(Last Updated On: دسمبر 20, 2021)
راکب راجا ( ٹیکسلا)
(تاریخ۔تحقیق۔تنقید)
ٹیکسلا کی مختصر ترین تاریخ:
ٹیکسلا اپنے تہذیبی،ثقافتی اور تاریخی پسِ منظر کے حوالے سے ہزاروں سال تک دُنیا بھر کا مرکز رہا۔ جغرافیائی اعتبار سے ٹیکسلا کی سر زمیں چوراہے پر واقع تھی۔شاہراہِ ریشم کے ذریعے یورپ،افریقہ،اور ایشیا کی تجارتی منڈیوں تک راستے جاتے تھے۔ٹیکسلا میں3100 ق م میںسرائے کھولا شہر آباد تھا اور ٹیکسلا کا پہلا شہر ’’بھِڑ مائونٹ ‘‘ جو اس وقت ٹیکسلا کا دارالخلافہ تھا۔۔چھٹی صدی قبل مسیح سے دوسری صدی قبل مسیح تک آباد رہا۔قدیم ہندئو ادب میں ٹیکسلا کے متعلق بہت کچھ لکھا گیا۔۔’’کوتلیہ چانکیہ‘‘ عقل مند اور سیاست دان استاد ٹیکسلا ہی میں پیدا ہوا اس نے ہندئوں کے مذہب پر ’’ارتھ شاستر‘‘ کے نام سے ایک کتاب لکھی۔۔’’رگ وید‘‘او ر ’’ اتھر وید‘‘جو (1200ق م سے 500 ق م) تک لکھی گئیں۔ان کتابوںمیں بھی ٹیکسلا کا ذکر تفصیل کے ساتھ ہوا ہے۔’’اپنشد‘‘ میں بھی ٹیکسلا کو علم کا مرکز کہا گیا ہے ۔’’رامائن‘‘ ،’’مہا بھارت‘‘اور’’پرانوں ‘‘ میں بھی ٹیکسلا کے حوالہ جات ملتے ہیں۔چین اور بدھ ادب میں بھی ٹیکسلا کی تعریف کی گئی ہے۔معلوم تاریخ بتاتی ہے کہ کہکئی کا بیٹا جس کا نام ’’بھرت‘‘ تھا اُس کے دو بیٹے تھے ایک کا نام’’ ٹیکشا سلا‘‘ اور دوسرے کا نام’’ پُشکلا‘‘ تھا۔دریائے سندھ کے پار پشکلا کی حکومت تھی اور دریائے سندھ کے اِس پار ٹیکشا سلا کی حکومت تھی۔ اسی کے نام سے ٹیکسلا کا نام ٹیکسلا مشہور ہوا۔
یہاں جنگلات تھے،پانی وافر مقدار میں تھا،موسمی حالات انسانی زندگی کے لئے موافق تھے۔اس لئے یہاں انسانوں کا آباد ہو جانا تعجب کی بات نہ تھی۔اسی لئے آج بھی یہ خطہ زراعت کے حوالے سے بہت زیادہ مشہور ہے۔
مالک اُ شتر اپنے اک مضمون (خطہ پوٹھوار۔تہذیب و تاریخ) میں لکھتے ہیں کہ
’’1928عیسوی میںجیو لا جیکل سروے آف انڈیا کے سربراہ مسٹر ڈی این واڈیااور 1930عیسوی میںژیل کیمرج ایکسپی ڈیشن نے دریائے سواں کی پٹی کے ساتھ قدیم دور کے پتھر کے تراشیدہ اوزار اور ہتھیار دریافت کیے۔جرمن محقق ڈی ٹیر اور پیٹر سن نے بھی یہاں قدیم ترین انسانی عہد کا سراغ لگایا۔انھوں نے چونترا،اڈیالہ،ملک پور اور روات کے مقامات سے پتھر کے دور کے تقریباًتین لاکھ سال قدیم سنگی کلہاڑیاں اور نیزے دھار شیشے دریافت کیے ڈاکٹر ڈی ٹیرا کی رائے کے مطابق وادیء سواں کی تاریخ بابل،نینوا،وادیء سندھ ،مصر اور یونان کی تہذیبوں سے بھی ہزاروں سال قدیم۔۔۔انھوں نے روات کے قریب سے دریافت ہونے والی دو انسانی کھوپڑیوں پر تحقیق کیhomo sapiens کا تعلق پتھر کے جدید دور سے بتایا جاتا ہے۔