( نوٹ ) اس واقعے میں میرے اور ہمارے ادارے اور دوسرے اداروں کی کوتاہی کی وجہ سے جو کچھ ہوا اُس کا ازالہ ممکن نہیں ہے:
اس واقعے سے آپ کو صرف یہ پیغام دینے کی کوشش کی ہے کہ آپ اداروں کے بھروسے پر کسی چیز کو بھی نہ چھوڑیں- آگر کسی سرکاری یا نجی اسپتال میں آپ اپنے جگر گوشے کو چھوڑ کر گھر آکر سوجائیں تو یقینن نتائج کو پہر آپ ہی نے بھگتنا ہے
آگر آج بھی جیلوں پر کام کیا جائے تو ایسے لاتعداد کیس ملیں گے
ایک لاورث ملزم کو ایک کی سال سزا ہوئی ، اُس کا ایک سال بعد Release order نہیں نکلا وہ چالیس سال تک کراچی جیل میں لانگری کا کام کرتا رہا ، جب جناب افتخار چودھری صاحب نے کراچی سینٹرل جیل کا دورہ کیا میں بھی اُن کے ساتھ تھا تب جاکر اُس کو رہائی ملی
تحریر: نیاز احمد کھوسہ ایڈووکیٹ
وہ سردیوں کے دن تھے میرا نیانیا پروموشن ہوا تھااور ضلع ویسٹ میں بطور ایس پی میری پہلی پوسٹنگ تھی-
تھانہ ماڑیپور سے اطلاع آئی کہ کراچی کی ایک معروف شخصیت کا قتل ہوگیا ہے، میں وہاں پہہنچا تو تھانہ ایس ایچ او، علاقہ ڈی ایس پی اور تفتیش کا عملہ پہلے سے موجود تھا مجھے ایس ایچ او نے بتایا کہ لاش اندر ایک بیڈ روم میں پڑی ہے، مقتول کو سر کے پیچھے سے چوٹ مار کر قتل کیا گیا اور مقتول کو اُس کی دوست لڑکی نے قتل کیا ہے، لڑکی گرفتار ہے اور اُسے تھانے منتقل کردیا گیا ہے –
میں نے اندر جاکر دیکھا تو مقتول کی عمر پچاس سال کے قریب تھی وہ سلیپنگ سوٹ میں ملبوس تھا اور بیڈ کے ساتھ ایک چالیس سالہ خاتوں زار و قطار رو رہی تھی
واقعات کچھ اس طرح تھے کہ مقتول کی 20/22 سالہ کالج کی لڑکی دوست تھی وہ اُس کے ساتھ Date پر ہاکس بے پر واقع اپنے ہٹ پر آیا ہٹ بڑا لش پش تھا جس میں زندگی کی ساری سہولیات بار روم، ایئر کنڈیشنر ، ڈرائنگ، ڈائٹنگ روم، کچن اور ہٹ میں بجلی چلانے کیلئے ایک بڑا جنریٹر اور ایک مستقل چوکیدار تھا-
خاتون نے بتایا کہ چوکیدار نے مجھے بتایا ہے کہ صاحب ہفتے میں دو دفعہ اس لڑکی کے ساتھ ضرور آتے تھے اور آتے ہی مجھے پیسے دیتے تھے کی شھر جائو اور بار بی کیو ٹو نائیٹ سے کھانہ اور فروٹ وغیر ہ لے آؤ- چوکیدار کے پاس موٹر سائیکل تھی جو اُس کو واپس آتے آتے دو تین گھنٹے لگ جاتے تھے –
یہ واقعہ سن 2002 کا ہے اُس وقت موبائل فون صرف کچھ بڑے لوگوں کے پاس ہوتے تھے –
