جس گلی میں تھا ہمارا گھر
نہیں جناب جس گلی میں ہمارا گھر تھا وہاں کوئی سوداگر نہیں رہتا تھا۔ یہ گلی اب یاد آتی ہے کہ ہندوستان کے کون کون سے شہروں کے نمائندہ لوگ یہاں بستے تھے۔ وہ گلی اب ویسی نہیں رہی نہ ہی میں نے وہاں جا کر دیکھا کہ اب کیا حال ہے۔ لیکن جب وہاں رہتا تھا تو کبھی غور نہیں کیا کہ گنگا جمنی تہذیب کس طرح سے اپنا رنگ جمائے ہوئے تھے۔ یقین جانیے آج سے پہلے کبھی اس جانب خیال نہیں گیا۔
ہماری گلی میں پہلا گھر نصرت صاحب کا تھا جو امروہے کے رہنے والے تھے ۔ نام بھی ان کا نصرت امروہوی تھا جو کہ عام طور پر شاعروں کا ہوتا ہے۔ نصرت صاحب بھی شاید شاعر تھے، ان سے کبھی شعر تو نہیں سنا لیکن چہرے مہرے اور وضع قطع سے شاعر ہی لگتے تھے۔ ان کے اور ہمارے گھر کے بیچ حسن بھائی کا گھر تھا جو کہ ہماری طرح کوکن کے تھے۔ ہمارے دائیں جانب والے پڑوسی لکھنؤ کے تھے۔ ہم سب آپس میں کچھ اس طرح گندھے مندھے رہتے کہ کبھی اپنے پرائے کا احساس ہی نہیں ہوا۔ کچھ گھر وں سے تو ایسا رشتہ تھا کہ شاید خونی رشتہ داروں کے ساتھ بھی نہ ہو۔ اب یہ سب دنیا بھر میں پھیل گئے ہیں لیکن وہ قلبی تعلق آج بھی برقرار ہے۔ ہمارے سامنے والے ہمسائے( سامنے والی خالہ کا گھر) راجھستان کے ضلع سنگھا نہ کے راجپوت تھے۔ ان کے بائیں جانب والا گھر حشمت خان صاحب کا تھا جو الہ باد کے تھے۔ حشمت خالو کے ساتھ والے مکان میں حبیب بھائی کے گھر والے رہتے جو کہ دہرہ دون کے تھے۔ غرض اسی طرح کچھ گھر دہلی، میرٹھ اور مراد آباد والوں کے تھے۔
حشمت خالو ائرفورس میں تھے اور شاید کارپورل وغیرہ تھے لیکن فضائیہ کی وردی میں پورے ائرمارشل اصغر خان لگتے تھے۔ ان کی زبان اور لہجے سے ہلکا سا پور بی پن مترشح ہوتا تھا لیکن مجھے وہ کبھی الہ آباد کے حوالے سے یاد نہیں رہے۔ اللہ انہیں اور خالہ کو غریق رحمت کرے۔ان کی بیٹی آج بھی مہینے ڈیڑھ مہینے میں ملنے آجاتی ہے۔ شاید اسے یاد بھی نہ ہو کہ وہ الہ آباد سے ہیں۔
الہ باد سے سب سے پہلا تعارف تو اکبر الہ آبادی تھے۔ یاد نہیں کون سی جماعت سے انہیں پڑھنا شروع کیا لیکن ان کا نام کبھی غیر مانوس نہیں رہا۔ چوتھی پانچویں سے جب ابن صفی کے ناول پڑھنا شروع کیے تو ساتھ ہی اکرم الہ آبادی کا نام بھی سننے میں آتا اور ابن صفی کے ساتھ ان کے بھی ناول پڑھتے۔ ابن صفی بھی “ نارے” کے تھے جو شاید الہ آباد کی ہی تحصیل ہے۔ ذرا اور بڑے ہوئے یعنی کالج وغیرہ میں آئے تو ایک اور الہ آبادی سے شناسائی ہوئی لیکن انگریزی ترکیب کے بموجب “ تمام تر غلط وجوہات کی بناء پر”۔
For all the wrong reasons “.
