وہ کمرے میں داخل ہوا تو دیکھا کہ ارحام تکیوں کو دور پھینکتا بیڈ کے درمیان میں بیٹھا رونے میں مصروف تھا
ارے میرا شہزادہ اٹھ گیا
وہ اس کے پاس بیٹھتا بولا
پاپا میں آپ سے ناراج ہوں۔۔۔۔ مجھے نہ بلائیں۔۔۔۔
وہ منہ بسورتے بولا
ارحم نے بڑے پیار سے اپنے لال پھولے گالوں والے ساڑھے چار سالہ بیٹے کو دیکھا جو کہ حد سے زیادہ شرارتی بھی تھا
یار ارحام اب میں نے کیا کر دیا
وہ اسے گود میں لیتا بولا
آپ مجھ سے پیار نہیں کرتے آپ صرف ماما سے پیار کرتے ہو؟اسی لیے میں نہیں بولتا
وہ اب دوبارہ بیڈ پر بیٹھ چکا تھا وہ غالباً جان گیا تھا کہ اس کا باپ گھر آ چکا ہے
اچھا تو کل کون کہہ رہا تھا کہ
“ماما! پاپا تو آپ سے زیادہ مجھے پیار کرتے ہیں”
وہ اسے اٹھاتے بیڈ سے اٹھا لیکن اس نے کوئی جواب نہ دیا
اچھا تو پھر میں تو کہہ رہا تھا کہ ارحام کے چاچو کے پاس چلتے ہیں لیکن یہاں تو لوگ ہی ناراض ہیں؟
وہ جانتا تھا کہ وہ کیسے مانے گا
سچی، ہم چاچو کے پاس جائیں گے پاپا کب جائیں گے کتنی دیر ہو گئی ان سے ملے
وہ اپنی گرین آنکھوں سے دیکھتا خوشی سے چلایا
واؤ کتنا مزہ آئے گا نہ
وہ دوبارہ سے نارمل ہو چکا تھا
ہاں تجھے تو مزہ آئے گا لیکن اسے نہیں آئے گا نہ؟
ارحم دوبارہ بیڈ پر لیٹ چکا تھا اور ارحام اس کے اوپر بیٹھا اپنی ٹون میں واپس آ چکا تھا
آپ چاچو کو رہنے دیں انہیں کبھی مزہ آیا بھی ہے لیکن پچھلی بار تو انہوں نے پرامس کیا تھا کہ وہ مجھے فارم ہاؤس میں اپنے ایریل سے ملوئیں گے
وہ اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھ اس کے چہرے پہ مارتا کہہ رہا تھا کہ تبھی ارحہ اندر آئی اس کے ہاتھ میں ایک ٹرے تھا جس میں دو مگ چائے کے اور ایک گلاس دودھ کا تھا
یہ آپ سے چاچو نے کہا تھا؟
وہ مشکوک نظروں سے اسے دیکھ رہی تھی کیونکہ وہ کبھی ایسا نہیں کہہ سکتا اور وہ بھی ارحام کو
اس کی اس بات پر وہ کھلکھلا کر ہنسا تھا
چاچو آسانی سے مانتے بھی نہیں نہ
وہ اس کے ہاتھ سے گلاس لیتا بولا
ضرور کچھ نہ کچھ کیا ہو گا اِس نے اسی لیے کہہ دیا ہو گا ویسے بھی یہ ہی اس سے لڑ لیتا ہے
ارحم چائے کا گھونٹ لیتے بولا
اچھا ارحام آپ اب برش کر کے آئیں
وہ اسے بھیجتی ارحم کی طرف مڑی
بات ہوئی تھی آپ کی فرزام سے؟
ہممم۔۔۔۔ ہوئی تھی اور حورم واپس آ چکی ہے
اچھا کب اور ہم کب جائیں گے ملنے پھوپھو کی بھی اتنی یاد آ رہی ہے اور حورم سے بھی ملنا ہے
وہ خوش ہوتے بتا رہی تھی لیکن اسے چپ دیکھتے بولی
ارحم کیا ہوا ہے؟
کچھ نہیں بس حورم کی وجہ سے پریشان ہوں میں نے شاہ کو سمجھایا بھی تھا کہ بدلے کی آگ میں اتنا نہ گر جائے اور حورم کو اس سے دور ہی رکھے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ وہ مانے گا
وہ آنکھیں بند کیے بولا تو ارحہ بھی چپ ہو گئی کیونکہ وہ جانتی تھی کہ اس بار شاہ اپنا نقصان ہی کرے گا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ارحہ حورم اور فرزام کے ماموں کی بیٹی تھی اس کے نانا نانو یورپ سے تعلق رکھتے تھے جبکہ ارحام نے اپنی گرین آنکھیں ارحہ کی ماں سے چرائی تھیں
اور پانچ سال پہلے ارحم کی ملاقات ارحہ سے ہوئی اور جلد ہی شادی کر لی جبکہ اس سارے عرصے کے دوران شاہ ان سے دور تھا جس کی وجہ سے وہ شادی پر بھی نہ آ سکا
وہ شام کو اپنے کمرے سے باہر نکلی اور لاؤنج میں چلی آئی جہاں پر فرزام خبریں دیکھ رہا تھا کہ ہیڈلائنز سن کر اس کے قدم رک گئے