میرے پہچنے سے پہلے ہی لڑکی کو تھانے منتقل کردیا گیا تھا اور چوکیدار اُس وقت موقعہ پر موجود نہیں تھا صرف مقتول کی بیوی وہاں موجود تھی جس نے بتایا کہ لڑکی نے میرے شوہر کو قتل کیا ہے ورنہ اُس کو کوئی ایسی چوٹ نہیں تھی ، چوکیدار نے مجھے صاحب کے موبائل فون سے کال کرکے بتایا کہ آپ ہٹ پر آجائیں صاحب سیڑیوں سے گر کر زخمی ہوگئے ہیں
جب میں ہٹ پر پہنچی تو صاحب ٹھیک ٹھاک تھے اور مجھ سے باتیں کررہے تھے اور صاحب نے مجھے بتایا کہ میں سیڑیوں سے نہیں گرا، میں اوپر والے بیڈ روم سے نیچے جارہا تھا تو اسی دوران لڑکی نے میری بے خبری میں پیچھے سے مجھے کسی بھاری چیز سے وار کیا اور میں سیڑیوں سے بے ہوش ہوکر نیچے گر پڑا
مقتول کی بیوی نے بتایا کہ میں نے اور چوکیدار نے لڑکی کو قابو کیا اور لڑکی کے دُپٹے سے اُس کے ہاتھ پاؤں باندھ کر ڈرائنگ روم میں بند کردیا اور پولیس ایمرجنسی کنٹرول کو فون کیا اور پولیس کے آنے سے پہلے ہی صاحب فوت ہوگئے –
میں نے پورے ہٹ کو دیکھا ہٹ 5 اسٹار ہوٹل کی طرح بناہوا تھا، ہٹ کو بناتے وقت زندگی کی ہر آسائش کا خیال رکھا گیا تھا-
میں واپسی پر تھانے جانا چاہتا تھا مگر اُس وقت پولیس ہیڈ آفس میں میٹنگ تھی مجبورن میں تھانے سے گُذرتا ہوا سی پی او چلا گیا –
اُس وقت میرے پاس 32 تھانے تھے میں مصروفیت میں ایسا پہنس گیا کہ میں لڑکی سے قتل کے متعلق پوچھ ہی نہ سکا، کچھ دن بعد تفیشی افسر لیڈیز پولیس کے ساتھ ملزم لڑکی کو لیکر میرے دفتر آگیا اور بتایا کہ سر ! لڑکی اپنے جرم کا اقرار کررہی ہے اور آگر حکم ہو تو لڑکی کو پیش کروں کل لڑکی کا پولیس ریمانڈ پورا ہو رہا ہے، میں نے ہاتھ کے اشارے سے اُس کو اجازت دے دی اُسی وقت تفتیشی افسر نے دروازہ کھول کر باہر اشارہ کیا اور ملزم لڑکی لیڈیز پولیس کے ساتھ اندر آگئی، لڑکی دراز قد سفید اور لال رنگ کی مالک تھی –
میں نے اس سے پہلا سوال کیا کہ کہاں پڑھتی ہو ؟ لڑکی نے جھجھکتے ہوئے بتایا کہ میں ڈو میڈیکل کالج میں دوسرے سال کی طالبہ ہوں –
میں نے اُس سے دوسرا سوال کیا کہ آپ کی عمر کم ہے اور آپ کے دوست کی عمر زیادہ تھی یہ میلاپ کیسا ہے ؟ لڑکی نے جواب میں مرنے والے کا نام لیکر بتایا کہ وہ اچھے آدمی تھے وہ میری ہر چھوٹی بڑی چیز کا ہر وقت خیال رکھتے تھے اور یہ کہتے ہوئے لڑکی کی ہچکیاں بندھ گئیں اور اُس کی سرخ آنکھوں سے آنسو اُس کے سفید گالوں پر گرنے لگے !!!!
