قرآن حکیم ، ہمارے پیارے نبی محمد ص پر وحی کی صورت میں نازل ہوا، اور پہلی وحی کا آغاز ہی ، “اقرا باسم ربک الزی خلق” سے ہوا، اپنے رب کے نام سے پڑھیے جس نے سب کو پیدا کیا ۔ تیسری آیت مبارکہ میں مزید حکم ہوا “اقرا و ربک الا کرم “ پڑھیے ، اور آپ کا رب سب سے کرم کرنے والا ہے ۔ سکھ مزہب میں مجھے بہت دیر بعد پتہ لگا لفظ “سکھ” پنجابی کا لفظ مطلب سیکھنے سے ہے ۔ مزاہب ، اخلاقیات اور روحانیت ، سارے کا سارا معمالہ ہی علم ، پڑھائ اور مطالعہ کا ہے جس کی اتنی صورتیں جتنی اس دنیا میں زندگی کی علامات ۔ درخت ، پرند ، چرند ، دریا ، پہاڑ اور فلک ، موسم ، نباتات اور ستارے ، سب کے سب اس علم کا حصہ ہیں جو کائنات کا خدا ہے ، اس رقص کا پیدا کرنے والا ۔ چینی جتنا کہ لیں کے خدا نہیں ہے ، پھر بھی کل اسی کے چاند کے طلوع ہونے سے کل ہی اپنے نئے سال کا آغاز کیا اور اسی کے بنائے ہوئے جانوروں اور پرند کے نام پر ان سالوں کے نام رکھے ۔ یہ سال چینی کیلینڈر میں سور کا سال ہو گا ۔
حضرت محمد ص کی حدیث مبارکہ ہے کے علم حاصل کرو خواہ تمہے چین جانا پڑے ۔ یہ سارے معاملات خراب کہاں سے ہوئے ؟ علم ، پڑھائ اور سوچوں پر قد غن کیوں لگے ؟ صرف اور صرف انسان کے طاقت اور کنٹرول کے حوس کی وجہ سے ۔
اسکندریہ لائبریری جو اسکندر اعظم ہی کی بنائ ہوئ تھی اور ایک وقت میں ۵ لاکھ نادر کتابوں اور کاغزات کا مجموعہ تھی کو کہا جاتا ہے پہلے رومن بادشاہ سیزر نے ۹۴ سال قبل از یسوع جلایا اور بعد میں اس کے دو سو سال بعد ایک عیسائ پادری نے اور آخر میں عیسائ اور مسلمانوں کے مخالفین حضرت عمر پر یہ الزام لگاتے ہیں کے ان کے سپہ سالار کہتا تھا کے وہاں اسلام کے منافی کتب موجود ہیں لہٰزا جلا دی جائیں ۔ یہ ساری نفرتیں، کنڑول ، پاور اور حکمرانی کی تھیں جنہوں نے سب کا بیڑہ غرق کر دیا ۔
مسلمانوں کے عباسیہ دور میں بھی متزلیوں کو محض اس بات پر شکست کا سامنا کرنا پڑا کے حصول علم کو صرف حکمرانوں کی میراث سمجھا گیا کیونکہ متزلی اجتہاد کی بات کرتے تھے ۔ اس دن سے آج تک مسلمان دنیا میں علم کے دروازے بند کر دیے گئے ۔ سر سید احمد خان نے ایک کوشش کی اور انہیں نیو متزلی بھی سمجھا جاتا تھا لیکن مولویوں نے اس کا بھی کام تمام کر دیا ۔ اسلامی صوفیا نے بھی اس سارے رویہ سے بغاوت کی ، کُھل کر علم پھیلایا اور حکمرانوں کو ناک چنے چبوائے ۔ لیکن ان کی میراث بھی گدی نشینوں اور مجاوروں کے پاؤں تلے آ کے کُچلی گئ ۔ ہے دکھ ہوتا ہے یہ سب کچھ جان کر ۔
امریکہ آج دنیا پر محض اس بنا پر حکمرانی کر رہا ہے کے امریکہ میں علم کے دروازے نہ کبھی بند کیے گئے اور نہ ہی کیے جائیں گے ۔ کسی ویب سائیٹ پر کوئ پابندی نہیں ۔ کسی مزہبی تنظیم یا cult کو پھلنے پھولنے سے روکا نہیں جاتا ، ہاں البتہ اگر آپ اس سے دوسروں کے عقیدوں سے چھیڑ چھاڑ کر کے دل آزاری کریں گے تو پھر پابندیاں ضرور نافز ہوں گیں ۔
کائنات کا علم سب کے لیے ہر جگہ یکسر ہے ۔ صرف طلب ، شوق اور جستجو کی ضرورت ہے ۔ کچھ معاشروں میں اس کو فروغ دیا جاتا ہے اور کچھ میں اس پر پابندیاں لگائ جاتی ہیں ۔ انسانی قدروں کا پامال جہالت کی نشانی ہے اور انسان سے پیار اور محبت والا معاملہ علم کا اعلی معیار ہونے کی نشاندہی ۔ علم کے حساب سے میں نے امریکہ کو جنت پایا ۔ میں بہت دنیا گھوما ، کہیں بھی اتنا زیادہ مواد ، کُھل اور آزادی نہیں پائ ۔ قرآن شریف اور بیشتر کتابیں آجکل چین سے پرنٹ ہوتی ہیں لیکن چینیوں کو ان تک رسائ سے محروم رکھا ہوا ہے ، کیا خوفناک المیہ ہے ، چراغ تلے اندھیرا ۔