“ناظرین ہم آپ کو بتاتے چلیں کہ کراچی کے ایک مشہور مال کے پارکنگ ایریا سے دو لاشیں ملیں ہیں جبکہ پولیس کی تفتیش سے معلوم ہوا ہے کہ ان دونوں نے ایک دوسرے کو شوٹ کیا ہے کیونکہ دونوں پسٹلز پر ان دونوں کی انگلیوں کے نشان تھے اور ان کے ہاتھوں میں موجود پسٹلز سے نکلنے والی گولیاں بھی ایک دوسرے کو ہی لگیں ہیں”
سامنے ان کی تصوریں بھی دکھائی جا رہی تھیں جبکہ حورم ابھی تک سکتے کی کیفیت میں تھی وہ تو سمجھ رہی تھی کہ پتہ نہیں کیوں اس نے پسٹلز کو صاف کر کے ان کے ہاتھوں میں تھمائی تھی وہ دوبارہ سوچ کر جھرجھری لے کے رہ گئی
افف۔۔۔۔ کتنا تیز انسان ہے
وہ فرزام کے پاس آ گئی اور صوفے پہ بیٹھ گئی اس کا دل تو کیا تھا کہ اس بدتمیز انسان کے بارے میں بتا ہی دے لیکن پھر چپ ہو گئی
بھائی اٹھ گئے آپ؟
وہ اس کے ہاتھ سے ریموٹ لے کر آواز بند کرتی بولی
میں تو کب کا اٹھ گیا ہوں لیکن آپ بتائیں مما بتا رہی تھیں کہ شاپنگ پر گئی تھی
جی بس تھوڑی بہت شاپنگ کرنی تھی
اچھا میں نے کل شام ایک پارٹی رکھی ہے جس میں پورے سٹاف اور کچھ بزنس پارٹنرز بھی ہیں اور وہ سپیشلی آپ کے لیے رکھی گئی ہے
وہ اسے بتاتے بولا
لیکن بھائی رہنے دیتے اور ویسے بھی مجھے زیادہ رش نہیں پسند اب؟
وہ نرمی سے بولی
حورم تو کون کہہ رہا ہے کہ آپ ساری پارٹی میں اٹینڈ کرو بس آپ کے آنر ہونے کی اناؤسمنٹ کرنی ہے
چلیں دیکھے گیں اچھا میں اب تھواری دیر اپنے باغیچے سے ہو آؤں دو سال بعد اپنے پودوں سے ملوں گی نہ جانے آپ نے ان کی کئیر کی ہو گی بھی یا نہیں
وہ مسکراتی اٹھ گئی
آہاں۔۔۔اپنے سے زیادہ کئیر کی ہے اب ویسے ہی وہ آپ کے بغیر اداس ہوں تو الگ بات ہے
وہ بھی مسکراتے بولا
اچھا بھائی آپ بھی آئے نہ؟
آپ جاؤ میں ایک فون کال کر کے آیا
اوکے
وہ سر ہلاتی باہر کی جانب بڑھ گئی پورچ سے نکل کر باہر آئی اور پتھر کی روش پر چلتی باغیچے میں داخل ہوئی جیسے ہی اس نے قدم رکھا ایک ٹھنڈی ہوا کے جھونکے نے اس کا استقبال کیا جیسے وہاں پر موجود ہر چیز خوشی سے سرشار ہو گئی ہو
جیسے وہ اس کی خوشبو پہچان گئے پھولوں نے اسے آتے دیکھ کر خوشی سے بھینی بھینی خوشبو چاروں طرف پھیلا دی اور باغیچے کے درمیان میں ہی سفید آسٹریا کا درخت تھا جس نے اپنی شاخیں گرا کر سفید پھولوں کی بارش کی اور اوپر سے چاندنی رات اپنے پر پھیلائے بیٹھی تھی اسے اپنے چاروں طرف ہی ایک الگ ہی سا احساس ہوا
آخر کو تیرہ سال ہونے والے تھے اس باغیچے کے ساتھ رہتے اور اس نے ان دو سالوں میں اس جگہ کو بھی یاد کیا تھا
وہ خوش ہوتے گلابی بلیڈنگ ہارٹ کے پودوں جس کے اطراف میں سفید آسٹریا کے پتے بکھرے تھے گول گھومنے لگی وہ آج کتنی دیر بعد خوش ہوئی تھی وہ جو باتیں کسی سے نہیں کہہ پاتی تھی اس نے اپنی وہ ہر خوشی اور غم کو یہاں ان کے ساتھ بانٹا تھا جنہوں نے خاموشی سے اندر اتار لیں
اس کے کرلی بال ہلکی ہلکی ہوا میں اڑ رہے تھے چاند کی چاندنی نے، ہوا کی نرمی نے، آسٹریا کے پتوں نے اور بلیڈنگ ہارٹ کے پھولوں نے بے ساختہ ہی ان کے باغ کی شہزادی کو ہمیشہ یونہی خوش رہنے کی دعا کی لیکن کون جانے یہ دعا کتنی قبول ہونی تھی
وہ آنکھیں بند کیے کھڑی تھی کہ جب بند آنکھوں کے پردے پر دو ساحر کالی آنکھیں لہرانے لگیں اس نے جھٹ سے آنکھیں کھولیں تھیں
اور آس پاس دیکھنے لگی اس کو ایک دم ہی بے سکونی ہونے لگی سب نے بے چینی سے اپنی شہزادی کو دیکھا تھا
وہ خیال تھا ، دھنک نما،
یا کوئی عکس تھا میرے روبرو،
مجھے ہر طرف سے تو لگا،
یا کوئی اور تھا تیرے ہو بہو ۔۔۔۔ !