کیونکہ اس وقت تک ہم اس الہ آبادی کے ادبی مقام سے واقف نہیں تھے۔ ہم تو انہیں اخبار میں بقول شخصے “ ایک بدنام زمانہ کہانی” کے حوالے سے جانتے تھے اور وہ تھے “ تیغ الہ آبادی” یعنی مصطفے زیدی الہ آبادی۔
پھر جب تھوڑی بہت ہندوستانی سیاست کی شدھ بدھ ہوئی تو پتہ چلا کہ ہندوستان کے ہر دوسرے وزیراعظم کا تعلق کسی نہ کسی طرح الہ آباد سے ہے۔ موتی لعل نہرو کے گھر “ آنند بھون “ کے باسی پنڈت جواہر لال نہرو، ان کی سپتری ، شریمتی اندرا گاندھی اور پنڈت جی کے نواسے راجیو گاندھی تو پردھان منتری بنے ہی، ان کے علاوہ لال بہادرشاستری، گلزاری لال نندہ، وی پی سنگھ اور چندر شیکھر کسی نہ کسی حوالے سے الہ آباد سے منسلک رہے۔
اور جب کبھی آگرے کا پیٹھا اور متھرا کے پیڑے کا ذکر آتا تو الہ آباد کے امرودوں کا ذکر بھی ہوتا۔ لیکن میں ان معاملات میں سخت متعصب ہوں۔ جس طرح میرا ایمان کی حد تک یقین ہے کہ پاکستان سے زیادہ، میٹھے، خوشبودار اور رسیلے آم دنیا میں کہیں نہیں اسی طرح مجھے یہ بھی یقین ہے کہ میرے شہر کے “ ملیر” کے جیسے امرود کہیں نہیں۔ ویسے امرود کے بارے میں میرا فخر اب دم توڑ رہا ہے کہ ملیر میں امرود کے باغات اب نہ ہونے کے برابر ہیں۔
لیکن ان سب باتوں کے باوجود الہ آباد شہر سے کبھی کوئی خاص انسیت یا تعلق پیدا نہیں ہوا۔ آج سے دس بارہ سال پہلے کراچی میں فٹ پاتھ سے ایک کتاب اٹھائی جس میں متفرق افسانے تھے۔ اس میں راجندر سنگھ بیدی کا افسانہ “ الہ آباد کے حجام “بھی تھا۔ بیدی کے افسانے ویسے ہی پڑھنے والے کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں ۔ اس افسانے میں حجام اور دیگر باتوں سے زیادہ جس چیز نے اثر ڈالا وہ تھا “ سنگم”۔
میں ان دنوں شارجہ میں رہتا تھا اور میرے گھر کے قریب ہی سمندر کی ایک کھاڑی تھی۔ بیدی کا افسانہ پڑھتا تو خود کو سنگم کے کنارے رہنے والا تصور کرتا۔ لیکن سنگم کے بارے میں بہت زیادہ معلومات نہیں تھیں اور ذہن میں کوئی واضح تصور نہیں تھا۔ افسانے کا خمار البتہ ہمیشہ رہتا۔
پھر یہ ہوا کہ پانچ چھ سال پہلے فیس بک پر کچھ نہ کچھ لکھنے لگا۔ بہت سے احباب حوصلہ افزائی کرتے لیکن ایک دوست کے اس قدر خوبصورت اور جامع تبصرے آتے کہ میں خود کو ساتویں آسمان پر محسوس کرتا کیونکہ یہ تبصرہ نگار انتہائی فاضل اور صاحب نظر تھے۔ لیکن ان کی جو چیز سب سے زیادہ متاثر کرتی تھی وہ ان کی انکساری اور عاجزی تھی۔ یہ احمد مکین صاحب تھے۔ ڈاکٹر احمد مکین۔ مکین بھائی کا تعلق الہ آباد سے ہے۔ ان کے توسط سے الہ آباد کی ہی کی ایک اور صاحب علم ہستی، ڈاکٹر ، پروفیسر محمد سلیم صاحب سے بھی تعلق خاطر قائم ہوا۔ اور سچ پوچھئے تو اب پہلی بار سنجیدگی سے الہ آباد کے بارے میں جاننے کا تجسس ہوا۔
