تصویر میں آپ زمین کے گرد جو بادل نما غبار سا دیکھ ریا ہے، وہ دراصل اسکے گرد گھومنے والی مصنوعی سیٹیلائٹس کے انبار کی وجہ سے ہے۔ ان میں سفید ڈاٹس، غیر فعال سیٹلائٹس کو ظاہر کررہے ہیں جبکہ سرخ نقطہ ، ایک فعال سیٹلائٹ ہے جو ابھی بھی اپنا کام کررہی ہے۔
اگر ہم کسی قدرتی سیٹیلائٹس کا حوالہ دیتے ہیں تو ، ہم ایک مبہم آسمانی جسم کے بارے میں بات کریں گے جو ایک بنیادی سیارے کے گرد گھومتا ہے۔ قدرتی سیٹلائٹ ایک آسمانی جسم ہے جو انسان نے نہیں بنایا ہے جو دوسرے مدار کے گرد چکر لگاتا ہے۔. سیٹلائٹ کا سائز عام طور پر آسمانی جسم سے چھوٹا ہوتا ہے جسے وہ گھیرتا رہتا ہے۔ یہ حرکت چھوٹی چیز پر بڑی چیز کی کشش ثقل کے ذریعے لگائی گئی پرکشش قوت کی وجہ سے ہے۔ اسی لیے وہ مسلسل کام کرنے لگتے ہیں۔
ہمارے نظام شمسی کل 8 سیارے ، 5 بونے سیارے ، اور کم از کم 146 قدرتی سیاروں کے سیٹلائٹ (دوسرے الفاظ میں انکے چاند) پر مشتمل ہے
مصنوعی سیٹلائٹ ایک ایسا آلہ ہے جو زمین کے گرد مدار میں سائنسی ، عسکری یا مواصلاتی مقاصد کے لیے رکھا گیا ہے۔لیکن دیگر مشینوں کا ملبہ یا ملبہ ، خلابازوں سے چلنے والا خلائی جہاز ، مداری اسٹیشن ، اور بین سیارہ تحقیقات انہیں مصنوعی مصنوعی سیارہ نہیں سمجھا جاتا۔
سوویت یونین نے انیس سو ستاون میں سپٹنک نامی پہلا سیٹلائیٹ خلا میں بھیجا۔ تب سے اب تک تقریباً چھ ہزار سیٹلائٹ خلا میں بھیجے گئے ہیں۔ سیٹلائیٹ بہت اہمیت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ ان سے ہمیں زمین کی ماحولیاتی تبدیلی، تحفظ، ذرائع ابلاغ، سمت کے تعین کرنے کے علم اور خاص کر زمین کو مختلف تناظر سے جاننے میں مدد ملتی ہے۔
کس کس کے سیٹیلائٹ
اب تک مدار میں گھومنے والے نو سو ستاون سیٹلائیٹس میں سے چار سو تیئیس امریکہ نےبھیجے ہیں جبکہ دوسرے نمبر پر روس ہے۔ چین نے بھی خلا میں ایک نمایاں جگہ بنا رکھی ہے۔ یہ تمام سیٹلائیٹ تقریباً ایک سو پندرہ ممالک کی ملکیت ہیں۔
خلا میں ایسے سیٹلائیٹ بھی موجود ہیں جو دو یا دو سے زیادہ ممالک نے مل کر بھیجے ہیں۔ ایسے ممالک کی تعداد چوالیس ہے۔ امریکہ، تائیوان، جاپان اور فرانس اس اشتراک کے بڑے حصہ دار ہیں۔ملٹی نیشنل سیٹلائیٹ کے منصوبوں میں ایسے تین یا ان سے زائد ممالک شامل ہیں، جو آپس میں مشترکہ تعاون کرتے ہیں۔
مشاہدات زنداں از حسرت موہانی۔ ایک مطالعہ
ہندوستان کو ایک طویل جد وجہد کے بعد برطانوی حکومت کے اقتدار سے چھٹکارا نصیب ہواجس کے لئے ہمارے بزرگوں...