یہ ڈھچر پانچ سے دس ہزار سال قدیم ہیں۔1968عیسوی میںآرکیالوجی آف پاکستان کے محکمے نے ایم اے حلیم کی رہنمائی میں ٹیکسلامیں سرائے کھولا کے قریب کھدائی کی اور ما قبل از تاریخ دور کا پتہ لگایا ۔دریافت شدہ برتنوں اور ہتھیاروں پر تحقیق سے یہ بات سامنے آئی کہ3100قبل مسیح میں یہاں انسانی آبادی موجود تھی۔اس کے علائوہ ٹیکسلا میوزم کی شمالی سمت میں دو فرلانگ کے فاصلے پر واقع ہتھیال نامی مقام سے مٹی کے ایک ٹیلے کی کھدائی کے دوران2800ق م سے2400ق م کے قدیم کورٹ ڈ جین عہد کے آثار دریافت ہوئے ہیں جب کہ اوپر والی تہہ کا تعلق1200 ق م سے800ق م کے گنداھارا گورستانی عہد سے ہے‘‘
دارا اول بہستان کے عہد(522ق م سے 486 ق م) میں ٹیکسلا ایران کا بیسواں صوبہ تھا۔۔ایرانی عہد کے ٹیڑھے اور سلاخی سکے۔۔ ٹیکسلا کا جو پہلا شہر تھا ’’بھِڑ مائونٹ‘‘ سے ملے ہیں۔ایرانیوں نے یہاں آرامی زبان رائج کی جس کی وجہ سے یہاں’’ خروشی رسم الخط‘‘ کا آغاز ہوا۔ 400 ق م میں ہندئو راجا امبھی نے حکومت پر قبضہ کر لیا۔سکندرِ اعظم 326ق م میں ٹیکسلا آیا راجا امبھی نے مصلحت سے کام لیا اور اس سے جنگ نہیں کی سکندر یہاں اپنی کچھ فوج چھوڑ کر ’’فلپ ابنِ مچاٹس‘‘کو ٹیکسلا کا نائب مقرر کر کے خود جہلم کے ’’راجا پورس‘‘ سے لڑنے نکل گیا۔پورس کے ساتھ جنگ کے دوران پورس کے بہت سارے جرنیل مارے گئے اور پورس کو بُری طرح شکست ہوئی۔پورس کو حراست میں لے لیا گیا۔سکندر نے پورس سے کہا۔اب تمھارے ساتھ کیا سلوک کیا جائے؟ تو اس موقع پر پورس نے بہت خوبصورت جملہ کہا’’ کیا سلوک کیا جائے؟وہی سلوک کر جو بادشاہ ،بادشاہوں کے ساتھ کرتے ہیں‘‘سکندر بھی ارسطو کی اکیڈمی کا پڑھا ہوا تھا اُسے پورس کا یہ جملہ بہت اچھا لگا اور اس نے پورس کو وہاں ہی کا کچھ علاقہ دے کر بادشاہ بنا دیا۔یونانیوں کا اقتدار ختم ہوا چندر گپت کے بعد اس کا بیٹا بندو سار(297ق م تا 274ق م) بادشاہ ہوا۔ مہاراجا اشوک ٹیکسلا کا گورنر بھی رہ چکا تھا اس کی حکومت میں دھرما راجیکا اسٹوپ کی بنیاد رکھی گئی۔اشوک اعظم نے(274ق م237 تا ق م )حکومت کی اس نے مختلف چٹانوں پر اپنے فرامین کنندہ کرائے۔اس کے کچھ فرامین آج بھی مانسہرہ اور شہباز گڑھی میں محفوظ ہیں۔یو نانیوں نے شہر ’’سر کپ‘‘ کی بنیاد اقلیدسی اصولوں پر رکھی۔یونانی عہد(189ق م تا90 ق م)رہا۔یونانیوں کے بعد ساکا سیتھین( 90ق م تا 25 عیسوی) حکمران رہے ان کو پارتھی یا پہلوی حکمرانوں نے(25عیسوی تا 60 عیسوی )حکومت کرنے کے بعد ٹیکسلا سے نکال دیا۔ان دنوں یعنی 146ق م میںایرانی،یونانی اور رومیوں کی آمیزش سے ٹیکسلا میں ایک نئی تہذیب وجود پا رہی تھی۔