ہمارے انسانی کروموسوم میں کچھ پراسرار چیزیں ہیں، اور یہ یقینی طور پر ڈی این اے نہیں ہے۔
اگرچہ ڈارک میٹر ہماری کائنات اور خلاء میں موجود کچھ پراسرار موجود کمیت کی وضاحت کر سکتا ہے، لیکن یہیں زمین پر کچھ نامعلوم مادہ بھی موجود ہے اور یہ ہمارے اپنے کروموسوم میں ہے۔
اس دریافت کی بنیاد دراصل اس معلومات پر پڑی کہ انسانی کروموسوم دراصل ان میں موجود ڈی این اے سے 20 گنا زیادہ بھاری پائے گئے ہیں۔ اس اضافی وزن کے پیچھے جو بھی کچھ چیز ہے وہ ایسی چیزوں کی وضاحت کر سکتا ہے جیسے جینیاتی تغیرات اور بے ضابطگیوں کو ظاہر کر سکتے ہیں اور پیدائشی بیماریوں اور ڈی این اے کو نقصان پہنچاتے ہیں ۔ یا یہ ایسے نامعلوم اسباب ہیں جو خلیات کو کینسرکی پیدائش کرنے والا بنا دیتے ہیں جب وہ خود کو ٹھیک نہیں کر پاتے۔ یعنی کروموسومز میں ایسا کچھ ضرور ہے جو خلیات کے بگاڑ کا سبب بن جاتا ہے اور یوں کسی انسان کو کینسر جیسا موذی مرض لاحق ہوتا ہے۔ مزید کچھ ایسا مادہ بھی ایسا پایا جاتا ہے جنکے بارے میں سائنسدان حتمی رائے نہیں رکھتے کہ یہ کیا ہیں؟یہ دریافت اس تحقیقی ٹیم ، جس میں لندن کے یونیورسٹی کالج کے ماہر طبیعیات ایان رابنسن بھی شامل ہیں ، کی توقعات سے بھی زیادہ پائی گئی اور اسکا اس ٹیم نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔
یہ ایک اضافی ڈی این اے ہوسکتا ہے جو کہ کسی سیٹلائٹ ڈی این اے کی طرح جینوم کی ترتیب میں نہ ہو۔ سیٹلائٹ ڈی این اے satellite DNA سے مراد یہ ہے کہ نارمل ڈی این اے کی کثافت اس کی بنیاد اور ترتیب کا ایک فنکشن ہوتا ہے، اور سیٹلائٹ ڈی این اے جس کے انتہائی دہرائے جانے والے ڈی این اے میں باقی جینوم کے مقابلے میں کم یا خصوصیت کی کثافت ہوتی ہے۔ اس طرح ایک اضافی ڈی این اے کے ٹکڑے کو ‘سیٹیلائٹ ڈی این اے’ کا نام دیا گیا۔ نئے پائے جانے کروموسوم کے ٹکڑوں پر لیکن ان سے کہیں زیادہ پروٹین ہو سکتا ہے جن کے بارے میں ہم جانتے ہیں،” رابنسن نے ایک انٹرویو میں جریدہ SYFY WIRE کو بتایا۔ “یہ نمک اور پانی جیسی بورنگ چیزیں بھی ہوسکتی ہیں، لیکن اس کا امکان زیادہ نہیں ہے۔ اور شائد یہ کسی اور نئے امکان کی طرف اشارہ کررہے ہوں ”
پروفیسر رابنسن، جو حال ہی میں کروموسوم ریسرچ میں شائع ہونے والی ایک تحقیق ،جس نے کروموسوم کے اندر ڈی این اے کے مالیکیولز کا بڑے پیمانے پر انکشاف کیا، کے مصنف ہیں، اور ان کی ٹیم نے جو کچھ دریافت کیا ہے وہ آخر کار ہیومن جینوم پروجیکٹ میں اپنی اس تحقیق کا حصہ ڈال سکتے ہیں۔سب سے الجھانے والی جو بات ابھی تک حل نہیں ہوئی تھی وہ یہ ہے کہ خود کروموسوم کا اپنا وزن تھا، جو اس قدر ناقابل یقین حد تک پیچیدہ ہیں کہ ان کے بارے میں بہت سی چیزیں ہم سے دور اور مبہم رہتی ہیں۔ تو آپ کس طرح کسی خوردبینی چیز کا وزن کرتے ہیں؟ اور کسطرح مساوی طور پر کسی بھی خلیاتی جسم کے خوردبینی وزن کے ساتھ، اور اس کے مجموعی وزن کا اندازہ کیسے حاصل کرتے ہیں؟ اسکا جواب ہے ایکس رے کے زریعے۔
