(Last Updated On: )
عظمیٰ اطہر علوی ( خان پور )
انسان نے جب بولنا شروع کیا ہوگا اور اُس کے لیے جذبات لفظوں کی صورت میں ڈھلنے لگے ہوں گے کہ جن کے ذریعے وہ اپنا مافی الفمیر بیان کر سکے تو یقینا اُس وقت اُس نے اپنے خیالات کا اظہار یقینا نثر کی شکل میں کیا ہو گا۔ لیکن اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ جب ادب کا رجحان پیدا ہوا اور انسان کو اپنی ادبی تخلیق کا خیال آیا تو اُس نے شعر میں اپنے خیالات ، جذبات اور احساسات ادا کیے۔
کلام غیر موزوں نثر کہلاتی ہے یعنی نظم و نثر کا امتیاز موزونیت قرار پایا۔ جونثری نظم کے سبب ختم ہوتا دکھائی دیاگویا ہم کہہ سکتے ہیں۔ اردو زبان ایک شاعرانہ زبان ہے اور نثر اور نظم دونوں ہی ایک قسم کے آہنگ سے جڑے ہوئے اور آراستہ ہیں۔ ہاں نثر اور نظم کو ایک صورت میں فرق کیا جا سکتا ہے نظم کا رجحان دل اور نثر کا رجحان دماغ کی طرف مائل ہے اور یہ دونوں ہی دل و دماغ کی مکمل شرکت سے وجود پاتے ہیں۔ کیوں کہ نظم کا بغیر کسی جذبہ، دھڑکن اور احساس کے کوئی امکان نہیں۔ اور نثر بغیر شعور ، عقل اور منطق کے ممکن نہیں لیکن اس بات سے ہم یہ نتیجہ نکالنے میں بالکل غلط ہیں کہ نثر جذبہ واحساس سے عاری ہوتی ہے بلکہ جدید نثری تجربے احساس و جذبہ کی کشتی پر سوار ہو کر ہی آگے کی طرف روا ں دواں ہیں۔
زاہد شمسی ؔ کی نثری تصنیف’’ہدف کی تلاش‘‘ہے جس کے فکری اور فنی پہلوئوں کو مجھے اُجاگر کرنا ہے جیسا کہ میں نے پہلے اوپرعرض کیا کہ جدید نثر جذبہ و احساس کی یکجائی کے ساتھ فکری گہری کو ساتھ لیے رواں دواں ہے تو زاہد شمسی ؔ کی’’ہدف کی تلاش‘‘میں جذبہ و احساس کی کارفرمائی اور فکر کی گہرائی بلکہ گہرا سماجی شعور دیکھا جا سکتا ہے اور اس سب کے ساتھ ساتھ فن کی عمدگی بھی ملاحظہ کی جاسکتی ہے۔
’’ہدف کی تلاش‘‘ایک راستے کا تعین ہے اسلامی تاریخ سے روشناس کراتی ۔ایک پختہ تحریر کہ جس کے لکھنے کا اولین مقصد موجودہ نامساعد اور ابتر حالات میں جب مسلمان پھر سے زوال پذیر ہیں اخلاقی قدریں دم توڑ رہی ہیں انسانیت سسکتی دم توڑتی نظر آتی ہے ایک مثبت رجحان لانے کی ایک بھرپور کوشش ہے ۔وطن عزیز پاکستان سے محبت اور کردار سازی اس کا مرکزی موضوع ہے کہ جس کے ذریعے زاہد شمسی فرائض کی ادائیگی کی اہمیت کا احساس دلاتے ہیں۔
زاہد شمسی نے اس کتاب میں زندگی کے مختلف تجربات و مشاہدات کو شامل کیا ہے اس کتاب کی باقاعدہ کوئی صنف نہیں لیکن اپنی نوعیت کی ایک مکمل اور جامع کتا ب ہے۔
زاہد شمسی ؔ نے حقیقی ہدف کو حاصل کرنے کی جستجو اور اس کے مطالعہ کی مکمل یکسوئی کے لیے اعتماد کے ساتھ درج ذیل ترجیحات بتائی ہیں کہ جن کی روشنی میں منزل کا تعین اور حصول واضح ہو سکے۔
یعنی بہ حیثیت انسان ، بہ حیثیت مسلمان اور بہ حیثیت پاکستانی ہمارا کیا ہدف ہے اس مقصد کے لیے زاہد شمسی نے مطالعہ کائنات ، علم و ادب ، فرامین، احادیث مبارکہ ، جناب رسالت مآب کی عملی زندگی اور کلام پاک اور تاریخ اسلام سے مثالیں پیش کیں تاکہ موضوع کی مکمل وضاحت ہو سکے۔ اور زاہد شمسی ؔ نے مکمل جامعیت کے ساتھ اپنی بات کو سمجھا یا ہے کہیں کوئی کمی کوئی پہلو تشنہ نہیں چھوڑا۔
آدمی مفکر بھی ہو اورعملی بھی ہو ایسا شاذ ہوتا ہے تاہم زاہد شمسیؔ میں یہ دونوں صفات بدرجہ اتم موجود ہیں کہ وہ محض لفاظی کرنا نہیں جانتے مطلب باتوں کے دھنی نہیں اُن کا کردار بھی اس بات کا ثبوت دیتا ہے۔
یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ دنیا میں زندگی بسر کرنے کے لیے انسان کو ایک طریقہ زندگی درکار ہے جسے وہ اختیار کرے انسان جانور نہیں جس کی رہنمائی کے لیے صرف جبلت کافی ہے بلکہ اُس کو اپنے انتخابت سے خود ایک راہ چاہیے جس پر چل کر وہ اپنی ذات کے بہت سے مطالبات کو پورا کرے ۔ اس کو گھریلو زندگی کے لیے خاندانی تعلقات کے لیے معاشی معاملات کے، ملکی انتظام کے لے بین الاقوامی ربط و تعلق کے لیے معاشرتی ضروریات اور زندگی کے بہت سے دوسرے پہلوئوں کے لیے ایک ایسی راہ کی ضرورت ہے جس پر وہ ایک شخص بلکہ ایک نوع، ایک جماعت اور ایک قوم کی حیثیت سے چلے اور ان مقاصد تک پہنچ سکے۔ اُس ہدف کو تلاش کر سکے پا سکے جس کے لیے اُس کی تخلیق کی گئی ۔ یہ ساری بحث ہمیں زاہد شمسیؔ ’’ ہدف کی تلاش ‘‘میں نظر آتی ہے۔
نوع انسانی کو جتنی شدت سے آج دین و مذہب کی اعلیٰ اقدار اکی رہنمائی کی ضرورت ہے اتنی شاید آج سے پیشتر کبھی نہیں تھی آج نوع انسانی کو علم کے کسی ایسے منبع کی طلب ہے جو ٹھوس اور یقینی ہو۔ علم کی اس طلب کے پیچھے نوع انسانی کی دو ضرورتوں کی تڑپ صاف دکھائی دے رہی ہے ان میں پہلی ضرورت تو انسان کی انفرادی روحانی تسکین ہے اور دوسری ضرورت انسان کی اجتماعی اور معاشرتی زندگی کی ہے ایک عالم گیر روحانی بنیاد کی ہے تاکہ انسانی معاشرہ جہاں خارج میںمادی طور پر ترقی کی منازل طے کر رہا ہے وہیں انسان کا روحانی ارتقا بھی جاری رہ سکے۔
اسلامی نظام حیات کی تشکیل کے لیے ہم نے ایک علیحدہ وطن کا مطالبہ کیا اور چوں کہ ہمارے رہنماوئوں کی لگن سچی، ارادے مستقیم اور جذبوں میں اسلامی اخوت اور مساوات کا پہلو نمایاں تھا اس لیے ہمیں کامیابی حاصل ہوئی اور ہم نے پاکستان حاصل کر لیا آج ہم اپنی اقدار کو بھُلائے خود فراموشی کے عالم میں اپنے ہدف سے نا واقف ہیں ہمیں نہ راستوں سے شناسائی ہے نہ منزلوں کی خبر ہے ۔زاہد شمسی ؔ نے جھنجھوڑتے ہوئے غفلت سے بیدار کیا ہے ہمیں کٹہرے میں لاکھڑا کیا گویا عدالت سی لگا دی ہے ۔
امام غزالی کہتے ہیں:
’’پس آدمی میں وہ سب چیزیں ہیں جو کچھ چوپائوں اور درندوں کو ملی ہوئی ہیں اور ان سب سے زیادہ ایک اور کمال عطا کیا ، وہ کیا ہے؟ عقل کہ جس کے سبب سے خدائے تعالیٰ کو پہچانتا ہے اور اُس کی جملہ عجائب صفتوں کو جانتا ہے اور اسی کے سبب شہوت و غضب کے ہاتھوں سے رہائی پاتا ہے اور یہ صفت فرشتوں کی ہے اِسی صفت کے سبب آدمی تمام بہائم اور درندوں پر غالب ہے یہاں تک کہ سب زمین کی چیزیں اور یہ سب کے سب اُس کے
مسخر ہیں‘‘۔ [۱]
زاہد شمسیؔ کی شاعری میں بھی اس بات کا شعور ملتا ہے کہ وہ انسان کی اپنے منصب سے غفلت اور بے خبری سے کبیدہ خاطر ہیں اُن کی نثر میں بھی یہی تڑپ واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے۔
زاہد شمسیؔ کتاب کا آغاز اس خوب صورت شعر سے درد مندانہ انداز سے کرتے ہیں۔
آئو الفت کا راستہ ڈھونڈیں
اب تو نفرت نے انتہا کی ہے
انسانی قدریں پامال ہیں’’ہدف کی تلاش‘‘سے ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے۔
’’تمام حیوانات ، حشرات الارض ، پرند، چرند اور وحوش بھی صبح سے شام تک فطرت کے
