(Last Updated On: )
نہ میرے بس میں نظامِ عالم نہ دِل پہ ہے اختیار آقا
اِسی کش مکش میں کر لیا ہے ضمیر کو تاڑ تاڑ آقا
جو پیار کی بھیک مانگتا پھر رہا تھا کل تک شہر وفا میں
وہ شخص رو رو کے سو گیا ہے نصیب اُس کے سنوار آقا
نہ جانے کِس وقت دستک تقدیر چھین لے مُجھ سے میرا سب کُچھ
یہ شعر زندہ رہیں جہاں میں فقیر کی یادگار آقا
یہ تیرا چہرہ یہ تیری زُلفیں یہ صبح ہو آقا یہ شام آقا
درود آقا سلام آقا سلام خیر لا انعام آقا
میر ا وہ پہلا پیغام لے کر صبا نہ جانے کہاں گئی ہے
لکھا ہے دست دُعا پہ اشکوں سے ایک تازہ پیغام آقا
ہوئی ہے جب سے نگاہ مُجھ پر عطاء ہوئی ہے وہ شان مُجھکو
ہوا ہے سارے جہاں پہ واجب فقیر کا احترام آقا
میری دُعا کے ناحیف ہاتھوں سے چُٹ گیا تھا اثر کا دامن
پڑی میری سمت خود ہی رحمت لیا ہے جب تیرا نام آقا
نظر میں تھے کُچھ حسین چہرے وہ میرا ذوق پرواز ہی غلط تھا
اَبھی میں پر تول ہی رہا تھا کہ آگیا زیر بام آقا
گناہ کا اِحساس خوف اِے آداب بزم میں دم بخود کھڑا ہوں
قدم تو اختیار میں ہیں نگاہ ہے بے لگام آقا
نگاہ نیچی زبان عاجز ہے اپنے اعمال پر ندامت
میں مستحق تو نہیں لیکن وہ میرے حصے کا جام آقا