وہ آرام سے اس نرم گھاس پر بیٹھ گئی اور اپنا سر گھٹنوں پر رکھ دیا اس کے شدت سے دل چاہا کہ وہ آنکھیں اس کے سامنے ہوں اور وہ ان آنکھوں کی گہرائیوں میں ڈوب جائے ہاں وہ ان آنکھوں میں ڈوبنا چاہتی تھی اس کے سحر میں قید رہنا چاہتی تھی جہاں سے اسے رہائی نہ ملے لیکن وہ جانتی تھی کہ یہ ممکن نہیں پتہ نہیں وہ کیسی خواہش کر رہی تھی کیا اسے ماضی بھول گیا تھا
میں تجھ کو جاگتی آنکھوں سے چھو نہ سکوں کبھی
میری انا کا بھرم رکھ میرے خواب میں تو آ
آنکھوں سے پانی بہہ کر اس کے ہاتھوں پر گرا لیکن وہ اسے کبھی نہیں پا سکتی
اور اس کے ہونٹ کے اوپر تل نے اسے بڑی طرح اپنی طرف کھینچا تھا اس کا دل شدت سے اسے محسوس کرنا چاہا
وہ اسے دیکھنے سے بھی گریز کر رہی تھی
اک سو سالہ چاندنی راتیں
اک تمھارے ہونٹ کا تل
لیکن اسے کیا پتہ کہ ان لمحوں نے اسے کتنا رسوا کرنا تھا کن کن لمحوں میں تڑپنا تھا کیسے شدت سے مانگنا تھا
نہ جانے اس ایک لمحے میں کیا تھا کہ وہ اپنا سب ہار بیٹھی تھی وہ رونا بھی نہیں چاہتی تھی لیکن آنسو خودبخود ہی آ رہے تھے
چلیں آئیں ہیں کسی کا عکس لے کر
یہ آنسو آج پھر کوئی تماشہ چاہتے ہیں
نہ جانے اس کی دعائیں کیوں نہیں قبول ہو رہی تھیں اس نے دعا کی تھی کہ کوئی اس کی زندگی میں نہ آئے پھر یہ زندگی اسے کس ڈگر پر چلانے لگی تھی
کن راستوں کا مسافر بنانے لگی ہے جن منزلوں کا اسے پتہ ہے کہ اس کی نہیں ہو سکتیں اسے اپنی زندگی کی ایک ایک تلخ حقیقت کا پتہ تھا
“نکاح مبارک ہو مسز اور اسے اتارنا مت تا کہ یہ تمھیں یاد دلاتا رہے کہ یہ میں نے صرف اپنے بھائی کے کہنے پر کیا ہے امید ہے کہ تمھارا دو سال کا یہ سفر اچھا رہے”
وہ شدت سے رو دی وہ کیسے بھول سکتی تھی اسے اور اس نے کیسے سوچ لیا کہ وہ اس کا ہو سکتا ہے
“تم نے مجھے ٹھکرا کر اچھا نہیں کیا لیکن ایک بات یاد رکھنا حورم کہ جو لوگ محبت کو ٹھکراتے ہیں محبت انہیں ہی ٹھکرا دیتی ہے”
اسے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ وہ کیا کرے کہ تبھی اسے سامنے سے فرزام آتا دکھائی دیا اس نے جلدی سے آنسو صاف کیے اور گھاس پر ہاتھ پھیرنے لگی وہ اس کے ساتھ آ کر بیٹھ گیا
میری گڑیا کو رونا کس بات پر آ رہا ہے؟
اس نے سامنے دیکھتے پوچھا اور اس نے کیسے سمجھ لیا کہ وہ اس سے اپنے آنسو چھپا سکتی ہے
بھائی ایک بات پوچھوں آپ سے؟
اس کی نظریں ابھی تک گھاس پر تھیں
پوچھو؟
اگر کوئی آپ کو بددعا دے تو اس کی قبول ہو جاتی ہے لیکن اگر کوئی دعا کرے تو اس کی کیوں نہیں ہوتی؟
اس نے نظریں اٹھا کر سامنے دیکھا
حورم یہ بددعا کا قبول ہونا اس انسان کی نیت پر ڈیپینڈ کرتا ہے جس نے دی ہے اگر اس نے سچے دل سے دی اور ساتھ میں ضروری ہو کہ جس بات پہ اس نے بددعا دی ہے وہ ظلم اس کے ساتھ ہو۔۔۔۔۔
اس نے گہرائی سے کہا
ظلم؟
ہاں ظلم حورم ضروری نہیں ہوتا کہ ظلم کسی کو تکلیف دینا ہو نہیں اگر ہم کسی چیز کو اس کے سہی مقام پر بھی نہیں رکھتے ہیں نہ تو یہ بھی ظلم میں ہی آتا ہے ہم کسی کی چیز رکھ لیں یہ بھی اس کے ساتھ ظلم ہو گا ہم کسی کی حق تلفی کر لیں تو یہ بھی ظلم میں ہی آتا ہے ظلم کی اور بہت سی قسمیں ہیں اور اگر کسی کے ساتھ واقعی ہی ظلم ہو اور اگر وہ سچے دل سے بددعا دے تو وہ لگ جاتی ہے اسی لیے کسی کا دل نہیں دکھانا چاہیے
اسے نہیں پتہ تھا کہ وہ کیوں پوچھ رہی ہے اور نہ ہی وہ پوچھنا چاہتا تھا
دل دکھانا؟ہاں اس نے بھی تو کسی کا دل دکھایا تھا اور اس کے ساتھ ظلم ہوا تو اس کی بددعا اسے لگ جانی تھی اور اس نے کہا بھی کیا کہ محبت میں ٹھکرایا جائے
اور دعا؟
اس نے فرزام کی طرف دیکھا
دعا!!