میں نے لڑکی کو کرسی پر بیٹھنے کو کہا اور اردلی کو اشارہ کیا کہ لڑکی کو پانی پلائے، کچھ دیر کیلئے میرے دفتر کا ماحول سوگوار ہوگیا اور لڑکی کے نارمل ہوتے ہی میں نے اُس سے پوچھا کہ وہ اتنے اچھے آدمی تھے تو اُس کو قتل کیوں کردیا ؟ لڑکی نے روتے ہوئے کہا کہ اُس نے مجھ سے شادی سے انکار کردیا تھا ؟
میں نے پوچھا کہ ابھی آپ میڈیکل کے دوسرے سال میں ہو کیا آپ کے والدین آپ کی پڑھائی مکمل ہونے سے پہلے آپ کو شادی کی اجازت دے دیتے ؟ لڑکی میرے اس سوال کیلئے تیار نہیں تھی خاموش ہوکر کنک آنکھوں سے میری آنکھوں میں دیکھنے لگی اور کوئی جواب نہ دیا، لڑکی میری آنکھوں میں مسلسل دیکھی جارہی تھی مجھے اُلجھن سی محسوس ہورہی تھی اور میں نے ہاتھ کے اشارے سے تفتیشی افسر کو اشارہ کیا کہ لڑکی کو باہر لی جائے اور دروازے سے نکلتے ہوئے بھی لڑکی نے پیچھے مڑکر میری طرف دیکھا اور باہر نکل گئی-
ملزم لڑکی کی طرف سے میرے پاس کوئی نہیں آیا اور نہ کسی نے سفارش کی اور 14 دن مکمل ہونے پر تفتیشی افسر نے میرے دفتر سے چالان کی اجازت لی اور کیس کا عدالت میں چالان جمع کرادیا –
عمومن ہوتا یہ ہے کہ کیس عدالت میں جانے کے بعد ہم لوگ سُکھی ہوجاتے ہیں اور کہتے اور یہی سمجھتے ہیں کہ عدالت جانے، مدعی اور مُلزم جانے !!!!!
کیس عدالت میں بہت جلد چلا اور تین چار ماہ بعد مجھے تفتیشی افسر نے خوشخبری سُنائے کہ میرا کیس کامیاب ہوگیا لڑکی کو عمر قید کی سزا ہوگئی ہے ! تفتیشی افسر نے کہا کہ سر میں نے ایسا مضبوط کیس بنایا تھا کہ ملزمہ کو پہانسی ہونی تھی مگر جج صاحب کچھ رحمدل انسان تھے، انھوں نے فیصلہ سُناتے ہوئے کہا کہ تم پر جرم ثابت ہے مگر پڑھی لکھی اور لڑکی ہونے ناتے تمہیں عمر قید کی سزا دے رہا ہوں!!!! تفتیشی افسر مجھ سے تعریفی سند لے گیا !!!!
سال گذر گئے 2012 میں میری پوسٹنگ ضلع ایسٹ کراچی میں تھی ایک دن میں دفتر میں تھا تو مجھے میرے اردلی نے بتایا کہ سر ایک عورت کچھ دنوں سے دفتر آرہی ہے جب بھی وہ آتی ہے آپ اتفاق سے دفتر میں نہیں ہوتے وہ عورت مجھے اپنا نمبر دے گئی ہے اور منت سماجت کرگئی ہے کہ جب صاحب دفتر میں ہوں تو مجھے موبائل پر کال کرکے بلا لیں اردلی نے مجھ سے اجازت مانگی کہ سر آگر آپ ناراض نہ ہوں تو میں دفتر کے نمبر سے اُسے فون کرکے بلوا لوں شاید اُس کو آپ سے مدد کی ضرورت ہے !!!! میں نے سر ہلاکر اردلی کو اجازت دے دی !!!!
ایک دو گھنٹے بعد اردلی نے بتایا کہ سر وہ عورت آگئی ہے میں نے اُسے اجازت دے دی کہ اُسے اندر بلالے !!!!
کچھ دیر بعد ایک 40/50 سالہ عورت میرے کمرے میں داخل ہوئی اور میری آنکھوں میں دیکھتے ہوتے جھک کر سلام کیا میں نے عورت کو سامنے والی کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا !!
عورت نے میرے بولنے سے پہلے ہی سوال کیا کہ سر آپ نے مجھے پہچھانا ؟؟؟؟ مجھے وہ عورت دیکھی بھالی لگ رہی تھی !!! میں نے جواب دیا کہ آپ کو پہچھاننے کی کوشش کر رہا ہوں مگر یاد نہیں آرہا کہ آپ سے کب اور کہاں مُلاقات ہوئی ہے ؟؟؟؟؟
عورت نے بتایا کہ سر جب آپ ضلع ویسٹ میں تھے تو میں تھانہ ماڑیپور میں قتل کیس میں بند ہوگئی تھی، مجھے عمر قید کی سزا ہوئی تھی ابھی کچھ دن پہلے ہی میری سزا پوری ہوگئی ہے اور میں جیل سے رہا ہوگئی ہوں – میں وقت کی ستم ظریفی دیکھ کر حیران ہوگیا !!! کہاں وہ نرم و نازک چمکتی آنکھوں سفید اور لال رنگت والی لڑکی اور کہاں یہ عورت !!!! پچھلے جیل کے دس سالوں لڑکی کو نچوڑ کر رکھ دیا تھا، لڑکی تو 30/32 سال کی تھی مگر مُشکلات نے اُسے 50 سال کی عورت بنادیا تھا ؟؟؟
میں نے بے رخی اور تلخ لہجھے میں خاتون سے کہا کہ میں اس موقعے پر آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں ؟؟؟؟
خاتون نے کہا سر اُس قتل کے متعلق میں کچھ حقائق آپ کو بتانا چاہتی ہوں !!!! میں نے خاتون کو بے رخی سے جواب دیا کہ میم اب وہ قتل کی کہانی ختم ہوچکی ہے آپ میرا وقت کیوں ضائع کررہی ہیں !!!!