آج کے دور میں سائنس کا سب سے بڑا تحفہ انٹر نیٹ اور اس کی پیداوار سماجی زرائع ابلاغ نے اب فاصلے مٹا دئیے ہیں۔ دنیا بھر کے بارے میں بہ یک جنبش انگشت کوئی سی بھی معلومات حاصل ہوجاتی ہیں۔ مجھے بھی سنگم کو دیکھنے اور جاننے کی کرید ہوئی۔ اب یہ اور بات ہے کہ سنگم ویسا نہیں تھا جیسا میرے خواب و خیال میں تھا۔ لیکن یہ اتنا برا بھی نہیں تھا۔ سنگم کے بارے میں جاننے کی کوشش کی تو کئی کہانیاں یاد آگئیں۔ بلکہ اب تو سنگم اور بھی اپنا اپنا سا لگتا ہے کہ میری موجودہ رہائش بھی کنارِ آب پر ہے اور اس میں سنگم سے بہت مماثلت ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ سنگم کنارے کیچڑ اور یاتریوں کا پھیلایا ہوا کچرا ہے اور دھوپ سے بچنے کے لیے چھپر ہیں جبکہ یہاں ایک کنارے دوبئی کا جدید شیخ زاید روڈ اور دوسرے کنارے ایک بالکل نئی تفریح گاہ ہے اور چالیس چالیس منزلہ عمارتیں ہیں۔
الہ باد کا سنگم دراصل ہندوؤں کے تین پوِتّر دریاؤں یعنی گنگا، جمنا اور سر سوتی کا سنگم ہے جسے تربینی یا تروینی بھی کہتے ہیں ۔ لاکھوں بلکہ کروڑوں ہندوؤں کے لیے متبرک یہ سنگم دراصل گدلے گنگا اور نیلی جمنا کا سنگم ہے اور تیسری سر سوتی میّا ہر چند کہ ہے مگر نہیں ہے۔ یہ شاید اب سوکھ چکی ہے۔ تربینی میں اشنان سے پاپ دھل جاتے ہیں لیکن جسمانی بیماریوں سے نجات ملتی ہے یا نہیں اس بارے میں راوی خاموش ہے کہ دریا کی موجودہ صورت دیکھ کر اس کا امکان کم ہی نظر آتا ہے۔
الہ آباد کے سنگم یا تربینی کو شاید کو ئی جانتا ہو یا نہ جانتا ہو، لیکن ہوگا کوئی ایسا کہ “ کمبھ” کو نہ جانے ۔ جس کسی نے ہندی فلمیں دیکھ رکھی ہیں ( اور ایسا کون سا پاکستانی ہوگا جس نے ہندی فلم نہ دیکھی ہو، اور کتنے ایسے پاکستانی ہیں جنہوں نے پاکستانی فلم بھی دیکھ رکھی ہے) اس نے یقیناً ایسی فلم ضرور دیکھی ہوگی جس میں کمبھ کے میلے میں دو بھائیوں کے بچھڑنے کی دردناک داستان بھی ہو۔ دو بھائی اور خاص کر جڑواں بھائی جب بھی اس میلے میں جاتے ہیں وہ بھگدڑ مچنے سے بچھڑ جاتے ہیں۔ دونوں بھائیوں کی پرورش ہمیشہ مختلف النوع اور مختلف الطبع قسم کے پیشوں سے وابستہ لوگ کرتے ہیں یعنی ایک بھائی قانون کے رکھوالے یعنی پولیس انسپکٹر کے گھر تربیت پاتا ہے اور دوسرا حالات کی ستم ظریفی کا شکار ہوکر اسمگلر یا ڈاکو بن جاتا ہے۔ اور یہ بھی حالات کی ستم گری ہوتی ہے کہ سوا ارب کے ہندوستان میں صرف اس مجرم کو گرفتار کرنے کی ڈیوٹی اس کے جڑواں بھائی کی ہی لگتی ہے جو اپنے بھائی کو تقریباً گولی کا نشانہ بنانے ہی والا ہوتا ہے، یا بنا چکا ہوتا ہے جب کندھے پر ایک مخصوص نشان، یا اس بھجن یا لوری کی وجہ سے جوان کی ماں بچپن میں سناتی تھی ، دونوں بھائی ایک دوسرے کو پہچان لیتے ہیں۔