دیکھو حورم جو بندہ دعا مانگے ہی نہ تو اسے وہ چیز کیسے ملے گی اور اگر وہ مانگے اور اللہ اسے وہ چیز نہیں دے رہا تو اس میں کوئی نہ کوئی مصلحت ہو گی وہ جو کرتا ہے اپنے بندے کی بھلائی کے لیے ہی کرتا ہے بس بندہ ہی بے صبرا ہوتا ہے اس سے صبر نہیں ہوتا اور وہ ناامید ہو جاتا ہے لیکن اسے ناامیدی پسند نہیں
لیکن بھائی ملتا تو وہی ہے نہ جو قسمت میں لکھا ہو؟
اس کی بات پر وہ دھیرے سے ہنس دیا
اگر انسان کے ساتھ وہی ہوتا رہے وہی ملتا رہے جو اس کی قسمت میں لکھا ہے تو دعا کا کیوں کہا جاتا کہ دعا مانگو اور کیا پتہ انسان کی قسمت میں ہی لدینکھا ہو کہ یہ بندہ اس وقت جو دعا میں مانگے گا وہ اسے دے دیا جائے اور دعائیں ساری قبول ہوتی ہیں بس اپنے اپنے سہی وقت پر اور اگر کوئی دعا تم سمجھو کہ نہیں قبول ہوئی تو اس میں آپ ہی کی بہتری ہو گی اور آپ کو وہ دے دے جو اس سے بہتر ہو
وہ بڑے انہماک سے اسے سن رہی تھی جبکہ فرزام غور سے اسے دیکھ رہا تھا جبکہ فرزام سمیت اس باغیچے کی ہر چیز نے اس اس کے بھائی کی گڑیا اور اس باغیچے کی شہزادی کی دعا قبول ہونے کی دعا مانگی اور چلتی ہوا دھیرے سے آمین کہتی گزر گئی اور اس موم کی گڑیا نے دعا مانگی
کہ اس کے ساتھ وہی ہو جو اس کے حق میں بہتر ہو
حورم تمھیں پتہ ہے کہ جب میں اور امل چھوٹے ہوتے تھے تو ہمیں ایک چھوٹی سی گڑیا کی بڑی خواہش تھی امل تو میرے سے ایک سال ہی چھوٹی تھی لیکن جب میں پانچ سال کا تھا نہ تو مجھے ایک چھوٹی سی گڑیا چاہیے تھی جس کے ساتھ میں سارا دن کھیلوں اسے اٹھائے رکھوں اس کو کوئی دکھ نہ دوں اس کا خیال رکھوں وہ جو چیز کہے اس کے کہنے سے پہلے میں اسے لا کر دوں اور پھر اللہ نے مجھے تمھاری صورت میں ایک پیاری سی ننھی سی گڑیا دی اور میں اور امل تمھیں اتنا پیار کرتے کہ تم رونے لگ جاتی اور ہم تمھیں اتنا اٹھایا کرتے کہ جس عمر میں بچے روتے تھے کہ ہمیں اٹھائے رکھو تم رویا کرتی کہ مجھے نیچے اتارو
وہ یاد کرتا ہنس دیا
اور اب دیکھو ہماری گڑیا کتنی بڑی ہو گئی ہوئی ہے
اس کی بات پر وہ نرمی سے مسکرا دی
اچھا چلو آؤ اندر چلیں ماما پوچھ رہی تھیں
بھائی میں ابھی آتی ہوں تھوڑی دیر اور ادھر رہنا ہے
وہ سر ہلاتا اندر کی جانب بڑھ گیا
اور وہ اپنی زندگی کے نشیب و فراز پر غور کرنے لگی اس کی شرارتیں اس کا ہر وقت ہنسنا مسکرانا
آج تو اس باغیچے پر بھی اداسی کی شام اتری ہوئی تھی کیونکہ انہوں نے کافی عرصے سے اس کی ہنسی ہی نہیں سنی تھی
“میرا سیدھا سادہ مزاج تھا
مجھے عشق ہونے کی کیا خبر
تیرا اک نظر مجھے دیکھنا
میرے سارے شوق بدل گیا ”
وہ اٹھ کر اندر آ گئی جہاں فرزام مما اور آج تو تائی امی بھی تھیں ان کا رویہ شروع سے ہی اس سے کھنچا کھنچا رہتا تھا اور حورم نے بھی کبھی اتنی توجہ دینا ضروری نہیں تھا سمجھا کیونکہ باقی اس کے بڑے پاپا اس سے پیار کرتے تھے