اسی اثنا میں پارتھی بادشاہوں کے عہد میںاس مخلوط ثقافت اور تہذیب نے ٹیکسلا میں ترقی کی نئی راہیں کھولیں۔40عیسوی کے قریب،پہلوی حکومت کے عہد میں حضرت عیسؑیٰ کا ایک حواری ’’سینٹ تھامِس‘‘ ٹیکسلا آیا۔پہلوی بادشاہ ’’گونڈوفیزیز‘‘ سے اس کی ملاقات ہوئی۔واہ کینٹ تھانہ کے قریب چرچ کا نام بھی سینٹ تھامس کے نام پر رکھا گیا۔۔پارتھی بادشاہت کا خاتمہ کُشان حکمران وائما کیڈ فیزیز کے زمانے میں ہوا اس نے ’’سر کپ‘‘شہر آباد نہیں کیا بلکہ دریائے ہرو کے قریب جا کر ٹیکسلا کا نیا شہر آباد کیا۔اس نے چاندی کے سکوں کی بجائے سونے کے سکے رائج کئے۔کنشک کے عہد میں گند ھارا آرٹ عروج پر تھا ۔کشان بادشاہت میں وسسکا،ہاسکا اور واسو دیو حکمران رہے جو کہ زیادہ مشہور تھے۔ کُشان کی حکومت کے بعد اس خطے پر(350عیسوی تا390عیسوی)ساسانیوں کی حکومت رہی اور کیدار کشان نے پھر ان سے حکومت چھین لی مذہبی حوالے سے یہ بھی بدھ مت تھے۔(390عیسوی تا460عیسوی)کا دور گندھارا کے لئے عہدِ زرّیں تھا کیوںکہ یہ دور ٹیکسلا کی ترقی اور خوش حالی کا دور تھا اس دور میں بدھ فلاسفی کو فروغ ملا،ٹیکسلا میں ایک ہزار سال تک چھوٹی بڑی کئی درسگاہیں کسی نہ کسی صورت میں موجودرہیں۔اس سر زمین پر علم و ادب کا اتنا چرچا تھا کہ یہاں کے علمی و ادبی ہوائوں کے جھونکے ارسطو کی اکیڈمی تک پہنچ چکے تھے۔
یہاں پرمعاشیات،عمرانیات،طب،ادب،ریاضی،فلکیات،فلسفہ،مذہب اور جنگ و حرب کے علائوہ بھی بے شمار علوم پڑھائے جاتے تھے اور دُور دُور کے ممالک سے یہاں لوگ تعلیم حاصل کرنے آتے تھے۔
460عیسوی کے قریب وسط ایشیا سے ’’سفید ہُن ‘‘ آئے جو گندھارا کی سر زمین پر پھیل گئے انھوں نے علوم و فنون کی تمام درسگاہوں کو تباہ و برباد کر دیا،اسٹوپے اور خانقاہیں جلا دیں عظیم الشان تعمیرات کو گرا دیا،سفید ہُن ظالم اور سفّاک لوگ تھے جنہوں نے ٹیکسلا کو تباہ و برباد کر دیا اس طرح گندھارا کے عروج کا سورج غروب ہو گیا۔
880عیسوی میں ہندئو شاہی نے ترک شاہی سے اقتدار چھین لیا۔1014 عیسوی میںسلطان محمود غزنوی نے ہندئو شاہی حکومت کا خاتمہ کیا۔انگریزوں کے عہد میں برِصغیر میں ماہرِ آثارِ قدیمہ سر جان مارشل( 1913عیسوی تا1934عیسوی)نے کھدائیاں شروع کیں جان مارشل نے ریلوے اسٹیشن کا نام’’ شاہ ڈھیری‘‘ سے بدل کر اس کا اصل نام ’’ٹیکسلا‘‘ لوٹا دیا۔
کوتلیہ چانکیہ(’’ارتھ شاستر‘‘ کے مصنف)،عظیم فلسفی’’آشوا گھوش‘‘،اپنشد کا راوی’’اوالیکا اردنی‘‘ ، یوگ شاستر کا مصنف تپنجلی رسی،چرک شاستر کا مصنف ’’چرک‘‘ ،بکرما جیت کامصنف’’جراح دھونتری‘ ‘ ،مشہور طبیب’’آترسا‘‘ ، اور شہرہء آفاق ’’جینی عالم دیو سورتی‘‘ یہ سب علم و اد ب کے ہیرے ٹیکسلا ہی سے اپنی تعلیم مکمل کر کے گئے تھے۔بدھ مذہب کے مشہور عالم نگر جونا،اسنگا، ویسو بند ھو،واسو متر، اور پدماسم باوا ٹیکسلا ہی سے تعلق رکھتے تھے۔
