زندگی رب کا ایک خوبصورت انعام ہے ۔ اور بعض لوگ اس انعام کو اس خوبی سے برتتے ہیں کہ ان پہ رشک آ تا ہے ۔ میٹھا میٹھا بولنے سے اور خوش رہنے سے انکے نقوش میں ایک ملاحت اور نرمی اتر آ تی ہے ۔۔۔ اپنے وسائل میں رہ کر جیتے ہیں ۔۔۔ ہر دم اپنے رب پر شاکر ۔۔۔ یوں اپنے وسائل میں زیست کرنا ہمیں رب کا شکر گزار بندہ بنا دیتا ہے ۔۔۔
شکر الحمداللہ کی تسبیح پڑھ لینا کافی نہیں ہوتا ۔۔ رب کی دی ہوئی آ سانیوں کے مطابق اپنی زندگی گزارنا بہترین تسبیح اور شکر الحمداللہ کی عملی تفسیر ہوتی ہے ۔۔۔
دھرتی پہ گل و گلزار انہی کی وجہ سے اور انہی کے لیئے کھلتے ہیں ۔۔ پرندے انہی کے لیئے سنہری راگ الاپتے ہیں ۔۔ ہوائیں ، بادل ، بارش ، رنگ سب انہیں کے لئیے پیدا کئیے گئے ہیں ۔۔
برعکس اسکے کچھ لوگوں کو دیکھیں تو لگتا ہے زندگی ان پہ جبراً لاد دی گئی ہے ۔ جیسے گدھے پر بوجھ لادا جاتا ہے ۔۔ جیسے زندگی انہیں بے دردی سے برت رہی ہو ۔۔۔ یومِ جزا سے پہلے جہنم میں جھونکے گئے ہوں ہر دم اڑی ، ہر دم رونا ۔۔۔ ہر دم شکوہ ۔۔۔ خواتین کا سر جھاڑ منہ پہاڑ رہنا نہ امرِ ربی ہے نہ معاشرے میں پسندیدہ ۔۔۔ منہ دھو کر بال سلجھا لینے میں کتنا خرچ آ تا ہے ؟ شاید ایک پینی بھی نہیں ۔۔۔ دوسروں کو خوش دیکھ کر یہ سمجھنا کہ کتنی موجیں مار رہے ہیں ۔۔۔ کتنی آ سانیاں ہیں انکی زندگی میں ۔۔۔ اور انہیں کتنی فراغت نصیب ہے ۔ ہمیں بھی یہ سب میسر ہوتا تو ہم بھی ایسے ہی خوش ہوتے ۔۔ جبکہ حقیقت میں اگر وہی سب کچھ آ پ کو میسر ہوتا تو آ پ ذرا اور خوش رہنے والوں کی تاک میں رہتے اور ان سے حسد میں مبتلا ہوتے کیوں کہ آ پ کا زندگی گزارنے کا یہی طریقہ ہے ۔۔۔ طریقہ بدلنے کی کوشش کیجئے آ ج سے۔۔ زندگی اپکی ہے اسے خود استعمال کیجئے۔۔ اسے خود کو استعمال مت کرنے دیجئے ۔۔۔
پروفیسر عارف فرید ایوبی ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھے پروفیسر عراق رضا زیدی
پروفیسر عارف فرید ایوبی ایک نابغۂ روزگار شخصیت تھے : پروفیسر عراق رضا زیدی شعبۂ فارسی، لکھنؤ یونیورسٹی میں مرحوم...