چوھدری حماد اور حمدان ابھی تک گاؤں ہی تھے جانا تو پہلے تھا لیکن بچوں کے آنے کا انتظار کر رہے تھے اور اتنی جلدی واپس تو آیا نہیں جاتا کہ روز ہی آتے جاتے رہیں وہ تھوڑی دیر بعد اٹھ کر کمرے میں آ گئی
کمرے میں ابھی آئے اسے تھوڑی دیر ہی ہوئی تھی کہ اس کا فون پر کال آنے لگی اس نے دیکھا تو نینا کی کال تھی اس نے اٹینڈ کر لی
ہیلو مس نینا
What happened?
وہ میم صبح میٹنگ ہے اور سر شاہ نے آپ کو انفارم کرنے کے لیے کہا ہے میٹنگ ایک مال میں ہے جبکہ آپ کو صبح آفس آٹھ بجے تک پہنچنا ہے اور میٹنگ نو بجے ہے
وہ ایک ہی سانس میں اپنے سر شاہ کا کہا کہہ گئی لیکن جواب میں اسے فقط اتنا ہی ملا
Okay
اور فون بند۔۔۔۔۔
وہ بیڈ پر بیٹھ گئی اور ایک بار پھر اس کی سوچوں کا محور وہ شخص تھا جس کے بارے میں وہ جانتی تک نہیں تھی جس کے نام کے علاوہ اسے کچھ معلوم ہی نہ تھا اور آج جو مال میں ہوا وہ اس کے لیے ناقابل یقین تھا ایسے کیسے وہ کسی کو مار سکتا تھا کچھ تو مسنگ تھا جو اسے نہیں معلوم ۔۔۔۔۔
لیکن کیا تھا
وہ اٹھ کر آئینے کے سامنے کھڑی ہو گئی اور اپنا عکس دیکھنے لگی لیکن یہ کیا اس کی آنکھیں تو کسی اور کا عکس دکھا رہیں تھیں اس نے کنشول کو دونوں ہاتھوں سے تھام کر دباؤ ڈالا اور آنکھیں زور سے میچ کر سر جھکا لیا جیسے انتہا کا ضبط کر رہی ہو اس نے سوچ لیا تھا کہ وہ ہرگز بے مول نہیں ہو گی اور نہ ہی اسے حاصل کرنے کے لیے جستجو کرے گی
نہیں حورم چودھری نہیں تم اتنی کمزور ہرگز نہیں تمہیں اس کے ساتھ رہ کر اس کے سامنا کرنا ہو گا جو دو سالوں خول چڑھایا ہوا ہے نہ اسے اب ٹوٹنے نہیں دینا
خود سے ہی بولتی اس نے سر اٹھایا تو اب اس کی آنکھوں میں ایک عجب ہی تاثر تھا سرد سا احساس بے تاثر آنکھیں
وہ سامنے سے ہٹی اور سونے کی تیاری کرنے لگی
اسے کیا پتہ کہ اس سے جڑے ہر رشتے کی ڈور اس کی زندگی کی پتنگ سے جڑی تھی اور دیکھنا یہ تھا کہ یہ ڈور آخر میں کس کے ہاتھ میں رہے گی
وہ ٹراؤزر شرٹ پہن کر نیچے آیا جہاں صارم فون میں مصروف تھا اور اسے دیکھتے سیدھا ہوا وہ بھی آ کر اس کے ساتھ بیٹھ گیا
اب کیا سوچا ہے آگے کا؟
اس نے فون رکھتے پوچھا
کس بارے میں ؟
وہ آرام سے ٹیک لگائے بیٹھا تھا
یار ڈیل کا؟انہوں نے تو ہاں کر دی ہے لیکن ہمیں محتاط رہنا ہے کیونکہ وہ اسمگلنگ میں سب سے بڑا نام ان کا ہی ہے تو کوئی خطرہ نہ ہو جائے
تم نے جتنا محتاط رہنا ہے رہ لو لیکن ایک بات یاد رکھنا کہ گھر میں کسی کو بھی اس بارے میں خبر نہیں ہونی چاہیے
وہ آہستہ آواز میں بولا اور صارم آگے سے کچھ کہتا کہ اسے سامنے سے آبش آتی نظر آئی اسے دیکھ کر وہ چپ کر گیا
کیا ہوا اب تم دونوں کی بولتی بند ہو گئی ہے کیا؟کیا کھسر پھسر کر رہے تھے
وہ ان کے پاس آتی بولی
یہ صارم سے پوچھ لو کہہ رہا تھا کہ میرا ابھی تک چڑیل سے سامنا نہیں ہوا۔۔
اس نے لاپرواہی سے جواب دیا
جہاں صارم گڑبڑایا وہاں آبش کا دماغ گھوما
کیا تم نے مجھے چڑیل کہا صارم؟
کیا!!
