پوری بستی میں ہاہاکار مچی ہوئی تھی، آگ پھیلتی چلی جا رہی تھی، آسمان دھوئیں سے بھر گیا تھا۔ آگ پر قابو پانے کی کوشش کے باوجود آگ قابو سے باہر تھی۔ عورتیں سر پیٹ پیٹ کر چیخ رہی تھیں۔ بچّے خوف سے چلّا رہے تھے اور مرد آگ بجھانے کی کوشش میں لگے ہوئے تھے۔ دور و قریب اونچے اونچے پکّے مکانوں کے مکین تماشائی بنے دھوئیں اور تپش سے بچنے کے لئے اپنے گھروں کی کھڑکیاں دروازے بند کر رہے تھے ……
شہر کے بیچو بیچ رام لیلا گراؤنڈ کے نزدیک تقریباً پانچ سو جھگّیوں کی یہ بستی نہ جانے کب سے آباد تھی، اور کس طرح آباد ہو گئی تھی کسی کو یاد نہیں تھا، لیکن اکثر لوگ اسے شہر کی خوبصورتی پر بدنما داغ کہا کرتے تھے جبکہ جھگّیوں میں رہنے والے انہی ہاتھوں سے شہر کی گندگی دور ہوتی تھی۔ انہی کے دم سے عالی شان گھروں میں چمک دمک قائم تھی۔ یہاں کے رہنے والوں نے سب کی گندگیاں اپنے اندر سمیٹ لی تھیں۔ شاید سب سے پہلے یہاں ایک چھوٹی سی جھونپڑی تھی۔ پھر ایک اور۔ ایک اور۔ پھر ایک مکمل بستی۔ چھوٹی سی اس بستی میں سب کچھ تھا۔ بجلی ہر جگہ موجود تھی۔ چھوٹے بڑے ٹی وی بھی بیشتر جھگّیوں میں ہر وقت چلتے رہتے تھے، گندے گندے بچّے ، نالیوں میں بہتا ہوا گندا اور سڑا ہوا پانی، کوڑے کے ڈھیر، مکھّی، مچھّر، کتّے، سب کچھ تھا۔ وہ سب اس کے عادی تھے۔ یہاں مذہب و ملّت کی تفریق نہیں تھی۔ ہر فرقے کے لوگ انسانیت کے رشتے میں بندھے ہوئے تھے۔ دُکھ سُکھ میں ایک دوسرے کے شریک۔ موت پر سب ایک ساتھ غمزدہ ہوتے تھے اور خوشی میں سب ایک ساتھ مست و سرشار۔ شہر کے وسط میں ان کی موجودگی سیاسی پناہ کے سبب بھی تھی۔ ہر نیتا انھیں ووٹ بینک سمجھتا تھا، سیاسی جلسوں میں بھیڑ بڑھانے اور نعرے لگانے کے لئے انہی لوگوں کی ضرورت پڑتی تھی۔ بارہا اس بستی کو ہٹانے کی کوشش کی گئی، لیکن ہر بار کوئی نہ کوئی ان کی مدد کے لئے آ گیا۔
لیکن اچانک آگ لگنے سے سارا منظر بدل گیا، آگ ایک جھگّی سے شروع ہوئی تھی۔ اور دیکھتے دیکھتے گرمی اور ہوا کی شدّت کے سبب پوری بستی اُس کی لپیٹ میں آ گئی۔ اس کی وجہ یہ بھی تھی کہ جھگّیوں میں جلنے کا سامان موجود تھا۔ پھونس، سوکھی لکڑیاں، پلاسٹک، ٹائر اور کیروسین۔ آگ جہنم کا منظر پیش کر رہی تھی۔ فائر بریگیڈ کی گاڑیاں آتے آتے سب کچھ ختم ہو گیا۔ عجیب افراتفری کا عالم تھا۔ جلتے ہوئے شعلوں سے لوگ کبھی خود کو بچاتے، کبھی سامان نکالنے کی کوشش کرتے، کوئی اپنے بچوں کو جھگّی کے باہر دھکیل رہا تھا، کوئی بوڑھے ماں باپ کو اُٹھا کر آگ کے شعلوں سے دُور لے جا رہا تھا۔ چاروں طرف ایک کہرام مچا ہوا تھا۔
تماش بینوں کی بھی ایک بھیڑ اکٹھی ہو گئی تھی۔ اخباروں کے رپورٹر اور ٹی وی کے کیمرے اس خوفناک منظر کی عکس بندی میں مصروف تھے۔ مسلسل کئی گھنٹوں کی جد و جہد کے بعد جب آگ پر قابو پایا گیا، تو لوگ اپنی جلی ہوئی جھگّیوں کی سلگتی ہوئی راکھ سے اپنے کھوئے ہوئے عزیزوں اور سامان کو ڈھونڈنے کے لئے پہنچے۔ لیکن وہاں کچھ نہیں تھا، سوائے جلے ہوئے سامان اور لاشوں کے کچھ نہیں ملا۔ کلثوم کی بوڑھی ماں جل گئی تھی، جو ضعیفی کی وجہ سے بھاگ نہیں سکی۔ رامو کا چھوٹا بیٹا جل گیا، وہ اپنی بیوی کے ساتھ اپنی بڑی بیٹی کے جہیز کو بچانے میں لگا رہا۔ تقریباً دس لوگوں کی آگ میں جل کر موت ہو گئی۔ بہت سے لوگ جھلس کر اسپتالوں میں پہنچ گئے۔ شعلے دب گئے تھے لیکن راکھ سے دھواں اُٹھ رہا تھا۔ تماشائیوں کی ایک بھیڑ اکٹھی ہو گئی تھی۔ لوگ مدد بھی کر رہے تھے اور باتیں بھی۔ سماجی کارکن اور سیاسی لوگوں کی آمدورفت شروع ہو گئی تھی۔ سرکار نے مرنے والوں کو ایک ایک لاکھ اور زخمیوں کو پچاس پچاس ہزار روپے دینے کا اعلان کیا۔ آگ لگنے کی تحقیقات کے لئے کمیشن بٹھایا گیا جبکہ سب جانتے تھے کہ آگ سب سے پہلے جھَریا کی جھگّی میں اسٹور پھٹنے سے لگی تھی، لیکن سب اپنی اپنی رائے پیش کر رہے تھے۔
’’یہ سب زمین خالی کرانے کا چکّر ہے۔ یہ زمین سیٹھ دولت رام کی ہے۔ سنا ہے اس نے اسے کسی بلڈر کے ہاتھ بیچ دیا ہے۔‘‘
’’میں نے تو سنا ہے کہ اس میں کوئی راجنیتک چال ہے۔ الیکشن ہونے والا ہے۔‘‘
’’آگ لگا کر مدد کر کے ہر پارٹی ہمدردی اور ووٹ حاصل کرنے کی کوشش کرے گی‘‘
’’کارن کچھ بھی ہو لیکن مرنے والے اپنے خاندان کو لکھ پتی بنا گئے۔‘‘
’’ہاں بھئی کلثوم کی ماں تو مرے برابر ہی تھی۔ چل پھر بھی نہیں سکتی تھی اور دینو کا باپ اپاہج تھا۔‘‘
’’ارے میاں ایک لاکھ روپیہ کبھی دیکھا بھی نہیں ہو گا۔ یہ تو مرا ہاتھی سوا لاکھ والی بات ہو گئی۔‘‘
بہتوں کو اس بات کا افسوس تھا کہ اس کے گھر کا کوئی فرد جل کیوں نہیں گیا۔ بہوئیں اپنی ساسوں کے نہ جلنے اور بیٹے اپنے بوڑھے ماں باپ کے بچنے پر افسوس کر رہے تھے۔
’’بڑھیا مر جاتی تو گھر میں خوشحالی آ جاتی‘‘
’’ارے یار میرا بڈّھا آگ دیکھ کر لونڈوں کی طرح جھگّی سے باہر بھاگا، ویسے اُٹھ کے پانی بھی نہیں پیتا تھا‘‘
جائے حادثہ پر کئی دن تک میلا سا لگا رہا۔ دور دور سے تماشائی جلی ہوئی بستی کو دیکھنے آ رہے تھے۔ خوانچہ والے بھی وہاں پہنچے ہوئے تھے، کوئی چھولے پوری بیچ رہا تھا۔ کوئی آئس کریم کا ٹھیلا لئے کھڑا تھا، کہیں بھٹّے بھن رہے تھے، کوئی پان بیڑی سگریٹ بیچنے میں مصروف تھا۔ وہ گندی جھگّیوں والی بستی آگ لگنے سے سب کی توجہ کا مرکز بن گئی تھی۔ بڑے بڑے لوگ اور بڑی بڑی گاڑیاں وہاں آ کر رک رہی تھیں۔ اہل زر سخاوت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بے گھر افراد کے لئے ضروری سامان فراہم کر رہے تھے۔ اس میں مدد کا جذبہ کم اور خدا کے یہاں اس کے عوض دس لاکھ لینے کا لالچ زیادہ تھا۔ دو تین روز میں اتنا گھریلو سامان اور کھانا جمع ہو گیا کہ ان غریبوں نے پوری زندگی نہیں دیکھا تھا۔ پہلے سے اچھّے کپڑے ان کے بدن پر تھے۔ پہلے سے اچھّا کھانا بغیر کسی محنت کے مل رہا تھا۔ زندگی کی یہ بدلی شکل دیکھ کر وہ شعلوں کی تپش بھُول گئے۔ پھر جھگّیاں بن گئیں۔ زندگی اسی رفتار سے چلنے لگی، وقت گزرتا گیا، آہستہ آہستہ زندگی کی وہی گندی، بدبو دار اور لاچار شکل پھر اُبھر آئی۔ محرومی اور بے چارگی کا احساس پھر اس بستی میں لوٹ آیا۔ سب کی وقتی ہمدردیاں ختم ہو گئیں۔ پھر وہ بستی شہر کا بدنما داغ کہلائی جانے لگی۔ چولہے۔ پھر ٹھنڈے ہو گئے۔ بدن پر پھر پھٹے پرانے کپڑے نظر آنے لگے۔ سب کچھ پہلے جیسا ہو گیا۔ نجّو نے بڑی حسرت بھری آواز میں اپنی ماں سے پوچھا۔
’’ماں ہماری جھگّیوں میں پھر کب آگ لگے گی؟‘‘
٭٭٭
ماخذ:
http://www.ibnekanwal.com
تدوین اور ای بک کی تشکیل: اعجاز عبید
ظفر اقبال کی شاعری میں فنی اور لسانی خامیاں
ظفر اقبال کی شاعری اردو ادب میں جدیدیت اور انفرادیت کی مثال سمجھی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں جدید...