ایکس رے ٹائیکوگرافی X-ray ptychography تکنیکی طور پر کروموسوم کا وزن نہیں کرتی ہے۔ یہ کیا کر سکتی ہے،کہ ایسے ماڈلز بنائے جو سائنسدانوں کو ان کی کمیت کا تعین کرنے کی اجازت دیتے ہیں، یا کم از کم اصلی کمیت کے قریب لے آتے ہیں اور ایکس رے مائیکروسکوپی کو زیادہ جدید مربوط ڈفریکشن امیجنگ (coherent diffraction imaging ، CDI) کے ساتھ ملاتے ہیں۔ اسطرح انکو کسی مائکرواسکوپک خلیاتی جسم کی کمیت کا اندازہ ہوجاتا ہے۔ اس کی وجہ سے ایکس رے کی شعاعیں تنگ جگہوں سے گزرتے ہی پھیل جاتی ہیں ۔ فزکس میں یہ مظہر ڈیفریکشن diffractionکہلاتا ہے۔ اور روشنی کی لمبی طول موج (جیسے انفراریڈ) چھوٹی طول موج (جیسے الٹراوائلٹ UV) سے کم زاویہ پر پھیل جاتی ہے۔ کروموسوم میں سے تیزی سے ایکس رے شعاعوں کو گزارنے پر ایسے ماڈل بنتے ہیں جن سےانکی کل کیت کا تعین کیا جا سکتا ہے۔اسطرح انکے وزن کے بارے میں بھی ایک نپاتلا آئیڈیا ہوجاتا ہے۔
” ایکس رے Ptychography عام طور پر ایک 2D طریقہ ہے، اور ہم نے اسے اسی طرح استعمال کیا ہے،” رابنسن نے کہا۔ “جب ایکس رے کسی خلیاتی نمونے کے ذریعے سفر کرتی ہیں، تو وہ ایک قابل پیمائش مقدار کے حساب سے مرحلے میں منتقل ہوتے ہیں، اور ہم نے اس منتقلی کی رقم کو اس بات کی پیمائش کرنے کے لیے استعمال کیا کہ ہر کروموسوم میں کتنے الیکٹران ہیں۔ اس نے ہمیں بڑے نپے تلے پیمانے پر کمیت کے بارے میں بتایا۔”
کروموسوم کے ایک پورے سیٹ کا وزن ایک گرام کا 242 ٹریلینواں حصہ ہے۔ یہ عجیب بات وقت تک محسوس نہیں ہوتی جب تک کہ آپ کو یہ احساس نہ ہو کہ ان کروموسومز میں صرف ڈی این اے کا وزن بہت کم ہے۔ انسانی ڈی این اے میں ہر اسٹرینڈ میں 46 کروموسوم ہوتے ہیں، یعنی ہر خلیے میں 23 جوڑے ہوتے ہیں، اور ایک اسٹرینڈ تقریباً ساڑھے چھ فٹ لمبا ہوتا ہے۔ انکا کسی خلیے میں گھسنا تقریباً ناممکن لگتا ہے۔ یہیں سےمخصوص پروٹین مدد کوآتے ہیں۔ اگر جینیاتی طور پر متعلقہ فنکشن کی ضرورت ہو تو اس کے لیے ایک پروٹین ہونے کے امکانات ہوتے ہیں، اور خصوصی پروٹین ڈی این اے کو اس وقت تک کمپریس کرتے ہیں جب تک کہ یہ خلیے کے اندر فٹ نہ ہو جائے۔
اور ڈی این اے کا کسی خلیے کے نیوکلیس میں فٹ ہوجانا، مائی ٹوسس کے عمل میں دہرایا جاتا ہے ، مائی ٹوسس mitosis خلیاتی تقسیم کی ایک قسم ہے جو بنیادی طور پر خلیوں کو کلون کرتی ہے۔اس تقسیم کے دوران کروموسومز کو میٹا فیز کے دوران امیج کیا گیا تھا تاکہ ان کو صحیح وقت پر مشاہدہ کیا جا سکے تاکہ ان کا وزن کے بننے کے دوران اندازہ ہو سکے۔ میٹا فیز مائٹوسس کا تیسرا مرحلہ ہے جس میں پیرنٹ سیل کے نیوکلئس سے ڈی این اے، جو پہلے نقل کیا گیا تھا، اب ان دو خلیوں میں الگ ہو جاتا ہے جن میں والدین خلیے تقسیم ہو رہے ہیں۔ یہ کل ڈی این اے کے 3.5 بلین جوڑے بنتے ہیں۔
خلیے کے اندر ابھی بہت سے نامعلوم عوامل دریافت ہونا باقی ہیں، یہ اضافی کمیت کیا ہے سے لے کر اس میں اتنی کمیت زیادہ کیوں ہے اور کہ یہ ڈی این اے کے لیے کیا کرتا ہے، اگر یہ کچھ کام کرتا ہے۔ یہ سوالات تھوڑی دیر کے لیے سائنسدانوں کو پریشان کر رہے ہوں گے۔لیکن میڈیکل سائنس اور دوسری سائنسز اتنی اب ایڈوانس ہوچکی ہیں کہ کچھ ہی عرصے کے بعد اس مشکل کا بھی سائنسدان جواب دے پائے گے۔
انہوں نے کہا کہ جب یہ پراسرار اضافی وزن کی شناخت ہو جائے گی تو ہم انسانی ڈی این اے کے بارے میں کیا بصیرت حاصل کر سکتے ہیں۔ “میں اس وقت صرف اتنا کہہ سکتا ہوں کہ زندگی بظاہر اس سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہے جتنا ہم اسکو جانتے ہیں۔”
سورس آرٹیکل لنک
اندھوں کا دیس
"اندھوں کا دیس" انگریزی ناول نگار ہربرٹ جے ویلز نے اس کو پہلی مرتبہ 1936 میں پبلش کیا گیا تھا...