میں نے ویسے تو کسی کو بھی نہیں کہا ہاں البتہ چڑیل کہا تھا اور اب تم خود کہہ رہی ہو کہ تم چریل ہو تو میں کیا کر سکتا ہوں؟
وہ بمشکل مسکراہٹ دباتا بولا
صارم آ لینے دو چاچو کو بتاتی ہوں تمھاری کرتوتیں کہ کیا کیا کرتے پھرتے ہو تم
اس کی بات پر وہ اچھل ہی گیا اور میر کو بری طرح گھورا
یہ۔۔ یہ سب تیرا کیا دھرا ہے نہ کہ پہلے تو اسے میرے سے لڑوائے اور پھر میری ہی شامت۔۔۔میر قسم سے تیرا سے بدلہ ضرور لوں گا
اور تم۔۔۔۔ پاپا کو بتانے کی کوئی ضرورت نہیں ہے اور ویسے بھی میں نے سب لڑکیوں کے نمبر ڈیلیٹ کر دیے ہیں اور کسی کو نہیں جانتا میں
وہ دونوں کو کہتے بولا
چلو چاچو کو نہیں ثناء کو تو بتانا ہی پڑے گا
وہ آنکھیں پٹپٹاتی بھاگ گئی جبکہ اس کا منہ کھلا رہ گیا
میر یہ دیکھ لے تو کتنا کمینہ کزن ہے تو اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ سب ہمارے کام کی وجہ سے ہی کرنا پڑا اور تیرے۔۔۔ تیرے کہنے پر کیا تھا ورنہ مجھے کوئی شوق نہیں تھا اور تو ایسا کیسے کر سکتا ہے
وہ صدمے سے اس کی طرف دیکھتے بولا
جبکہ وہ ہنس دیا
Chill dude
وہ کسی کو کچھ نہیں بتائے گی ہاں تجھے بلیک میل کر رہی ہے
اسے تو پتہ چل گیا ہے نہ اور قسم سے کسی دن مجھے تیرے سے بدلہ لینے کا موقع ملا نہ تو گن گن کے لوں گا۔۔۔۔۔
وہ غصے سے پیر پٹختا چلا گیا جبکہ وہ کسی سوچ میں گم ہو چکا تھا
ماضی۔۔۔۔۔۔۔
یہ اس کی برتھڈے سے ایک مہینہ پہلے کی بات تھی جب عاشر پاکستان آیا تھا وہ جب سے بڑا ہوا زیادہ تر باہر ہی رہتا اور اب حورم کی سالگرہ تھی جب وہ سترہ سال کی ہونے والی تھی
فرزام ان دنوں ایتھنز میں ہی تھا
حورم کی سالگرہ میں کچھ دن رہتے تھے جب عاشر نے اپنی ماں سے کہا کہ وہ چاچو سے اس کے لیے حورم کا رشتہ مانگیں اس کی بات پر پہلے تو رافعہ بیگم بڑی طرح بھڑکیں
عاشر تم ہوش میں تو ہو کہ یہ تم کیا کہہ رہے ہو؟تم چاہتے ہو کہ میں اس لڑکی کو اپنی بہو بناؤں جس کی اس گھر میں پہلے سے ہی اتنی اہمیت ہے اور اب ساری زندگی اسے یہاں ہی رکھوں تو یی ناممکن ہے
مام آپ سمجھ نہیں رہیں آپ بات کریں گی بابا سے پہلے اور پھر وہ چاچو سے کریں گے
وہ اپنا حتمی فیصلہ سنا کر چلا گیا جبکہ وہ سر تھام کر بیٹھ گئیں
پھر حماد صاحب نے بڑی خوشی سے حورم کا ہاتھ مانگا تھا
حمدان چودھری کو تو یہ جلدی لگی لیکن وہ اپنے بھائی کو انکار بھی نہیں کر سکتے تھے انہوں نے فرزام سے بھی بات کی اس نے تو کہا کہ بابا اتنی کیا جلدی ہے ابھی لیکن انہوں نے سوچا تھا کہ ایسے ان کی گڑیا ان کے سامنے ہی رہے گی
پھر اس کی برتھڈے کا دن بھی آ گیا اسے نہیں پتہ تھا کہ یہ صحیح ہے یا نہیں وہ تو ابھی تک بچی ہی تھی ہر وقت شرارتیں اور اب بھی وہ اپنے والدین کے چہروں پر خوشی دیکھ کر کچھ نہ کہہ پائی
پھر اس کی سالگرہ کے دن ہی نکاح کی تقریب رکھی گئی زیادہ بڑا فنکشن تو تھا ہی نہیں اور فرزام آیا نہیں تھا کیوں کہ اس کا آخری سال تھا اس نے تو آنا چاہا بھی تھا لیکن حمدان چودھری نے منع کر دیا
نکاح کے بعد عاشر باہر چلا گیا اور حورم کالج کے آخری سال میں تھی
