یہ کیسی ریسرچ ہے ؟
ساٹھہ کے عشرے کے آخر کی بات ہے جب پہلی بار اپنے علاقے کے کسی کالج ٹیچر کے پی ایچ ڈی کرنے کی خبر سنی۔ یہ تھے جناب اسد اریب ۔
اس کے بعد جب گریڈوں اور ترقیوں کیلئے پی ایچ ڈی اور خاص تعداد میں ریسرچ پیپر شرط قرار پائے تو ، ہر کالج، یونیورسٹی ٹیچر اس کام میں جُت گیا، خواہ تحقیق کی صلاحیت اور مزاج attitude تھا یا نہیں۔
نتیجہ یہ کہ اس کام کی دکانیں کھُل گئیں۔
ایک دوست نے کئی لوگوں کو ڈاکٹر بنایا ، کہتے تھے کیا مشکل ہے 20 کتابوں سے 21ویں کتاب ہی تو نکالنی ہے۔
مسٔلہ یہ ہے کہ امداد باہمی سے ڈاکٹر بننے والوں کو پھر اپنے اداروں میں ریسرچ کا گائیڈ یا نگران بھی بننا ہوتا ہے ۔ اب اگر اپنی طبیعت ریسرچ کی نہ ہو تو رہنمائی کیا کریں گے اور ریسرچ کا معیار کیا ہوگا۔
ان باتوں کا خیال آج پھر ایک ریسرچ پیپر دیکھہ کر آیا۔
یہ مقالہ ہے۔۔۔ ریاست بہاول پور کا اہم اردو شاعر ۔۔۔ خلیق ملتانی
خلیق ملتانی مقبول شاعر تھے۔ اس خوش پوش ، سمارٹ شاعر کو کئی مشاعروں میں سنا ، چائے خانوں میں ملاقات بھی رہی۔ ان کے اشعار اب بھی یاد ہیں۔ اس لئے بہت اشتیاق سے مقالہ پڑھا لیکن مایوسی ہوئی۔
مقالے پر ایک نہیں دو ڈاکٹروں کے نام درج ہیں۔ ایک بہاولپور کی اسلامیہ یونیورسٹی کے پروفیسر اور دوسری بہاولپور کی خواتین یونیورسٹی کی۔۔
شروع میں ہی بتادیا گیا ہے کہ ہمارے ہاس تین چار بنیادی مآخذ ہیں۔ ایک( شاید ایم اے کا) مقالہ ’’ خلیق ملتانی، شخصیت اور فن ‘‘ ، بہاولپور کے شعرأ پر حیات میرٹھی اور ماجد قریشی کی دو کتابیں اور خلیق ملتانی کا مجموعۂ کلام اور اس پر علی احمد رفعت کا دیباچہ۔
اب آپ کے پاس پہلے سے لکھا ہوا ایک مقالہ بھی موجود تھا تو بات آگے بڑھنی چاہیے تھی۔ لیکن مقالے میں خلیق ملتانی کی تاریخِ پیدائش کا تعین ہونا تو کجا تاریخ وفات تک نہیں بتائی گئی حالانکہ یہ چند ہی عشرے پہلے کی بات ہے، سب اخباروں میں خبر آئی ہوگی۔
مقالے میں فتویٰ دے دیا گیا ہے کہ ’’ہم یہ بات ماننے کیلئے تیار نہیں کہ خلیق ملتانی ان کا اصل نام رہا ہوگا‘‘ لیکن کیوں؟ ان سے بھی پہلے کئی لوگوں کا نام خلیق تھا مثلاَ۔ چودھری خلیق الزماں۔ لیکن اگر یہ اصل نام نہیں تھا تو اصل نام معلوم کرنے کیلئے کیا ریسرچ کی گئی؟ وہ ریسرچ صرف اتنی ہے کہ ڈاکٹر روبینہ ترین کی کتاب ’’تاریخ ادبیاتِ ملتان‘‘ دیکھی ، اس میں بھی نہیں بتایا گیا [ آخر میں حوالہ جات کی جو فہرست دی گئی ہے ،اس میں روبینہ ترین کی کتاب کا نام صفحہ نمبر کے ساتھہ درج ہے، اس رعایت سے دس پانچ اور کتابوں کے نام بھی دئیے جاسکتے تھے کہ ان سے بھی اصل نام نہیں ملا، عموماََ حوالوں کی یہ فہرست رعب جمانے کیلئے ہوتی ہے۔ بیشتر حوالےدوسرے مقالوں سے نقل کئے گئے ہوتے ہیں ، اصل کتاب کسی نے نہیں دیکھی ہوتی]
اب سوچنے کی بات ہے کہ آپ نے عنوان لکھا ہے ۔۔۔ ریاست بہاول پور کا اہم اردو شاعر ۔۔۔ خلیق ملتانی۔۔۔ اور ڈھونڈ رہے ہیں ملتان کے شاعروں میں ۔
یعنی ابتداْ /عنوان ہی درست نہیں !
یقیناََ وہ ملتانی تھے۔ ان کا گاؤں امیر پور تحصیل رنگ پور ضلع مظفر گڑھ ، بہاولپور سے ایک ڈیڑھ گھنٹے کی مسافت پر ہوگا۔ وہاں کئی لوگ جانتے ہوں گے کہ ان کا نام خلیق تھا یا کچھہ اور۔ اور اگر کچھہ اور تھا تو کیا۔ یہ اپنےاس علاقے کے کسی شاگرد کے ذریعے بھی معلوم کیا جاسکتا تھا۔ علاقے کے پرائمری سکول، نمبردار، چوکیدار کے رجسٹر اور محکمہ مال کے کاغذات بھی دیکھے جاسکتے تھے، آخر لوگ تحقیق کیلئے بھارت تک جاتے رہتے ہیں۔[ایک نام میرے ذہن میں آریا ہے،شاید کبھی سنا یا پڑھا ہوگا، لیکن بلا تصدیق نہیں لکھنا چاہتا]
خلیق ملتانی پڑھے لکھے تھے ، مقالے میں ان کی تعلیم کا بھی کوئی ذکر نہیں۔ تعلیمی اداروں سے بھی نام ، تاریخ پیدائش مل سکتی ہے۔
مقالے کے آخر میں اعلان کیا گیا ہے کہ ’’اب تو شاید یہ امکان بھی نہیں رہا کہ (خلیق ملتانی کا) کلام کہیں محفوظ ہو اور چھپ سکے‘‘ ۔۔۔ یہ نہیں بتایا گیا کہ اسے نتیجے پر کیسے پہنچے، کس کس سے معلوم کیا، کہاں کہاں تلاش کیا۔ ان کے خاندان کا کوئی ذکر نہیں۔ بیوی بچے تھے یا نہیں ؟ اگر تھے تو اب کہاں ہیں؟ کوئی بھائی بہن؟ وفات پر اثاث البیت کس کے حوالے ہوا؟ اسی میں ان کی ڈائریاں ، بیاضیں ، دیوان ہوں گے۔ توقع ہے وہ محفوظ رکھے گئے ہوں گے۔ وہ تلاش کریں ، مرتب کریں۔۔۔ یہ ہوگی تحقیق !
یاد آیا خلیق ملتانی کا مجموعہ پاکٹ سائز میں اور پلاسٹک کور کے ساتھہ تھا۔ قیمت درج نہیں تھی۔ کچھہ ایسی عبارت لکھی تھی کہ آپ سخن شناس ہیں ، ادب کی قیمت کس نے لگائی ہے۔۔۔ یعنی حسبِ توفیق جو نذرانہ چاہیں دے دیں۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“