سب سے بڑھ کر علمی و ادبی کام جو ٹیکسلا کے دانشوروں کے حصے میں آیا وہ سنسکرت کا صرف و نحو ہے۔آج بھی ساری دُنیاکی زبانیں اس صرف و نحو سے فیض حاصل کر رہی ہیں۔ٹیکسلا کی سر زمین ہزاروں سال پہلے سے نہایت ذرخیز چلی آ رہی ہے آج بھی اس دُنیا میں جتنی یونی ورسٹیاں ہیں وہ سب ٹیکسلا کی مرہونِ منت ہیں۔
جدید ٹیکسلا:
اس مضمون میںمیرا موضوع جدید ٹیکسلا ہے اور اس میں بھی آج کے موجود شعراء اوران کا مختصر تعارف ہے۔قیامِ پاکستان کے بعد جس طرح واہ آرڈنیس فیکٹری میں ملک کے دور دراز کے علاقوں سے مختلف قبائل کے کے لوگ بغرضِ ملازمت یہاں آکر آباد ہوئے اسی طرح ٹیکسلا میں بھی ہیوی مکینیکل کمپلیکس،ایچ آئی ٹی مار گلہ فیکٹری میں بھی بسلسلہء روز گار ملک کے مختلف علاقوں سے لوگ آ کر یہاں رہائش پذیر ہوئے۔جن میں اچھی خاصی تعداد شاعروں اور ادیبوں کی تھی جو ٹیکسلا میں بڑی بڑی ادبی محافل برپا کرنے لگے۔ویسے دیکھا جائے تو واہ اور ٹیکسلا دونوں پڑوسی شہر، ادب کا گہوارہ ہیں اور دونوں شہروں کے ادیب اور شاعر ادبی حلقوں میں ایک دوسرے کی ہمسائیگی کا حق ادا کرتے ہوئے ایک دوسرے کی ادبی محافل میں شریک ہوتے رہتے ہیں لیکن ان کی اپنی اپنی الگ پہچان بھی ہے۔پاکستان کے بڑے بڑے نام ٹیکسلا کے ادبی حلقوں کی دین ہیں۔
ٹیکسلا میں ادبی تنظیمیں:
جب سے میں نے ادبی ہوش سنبھالا ٹیکسلا کی ادبی سرزمین کو اسی طرح سر سبز اور ہرا بھرا پایا۔ٹیکسلا میں حلقہ تخلیقِ ادب،پرنم آرٹس کونسل،حلقہ دیارِ اد ب اور کئی چھوٹی بڑی ادبی اور سماجی تنظیمیں کام کر رہی تھیں ان سب میں حلقہ تخلیقِ ادب ایک مضبوط حوالہ تھا اور آج بھی حلقہ تخلیقِ ادب کا نام پورے پاکستان میں روشن ہے ۔اس حلقے میں ملک بھر سے ادیب اور شاعر آتے ہیں اور ٹیکسلا کے ادب میں فروغ کا باعث بنتے ہیں ۔
ٹیکسلا میں علمی و ادبی جرائد واخبار:
ادبی حلقوں کے علائوہ ادب کے فروغ کے لئے ادبی جرائد بھی ٹیکسلا کی شان رہے جن میں’’کاوش‘‘ رسالہ جو حلقہ تخلیقِ ادب کی سر پرستی میں نکالا جاتا رہا اور ہر مہینے با قا عدگی سے چھپتا رہا جس کے مدیر اس وقت حلقے کے صدر محمد یعقوب آسی تھے۔ جس میں تنقید، تحقیق،نثر اور شاعری ہوتی تھی۔کچھ عرصے سے ’’کاوش‘‘کی اشاعت نہیں ہو رہی۔دوسرا رسالہ’’اورینٹ‘‘ جو حسن علی طاہر کی سر پرستی میں شائع ہوتا رہا اس میں بھی ٹیکسلا کے موجودہ حالات کے ساتھ ساتھ ادب کو فروغ ملا یہ رسالہ آج بھی فعال ہے۔ایک اخبار ’’سنگ تراش ‘‘کے نام سے نکلتا رہا جس کا مقصد ٹیکسلا کے گرد و نواح کی ادبی اورسیاسی خبروں کی اشاعت تھی۔