اسی طرح ایک دن کالج میں ایک لڑکی آئی سارہ وہ پہلے حورم سے ہی ملی اسے یہ شوخ و چنچل سی لڑکی بہت اچھی لگی تھی اور اس نے ہی حورم کو دوستی کی آفر کی تھی اور ان دونوں کی دوستی دن بدن گہری ہوتی گئی
ایک دن وہ دونوں کالج کے لان میں بیٹھی ہوئی تھیں کہ سارہ نے حورم سے پوچھا
حورم کیا تم آگے پڑھو گی؟
کیوں میں کیوں نہیں پڑھوں گی
اس نے سوال کیا
نہیں میرا مطلب ہے کہ بعد میں کہاں کوئی پڑھنے دیتا ہے اور نہ ہی پڑھا جاتا ہے زیادہ تر۔۔۔۔۔۔
نہیں ایسا نہیں ہے
حورم نے کہہ تو دیا لیکن خود سوچ میں پڑھ گئی اور وہ دن حورم چوھدری کی زندگی میں پہلا دن تھا جب اس نے کسی بات کو سوچا تھا
اگر واقعی میں نہ پڑھ سکی تو۔۔۔ نہیں ایسا نہیں ہو گا
پھر ایسے ہی سال ختم ہونے کو آیا تھا تو ان کے کالج کا ٹرپ مری کے لیے جانا تھا
ان دونوں نے بہت کچھ سوچا تھا کہ اچھی یادیں بنانی ہیں
راستے میں ریفریش ہونے کے لیے اسلامآباد میں میکڈونلڈ پر دو گھنٹے کا سٹے تھا
انہوں نے کھانے کے لیے کچھ لیا اور اس کے بعد تصویریں بنائیں
دو گھنٹے پورے ہی نہیں ہو رہے تھے کہ حورم سارہ لو کر بیک سائیڈ پر آ گئی
یار میرا نہ کچھ کرنے کو دل کر رہا ہے
سارہ نے چونک کر اس کی طرف دیکھا جو مسکرا رہی تھی اور پھر اس کی نظروں کے تعاقب میں دیکھا جہاں دو خوش شکل نوجوان دو لڑکیوں کے ساتھ ایک ٹیبل پر جا رہے تھے
سارہ نے بے اختیار نفی میں سر ہلایا
حورم نووو
جبکہ وہ اس کا ہاتھ پکڑے اسی جانب آ گئی
اب دیکھتی جاؤ میں کیا کرتی ہوں
وہ آنکھوں میں تھوڑے تھوڑے آنسو لاتی بولی اور چل پڑی سارہ نے روکنے کی کوشش بھی کی تھی لیکن اس نے کہاں کسی کی سننی تھی
آپ میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہیں
وہ دونوں ہاتھ میز پر رکھتے بولی جبکہ وہ چاروں چونک گئے اور اس کی طرف دیکھا جو کہ بہت پیاری سی نیلی آنکھوں والی لڑکی تھی جس نے بلیو جینز پر براؤن شرٹ اور اوپر لانگ شوز پہنے ہوئے تھے اور بلیک ہی لانگ کوٹ تھا جبکہ گلے کے گرد مفلر لپیٹا ہوا تھا
آپ ایسا کیسے کر سکتے ہیں پہلے وعدے مجھ سے اور اب اس۔۔۔ اسے ساتھ لے کر گھوم رہے ہیں میں آپ کو کبھی معاف نہیں کروں گی اس کے لیے
وہ اس کے ساتھ بیٹھی لڑکی کو نم آنکھوں سے دیکھتے بولی جبکہ جسے کہہ رہی تھی وہ آرام سے سن گلاسز پہنے غور سے اسے دیکھ رہا تھا جس پہ اسے غصہ آیا کہ وہ کچھ اور بولتی کے دوسرے لڑکے نے کہا
دیکھیں مس آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے
مجھے ۔۔مجھے غلط فہمی ہوئی ہے دیکھ لینا جیسے انہوں نے مجھے چھوڑا ہے نہ اسے بھی چھوڑ دیں گے
جبکہ وہ لڑکی ہکا بکا اسے دیکھ رہی تھی اور جس طرح وہ آئی اسی طرح چلی گئی جبکہ وہ تینوں منہ کھولے اسے دیکھ رہے تھے جبکہ وہ خود پر سکون ہی تھا
یہ یہ کیا کہہ رہی تھی اور میری طرف کیوں اشارہ کر رہی تھی اور یہ ہے کون
آبش اب اس سے پوچھ رہی تھی
میری گرل فرینڈ تھی
وہ سکون سے بولا جب وہ تیبوں چلائے
کیاااااا؟
کیا ہو گیا جب تم لوگوں کو نہیں پتہ کہ وہ کون ہے تو مجھے کیوں پتہ ہو گا کہ وہ کون ہے کہاں سے آئی ہے
وہ تینوں کو گھورتے بولا
ویسے ہے تو بہت کیوٹ تھی میر علی!!!!!
