردو ادبیات میں صوفیانہ شاعری کے باوا آدم تھے“
جگ میں آکر ادھر ادھر دیکھا
تو ہی آیا نظر جدھر دیکھا
ارض و سما کہاں تیری وسعت کو پاسکے
میرا ہی دل ہے وہ کہ جہاں تو سما سکے
اس ہستی خراب سے کیا کام تھا ہمیں
اے نشہ ظہور یہ تری ترنگ تھی
ابراہیم ذوق
ذوق کو بعض نقادوں نے سودا کے مشابہ قرار دیا ہے ایک تو اس لیے ہجوگوئی کے باوجود دونوں کا کوئی مخصوص طرز احساس نہیں اور دوسرے قصیدہ کو بھی پایہ کمال تک پہنچایا۔ ان کی غزل میں جذبے کافقدان نظر آتا ہے اس لیے کہ انہوں نے محض الفاظ کے ذریعے شاعری کی۔ انہوں نے فکر اور جذبہ کی کمی کو محاورات کے ذریعے پوری کرنے کی کوشش کی۔ بعض اشعار دیکھ کر معلوم ہوتا ہے کہ صرف محاورہ بندی کے لیے لکھے گئے ہیں۔ ان کی شاعری میں حسن و عشق کی واردات بھی ہیں اور تصوف اور اخلاقی پند بھی لیکن یہ سب روایتی محسوس ہوتے ہیں۔
وقت پیری شباب کی باتیں
ایسی ہیں جیسے خواب کی باتیں
لائی حیا ت آئے قضا لے چلی چلے
اپنی خوشی سے آئے نہ اپنی خوشی چلے
مرزا اسد اللہ خان غالب
غالب کی شاعری ہر دور میں نہ صرف زندہ رہی بلکہ جدید بھی رہی۔ ان کے ہاں ہمیں جنس کا ایک صحت مندانہ رویہ ملتا ہے۔ انھیں مسلسل پریشانیوں اور محرومیوں نے نہ صرف زندگی سے پیار کرنا سکھایا۔ انہوں نے غم کو ایک حقیقت کے روپ میں قبول کیا۔ ان کے نزدیک غم کے وجود کو تسلیم کر لینے کے بعد اس کی تلخی اور چبھن میں کافی کمی ہو جاتی ہے۔