خیر یہ تو ایک مذاق کی بات تھی، لیکن کمبھ کا میلہ شاید بنی نوع انسان کا کسی ایک جگہ سب سے بڑا اکٹھ ہے۔ یہ ہر بارہ سال کے بعد ہوتا ہے، درمیان میں چھ سال بعد ارد ھ یاترا بھی ہوتی ہے اور ان میلوں میں ڈیڑھ دو کروڑ لوگ جمع ہوتے ہیں اور یہ شاید حج سے بھی بڑا اجتماع ہوتا ہے۔ فرق یہ ہے کہ حج ہر سال ہوتا ہے اور یہ بارہ سال کے وقفے سے ہوتا ہے۔ اس میں بھی حج کی طرز کے انتظامات کیے جاتے ہیں۔ کمبھ کے میلے کی تفصیل کے لئے ایک پورا مضمون درکار ہے۔
الہ آباد صرف وزرائے اعظم کی وجہ سے ہی مشہور نہیں ۔ مشہور فلاحی، تعلیمی اور سیاسی شخصیت پنڈت مدن موہن مالو یہ کا تعلق بھی یہیں سے ہے۔ ان کے علاوہ ہندوستانی فلمی دنیا کا سب سے درخشاں ستارہ امیتابھ بچن، ان کے والد ہری ونش رائے بچن، مشہور ریاضی دان اور علیگڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر سر ضیاالدین احمد، ، مشہور کلاسیکی موسیقار پنڈت ہری پرساد چورسیہ، برصغیر کی ہاکی کی دنیا کا جادوگر دھیان چند اور کرکٹر محمد کیف یہ سب الہ آباد ہی کے باسی ہیں۔
اللہ آباد کے بارے میں معلومات اکٹھا کرنے کے لیے میں نے بہت سی ویڈیوز دیکھی تو مجھے بے تحاشہ بھوک لگنے لگی اور منہ میں بری طرح پانی بھر آیا۔ اگر آپ پرانے شہر کی طرف جائیں تو یہاں قدم قدم پر پچاس، سو بلکہ سوا سو سال پرانے ڈھابے اور حلوائی نظر آئیں گے۔ چاہے وہ چوک میں ہری رام کے سموسے، مسالہ چنے، پالک پکوڑے ہوں یا راجہ رام کی پیڑے اور ربڑی سے بھری لسی جو کلہڑ میں پیش کی جاتی ہے اور اس کی ٹھنڈک اور مٹھاس اور بڑھ جاتی ہے۔ یا پھر الہ آباد کی دال بھری کَچوری ، دم آلو، امرتی، ہو یا سول لائنز کا چُرمُرا ( نمکو) ہو یا پنڈت جی کی چاٹ ، پانی پوری یا دہی بڑے ہوں۔ یا بنارسی میٹھے پان ہوں، دیہاتی رس گلے ہوں، ستھورا لڈو ہو، گلاب کا پیڑا ( گلقند اور ربڑی کا پیڑا) اور دیگر انواع و اقسام کی لذت کام و دہن کا سامان ہو۔
کھانے کے علاوہ جو چیز الہ آباد میں جگہ جگہ نظر آتی ہے( الہ آباد جس کانام اب پریاگ راگ رکھ دیا گیا ہے لیکن جو نہ زبان پر چڑھتا ہے نہ دل مانتا ہے، چناچہ اس کا راگ کسی اور وقت الاپیں گے) وہ ہے الہ آباد کے چوراہے۔ سارا شہر ان چوراہوں سے تقسیم ہوتا ہے۔نینی برج کا چوراہا، بنک روڈ کا چوراہا، بالسن چوراہا، سبھاش چوراہا ، جواہر لال روڈ کا چوراہا اور بہت سے چوراہے۔ یہ شاید ہمارے ناگن چورنگی، جوہر چورنگی،گلشن چورنگی بہادر آباد چورنگی کا جواب ہیں ۔ ان چوراہوں کی خاص بات ان پر بنے ہوئے انواع و اقسام کے مجسمے ہیں جن میں دیوی دیوتاؤں ، سورماؤں، مزدوروں، رقاصاؤں، فنکاروں کے مجسمے شہر کی خوبصورتی بڑھاتے ہیں،۔
ہر شہر کا اپنا ایک مزاج، اپنی خوشبو اور ایک شخصیت ہوتی ہے۔ الہ آباد، یا پریاگ راج میں ہندوستانیت کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ یہاں قدم قدم پر مندر نظر آئیں گے۔ کرشن جی کا مندر، ہنومان جی کا مندر، مہا بیرجی کا مندر، کالی مائی کا مندر وغیرہ وغیرہ۔ لیکن جہاں تک میرا گمان ہے الہ آباد میں ہندو مسلم فساد شاید کم ہی ہوئے ہیں ، یا شاید کبھی نہیں ہوئے۔