میرے بُرے رویے کی وجہ سے عورت کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور مجھ سے التجا امیز لھجے میں ہاتھ باندھ کرکہا کہ آپ صرف میری بات سن لیں اُس سے میرا کچھ بھلا ہوجائے گا – آپ تو سیٹ پر بیٹھے ہیں آپ کا کچھ نہیں جائے گا آپ جس سیٹ پر ہیں اللہ پاک نے اُس میں بڑی طاقت رکھی ہے، آپ کی صرف زبان چلے گی اور میری زندگی کے کچھ دکھ درد کم ہو جائیں گے –
عورت کا لہجہ اور الفاظ کچھ ایسے تھے کہ میرا غرور و تکبر خاک میں مل گیا اور مجھے اپنے رویئے پر ندامت محسوس ہونے لگی – میں نے گھنٹی دیکر اردلی کو کہا کہ میرے اور خاتوں کیلئے کھانے کیلئے کچھ لائے اور آخر میں ہم دونوں کو چائے بھی پلا دے –
پہلے تو میں نے خاتون سے اپنے برے رویئے پر معافی مانگی اور خاتون کو کہا آپ مجھے دل سے معاف کردیں میں آپ کی پوری بات بھی سنتا ہوں اور آخری حد تک آپ کی مدد بھی کروں گا خاتوں کے دکھی چھرے پر کچھ اطمینان سا آ گیا !!!!!
خاتون نے قتل کے متعلق جو حقائق بتائے جن کی بعد میں تصدیق بھی ہوگئی وہ کچھ اسطرح تھے –
لڑکی اور مقتول ڈفینس میں ساتھ ساتھ والے بنگلے میں رہتے تھے ایک بار لڑکی والوں کا ڈرائیور نہیں آیا تھا اور مقتول اپنے دفتر کیلئے نکل رہا تھا تو لڑکی نے مقتول کو Request کی مجھے میڈیکل کالج ڈراپ کرتا جائے کیونکہ اُس دن لڑکے کا کالج میں ٹیسٹ تھا اور لڑکی جلدی میں تھی –
اور یہاں سے ہی اُن کی دوستی شروع ہوگئی اور جلد ہی وہ دوستی ہاکس بے پر ہٹ میں مُلاقاتوں میں تبدیل ہوگئی، جیساکہ کہ ہٹ پر اوپر بھی بیڈ روم تھا یہ جوڑا کبھی نیچے اور کبھی اوپر والا بیڈ روم استعمال کرتے تھے –
واقعے والے دن مقتول نہاکر مستی میں گیلے پیروں سے بغیر چپل کے سیڑیاں اُترنے لگا تو اُس کا پیر پھسلا اور زمین پر جاگرا اُس کو سر اور کمر میں چوٹیں آئیں تھیں
مقتول کو کمر میں ایسی چوٹ آئی تھی کہ چوٹ کا درد اُس سے برداشت نہیں ہورہا تھا اور وہ سیڑیوں کے نیچے فرش پر پڑا تھا، لڑکی نے پوری کوشش کی کہ مقتول کو سہارا دیکر بیڈ روم تک لے جایا جائے مگر وہ کامیاب نہ ہو سکی، مقتول چاہتا تھا کہ اُسے فورن فورن طبعی امداد کے لیئے قریبی اسپتال پہنچایا جائے، لڑکی کار چلانا جانتی تھی مگر دقت یہ تھی مقتول کو کار تک کیسے لے جایا جائے
لڑکی نے باہر جاکر کوشش کی کہ کوئی راہگیر یا کوئی کار والا مل جائے تو مقتول کو اسپتال پہنچایا جائے مگر سردیوں کا موسم ہونے کی وجہ سے ہاکس بے سنسان پڑا رہتا ہے – جب بدقسمتی آتی ہے تو چاروں طرف سے آتی ہے –
مجبور ہوکر مقتول نے لڑکی کو کہا کہ اُس کی بیوی کا فون ملا کر دے اُس کو کہتا ہوں وہ آئے اور مجھے اسپتال منتقل کردے
لڑکی نے موبائل سے فون ملایا اور مقتول نے اپنی بیوی کو کہا وہ جلدی ہاکس بے ہٹ پر آئے اس کے ساتھ حادثہ ہوگیا ہے