ٹیکسلا کی لائبریریاںٹیکسلا پھاٹک کے نزدیک ایک بہت پرانی لائبریری تھی اب اس کی تعمیرِ نو کے بعد اس کا نام ’’کمیونٹی سنٹر‘‘ رکھ دیا گیا۔جس میں ہزاروں کی تعدادمیں مختلف علوم کی کتب موجود ہیںجن سے لوگ مستفید ہو رہے ہیں۔بُوئی گاڑ میں نور محمد نظامی کی لائبریری میں لاکھوں کی تعداد میں کتب موجود ہیں جن میں بہت پرانے نسخے موجود ہیں۔ایچ آئی ٹی میں بھی ایک بڑی لائبریری موجود ہے۔ٹیکسلا یونی ورسٹی میں بھی بہت بڑی لائبریری موجود ہے۔
ٹیکسلا کے ادبی منظر نامہ میں موجود شخصیات:
ٹیکسلا کا ادبی منظر نامہ نہایت ہی خوبصورت ہے اس میں موجود شخصیات کا تعارف:
مالک اُشتر:
مالک اُشتر تاریخ دان کی حیثیت سے سامنے آتے ہیںکیوں کہ اُنھوں نے ۲۰۱۰ء میںٹیکسلا کی تاریخ کو افسانوی رنگ دے کر بیان کیا ان کی کتاب کا نام’’ٹیکسلا ٹائم‘‘ ۲۰۱۰ء میں شائع ہوئی۔آج بھی مالک اُشتر کی تحقیق جاری ہے۔
محمد یعقوب آسی:
محمدیعقوب آسی عروض کے استاد کی حیثیت سے پہچانے جاتے ہیں۔آپ مضبوط شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورت نثر بھی لکھتے ہیں اورکبھی کبھی تنقیدی مضمون بھی۔آپ بسلسلہء روزگار اَسّی کی دہائی میں ٹیکسلا آئے اور یہاں حلقہ تخلیقِ ادب میں رہ کر ادب کی خدمت کی آپ کی چار کتابیں منظرِ عام پر آ چکی ہیں۔’’مجھے اک نظم کہنی ہے‘‘پنجابی شاعری کی کتاب’’پِنڈا پیر دھروئی جاندے‘‘،’’لفظ کھو جائیں گے‘‘اور’’ فاعلات‘‘جو عروض پر ہے۔نمونۂ کلام
اس کی آنکھیں بھی ہیں اداس بہت
اس کا چہرہ بھی میرے جیسا ہے
شہزاد عادل:
شہزادعادل خوبصورت لہجے کے شاعر ہیں عروض کے اعتبار سے استاد شاعر، ٹیکسلا میں ادب کے فروغ کے لئے شہزاد عادل نیک فال ہیں۔
یہ بھی کر جائیں چلو دیوانگی کے نام پر
نام ویرانی کا رکھ دیں اس گلی کے نام پر
طارق بصیر:
طارق بصیر اُردو اور پنجابی دونوں زبانوں میں شاعری کرتے ہیں اور خوبصورت غزل کہتے ہیں ان کی شاعری پر پنجابیت کا رنگ نظر آتا ہے۔
پتھر بھی اب تو کوئی نہیں مارتا ہمیں
اہلِ جنوں کی شہر میں عزت نہیں رہی
ظفری پاشا:
ظفری پاشا ہمارے حلقے کے سینئر رکن ہیں شعرکم کم کہتے ہیں مگر جب کہتے ہیں تو منجا ہوا شعر کہتے ہیں۔انتظامی امور میں پیش پیش رہتے ہیں
کون اس عہد کے معیار پر پورا اترے
چل سکا کون یہاں وقت کی رفتار کے ساتھ
شہاب عالم:
شہاب عالم ہمارے حلقے کے دیرینہ رکن ہیں جتنی محنت مصرعہ بنانے پر کرتے ہیں اس سے کہیں بڑھ کر مصرعہ سنانے پر کرتے ہیں ۔مصرعہ سنانے پر شاید ان کا پسینہ نہ نکلتا ہو لیکن
لائوں تاویل کیا محبت کی