یہ الہ آباد ہی تھا جہاں ۱۹۳۰ میں مسلم لیگ کے سالانہ اجلاس میں علامہ اقبال نے اپنا مشہور خطبہ الہ آباد دیا تھا جو دو قومی نظریہ کا نقیب اور قرارداد لاہور کا پیش خیمہ بنا۔ الہ آباد کا اسلامی تہذیب اور ثقافت سے بھی گہرا تعلق ہے۔ اکبر کا دیوان، زمین روز قلعہ، جامع مسجد، خسرو باغ آج بھی مسلم دور کی نشانیوں کے طور پر موجود ہیں۔ اکبر الہ آبادی، نوح ناروی، راز الہ آبادی ، اردو ادب اور تنقید کا ایک بڑا نام شمس الرحمٰن فاروقی اور ( رگھو پتی سہائے) فراق گورکھپوری بھی اسی شہر سے تعلق رکھتے تھے۔
پرانا شہر ایسا ہی ہے جیسے پاک وہند کے دوسرے شہر ہیں ۔ قدیم مکانات، پرانی دکانیں ٹوٹی پھوٹی سڑکیں۔ البتہ یہ شہر مجھے دوسرے شہروں کی بہ نسبت قدرے پرسکون محسوس ہوتا ہے۔ یہاں بمبئی، دلی، کلکتہ بلکہ لکھنؤ کا سا ہیجان نظر نہیں آتا۔ ہوسکتا ہے یہ محض میرا گمان ہو کہ یہ سب میں نے فلموں میں دیکھا ہے۔ لیکن نیا الہ آباد خاصا خوش کن ، صاف ستھرا اور خوبصورت ہے۔ سڑکیں بہترین حالت میں ہیں، نئی عمارتیں ، اسٹریٹ لائٹس، پل وغیرہ ایک ترقی یافتہ شہر کا تاثر دیتے ہیں۔ جدید شاپنگ مال شہر کی رونق بڑھاتے ہیں تو جدید عمارتوں میں نئے دور کی ضرورت کے مطابق کمپیوٹر، انفارمیشن ٹیکنالوجی، مالیاتی ادارے، اسپتال وغیرہ بھی بڑی تعداد میں ہیں۔ سول لائنز الہ آباد کا دل ہے۔ یہاں ایک بہت بڑا چرچ بھی ہے، لمبرولی کا ہوائی اڈہ کمبھ کے میلے جیسے یاتریوں کی ضروریات کے مطابق بنایا جارہا ہے ۔سر سوتی ہائی ٹیک سٹی، انڈیا ون مال ، مہارانا پر تاب چوک، سردار پٹیل مال، نذرتھ ہاسپٹل، ، بہت سے خوبصورت پارک، بھاردواج کا بڑا سارا مجسمہ اور کئی ایک چیزیں ہیں جو سیاحوں کی توجہ اپنی جانب کھینچتی ہیں۔ سنا ہے یہاں بھی اشوک کی لاٹھ ہے۔ میں نے تو دہلی میں قطب مینار کے پاس اشوک کی لاٹھ دیکھی تھی۔ ہوسکتا ہے یہاں بھی ہو، اشوک یا اشوکا کوئی معمولی بادشاہ تو تھا نہیں۔ اور بھی لاٹھ بنادیتا تو ہم کیا کرلیتے۔
لیکن یہ سب کچھ الہ آباد دیکھنے کی کوئی خاص وجہ نہیں بشرطیکہ بوجہ عقیدت آپ تربینی میں اشنان یا کمبھ کے میلے کی یاترا کرنا چاہتے ہوں۔ میرے لئے تو الہ آباد جانے کی صرف اور صرف ایک ہی وجہ ہے اور وہ ہے میرے مربّی اور محبی و مکرمی احمد مکین بھائی کے نیاز حاصل کرنا۔ سلیم بھائی کےدرشن تو دوبئی میں ہوگئے۔ مکین بھائی سے ملاقات دیکھیں مالک کو کب منظور ہوتی ہے۔ یار زندہ صحبت باقی۔
الہ آباد یا پریاگ راگ واسیوں کو یہ میرا آج عید کا تحفہ ہے۔
پاکستان کے معروف شاعر عزیز حامد مدنی کا یوم وفات
وہ لوگ جن سے تری بزم میں تھے ہنگامے گئے تو کیا تری بزم خیال سے بھی گئے وفات :...