بچے ہمارا اور ملک کا مستقبل ہیں۔ ان بچوں کے مستقبل کا تحفظ اور اس کو روشن بنانے کی کوشش کرناہماری ذمہ داری ہے۔ جس طرح کسی بلڈنگ کی تعمیر میں سیمنٹ اور لوہے کی اہمیت ہے اسی طرح بچوں کی تربیت میں ادبِ اطفال کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اگر بچوں کو چھوٹی عمر میں ان کی زبان ہی میں اچھی کہانیاں،نظمیں، لطائف وغیرہ سنائے جائیں یا انھیں پڑھنے کو دی جائیں تو ان کی ذہنی واخلاقی تربیت میں بڑی مدد ملتی ہے۔ وہ آگے چل کر ملک کے اچھے شہری اور سماج کے سچّے خادم بن جاتے ہیں۔
یہ بات مسلم ہے کہ بچوں کی تربیت میں والدین،اسکول اور ماحول کے ساتھ لٹریچر کا اہم رول ہے۔ اس لیے شروع ہی سے بچوں کو درسی کتابوں کے علاوہ غیر درسی کتابیں بھی مطالعہ کرائی جائیں۔ بچپن ہی میں بچوں کے اندر روزانہ مطالعہ کرنے کا شوق پیدا کیاجائے۔
مشاہدہ وتجربہ بتاتا ہے کہ بچوں کے اندر 90فیصد دماغ اور بیشتر صلاحیتیں 5سال کی عمر تک تشکیل پاجاتی ہیں۔ اس لیے اس کچی عمر کو بنیاد مان کر ان پر خصوصی توجہ صرف کرنا چاہیے۔
بچپن میں ادب کا مطالعہ جہاں اخلاقی اقدار کو فروغ دیتا ہے وہیں زبان وبیان کو درست سمت عطا کرتا ہے۔ اس عمرمیں بچوں کی اچھی عادتیں اگر پڑجائیں تو وہ فطرت ثانیہ بن جاتی ہیں۔ اس عمر میں بچوں کو سلیقہ مندی اور ڈسپلن سکھایا جانا چاہئے اور انہیں کامیاب زندگی گزارنے کی بہترین تربیت دی جانی چاہئے۔ بچپن کی اہمیت کے پیش نظر ہی رسولِ اکرمؐ نے فرمایا:
”ہر بچہ فطرت پر پیدا ہوتاہے، اس کے والدین اورماحول اسے یہودی، عیسائی یا مجوسی بنادیتے ہیں۔“
اس حدیث سے معلوم ہوتاہے کہ انسانوں کو کامیاب وناکام بنانے کی عمر بچپن ہی ہے۔
ایک زمانہ تھا (آج سے20یا30سال پہلے تک) بچے بادشاہ،گیدڑ اور شیخ چلّی کی کہانیاں پڑھنا اور سننا پسند کرتے تھے۔ انہیں پریوں اور شہزادوں کے کرداروں میں بڑا لطف آتا تھا اسی طرح وہ گاؤں کے مناظرسے لطف اندوز ہوتے، گاؤں کی زبان سمجھتے تھے، انہیں پوکھر اور تالاب میں ٹر ٹر کرتے مینڈک اور بکریوں کی ”میں میں“ بہت لبھاتی تھی، آج نہ وہ گاؤں ہیں او ر نہ بچّے جو، ان چیزوں کوسمجھ سکیں۔ اب بچوں کا رجحان بدل گیاہے۔ آج کا دور الکٹرانک اور سوشل میڈیا کا دور ہے آج کے بچّے وعظ سننا پسند نہیں کرتے، ان کو ایسا لٹریچر چاہیے جو تفریح طبع کے ساتھ ساتھ ان کے علم میں اضافہ کرے، ان کا اخلاق وکردار سنوارے،انھیں کائنات کی سچائیوں سے روشناس کرائے اور ان کی صلاحیتوں کو پروان چڑھائے۔
بچوں کے نئے رجحانات کے تحت آج ان کے لیے ایسے ادب کی ضرورت ہے جس میں آج کے مانوس الفاظ اور مناظر پیش کئے گئے ہوں۔ آج بچّہ تصاویر اورکارٹون دیکھنا پسند کرتاہے۔لہٰذا ان کے لیے جو کتابیں شائع ہوں اس میں اس کا پورا خیال رکھا جائے۔
بچوں کا ایسا ادب تخلیق کیا جائے جو بچوں میں تجسس (کھوج کا شوق) تفکر (سوچنے اورغورکرنے کی صلاحیت) اور تجدد(کچھ نیاپن پیدا کرنے) کی صلاحیتیں پیدا کرے اگر ادب بچوں میں ایسی صلاحیت پیدا نہیں کرپارہا ہے تو وہ ادب بے معنیٰ ہے۔