ہو گئی ہے تو ہو گئی ہے ناں
جھیل سیف الملوک نے پوچھا
جو ترے ساتھ ہے پری ہے نا
عالی شعار بنگش:
عالی شعار بنگش نظم کے شاعر ہیں لیکن کبھی کبھی غزل بھی خوبصورت کہتے ہیں۔ان کی چال ڈھال سے ہی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ شاعرہیں۔
میں یقیںکے ساحلوں پر منتظر ہون دیر سے
وہم کے گرداب سے باہر نکل میرے لئے
وحید ناشاد:
وحید ناشاد غزل اور نظم دونوں بڑے سلیقے سے کہتے ہیں وہ لفظوں کے موتی پرونے کے ماہر ہیں۔ان کی شاعری میں بھی ان کی سنجیدگی کی واضح تصویر دکھائی دیتی ہے۔نمونہء کلام دیکھئے
تنہا نہیں تھا آج بھی میں ورکشاپ میں
یادوں کا اک ہجوم تھا میری مشین پر
عارف سیمابی:
ڈاکٹر رئوف امیر کے بھانجے خوبصورت لہجے کے شاعر شعبہء تدریس سے منسلک ہیں ان کی شاعری کا ایک مجموعہ’’خنجر تیرے غم کا‘‘ کے نام سے منظرِ عام پر آ چکا ہے۔نمونہء کلام ملاحظہ ہو
میرے آنگن میں جو اک پھول کھلا ہوتا ہے
میرے ہمسائے کو اس پر بھی گلا ہوتا ہے
رانا سعید دوشی:
راناسعیددوشی کاٹ دار لہجہ رکھتے ہیں انھیں غزل اور نظم دونوں میں مہارت حاصل ہے وہ جس مشاعرے میں ہوں تو مشاعرہ اُنھی کا ہوتا ہے۔ان کا ایک شعری مجموعہ’’زمیں تخلیق کرنی ہے‘‘عوام میں پذیرائی حاصل کر چکا ہے۔نمونۂ کلام
میں چُپ رہا تو مجھے مار دے گا میرا ضمیر
گواہی دی تو عدالت میں مارا جائوں گا
نوشیر وان عادل:
نوشیر وان عادل کا شعری مجموعہ’’آنسو آگ بجھانے نکلے‘‘ کے نام سے شہرت پا چکا ہے۔نوشیروان عادل رشتے میں میرے چھوٹے بھائی ہیں۔ان کی غزل کے مصرے چُست اور توانا ہوتے ہیں۔غزل پڑھنے کے انداز میں اپنا ثانی نہیں رکھتے۔نمونہء کلام دیکھئے
روز جاتے ہوئے اک اینٹ گرا جاتے ہیں
چند لوگوں سے میرا گھر نہیں دیکھا جاتا
احمد ابرار:
احمد ابرار ہر وقت مسکراہٹیں بانٹنے والا شخص ہے ۔ہنستے ہنستے بعض دفعہ ایسا شعر سنا جاتا ہے کہ سننے والے کی آنکھیں نم ہو جاتیں ہیں۔
میں تتلیوں کی محبت سے خوب واقف ہوں
یہ صرف پھول بکھرنے تلک تماشا ہے
دلاور علی آزر:
دلاور علی آزر ہے تو حسن ابدال کے لیکن ٹیکسلا اُن کی ادبی شناخت ہے خوبصورت غزل کہتے ہیں ان کے دو شعری مجموعے بالترتیب’’پانی‘‘ اور ’’مآخذ‘‘ شائع ہو چکے ہیں۔دلاور علی آزر اور ان کی شاعری دونوں میر تقی میر سے متاثر نظر آتے ہیں۔نمونہء کلام
خاک اور چاک کی آپس میں ٹھنی رہتی ہے
کوزہ گر ہوں سو مری جاں پہ بنی رہتی ہے
محمد حفیظ اللہ بادل:
محمد حفیط اللہ بادل خوبصورت شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ تنظیمی امور میں بھی سب سے آگے نظر آتے ہیں۔ نظم اور غزل دونوں کشادہ دلی سے کہتے ہیں ان کے اشعار میں ان کی کشادہ دلی کی تصویر نمایاں دکھائی دیتی ہے۔نمونہئکلام