وہ اس کی طرف دیکھتے بولا جبکہ اس کے ساتھ بیٹھی ثناء نے اس کہنی ماری
میں ابھی جا کر ماما سے بات کرتی ہوں
وہ جواباً بولی
ارے یار میں تو ویسے ہی بول رہا تھا پھوپھو سے کیا بات کرنی ہے ویسے ہی ابھی مشکل سے منگںنی کے لیے مانیں ہیں
اس نے مسکین شکل بنائی جب وہ تینوں ہنس دیے
تو صارم اتنی بڑی باتیں ہی کیوں کرتا ہے تو؟
وہ گلاسز اتارتے بولا
تجھے تو تیرا وقت آنے پر بتاؤں گا میر علی؟
وہ اس کے نام پر زور دیتے بولا
جبکہ اس نے سر جھٹک دیا
اور دوسری طرف حورم وہاں سے بھاگتی سارہ کا ہاتھ پکڑے باہر نکل آئی اور ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہی تھی
حورم تمھیں ایسا نہیں کرنا چاہیے تھا
یار رہنے دو مجھے تو ان کی شکلیں دیکھ کر اتنی ہنسی آ رہی ہے
اچھا چلو چلیں لیکن آئندہ تھوڑا احتیاط کرنا
اوکے مائی بیسٹی
اس کی بات پر وہ ہنس دی اور باہر نکل آئی
ویسے ایک ہفتے بعد بھائی آ رہے ہیں اور ان کے فائنل دو سال مکمل
وہ اسے خوش ہوتے بتا رہی تھی وہ مسکرا دی
حال۔۔۔۔۔۔۔
رات کا منظر تھا اور وہ دونوں ایک فلیٹ میں تھے جہاں وہ بیڈروم میں بیٹھے تھے
تمھارا سفر کیسا رہا؟
اس نے حیدر سے پوچھا جو کہ فون میں مصروف تھا جبکہ وہ خود لیپ ٹاپ میں لگا ہوا تھا
ٹھیک تھا آتے دفعہ ارحم بھائی سے مل کر آیا تھا وہ آنے والے ہیں اور ارحام بھی ضد کر رہا تھا کہ اس نے اپنے چاچو کے ایریل سے ملنا ہے
وہ آخر پر ہنستے بولا
یہ شیطان بھی نہ؟
شاہ؟
اس نے اسے بولایا اب تھوڑا سنجیدہ تھا
ہممممم
بھائی پریشان تھے
کیوں
اس نے اس کی طرف دیکھا
جو تو کر رہا ہے نہ اسی وجہ سے پریشان ہیں۔۔۔۔ شاہ میں تجھے پہلے ہی کہہ رہا ہوں کہ تو ٹھیک نہیں کر رہا
وہ چلا کر بولا
اچھا تو بتا میں کیا کروں۔۔ ہاں بتا تو اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ انسان میرے ماں باپ کا قاتل ہے اور میں اسے ایک سانس بھی لیتا نہیں دیکھ سکتا
وہ لیپ ٹاپ زور سے بند کرتا بولا
حیدر جانتا تھا کہ وہ تکلیف میں ہے اسی لیے کچھ نرم پڑا
لیکن تو کسی معصوم کو نہ لا اس کے بیچ۔۔۔۔ تو جانتا ہے تو کیا کرنے والا ہے اس کے جذبات سے کھیلنے والا ہے اسے خواب دکھانے لگا ہے جو ٹوٹے گیں تو اس کے ساتھ وہ بھی ٹوٹ جائے گی
وہ اسے سمجھاتے بولا
میں نے اس وقت کا شدت سے انتظار کیا تھا اور اب میں پیچھے نہیں ہٹنے والا اور ایتھنز میں یونیورسٹی پڑھنے کا بھی میرا ایک ہی مقصد تھا اور اب تو کہہ رہا ہے کہ میں پیچھے ہٹ جاؤں تو ہر گز نہیں چاہے مجھے کسی کو بھی استعمال کرنا پڑے
وہ بول رہا تھا جبکہ حیدر حیرت سے اسے دیکھ رہا تھا
تو جانتا ہے تو اس کھیل میں جیت کر بھی بری طرح ہار جائے گا اور تو سب کھو دے گا
وہ بولا
میرے پاس ہارنے کے لیے کچھ نہیں ہے
حورم تو ہو گی نہ اگر تجھے اس سے محبت ہو گئی تو۔۔۔۔ تو کیا کرے گا
وہ اسے دیکھتے بولا
تو پھر چھوڑ دوں گا
حیدر نے حیرت سے اسے دیکھا جو لا تعلق سا بیٹھا تھا اور افسوس سے سر ہلاتا باہر نکل گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جبکہ وہ آنکھیں بند کر کے سر کو پیچھے گرا کر بیٹھ گیا