احکامات کی بجا آوری میں مصروف نظر آتے ہیں ہم جرثومی دنیا کا بھی جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں وہ جرثومے جو نگاہوں سے نظر آتے ہیں یا خورد بین سے دکھائی دیتے ہیں یا بڑی تعداد ان جرثوموں کی ہے جو آج تک بالواسطہ یا بلا واسطہ چشم انسان دیکھ ہی نہیں سکی ہے ۔جبکہ ایک لامتناہی کثیر تعداد میں یہ ہوا، پانی ، آگ، زمین ، آسمان ہر تخلیق کے اندر موجود ہیں اور اپنے فرائض مکمل یکسوئی کے ساتھ سرانجام دے رہے ہیں ۔یہاں سب سے اہم سوال اُٹھتا ہے کیا انسان بہ حیثیت احسن الخلائق اپنے اہداف کو ذمہ داری اور نفاست سے نبھا رہا ہے جبکہ اسے اللہ تعالیٰ نے سب سے بڑا میزان’’عقل‘‘بھی عطا کر رکھا ہے جو حضرتِ انسان کا
خاصہ ہے‘‘۔ [۲]
یہاں کس قدر خوب صورتی سے زاہد شمسیؔ نے انسانوں کو یہ احساس دلانے کی کوشش کی ہے کہ انسان اشرف المخلوقات ہے اور اُسے یہ شرف’’عقل‘‘کی بنا ء پر عطا کیا گیا۔ لیکن افسوس انسان اُس عقل کو استعمال نہیں کر پا رہا۔ اِسی سبب وہ اپنے ہدف سے دور ہے۔
زاہد شمسیؔ کے خیال میںآج ہم فحط الرجال کا شکار ہیں جیسا کہ ’’آواز ِدوست‘‘میں مختار مسعود کہتے ہیں۔
’’قحط میں موت ارزاں ہوتی ہے اور قحط الرجال میں زندگی ۔مرگِ انبوہ کا جشن ہو تو قحط ، حیات بے مصرف کا ماتم ہو تو قحط الرجال ۔ ایک عالم موت کی ناحق زحمت کا دوسرا زندگی کی
ناحق تہمت کا‘‘۔ [۳]
آج ہم بہ حیثیت اشرف المخلوقات زندگی کی ناحق تہمت لیے بیٹھے ہیں کیونکہ ہماری حیات بے مصرف ہے ۔ہم اپنے پیدا کیے جانے کے اصل مقصد کو نہیں پہچانتے ہم اپنے ہدف سے واقف نہیں اُس کی تلاش میں سر گرداں نہیں ۔
زاہد شمسیؔ کہتے ہیں:
’’مگر انسان۔۔۔ فقط۔۔۔انسان فضیلت ، گمراہی اور ناعاقبت اندیشی کے نفسیاتی گھیرائو سے باہر نہیں نکل پا رہا ، یہ کمزوریاں ، کوتاہیاں عام انسان کے زمرے میں بھی قطعاً لکھی جائیں گی غفلتوں ، کوتاہیوں اور غلطیوں کی سزا موجود ہے جس کا ہر دو صورتوں میں اس
زندگی میں بھی اور آخرت میں بھی سامنا تو کرنا ہی پڑے گا‘‘۔ [۴]
زاہد شمسیؔ کی نثر میں مقصدیت بھی ہے اورفصاحت اور شیریں بیانی بھی ہے پُر سوز دل گداز کیفیات بھی شامل ہیں ۔زاہد شمسیؔ نے تاریخ کے اوراق بڑے دل نشین انداز میں پلٹے ہیں تاریخی واقعات کا تانا بانا بہت خوبصورتی سے باندھا ہے کہ کہیں بھی تحریر میں بوجھل پن یا اکتاہٹ پیدا نہیں ہوتی ۔ وہ وطن کی محبت کو اجاگر کرتے ہوئے ہمیں ہماری کوتاہیوں کی نشاندہی کرتے ہوئے ایک نئے جہاں کا پتا دیتے ہیں ۔
شبیہ زہرا کہتی ہیں:
’’زاہد شمسیؔ کی نثر میں امیدوں کے روشن چراغ ترقی کی راہوں پر جلتی ہوئی قندیلیں اور ہم
وطنوں کے سپنوں میں اپنے وطن سے محبت کی شمعیں جگمگاتی محسوس ہوتی ہیں‘‘۔ [۵]
زاہد شمسیؔ کا اُسلوب ِ تحریر:
عہد ِحاضر میں نثر کے اعلیٰ معیار اور زبان و بیان میں لہجے کی ندرت کے ساتھ ساتھ تجربات اور مشاہدات کا خیال رکھنا اور اُنھیں خوب صورتی سے بیان کرنے کا ہنر بھی جاننا ضروری ہے اس لحاظ سے زاہد شمسیؔ بہت نمایاں اور ممتاز نظر آتے ہیں۔
بقول طارق سعید:
’’نثر کی ایک اور صفت یہ متعین کی گئی ہے کہ وہ انسان کے اعمال کے متعلق فیصلے صادر کر تی ہے ، حکم کاکا م دیتی ہے اس کی زبان انصاف کی زبان کی طرح صحیح باوقار اور متعین ہوتی ہے اسی طرح نثر جب کسی شاعر یا کسی نثار کی ترجمانی کرتی ہے تو وہ فیصلہ بھی صادر کرتی ہے لیکن اپنے عمل میں تخلیقی بھی ہو جاتی ہے نثر بھی جذبات کو اکساتی ہے اور یہی اس کے تخلیقی ہونے
کی کسوٹی ہے‘‘۔[۶]