ؑعین ممکن ہے اک خیال کی لو
بڑھتے بڑھتے چراغ ہو جائے
رئیس عباس:
رئیس عباس ابھی نوجوان ہیں لیکن غزل بہت مضبوط کہتے ہیں اگر ان کی شعر پر اسی طرح گرفت قائم رہی تو یہ ان کی کامیابی کی دلیل ہے۔
میں اپنے تئیں کوہِ گراں بار تھا لیکن
چند اشک سہولت سے بہا لے گئے مجھ کو
سعید اللہ قریشی:
سعید اللہ قریشی نوجوان شاعر ہیں نظم کو غزل پر ترجیح دیتے ہیں ان کی نظموں اور اشعارمیں تازہ اور نئے خیالات کثرت سے ملتے ہیں۔
ایسے موقعے تھکے تھکے اعصاب میں ملتے ہیں
میں سوتا ہوں تُو بھی سو جا خواب میں ملتے ہیں
شمشیر حیدر:
شمشیر حیدر نوجوانوں کے نمائندہ شاعر ہیں صرف غز ل کہتے ہیںان کے دو شعری مجموعے ’’دشتِ خواب‘‘ اور ’’پانیوں سے الگ‘‘ منظرِ عام پر آچکے ہیں۔نمونہء کلام
پہلے تو پانیوں سے رہی گفتگو مری
پھر یوں ہوا کہ آئینہ ایجاد ہو گیا
فیصل ساغر:
فیصل ساغر نوجوان شاعر ہیں لیکن شعر بوڑھوں جیسا کہتے ہیں۔میں فیصل کو پختہ کار شاعر کہوں گا کیوں کہ ان کے مصرعوں میں پختگی ہی ان کی شاعری کا نمایاں وصف ہے۔نمونہء کلام
مجھے خبر ہے جو ہوتیں ہیں سازشیں گھر میں
میںسویا ہوتا ہوں بستر پہ مر نہیں جاتا
تصور حسین تصور:
تصور حسین تصور ہری پور سے ٹیکسلا بسلسلہ ء ر وز گار آئے اور ٹیکسلاکی پُر بہار ادبی فضامیںبادِ صبا کا ایک جھونکا بنے۔نمونہء کلام
مجھ کو جب تک خدا نہیں ملتا ۔۔۔۔ تب تلک آدمی غنیمت ہے
شکیل شاکی:
شکیل شاکی ٹیکسلا کے نوجوان شعراء میں ایک معتبر مقام رکھتے ہیں ہمیں ان سے ابھی بہت ساری توقعات ہیں۔نمونہء کلام
شام ہوتے ہی تری یاد سے روشن ہوا دل
آسماں پر بھی ستارے سے نکل آئے ہیں
صدام فدا:
نوجوان شاعر صدام فدا فنِ شعر سے آشنا ہے۔خوبصورت انسان ہونے کے ساتھ ساتھ خوبصورت شاعر بھی ہے۔ اگر اس نے شعر سے سنجیدگی کا معاملہ رکھا تو سخن کی دیوی اس پر مہربان ہو جائے گی۔ نمونہء کلام
میرے آنگن کی پیڑ کی چھائوں
گھر سے باہر گلی میں جاتی ہیں
مظہر خاموش:
مظہر خاموش خوبصورت انداز سے شعر کہتے ہیں ان کے اشعار میں نئے موضوعات کثرت سے ملتے ہیں۔نمونہء کلام
میں اس کے خوف سے راتوں کو سو نہیں سکتا
وہ سانحہء جو ابھی رونما ہوا ہی نہیں
عزیز طارق:
عزیز طارق کو مصرعہ سازی کا ملکہ حاصل ہے ان کا تعلق تو جھنگ باہتر سے ہے لیکن ان کی ادبی پہچان ٹیکسلا ہے۔ ان کا ایک شعری مجموعہ ’’یاد کی بیلیں‘‘ عوام میں پذیرائی حاصل کر چکا ہے ان کی شاعری میں ان کی اپنی مٹی کی خوشبو شامل ہے۔نمونہء کلام
اگر معاملہ مجھ پر تُوچھوڑتا ہے تو جا
مرا یہ خون بہا بھی تجھے معاف ہوا
محمود ناصر:
