وہ اور دن تھے
میں نصف شب کو دریچے کے اُس طرف تکتی
اداس رات کو پل پل سسکتے سنتی ہوں
تیری غرور میں ڈوبی نظر، تنی گردن
شکار مجھ کو کر ے کیوں عدم تحفظ کا
کہ پیچھے چھوٹ گئے ہیں اُمید وآس کے دن
نکل گئی ہے اب عمر رواں بہت آگے
وہ اور دن تھے کہ دل کے سکوں کو خدشہ تھا ،
نہ چاہے جانے کا غم جان بھی لے سکتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُردو کہانی نیت
ایک چھوٹے سے گاؤں میں عبداللہ اور اس کی ماں رہا کرتے تھے ۔۔۔ اس کے ابو کے اچانک انتقال...