اس بات کے تناظر میں زاہد شمسیؔ کے اسلوب تحریر کا تجزیہ کیا جاتا ہے۔
زاہد شمسیؔ کے اسلوب تحریر کا نمایاں وصف سادگی اور روانی ہے اس سادگی اور روانی میں حقیقت کی آمیزش کے ساتھ جوش اور ولولے کی کیفیت بھی پائی جاتی ہے ۔زاہد شمسیؔ کا علمی وقار اُن کی تحریر کی ایک ایک سطر میں نمایاں ہے، مگر وہ اپنے اسلوب اظہار کو عالمانہ، ادق اور بوجھل الفاظ و تراکیب کے استعمال سے گراں بار نہیں کرتے ، بلکہ ہر جگہ اُن کا طرز بیان سادہ اور رواں رہتا ہے ایجازو احتصار کی یہی کیفیت اُن کے سادہ اور رواں، اسلوب ِ بیان کو ادبیت کے رنگ میں رنگ دیتی ہے۔
مثال دیکھئے:
’’ہدف کی تلاش ہزاروں سال سے انسانی زندگی کا اہم ترین فکری خزانہ ہے جسے اس دنیا سے جانے والا شخص تلاش کرتا رہا ، آنے والی دنیا بھی اسے ضرور تلاش کرے گی‘‘۔ [۷]
زاہد شمسیؔ کی تحریر (نثر) کی ایک نمایاں خوبی قدرتِ الفاظ ہے انہیں الفاظ کے انتخاب اور برتائو پر پوری قدرت حاصل ہے وہ موقع محل کے مطابق الفاظ و تراکیب کے استعمال سے اپنی تحریر میں بے ساختگی اور بر جستگی کا وہ رنگ بھرتے ہیں کہ عبارت کا حُسن بڑھا دیتے ہیں۔
اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’دریا، سمندر، تہہ زمین ، پانی اور شبنم ، بادل اور سب بارشیں بھی مل کر اس پیاس کو کبھی نہیں مٹا سکیں گی جب تک ہماری تڑپ، بے تابی، بے چینی ، فکر ادراک اور سوچوں کو وہ ساحل نہیں مل جاتا جو ہماری جان و دل اور روح کو سیراب کر دے اور ہمیں اس پیاس سے آزاد کر دے۔ جب تک ہماری روح میں سل سبیل،آبِ زم زم اور کوثر و تسنیم کے چشمے اُبل پڑیں اور ہماری پیاس اپنے ہدف کو پا نہ لے گی اس وقت تک ہماری رگ رگ پیاسی رہے گی‘‘۔
[۸]
زاہد شمسیؔ کا انداز مورخانہ اور محققانہ ہے ۔زاہد شمسیؔ نے تحقیق و توثیق کے اس اصول کو بڑی محنت اور دیانت داری کے ساتھ پیش نظر رکھا ہے ، کہ اس موضوع پر زیادہ سے زیادہ مواد کا مطالعہ کر کے تحقیق کا حق ادا کرتے ہوئے پوری دیانت داری سے ایک بے لاگ تبصرہ کیا ہے۔
طارق سعید کہتے ہیں:
’’نثر مین زور کلام یا جوش بیان کا رنگ ہلکا ہوتا ہے تاہم ناول نگار اور افسانہ نویس، انشاء پرداز اور نثر کے چوٹی کے فن کار، الفاظ کی راکھ سے جذبے کی آگ کی چنگاریاں دکھا دیتے
ہیں‘‘۔ [۹]
زاہد شمسیؔ کی نثر کی ایک نمایاں خوبی اُن کے اسلوب تحریر کا ایک وصف اُن کا تقابلی اور استدلالی انداز ہے۔ زاہد شمسیؔ قرآن پاک سے دلائل و براہین پیش کرتے ہیں اور مختلف کتابوں سے حوالہ جات پیش کرتے ہوئے استدلالی انداز اختیار کرتے ہیں ۔تاہم ان کا یہ استدلالی انداز خشک اور غیر دلچسپ ہر گز نہیں، بلکہ ان کی علمیت اور قدرت ِ الفاظ نے اس میں ادب کی چاشنی ڈال کر اسے دلچسپ سلیس اور رواں بنا دیا ہے۔
ایک اقتباس دیکھیے:
’’دراصل خلافت راشدہ اور حضر ت عمرؓ بن عبدالعزیز کے دور کے بعد ملوکیت آہستہ آہستہ اپنے قدم جماتی چلی گئی۔ بظاہر مسلمانوں کی حکومت ہوتی مگر ملوکیت اپنے فیصلوں کو حیلہء شرعی کا سہارا لے کر اپنی بادشاہتوں کو قائم رکھنے کے جواز کے ساتھ اپنے تخت کو مضبوط کرتی رہی مگر عوام اتنا ہی کمزور ہوتے چلے گئے جب کہ وہی عوام دراصل تخت و تاج اور حکومت کی مضبوطی کا کلیدی اور مرکزی نقطہ تھے یہ وہ وقت تھا جب دوسرے مذاہب اندر ہی اندر اپنے آپ کو مضبوط کر رہے تھے جب کہ مسلمانوں کا انداز ملوکیت اپنی عوام کو دبائو میں رکھ کر عوام کو
