دُنیا سے نرالا ہے میرا رنگِ طبعیت تو میری محبت کو سمجھ ہی نہیں سکتی
جب تک کہ محبت کی حقیقت کو نہ سمجھو فنکار کی اُلفت کو سمجھ ہی نہیں سکتی
کیا خاک مداوا اے غم ِ ہجر کرو گی تُو صدمہ فُرقت کو سمجھ ہی نہیں سکتی
عذرا میرا دعوہ ہے وہ آہیں گی ہما دانش تو عِشق کی فطرت کو سمجھ ہی نہیں سکتی
ہے یہ اُن کی آج مجھ پر یارو کیسی مہربانی
کی مزے سے سُن رہے ہیں میرے درد کی کہانی
نام اُس کا لے کے یارو میرے زخموں کو نہ چھیڑو
کہ یہ درد بھی پرانا ہے یہ بات بھی پرانی
دُنیا کا کُچھ پتا نہ اپنی خبر ہے مُجھ کو
تیرے درد نے ہے بخشی مُجھے ایسی
گے بھول ہیں وہ تُجھ کو میرے پیار کے زمانے
جب تُو نے دل دیا تھا مجھے پیار کی نشانی
تجھے ڈھونڈتا رہا ہوں آنکھوں میں اَشک لے کر
تیرے ہجر میں گذاری رو رو کے جوانی
گُلشن کھِلا ہے دل کا کُچھ پھول ہم بھی چُن لیں
شاید یہ پھر نہ لوٹے رُت پیار کی سہانی
دُنیا سے چُھپ گیا ہے صادقؔ نہ اُس سے ڈھونڈو
اب وہ نہ مل سکے گا کرو ختم یہ کہانی