خاتوں ہٹ پر پہنچ گئی اسی اثنا میں چوکیدار بھی کھانا لیکر ہٹ پر آگیا تھا- خاتوں نے جب اپنے ساتھ والے گھر کی لڑکی کو ہٹ پر دیکھا تو شیخ پا ہوگئی اور بجاء اپنے شوہر کو اسپتال منتقل کرتی وہ لڑکی سے لڑنے لگی کہ چلی جاؤ یہاں سے !!! لڑکی نے کہا کہ میں اکیلی کیسے اس سنسان علائقے سے جاسکتی ہوں !! میں بھی اسپتال چلوں گی اور وہاں سے ٹیکسی لیکر گھر چلی جاؤں گی !!! مقتول درد سے بلبلا رہا تھا اور اپنی بیوی کو گالی دیکر کہا کہ تم دفعہ ہو جاؤ اب چوکیدار آگیا ہے یہ لوگ مجھے اسپتال لے جائیں گے
عورت اس بات پر غضبناک ہوگئی لڑکی کی تھپڑوں اور لاتوں سے مرمت کی اور چوکیدار کی مدد سے اُس کے ڈپٹے سے ہاتھ پاؤں باندھ کر ڈرائنگ روم میں بند کردیا اور چوکیدار کی مدد سے اپنے شوہر کے مونھہ پر تکیہ رکھ کرقتل کردیا –
لڑکی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی کہ اُس کا دوست قتل ہوگیا ہے، عورت نے چوکیدار کو کچھ پیسے دیئے کہ تم میرے بنگلے پر چلے جاؤ میں یہاں کے حالات کو سنبھالتی ہوں اور فورن عورت نے پولیس کو فون کرکے بُلاویا اور لڑکی کو گرفتار کروادیا – تھانے میں وہ خود مدعی مقدمہ بن گئی
لڑکی کے والدین کو جب پتہ چلا کہ اُن کی لڑکی تھانے میں بند ہوگئی ہے تو وہ صدمے کے مارے خاموش ہوگئے اور غصے میں لڑکی کا نہ پیچھا کیا نہ کبھی اُس سے جیل میں ملنے گئے اور نہ اُس کی کوئی مدد یا وکیل کیا !!!! لڑکی والوں کی طرف سے عدم مزاحمت کی وجہ سے خاتوں شیر ہوگئی اور جلدی کیس چلاؤ کر لڑکی کو سزا کروا دی –
میں نے خاتون کو کہا کہ جب آپ کو میرے پاس پیش کیا گیا تھا تو مجھے بتاتیں !!! عورت نے کہا کہ تفتیشی افسر نے مجھے ڈرا دیا تھا کہ آگر تم نے کہیں بھی زبان کھولی تو تمھاری کوئی نہیں سنےُ گا ہم اوپر تک مال دیتے ہیں آگر تم نے کچھ بھی بولا تو تمھاری ماں اور باپ کو تمھارے ساتھ بند کردیں گے- میں اسلیئے خاموش تھی اور سب سے بڑی میری بدقسمتی یہ تھی کہ میرے ماں باپ نے مجھ سے ہاتھ نکال لیا تھا –
میں نے عورت سے کہا کہ ابھی آپ مجھ سے کیا چاہتی ہیں ؟ عورت نے کہا مجھے اپنے والدین کی نافرمانی کی سزا ملی ہے آپ مجھ پر اتنا احسان کریں کو چوکیدار اور مقتول کی بیوی کو اٹھوا لیں پہلے آپ اپنی تسلی کریں کہ میں نے صحیح بولا ہے یا غلط بیانی کی ہے!!! میں یہ نہیں کہتی کہ آپ مقتول کی بیوی یا چوکیدار کو بند کریں صرف اتنا کریں کہ میرے والدین کو میری بے گناہی کا ثبوت دیں تاکہ میں اُن کو مونھ دکھانے کے قابل ہوسکوں !!!! میرے والدین اتنے عزت دار اور غیرت مند ہیں کہ انھوں نے مجھ سے ہر قسم کا ناتا اور واسطہ توڑ دیا ہے، خاتون زار وقطار رونے لگی اور کرسی سے اُٹھ کر زمین پر بیٹھ گئی اور مجھے میرے بچوں کا واسطہ دینے لگی !!!