کمزور نہیں کر رہا تھا بلکہ خود اپنی حکومت کو کمزور کر رہا تھا‘‘۔ [۱۰]
زاہد شمسیؔ کی تحریر کی ایک خصوصیت اُس کا توازن و اعتدال ہے زاہد شمسیؔ کی تحریر توازن و اعتدال کے با وصف شگفتہ رہتی ہے اور پڑھنے والا اس میں دلچسپی لیتا رہتا ہے اس میں کچھ تنقیدی نکات بھی ہیں جو گوارا اور معقول ہیں۔
اقتباس دیکھئے:
’’پاکستان جیتی جاگتی حقیقت اور الحمد اللہ عظیم مملکت ِ خدا داد ہونے کے ساتھ ساتھ واحد اسلامی مملکت ہے جو جوہری توانائی سے لیس ہے جس نے اقوام ِ عالم میں اپنی دھاک بٹھا دی ہے یہ ہمارے ایمان کا حصہ ہونا چاہیے کہ پاکستان کا وجود میں آنا خدا وندِ قدوس کا
فطری عمل سے اس کی بنیاد رکھتا ہے‘‘۔ [۱۱]
زاہد شمسیؔ یہاں ہمیں جذبات سے اپیل کرتے دکھائی دیتے ہیں وہ اپنی بات دلائل سے ثابت کرنے کے ساتھ ساتھ اسے درد مندانہ انداز میں اسی طرح پیش کرتے ہیں کہ پڑھنے والا بے اختیار اُن کی بات کا قائل ہو جاتا ہے۔
اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’کیوں کہ وہ آپ کا دشمن ہے آپ بھی کُھل کر اس کا سامنا کریں اور اسے دندان شکن جواب دیں تاکہ اس کے دم خم اور طاقت میں کمی آجائے، نفسیاتی طور پر کمزور ہو جائے اور آپ سے خائف بھی ہوجائے ایسا کرتے ہوئے آپ اس پر اپنا موقف واضح کر دیں کہ جب میں تمہیں پہچان چکا ہوں تو میں تمہاری طرف سے رتی بھر بھی غافل نہیں اور میرے
سارے حواس اس معاملہ میں ہمہ وقت بیدار اور چوکس ہیں‘‘۔ [۱۲]
زاہد شمسی ؔ کے ہاں زبان و بیان کی بھرپور چاشنی ملتی ہے انہیں صاف ستھری ، سلیس اور بامحاورہ زبان لکھنے پر بڑی قدرت حاصل ہے۔
ایک عمدہ مثال دیکھئے۔
“’’علامہ اقبال تن تنہا اُس خاموش مسجد میں داخل ہوتے ہیں ویران اُجڑی ہوئی، سناٹوں میں سنسناتی ہوئی آرزدہ حال، رنج سے چُور درد و الم کی تصویر ، غم و اندوہ میں ڈوبی ہوئی، عظیم اسلامی مملکت کی عظیم عمارت ، اللہ تعالیٰ کی عظمت کی گواہ اور نشانی کس عالم کسمپرسی میں اس مرد ِ مومن کو دیکھ رہی ہے جوکتنی صدیوں کے بعد اسی کی پیاسی فضا میں ایک عجیب انداز میں
داخل ہو رہا ہے‘‘۔ [۱۳]
دین ِحق سے محبت اور مشرقی اقدار سے وابستگی زاہد شمسیؔ کے ہاں واضح طور پر دیکھی جا سکتی ہے وہ دین ِ حق کے راستے پر چلنے کو بقا کی ضمانت تصور کرتے ہیں اور اقبال کی طرح مشرقی اقدار کے دل دادہ ہیں اور یہی بات اُن کی تحریر کا حصہ ہے۔
اقتباس ملاحظہ کیجیے۔
’’بھائی چارے کی خوش بو، مدینہ منورہ کا وسیع دامن ، خلوص ، پیار اورایثار کے نا ختم ہونے والے رشتے اور رنگ آج بھی اس گئے گزرے دور میں قائم اور دائم ہیں۔ ایسے مخیر حضرات کی کمی نہیں جنہوں نے جذبہ مئواخات کو آج بھی اپنی زندگیوں کا آئین بنا رکھا ہے ایسے دل آج بھی موجود ہیں جو مواخات کی طاقت لیے دھڑکتے ہیںایسے اسلامی پیروکار آج بھی ہمارے ارد گرد زندہ سلامت ہیں جن کا اوڑھنا بچھونا ہی مئواخات کا حسین ترین لباس ہے ۔ جن کی شخصیت کا پر تو رکھ رکھائو ، مقصدِ حیات اسی جذبے سے لبریز ہے وہ باغ آج بھی موجود ہیں جس کے پھولوں سے پیار، محبت اور الفت کے رنگ جھلکتے ہیں”۔ [۱۴]
زاہد شمسیؔ نے اپنی تحریر میں معاشرتی خرابیوں کو اپنی طنز کا نشانہ بنایا ہے مگر اُن کا طنز زہر ناک نہیں بلکہ لطیف طنز ہے اور اس کے ساتھ اصلاح کا پہلو بھی اُن کے پیش نظر رہا ہے ۔ وہ کہتے ہیںکہ سیاسی اور سماجی خرابیوں کی اصلاح دل چسپ طریقے سے کی جائے۔
اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’ہم موجودہ قیادت اور تمام رہنمائو ں سے التماس کر تے ہیں کہ جب آپ اپنے گھروں میں خوب صورت وسیع و عریض گھاس کے لان بناتے ہیں تو ان میں خوب صورت کیاریاں بھی ترتیب دی جاتی ہیں ۔طرح طرح کے دلکش پودے لگائے جاتے ہیں ، انہیں آپ پھولوں سے مزین کرتے ہیں ہر وقت انہیں تروتازہ رکھنے کا اہتمام کیا جاتا ہے ۔فوارے اور نظارے آپ کے دل کو لبھاتے ہیں سبز فرش ٹھنڈے ماحول کا احساس اور خوب صورت رنگین ماحول آپ کی روح کو ترو تازہ کر دیتا ہے۔کبھی آپ کے اس باغ میں کہیں کوئی ذرا سی کوتاہی ہوتی ہے تو رکھوالوں کی سرزنش کی جاتی ہے۔یہ باغ آپ کو کتنا عزیز ہے۔ہ ملک بھی تو آپ کا اپنا ایک باغ ہے، جب بھی آپ اس بنجر ہوتی ہوئی زمین اورمرجھائے ہوئے
باغ کو دیکھتے ہیں تو شاید سوچتے ہوں گے”۔ [۱۵]
زاہد شمسیؔ خانوادئہ سادات سے تعلق رکھتے ہیں اور خود بھی طبیعتاً درویش بندے ہیں اُن کی پرورش بھی مذہبی اور صوفیانہ ماحول میں ہوئی اس لیے اُن کا صوفیانہ رنگ اُن کی تحریروں میں جابجا جھلکتا ہے ۔چاہے وہ شاعری ہو یا نثر ۔
اقتباس ملاحظہ کیجیے :
’’اگر بزرگان دین سے اصلاح لیں علماء دین سے رہنمائی حاصل کریں (جن کا معاش آزاد ہے اور دن رات علوم الاہیہ کے حصول میںمستغرق ہیں) اسکالرز سے مشاورت کریں تو ہمیں قطعی واضح ہو جائے گا کہ وجہ تخلیق کائنات کیا ہے اس میں جُڑی ایک ایک شے کا کیا ہدف ہے ،ہمیں سب سے افضل قرار دیتے ہوئے تخلیق کیا گیا اور ہماری خِلقت کا بھی ہدف
کیا ہے، اسے بھی یقینا معین اور مقرر کیا گیا‘‘۔ [۱۶]
زاہد شمسیؔ کی نثر گہرے سماجی شعور کا پتا دیتی ہے اُن کا مشاہدہ بہت وسیع ہے اور سماجی و معاشرتی زندگی کے متضاد پہلوئوں کی جانب اُن کے اشارے بہت فکر انگیز ہیں گویا اُن کی تحریر قاری کے لیے سوچ اور فکر کے دروازے کھول دیتی ہے۔
ایک مثال دیکھیے:
’’مسلمانانِ عالم کی ضرورت ہے تو صرف اپنے اندر سے اُٹھی ہوئی اپنی ہی سچی قیادت ہے ایک عظیم انقلاب کی ضرورت ہے جس میں اولین ترجیح اپنے وطنِ عزیز کی خاک کا ایک
ذرہ ہے جو ہر شخص کی انفرادی ذات کی طرح اہمیت رکھتا ہے‘‘۔ [۱۷]
زاہد شمسیؔ نے معاشرتی کجیوں اور مضحکہ خیز غلطیوں پر گہرا طنز کیا ہے اور اس طرح وہ معاشرے میں بسنے والے تمام انسانوں کو اُن کی کوتاہیوں کی طرف نشاندہی کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
’’کل ایک قوم کو ایک ملک کی تلاش تھی آج ایک ملک کو قوم کی تلاش ہے‘‘۔ [۱۸]
کیوںکہ قوم اپنا وقار کھو چکی ہے اپنا قومی تشخص گنوا بیٹھی ہے۔
زاہد شمسیؔ کی تحریر میں ہم جگہ جگہ اخلاص مندی دیکھ سکتے ہیں وہ اپنے دلی جذبات و احساسات کو لفظوںکا پیراھن بڑے خلوص سے پہناتے ہیں کہ اُن کے لفظ لفظ سے خلوص کی خوشبو آتی ہے کہ محبت زاہد شمسیؔ کامسلک اور درد مندی اُن کا شیوہ ہے اور یہی شان اُن کی تحریر کی زینت بھی بن جاتی ہے۔
زاہد شمسیؔ کی تحریر کی ایک اور خوبی اُن کا یقین اور اعتماد ہے وہ اپنی بات پر یقین و اعتماد رکھتے ہیں اپنی معلومات پر یقین و اعتماد رکھتے ہیں ۔اپنے دلائل کی صحت پر یقین و اعتماد ہے اورسب سے بڑھ کر اپنے اخلاص پر یقین و اعتماد ہے۔
اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’وفائے محمدؐ کی اہمیت کا اندازہ کیجیے؟ کیا آپ کے ہاتھ اللہ کے ہاتھ نہیں بن جاتے آپ کی زبان ، اللہ کی زبان نہیں بن جاتی ، کیا آپ کی طاقت اللہ کی طاقت نہیں بن جاتی، کیا آپ کا چہرہ اللہ کا چہرہ نہیں بن جاتا ہے کیوں کہ’’ہم تیرے ہیں‘‘کی منزل آپ کو خود پکار پکار کر سمجھا رہی ہے کہ سب حاضر ہے، یہ سب تمہیں مل سکتا ہے ۔اے انسانو اے مسلمانو اے نبی نوع آدمؑ آگے بڑھو۔ اس وادی میں نیت کی اتھاہ گہرائیوں سے پاکیزگی اور خالص پن
کے ساتھ آگے بڑھ کر دیکھو، وفائے نبی پاک تمہیں کس مقامِ محمود پر پہنچا دیتی ہے قدم تو
بڑھائو‘‘۔ [۱۹]
زاہد شمسیؔ تحریر میں موقع مدعا کے لحاظ سے اشعار بھی لاتے ہیں ایک طرف اُن کے دلی مدعا کی بہ خوبی ترجمانی ہوتی ہے اور دوسری طرف عبارت کو چار چاند لگ جاتے ہیں چوں کہ وہ خود بھی شاعر ہیں اُن کا شعری ذوق بھی بہت بلند ہے انہوں نے اپنی تحریر میں اساتذہ کے اشعار کو ایسی برجستگی سے بر محل اوربر موقع استعمال کیا کہ شاعر نے گویا یہ شعراسی موقع کے لیے کہا تھا اسی طرح وہ اپنے اشعار کو بھی تحریر میں لے آتے ہیں وہ اشعار کے استعمال سے نہ صرف اپنی تحریر کی معنویت میں اضافہ کرتے ہیں بلکہ خود شعر کے تاثر کو دو چند کر دیتے ہیںجس سے قاری کا دل جھوم اُٹھتا ہے۔ ایک مثال دیکھئے:
’’مگر کوتاہیوں کے ان پہاڑوں کے پیچھے پردوں میں چھُپے ہوئے عوامل اورچہرے بر حال
ہر دور میں موجود رہے ہیں اور رہیں گے جنہیں شاید وقتی طور پر ہر دور کے فرعون ،نمرور یا
شداد کا انجام یاد نہیں رہتا۔ ہوس نے ان ذہنوں کو جکڑ رکھا ہے‘‘۔ [۲۰]
زاہد شمسیؔ نے جہاں جو بات کی ہے مکمل دلائل کے ساتھ پوری وضاحت کے ساتھ اور جامعیت سے کی ۔ اُن کی تحریر جامعیت کی حامل ہے انہوں نے کسی بات یا کسی پہلو اور گوشے کو مبہم اور تشنہ نہیں چھوڑا۔
اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’کردار سازی اگر بہ حیثیت مجموعی قوموں کا شعار بن جائے تو معاشرے کی تمام برائیاں شیطان کے وجود میں سمٹ کر اس دنیا سے فرار حاصل کرلیں اور یقینا معاشرے سے تمام مسائل بہترین سلیقے سے بدرجہ اتم حل ہو جائیں ۔ جتنی کردار سازی مضبوط ہوتی جائے گی باکردار افراد کی تعداد بڑھتی جائے گی اور معاشرے کے مسائل اتنی ہی تیزی سے
کم ہونا بھی شروع ہو جائیں گے‘‘۔ [۲۱]
زاہد شمسیؔ کے ہاں فکرو تدبیر کی کارفرمائی بھی نظر آتی ہے اُن کی تحریر میں جذبات سے زیادہ فکر و تدبر کو دخل ہے۔
ایک خوب صورت اقتباس دیکھیے:
’’یقین کیجیے یہی تو وہ نسل ہے جسے علامہ اقبال ؒ نے شاہین کا نام دیا ہے اب اس کے بال وپر نکل آئے ہیں ایک سخت فضا اور ماحول سے گزر کر جیسے سونا کٹھالی سے گرزتا ہے تو کُندن بنتا ہے ،جیسے صدیوں سے جلتے ہوئے کوئلوں کے پہاڑ کے دل میں ہیرا جنم لیتا ہے۔ یہ نوجوان ہی ہمارا سونا ہیں ، یہی تو ہمارے وہ ہیرے ہیں یہی ہماری جمع پونجی ہے‘‘۔ [۲۲]
زاہد شمسیؔ کے اسلوب تحریر کی نمایاں خصوصیت سنجیدگی اور متانت ہے ۔زاہد شمسیؔ نے اپنے موضوع پر پوری سنجیدگی اور متانت سے قلم اُٹھایا ہے انہوں نے صحت زبان اور فصاحت و بلاغت کے تقاضوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے، اعلیٰ و ارفع علمی خیالات کو بھی نہایت سادگی ، روانی، سلاست اور شائستگی سے ادا کیا ہے۔
