چند ماہ ادھر کی بات ہے ایک روز برادرم فرہاد احمد فگار سے معمول کی ملاقات ہوئی۔گفت گو کے دوران میں بساط کی نئی بساط سجانے کا عندیہ یوں دیا کہ نئے شمارے پر کام شروع کرنا ہے۔ آمدہ شمار خاص ہو گا اورآزاد کشمیر کی کسی ادبی شخصیت کے گوشے سے شائع کرنے کا ارادہ ہے۔ میرے استفسار پر کہ کس شخصیت کا گوشہ شائع کرنے کا ارادہ ہے ؟” ابھی جناب ڈاکٹر افتخار مغل، جناب عبد العلیم صدیقی، جناب ڈاکٹر صابر آفاقی اور جناب پروفیسر اکرم طاہر کے اسمائے گرامی پر مشورہ چل رہا ہے” جواب دے کر مجھ سے بھی مشورہ طلب کیا۔ میرا جواب تھا کہ میں تو کم علم انسان ہوں باقی ادبی احباب سے مشاورت کر لیں کیوں کہ جن اہم شخصیات کے نام آپ نے لیے ان میں سے کسی ایک کا انتخاب میرے لیے ناممکن ہے۔
یوں ادبی احباب سے مشاورت کے بعد قرعہ ترجمانِ اقبالؒ عبد العلیم صدیقی صاحب کے نام نکلا اور کام شروع ہو گیا۔ یہ شمارہ بساط کی مسلسل اشاعت کی تیسری لیکن اہم کڑی ہے جو اپنی اشاعت کے تمام مراحل پر وقتاً فوقتاً میری نظر سے گزرتا رہا۔ مجھے معلوم ہے کہ صدیقی صاحب کے حوالے سے تحریریں حاصل کرنے میں فگار صاحب نے کتنی مشقت اٹھائی۔
بساط کے تیسرے شمارے کا نیلگوں سرِورق گزشتہ دونوں شماروں سے مختلف لیکن اس لحاظ سے جدید ہے کہ بساط کے نام سے بھی پہلے نظر جس پر ٹھہرتی ہے وہ ہے جناب عبد العلیم صدیقی کی وہ جاذبِ نظر اور خوب صورت تصویر جو صدیقی صاحب کا ترجمانِ اقبالؒ ہونے کی خوب غماز ہے۔ شاعرِ مشرق علامہ محمد اقبالؒ کی ایک تصویر ہمیشہ سے دیکھتے آئے ہیں جس میں اقبالؒ اپنے ہاتھ کو رخسار کے ساتھ لگائے متفکر انداز میں بیٹھے ہیں۔ بالکل اسی طرح صدیقی صاحب کی مذکورہ تصویر بھی رخسار کے قریب ہاتھ رکھے متفکر انداز میں ترجمانِ اقبالؒ ہونے کی خوب صورت انداز میں لی گئی ہے۔ شاید ترجمانِ اقبالؒ کی اسی تصویر کا اثر ہے کہ بساط کی تاریخ میں پہلی بار تمام قلم کاروں کی تصاویر بھی تحریر کا ساتھ دیتی نظر آتی ہیں اور ہر ورق کے پس منظر میں کالج کا خوب صورت نشان(logo) موجود ہے جو قاری کو ہر صفحے پر اپنے ہونے کا احساس دلاتا ہے۔ اس کے علاوہ مضامین کے انتخاب میں حتیٰ المقدور حفظِ مراتب کا لحاظ بھی رکھا گیا ہے۔ خیر صدیقی صاحب کی اس تصویر کے نیچے صدیقی صاحب کی ان تمام کتب کے عکس موجود ہیں جن کی بدولت اللّٰہ پاک نے آپ کو ترجمانِ اقبالؒ کا مرتبہ عنایت فرمایا۔
بساط کے موجودہ شمارے میں سیکرٹری ہائیر ایجوکیشن آزاد کشمیر خالد محمود مرزا اور ان کے بعد ناظم اعلا کالجز پروفیسر ڈاکٹر خواجا عبد الرحمان کے تہنیتی پیغامات ہیں جن میں آپ نے مدیرِ اعلا فرہاد احمد فگار اور سربراہِ ادارہ جناب پروفیسر محمد رفیق کی ادبی کاوشوں کو خوب سراہتے ہوئے مبارک باد پیش کی۔
بساط کے تیسرے پڑاؤ کے عنوان سے سربراہِ ادارہ، ادارے کو درپیش کچھ مسائل بیان کرنے کے علاوہ بساط کے اس اہم پڑاؤ کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے فگار صاحب کی ادبی کاوشوں کو خوب سراہتے ہیں جس میں صدیقی صاحب کی شخصیت اور فن پر کام ہوا۔
عرضِ فگار کے عنوان سے فرہاد احمد فگار صاحب اللّٰہ پاک کے شکر گزار ہونے کے علاوہ سربراہِ ادارہ محمد رفیق صاحب کے بھی شاکرہیں جن کی کمال شفقتوں سے مشکلات کے باوجود یہ اہم سنگِ میل طے ہو پایا۔ بعد ازاں مجلسِ مشاورت میں شامل دوستوں خصوصاً آصف اسحاق صاحب کے علاوہ ان سب احباب کا بھی شکریہ ادا کیا جنھوں نے کسی بھی طرح بساط کی تکمیل میں تعاون کیا۔