میں نے خاتون کو اٹھا کرکرسی پر بٹھایا اور سب سے پہلے سکھر کے ایک دوست جو کراچی ڈفینس میں اپنی فیملی کے ساتھ رہتا ہے اُس کو اللہ پاک کا دیا سب کچھ ہے – خاتون کا وہاں رہن سہن کا بندوبست کیا اور خاتون کو کچھ پیسے وغیرہ دیئے اور خاتون کو تاکید کی وہ Branded کپڑے وغیرہ لے اور اپنے دوست اور اُن کی بیوی کو تاکید کردی کہ خاتوں میری بہنوں جیسی ہے اُس کا پورا خیال رکھیں باہر جانے کیلئے اس کو کوئی چھوٹی سی کار بھی دے دیں
یہ ہماری خوش قسمتی تھی کہ چوکیدار ابھی تک اُسی ہٹ پر نوکری کر رہا تھا میں نے ایس ایچ او ماڑیپور کو کہا کہ فلان ہٹ سے فلان چوکیدار کو اٹھا کر مجھے بتائے، میرے ایڈیشل آئی جی صاحب اور آئی جی صاحبان میرا اتنا خیال رکھتے تھے کہ میں پورے کراچی پر راج کرتا تھا مجھے کبھی کسی ایس ایچ او نے یہ نہیں کہا کہ آپ ہمارے ایس ایس پی سے بات کریں اُس کے بعد یہ کام ہوگا !!!!!
ایس ایچ او نے کچھ ہی گھنٹوں میں چوکیدار کو اٹھا لیا میں نے خاتوں کو فون کیا کہ آپ ماڑیپور تھانے آئیں میں بھی وہاں آتا ہوں
خاتون کے سامنے چوکیدار کو جو دو چھتر پڑے اُس نے سارا سچ بول دیا کہ لڑکی کو ڈرائنگ روم میں بند کرنے کے بعد کیا ہواتھا ؟ پہلے خاتون یا ہمیں یہ نہیں پتہ تھاکہ مقتول کی وجہ موت کیا ہے ؟ چوکیدار نے بتایا کہ مقتول کے مونھ پر سرہانہ رکھ کر اُس کا دم گھٹایا گیا تھا اور ایف آئی آر میں یہ تھا کہ سر میں چوٹ کی وجہ سے مقتول کی ہلاکت ہوئی ہے، چوکیدار سے پوچھا کہ اُس کی مالکن کہاں ہے اُس نے بتایا کہ کیس کا ٹرائل پورا ہوتے ہی مقتول کی بیوی سب کچھ بیچ باچ کر امریکہ سفٹ ہوگئی اور ہاکس بے والا ہٹ ابھی تک خاتون کی ملکیت ہے اور وہ ہٹ روزانہ کی بنیاد پر کرآئے پر چلاتا ہے
اب میرے لیئے قتل کے متعلق یہ تصدیق کرنا باقی تھا کہ آیا خاتون سچ بول رہی ہے یا چوکیدار ؟ میں اُسی تھانے میں بیٹھا تھا ایس آئی او کو بُلاکر کہا کہ 2002 کی فلان قتل کی کیس فائیل تلاش کرکے لائے جو میری موجدگی تک کیس فائیل نہ مل سکی میں جاتے جاتے ایس آئی او کو کہا کل ٹرائل کورٹ سے کیس فائیل لاکر مجھے دکھائے
دوسرے دن ایس آئی او ماڑیپور کیس کی فائیل میرے دفتر شاہراہ فیصل لے آیا – کیس فائیل میں جب پوسٹ مارٹم رپورٹ دیکھی تو اُس میں وجہ موت دم گھٹنا لکھا تھا اس کا مطلب تھا کہ چوکیدار سچ بول رہا تھا اور لڑکی نے بیگناہ سزا کھائی ہے – آگر لڑکی کے پیچھے کوئی مددگار ہوتا تو پہلے ٹرائل کورٹ سے سزا نہ ہوتی یا ہائیکورٹ سے وہ سزا کالعدم ہوسکتی تھی –
