یاد کیوں آرہا ہے مجھ کو تُو
کیوں نہیں بھولتا ہے مجھ کو تُو
لاکھ سجدوں ریاضتوں کے بعد
کون سا مل گیا ہے مجھ کو تُو
زندگی ایک آزمائش ہے
اور اُس پر سِوا ہے مجھ کو تُو
لوگ جو بھی کہیں، کہیں لیکن
نسخۂ کیمیا ہے مجھ کو تُو
اعتبار و یقیں کی ڈوری سے
کیوں نہیں باندھتا ہے مجھ کو تو
اپنے ہاتھوں ملا کے مٹی میں
ڈھونڈتا پھر رہا ہے مجھ کو تو
کیسے پہنوں کسی کی اُترن میں
کیا نہیں جانتا ہے مجھ کو تُو
جا کسی اور در پہ ڈھونڈ مجھے
مان جا کھو چکا ہے مجھ کو تو
مانتا ہی نہ تھا زمانے کی
اب نہیں مانتا ہے مجھ کو تُو
اپنے حالات تو بدل نہ سکا
اور بدلنے چلا ہے مجھ کو توُ
دیکھ لے ہو گئی ہوں کُندن میں
جو جلاتا رہا ہے مجھ کو تُو
پینڈورا اور امیدوں کے سُوٹ کیس
یونانی اساطیر میں کرۂ ارض کی پہلی عورت (خاتونِ اول) پینڈورا کودیوتا ہیفے اسٹس نے زیئس کی درخواست پر تخلیق...