محمود ناصر بھی جھنگ باہتر سے ہیں خوبصورت شعر کہتے ہیں ان کا ایک شعری مجموعہ ’’ عَکسِ جمال‘‘ منظرِ عام پر آ چکا ہے۔نمونہء کلام۔
یاد آ جاتے ہیں جب وصل کے لمحے ناصر
مرمریں ہاتھ مرے ہاتھ میں آ جاتا ہے
مبشر حسین مبشر:
مبشر حسین مبشر نوجوان شاعر ہیں جو انتہائی محنت کے ساتھ شعر کہتے ہیںاگر انھوں نے محنت جاری رکھی تو یقینا نام بنائیں گے۔
جینا کب آسان بنایا ہے ہم نے
لیکن پاکستان بنایا ہے ہم نے
حسن علی طاہر:
حسن علی طاہر کم کم شعر کہتے ہیں اور اچھا شعر کہتے ہیں۔نمونہء کلام
بولو کہ جس طرح کوئی بولتا نہ ہو
خاموش یوں رہوں کہ ہمیں گفتگو لگے
ٹیکسلا میں نثر کی روایت:
آ ج کے ٹیکسلامیں نثر کی روایت اتنی توانا اور مستحکم نہیں رہی لیکن پھر بھی ٹیکسلا کے چند گنے چنے نام تخلیقی نثر کا مضبوط حوالہ ہیں ۔۔افسانہ نگاروں میں سعید گل اور ظفری پاشا کے نام سرِفہرست آتے ہیں۔سعید گل کے افسانوی مجموعے کا نام’’بند پھاٹک کی ویرانی‘‘اور ظفری پاشا کے افسانوی مجموعے کاکا نام’’سانس کی سیٹی‘‘ ہے یہ دونوں مجموعے اپنی مثال آپ ہیں خاکہ نگاری میں بھی ظفری پاشا پیش پیش ہے ۔تیسرا نام محمد یعقوب آسی کا آتا ہے جنہوں نے عروض پر ’’فاعلات‘‘ کتاب لکھی جس کو بہت زیادہ پذیرائی ملی ۔محمد حسیب اسیر جو نوجوان نثر نگار ہے۔اس کا میدان افسانہ،خاکہ،مضمون اور کالم ہے۔اگر اسی طرح اس نوجوان نے محنت جاری رکھی تو ایک دن ضرور نام بنائے گا۔مالک اُشتر نے ٹیکسلا کی تاریخ کو افسانوی رنگ دے کر لکھا ہے ان کی کتاب کا نام’’ٹیکسلا ٹائم‘‘ ہے۔مولانا بشیر انصاری نے ’’تاریخ اسلام‘‘ کی تین جلدیں تحریر کی ہیں۔
ایک دفعہ پھر میں حلقہ تخلیقِ ادب ٹیکسلا کا حوالہ دیتے ہوئے کہوں گا کہ ٹیکسلا میں اگر آج کوئی زندہ ادبی تنظیم ہے تو وہ حلقہ تخلیقِ ادب ہے کیوں کہ اس حلقے نے نامور شاعر اور ادیب پیدا کئے اور آج بھی یہ حلقہ اپنے ادبی کام کے حوالے سے عروج پر ہے۔جب حلقہ تخلیقِ ادب کی صدارت مجھے سونپی گئی تو میں نے بھی نہایت نیک نیتی سے اپنے فرائضِ صدارت پر پورا اترتے ہوئے مدتِ صدارت پوری کی اور حلقے کی ترقی کے لئے کام کرتا رہا اور آج بھی میری ہمدردیاں تمام ادبی حلقوں کے ساتھ ہیں۔ٹیکسلا کا مقامی ہونے کے ناتے یہ مجھ پر فرض تھا کہ میں ٹیکسلا کے موجودہ ادبی منظر نامے کو پاکستان میں متعارف کرائوں۔ابھی تو میں نے ابتدا کی ہے لیکن یہ میری رائے ہے کہ اس کے مختلف پہلوئوں کے تناظر میں ابھی کئی تحقیقی مقالے لکھے جائیں گے۔
نوٹ: ( اس مضمون میں ٹیکسلا کی تاریخ کے حوالے سے مالک اُشتر کا ممنون ہوں کہ
انھوں نے میری رہنمائی فرمائی اور ان کی کتاب’’ٹیکسلا ٹائم‘‘ سے استفادہ کیا۔)
٭٭٭