زاہد شمسیؔ کی تحریر میں ادبیت کی شان پائی جاتی ہے اگرچہ اُن کا موضوع خاصاً فکرخیز اور محققانہ ہے لیکن زاہد شمسیؔ نے تحریر کو خشک نہیں ہونے دیا۔ اُن کے بہار آفرین قلم اور فطری ادبی ذوق نے تحریر کو شگفتہ اور تازہ بنا دیا ہے جسے پڑھتے ہوئے قاری طبیعت پر کوئی بوجھ محسوس نہیں کرتا۔اُن کی عبارت میں ادبی محاسن پوری طرح موجود ہیں۔
اقتباس ملاحظہ کیجیے:
’’ہم اس بیماری کو اب سمجھ چکے ہیں اور خداوند قدوس کا لاکھ احسان ہے کہ آج ہم تلاش میں سرگرداں ہیں اور اپنی حقیقی فطری تمام کائنات میں لُٹی ہوئی بلندی اور ہاتھ سے نکلی ہوئی عظمت رفتہ کے حصول کی طرف بڑھ رہے ہیں اور یقین واثق ہے کہ اب ہم یہ عہد کر کے ہی دم لیں گے کہ ان کھوئے ہوئے مراتب کو واپس لینا ہی ہر انسان کا انفرادی فرض ہے
جب کہ یہ فرض ہمارا بنیادی حق ہے مگر ہم خود اپنی کوتاہیوں اور خامیوں سے اُسے گنوا بیٹھے
ہیں اسی لیے تو ہزاروں سال سے ایسا ہورہا ہے‘‘۔ [۲۳]
اپنے اسلوب تحریر کے انہی اوصاف کی بنا ء پر زاہد شمسیؔ کا شمار عصر حاضر کے ممتاز اور منفرد نثر نگاروں میں کیا جاسکتا ہے اُن کی یہ تصنیف اپنے علمی مقام و مرتبہ، محققانہ شان، مورخانہ عرق ریزی، قوت استدلال اور موضوع سے پورے پورے بے لاگ انصاف کے باعث غیرمعمولی قدرو منزلت کی حامل ہے۔
آخر میں ایک اقتباس ملاحظہ کیجیے۔
’’اذانیں ہم سُن چکے، وضو ہم کر چکے ہیں،مجھے یہ لکھنے دیجیے کہ نمازیں بھی ہم پڑھ چکے اور پڑھ رہے ہیں مگر نماز کو قائم تو ہمیں ابھی کرنا ہے، سیدھا راستہ ہم جانتے ہیں مگر اس پر گامزن تو ابھی ہمیں ہوناہے تقویٰ کیا ہے ہم بہ خوبی جانتے ہیں مگر ہمیں کردار سازی کے عمل سے گزر کر باکردار تو ابھی بننا ہے یعنی متقی کی منزل تو ابھی ہمیں حاصل کرنی ہے‘‘۔ [۳۴]
’’ہدف کی تلاش‘‘ایک ایسی تصنیف جو تاریخ کے مختلف ادوار کو اور ہر عہد میں مسلمانوں کو اُن کی فتح اور ناکامی کے اسباب سے روشناس کراتی ہے۔ اور ناکامی کے سبب دل برداشتہ ہو کر اپنا راستہ بدل لینے کا درس نہیں دیتی بلکہ اپنے اصل ہدف کاتعین کر کے مستقل مزاجی سے ہدف کی تلاش میں سرگرداں ہونے کا درس دیتی ہے۔’’ہدف کی تلاش‘‘کو پڑھنے کے بعد یہ احساس اجاگر ہوتا ہے کہ اسے قومی تعمیر کا ذریعہ بھی سمجھا جا سکتا ہے۔ زاہد شمسیؔ کی تصنیف ’’ہدف کی تلاش‘‘نے ادب میں وسعت اور تنوع پیدا کیا۔مجھے قوی امید ہے کہ زاہد شمسیؔ نے جس مقصد کے تحت’’ہدف کی تلاش‘‘لکھی ہے اُس مقصد میں ضرور کامیابی ہو گی۔(آمین )
(مقالہ:’’ زاہد شمسی کی ادبی خدمات‘‘۔ مقالہ نگار: عظمی اطہر علوی
مقالہ برائے ایم فِل (اردو)۔ سا ل۲۰۱۸ء ۔ ۲۰۱۶ء)
حوالہ جات:
۱۔ امام غزالی’’انسان کی حقیقت‘‘المیزان اردو بازار لاہور ،۲۰۰۵ء ص۲۰
۲۔ زاہد شمسی’’ہد ف کی تلاش‘‘ترسیل پبلیشرز ، ۲۰۰۵ء ص۵
۳۔ مختار مسعود’’آوازِ دوست‘‘نقوش پریس لاہور طبع دہم مئی ۱۹۰۳ء ص۴۹
۴۔ زاہد شمسی’’ہد ف کی تلاش‘‘ترسیل پبلیشرز ، ۲۰۰۵ء ص۵
۵۔ شبیہ زہرا’’عصر حاضر اور زاہد شمسیؔ کی شخصیت اور کلام کا تقابلی جائزہ‘‘غیر مطبوعہ۔ص۲
۶۔ طارق سعید’’اسلوب و اسلوبیات‘‘نگار شات پبلیشرز ۱۹۹۸ء ص۱۴۲
۷۔ زاہد شمسی’’ہد ف کی تلاش‘‘ترسیل پبلیشرز ، ۲۰۰۵ء ص۷
۸۔ ایضاً
۹۔ طارق شعید’’اسلوب و اسلوبیات‘‘نگار شات پبلیشرز ۱۹۹۸ء ص۱۴۴
۱۰۔ زاہد شمسی’’ہد ف کی تلاش‘‘ترسیل پبلیشرز ، ۲۰۰۵ء ص۲۸
۱۱۔ ایضاً ص۳۰
۱۲۔ ایضاً ص۳۴
۱۳۔ ایضاً ص۴۴
۱۴۔ ایضاً ص۳۷
۱۵۔ ایضاً ص۴۰
۱۶۔ ایضاً ص۳
۱۷۔ ایضاً ص۳۷
۱۸۔ ایضاً ص۵۲
۱۹۔ ایضاً ص۵۷
۲۰۔ ایضاً ص۵
۲۱۔ ایضاً ص۱۴
۲۲۔ ایضاً ص۴۱
۲۳۔ ایضاً ص۴۷
۲۴۔ ایضاً ص۴۶
٭٭٭