ہرشخص جانتا ہے کہ تمام ترسہولیات کے باوجود زندگی بہت دشوار ہوگئی ہے اس لیے بچوں کے لیے ایسا ادب تخلیق کیا جائے جو جرأت وہمت پیدا کرنے، چیلنجزکو قبول کرنے اور حالات سے نبرد آزما ہونے کی صلاحیت کو پروان چڑھائے۔
بچوں کے ادب کو مثبت رجحانات کا حامل ہونا چاہیے تاکہ بچوں کی فکر وسوچ، ان کا رویہ اور ان کا عمل مثبت ہو وہ منفی سوچ،منفی رویہ اور منفی سرگرمیوں کو اپنے لیے اور سماج کے لیے نقصان دہ سمجھتے ہوں تاکہ وہ سماج کی تعمیر میں مفید اور مؤثر رول ادا کرسکتے ہوں۔
بچوں کی تخلیقات کو طباعت کے ساتھ ساتھ آڈیو اور ویڈیو ز کی شکل میں پیش کیا جائے کیونکہ آج کل بچّے سوشل میڈیا کا زیادہ استعمال کرتے ہیں اس لیے بچوں کے ادب کو سوشل میڈیا کے ذریعہ بھی ان تک پہنچا یا جائے۔
اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہے کہ آج کے بچوں کو سماج اور ملک کے مسائل سے آگاہ کیاجائے اور ان کے حل پر غور وفکر کرنے کا مزاج بنایا جائے۔مثلاً فضائی آلودگی، رحم مادر میں بچوں کا قتل، سماج میں مختلف طبقات کے درمیان عدم مساوات ونفرت اور مذہبی تشددغیرہ۔
اردو ادب اطفال کے سلسلہ میں بظاہر حالات ناساز گار دکھائی دیتے ہیں۔جس کے اسباب ووجود درج ذیل ہیں۔
(1)مطالعہ کرنے کے ذوق میں کمی واقع ہوئی ہے۔ دوسرے یہ کہ الکٹرانک میڈیا نے پرنٹ میڈیا کے گراف کو بہت نیچے پہنچا دیاہے۔
(2)طلبہ اور ان کے والدین غیردرسی کتب کی خریداری کو ف ضول خرچی سمجھتے ہیں۔پہلے زمانہ میں والدین اور اساتذہ بچوں کو غیر درسی مطالعہ پرابھارتے تھے اورنئی نئی کتابیں خرید کر لاتے تھے۔
(3)نصابی کتب کے بوجھ نے طلبہ سے غیر درسی مطالعہ کا وقت سلب کرلیاہے۔ اسکول کی درسی نصاب پھر ٹیوشن اور ہوم ورک کی مصروفیت طلبہ کو غیر درسی کتابوں کے مطالعہ کا وقت ہی نہیں دیتی۔
(4)بچوں کا لٹریچر اپ ڈیٹ نہیں ہے۔ بچوں کے زیادہ تر ادیب پرانے طرز پر اپنی تخلیقات پیش کرتے ہیں۔ طابع وناشر بھی اسے بہت زیادہ دیدہ زیب بناکر طبع نہیں کرپارہے ہیں۔ موجودہ ادبِ اطفال پر نظر ڈالی جائے تو اوریجنل (Original)تخلیقات کم ہیں دوسری زبانوں کا ترجمہ یا سرقہ زیادہ ہے۔
(5)دیندار طبقہ کے درمیان تصاویر کے حرام وحلال پر مباحثہ جاری ہے۔ بچوں کی بہت سی کتابیں آج بھی بغیرتصویر کے معمولی کاغذ پر ایک ہی رنگ میں چھپ کر بازار میں موجودہیں۔ جن میں بچوں کے لیے کوئی دلچسپی اور دلکشی باقی نہیں رہ گئی ہے۔
(6)ایک مسئلہ یہ ہے کہ لٹریچر کو مفید اور معیاری بنانے پر کم اور اس کے نفع آوری پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔ اس میں تخلیق کار طابع وناشر وغیرہ سبھی ذمہ دار بلکہ مجرم ہیں۔
(7) ایک بڑی وجہ یہ ہے کہ بک سیلرز بھی لٹریچر کی فروختگی پر کم اور کمیشن پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔
(8)یہ بھی ایک تلخ حقیقت ہے کہ سرکاری اداروں اور اکیڈمیوں کے کارکنوں میں چاپلوسی،حاشیہ برداری اوراقربا پروری حاوی ہے۔ اپنے منصب اور عہدوں کے تحفظ پر زیادہ زور ہے۔
یہ روشن پہلو بھی قابلِ اطمینان ہے کہ بچّوں کی دنیا امنگ، اچھا ساتھی، گل بوٹے، رہنمائے تعلیم، گلشن اطفال،پھول،ہلال اور دیگر ریاستی زبانوں میں شائع ہونے والے رسائل اور کتبِ اطفال کی اشاعت ہورہی ہے اور پسند بھی کی جارہی ہے۔ ملیالی زبان میں بچّوں کا رسالہ تقریباً50ہزار کی تعداد میں شائع ہورہا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اگر توجہ اور محنت کی جائے تو ادبِ اطفال پر مبنی رسائل وکتب کی توسیع اشاعت قابلِ قدر ہوسکتی ہے۔ ضرورت ہے کہ اہل خیر حضرات کو اس طرح توجہ دلائی جائے اور انہیں یہ باور کرایا جائے کہ وہ اس میدان میں سرمایہ کاری کریں۔ یہ ایک منافع بخش تجارت ہے۔
ہم دیکھتے ہیں کہ لاکھوں طلبہ وطالبات اچھے معیاری اور مہنگے اسکولوں میں زیرِ تعلیم ہیں، اگر ان کے ذوق اور معیار کے مطابق معیاری تخلیقات آئیں تو بہتر نتائج حاصل ہوسکتے ہیں۔
آج کل ادبی انجمنیں زیادہ تر مشاعرہ کراتی ہیں یا شاعروں اور ادیبوں کا جشن مناتی ہیں یا سرکاری فنڈ کے استعمال کے چکّر میں رہتی ہیں۔ انہیں چاہیے کہ کم از کم 50فیصد سرگرمیاں بچوں کے لیے انجام دیں اور ان کے بجٹ کا ایک بڑا حصہ ادب اطفال کی اشاعت اور اس کے فروغ پر صرف ہو۔
الحمد للہ بچوں کا ادب تخلیق بھی ہورہا ہے، طبع بھی ہورہا ہے۔ اس موضوع پر سمیناربھی ہورہے ہیں لیکن بچّوں تک ان کی امانت نہیں پہنچ رہی ہے۔ اس پر غور کرنے اور لائحہ عمل تیار کرنے اوراسے رو بعمل لانے کی ضرورت ہے۔
ڈاک اور ترسیل کانظام بہت خراب ہے۔خاص طور پر اردو رسائل وکتب کی ترسیل میں بڑی پریشانی ہوتی ہے۔ مِل جُل کر اس کا مناسب حل تلاش کیا جائے، اس کے متبادل پر غور کیا جائے۔
ادب اطفال کے سامنے ایک چیلنج موجودہ الیکٹرانک اور سوشل میڈیا ہے۔ جس نے نئی نسل کو کتب ورسائل پڑھنے کی بجائے اسکرین پر دیکھنے کا عادی بنادیا ہے۔ادبی رسائل کی تعداددن بدن گھٹتی جارہی ہے اور جو رسائل نکل بھی رہے ہیں وہ جاں کنی کے عالم میں آخری سانس لیتے ہوئے محسوس ہورہے ہیں۔ ادباءِ اطفال کو اس چیلنج کو قبول کرنا چاہیے اور ایسا بلند پایہ ادب تخلیق کرنا چاہیے جو ”اسکرین“ کی کہانی سے زیادہ مؤثروبلیغ ہو اس لیے کہ الفاظ کی حرمت وعظمت اور اثر آفرینی کے سامنے میڈیا کی فرضی آوازیں زیادہ مؤثر نہیں ہوسکتیں۔ الفاظ چراغوں کی مانند ذہنوں کو روشنی عطا کرتے ہیں اور تصورات کو وسعت بخشتے ہیں جبکہ اسکرین انسانی ذہن کو محدود کرتی ہے بلکہ بعض اوقات مسخ بھی کرتی ہے۔ غالبؔ اور دوسری شخصیتوں پر بنائے گئے سریل میرے اس دعوے کی واضح دلیل ہیں۔
مضمون کیسے لکھا جائے؟
مضمون کیسے لکھا جائے؟ بطور مڈل اسکول، ہائی اسکول یا پھرکالج اسٹوڈنٹ ہر کسی کا واسطہ ایک نہیں بلکہ بیشترمرتبہ...