مطالعہ صرف کتابوں سے نہیں ہوتا ، سفر ، تجربہ اور مشاہدہ سے بھی ہوتا ہے ۔ یہاں امریکہ میں ۱۹۸۵ میں ریاست نیواڈا میں
National Cowboy Poetry
کا مقابلہ منعقد ہوا جو بچوں اور نوجوانوں کے لیے تھا ، صرف ایک دفعہ منعقد ہونا تھا ، لیکن اتنا مقبول ہوا ہے کے ہر سال بہت زور و شور سے ہوتا ہے ۔ ہزاروں بچے اور بچیاں قدرتی مناظر میں لیجا کر تخلیقی کاموں پر معمور کیے جاتی ہیں ایک نیا آیڈیا ، ایک خوبصورت ماحول میں جزبات کی عکاسی ۔ اسی طرح پورے امریکہ میں لاکھوں مضمون نویسی کے مقابلہ ہوتے ہیں ۔ اگلے دن ہی ایک دوست جو ادراک ڈاٹ کام چلاتے ہیں انہوں مجھے بتایا کے وہ بھی مختلف موضوعات پر مضمون نویسی کا مقابلہ کروا رہے ہیں ۔ اس سے پہلے مکالمہ ڈاٹ کام نے بہت شاندار اسی طرح کا مقابلہ کروایا ۔ ان مقابلوں کا مطلب نہ تو وہ انعامی پیسہ ہے نہ شو بازی ، بلکہ ایک ترغیب ہے جو تخلیقی زہن رکھنے واے لوگوں کو دی جاتی ہے ۔ ایسے مقابلے اور ماحول ریاست کو بنانا چاہیے ، نئے پاکستان والوں کو ۔
ہماری سب کی زندگیاں کہانیاں ہیں ۔ ہم ہر وقت ہر لمحہ کسی نہ کسی کہانی کو وجود دے رہے ہوتے ہیں ۔ پوری کائنات کو انہی کہانیوں پر ترتیب دیا ہوا ہے ۔ یہ کہانیاں now میں چل رہی ہیں ۔ یہ ایک فلم کی طرح ہیں ۔ مارس کارلوس ایک بہت مشہور امریکی لکھاری نے اپنی کتاب
We cast a shadow
میں بہت خوبصورت طریقے سے لکھا کے
My name doesn’t matter
یہ ہے معراج ہم لکھاریوں کی ۔ اسی لیے جین پال ساترے نے ادب کا نوبل پرائز ٹھکرا دیا تھا کے وہ institution نہیں بننا چاہتا ۔ دراصل ہم سب محض ، اپنا اپنا سایہ چھوڑ کر جا رہے ہیں جو باقی سایوں کے ساتھ ملکر آنے والی شمعوں کو جلائے رکھے گا ۔ حنیف عبدالرقیب ایک بہت اچھا لکھاری ہے ، اس نے کیا خوبصورت بات کی لکھنے پر ؛
I believe in writing as one tool to begin society’s slow crawl towards honesty with itself ..
یہ ایمانداری ہی کائنات کا سچ ہے جو قرض ہے ہم پر آنے والی نسلوں کو بتانا ہمارا فرض ۔ یہ وہ legacy جو ہم نے آنے والی نسلوں کو دے کر جانی ہے ۔ آجکل نجانے اس کے لیے کیوں اتنی بہادری کی ضرورت پڑ رہی ہے ۔ ویسے تو گورنمنٹ کالج لاہور جہاں سے میں نے چار سال تعلیم حاصل کی اس کا motto یقیناً بہت زبردست تو تھا
Courage to know
لیکن بھٹو کی حکومت ہونے کے باوجود بیوریوکریسی کا دور دورا تھا اور آزادی رائے کو کچلا جا رہا تھا ، اوپن ایر تھیٹر بند کیا گیا ، اسلامی جماعت مسلط کی گئ اور جنرل ضیاء نے اس پلان کو مزید چار چاند لگائے ۔ وہ درسگاہیں جو خالصتا علم کی شمع جلائے رکھنے کے لیے بنائ گئ تھیں راتوں رات بدمعاشیوں کا گڑھ بنا دی گئ اور سیاسی جماعتوں کی لیبارٹریاں ۔
ہمیں علم کی طرف واپس آنا پڑے گا ۔ اب نام علم الدین رکھنے سے بات نہیں بنی گی ، اس علم کی آگ میں جلنا پڑے گا ۔ ایک اور لکھاری ایملی برناڈ نے اپنی کتاب black is the body میں لکھا ، یہ کہانیاں ہیں دادی امی کی، میری اپنی والدہ کی اور میری ۔ یہ کہانیاں ہی زندگی ہے اور اس زندگی کا بہاؤ ۔ اس میں مگن رہنا ہی حیات ہے ۔ بہت خوش رہیں ۔
علامہ اقبال يا اکبر علی ايم اے اصل رہبر کون؟
کسی بھی قوم کا اصل رہبر کون ہوتا ہے خواب بیچنے والا شاعر يا حقیقت کو سامنے رکھ کر عملیت...