مجلہ بنیادی طور پر پانچ حصوں میں منقسم ہے۔ باقاعدہ آغاز کامران اعظم سوہدروی صاحب کی لکھی حمد اور فاروق صابر صاحب کی لکھی نعت سے ہوتا ہے جب کہ اس کے فوراً بعد پہلے حصے کا آغاز ہوتا ہے جو ان مضامین پر مشتمل ہے جو صدیقی صاحب کی شخصیت اور فن پر لکھے گئے۔ مضامین کا آغاز صدیقی صاحب کے فرزند نعمان احمد صدیقی صاحب کی تحریر سے ہوتا ہے جس کی ابتدا ہی کچھ یوں ہے کہ “عبد العلیم صدیقی کے بارے میں کوئی بات کرنے کے لیے میرے پاس میری واحد Qualification صرف اتنی ہے کہ وہ میرے والد ہیں”۔ صدیقی صاحب کے احباب میں پروفیسر مسعود احمد خان صاحب کا نام اہم ہے جنھوں نے اپنے بچپن کی پہلی ملاقات سے لے کر صدیقی صاحب کی وفات تک کے واقعات اور ادبی کارناموں کو اس جامع انداز سے سپردِ قرطاس کیا کہ قاری کے لیے تشنگی کی گنجائش ہی باقی نہ چھوڑی۔ اس کے بعد سید معراج جامی صاحب نے صدیقی صاحب کی شخصیت پر خامہ فرسائی کی۔ یوں کل ملا کر سترہ مضامین صدیقی صاحب کی شخصیت اور فن کے حوالے سے اوراق کی زینت بنے جس میں مذکورہ بالا تین احباب کے علاوہ پروفیسر غازی علم الدین ، ڈاکٹر محمد صغیر خان ، پروفیسر سعادت اکبر خان ، پروفیسر صغیر آسی ، پروفیسر اعجاز نعمانی ، ڈاکٹر ضیا الدین بابا ، پروفیسر محمد رفیق بھٹی ، پروفیسر عبد الصبور خان ، دل شاد اریب ، سالک محبوب اعوان (راقم) ، عیفا تسلیم ، ضیا الرحمان ضیا ، عبد الرحیم عزم اور محمد سعد شاہد کے مضامین شامل ہیں۔ اس کے علاوہ صدیقی صاحب کی شخصیت پر جاوید الحسن جاوید اور پروفیسر عبد الحق مراد کی نظمیں اور پروفیسر رفیق بھٹی کا ایک قطعہ بھی شامل ہے۔ یوں دو سو پانچ صفحات کی ضخامت کے حامل اس مجلے کے ابتدائی سو صفحات کسی نہ کسی طرح صدیقی صاحب کی شخصیت اور فن کا اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔
دوسرے حصے کی ابتدا بشیر الدین چغتائی صاحب کے مضمون “دنیا کی قدیم ترین اسلامی یونی ورسٹی” سے ہوتی ہے جس کے بعد مختلف علمی و ادبی مضامین کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جن کی درج بالا مضمون سمیت کل تعداد چودہ ہے جس میں راجا شوکت اقبال ، فرہاد احمد فگار اور رانا توفیق صدیقی کے مضامین نمایاں ہیں۔ یہاں سے اگے مجلے کا تیسرا حصہ شروع ہوتا ہے جو ادارے کے متعلمین کے ادبی فن پاروں پر مشتمل ہونے کے باعث اہمیت کا حامل ہے اور اس بات کا غماز ہے کہ میرپورہ جیسے دور افتادہ علاقے کے طلبہ و طالبات بھی ادبی صلاحیتوں کے حامل ہونے کے سبب کسی ترقی یافتہ علاقے کے طلبہ و طالبات سے ہرگز پیچھے نہیں۔ اس حصے میں مضامین کی تعداد تیرہ ہے۔
مجلے کا چوتھا حصہ قارئین کے ان مضامین پر مشتمل ہے جو بساط کے گزشتہ شماروں کے حوالے سے انھوں نے اپنے انداز میں لکھے۔ ان کی تعداد اکیس ہے جن میں پروفیسر اعجاز نعمانی ، پروفیسر عائشہ یوسف ، ریاض ملک ، عظیم ناشاد اعوان اور عطا الرحمان جگوال کے نام قابلِ ذکر ہیں۔
آخری حصہ غزلیات پر مشتمل ہے جس میں ادب سے وابستہ احباب کے غزل کی صنف میں ادبی فن پاروں کو جگہ ملی۔ جب کہ آخری دو صفحات بساط سے جڑی یادوں کی تصویری جھلکیوں پر مشتمل ہیں۔
مجلے میں کہیں کہیں ٹائپنگ اور چھپائی کی اغلاط بھی نظر سے گزریں لیکن اس اہم کام کے سامنے وہ نہ ہونے کے برابر ہیں سو اپنی اس کاوش پر فرہاد احمد فگار یقیناً دادو تحسین کے مستحق ہیں کہ صدیقی صاحب جیسی قد آور ادبی شخصیت کے حوالے سے مواد کی نہ صرف جمع آوری کرنا بل کہ ان کے ساتھ وقت اور لمحات گزارنے والے احباب کو تلاش کر کے اوراق کی زینت بنانا جوئے شیر لانے سے کسی صورت کم نہیں۔
دعا ہے کہ بساط کی ادبی بساط ہر سال یوں ہی سجتی رہے اور قارئین کی بصری و ادبی تشفی کا سبب بنتی رہے۔