اس کیس میں تو کچھ بھی نہیں ہوسکتا تھا میں نے لڑکی کو کہا آپ مجھے اپنے والد کا گھر کا پتہ دیں میں اُن سے بات کرتا ہوں، میں نے ایس ایچ او ڈفینس کو فون کرکے گھر کا پتہ لکھوایا اور کہا آپ فلان صاحب سے مل کر ٹائیم لیکر بتائیں کہ میں اُن سے ملنا چاہتا ہوں
ایس ایچ او نے بتایا کہ آپ عصر کی نماز کے بعد آجائیں آپ سے ملاقات کیلئے” فلان صاحب “ منتظر ہوں گے
میں مقررہ وقت پر لڑکی کے گھر پہنچ گیا ایس ایچ او ڈفینس پہلے سے وہاں موجود تھا، میں نے اُسے جانے کی اجازت دے دی – ایک بچہ مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھا کر اندر چلا گیا تھوڑی دیر بعد میرے اندازے کے بُلکُل برعکس ایک ہشاش بشاش پچاس سال کا دراز قد جوان اندر داخل ہوا اور اُس کے پیچھے اُس کی بیگم تھیں، بیگم کی عمر بھی پچاس سال کے لگ بھگ تھی مگر بظاہر دونوں چالیس سال سے زیادہ نہیں لگ رہے تھے –
علیک سلیک کے بعد گھر کے مالک نے اپنا تعارف کروایا جو لڑکی کا والد ہی تھا، لڑکی کے والد نے آنے کی وجہ پوچھی اور پہر خود ہی کہا کہ پولیس ہمیشہ شُرفا کو تھانے بُلاتی ہے مگر پولیس کا سینئر افسر خود چل کر آیا ہے تو کوئی خاص وجہ ہوگی !!!!
میں نے جوابن کہا کہ مسئلہ ایسا ہے کہ آگر آپ کو تھانے یا دفتر بلایا جاتا تو آپ کی انا کو ٹھیس پہنچتی اور میں نے خوشدلی سے کہا کہ آپ مجھ سے لڑکر چلے جاتے اب مجھے اتنا اعتماد ضرور ہے کہ میں آپ کے گھر میں آپ کا مہمان بن کر آیا ہوں اور آپ کا جس قوم سے تعلق ہے وہ تو اپنی جان دیتے ہیں مگر مہمان پر آنچ نہیں آنے دیتے
میں نے اُن سے کہا کہ پہلے آپ میری بات تفصیل سے سن لیں آخر میں فیصلہ آپ کا چلے گا آگر آپ کہیں گے کہ آپ چلے جائیں تو مجھے اس کے لیئے کوئی افسوس نہیں ہوگا کیونکہ میرا اور آپ کا کوئی تعلق نہیں ہے، میرا اور آپ کا تعلق نہ ماضی میں رہا ہے اور نہ مستقبل میں رہے گا !!!!
لڑکی کا والد زچ اور لاجواب ہوگیا تھا اور مجھے کہا کہ آپ میرے لیئے محترم ہیں آپ میرے گھر تشریف لائے ہیں آگر آپ مجھے بُرا بھلا بھی کہیں گے تو میں اپنے معزز مھمان کے احترام میں خاموش ہی رہوں گا
میں نے اجازت ملنے پر شروع سے لیکر آخر تک کیس اور لڑکی کی روداد چوکیدار کی گرفتاری، پوسٹ مارٹم رپورٹ تک دنوں ماں باپ کو سنا دی اور آخر میں کہا کہ لڑکی کے ساتھ جو کچھ بھی ہوا ہے اس کا سب پہلے قصور وار میں ہوں کہ میں کیس کو صحیح طریقے سے سپروائزر نہ کرسکا اور دوسرے بڑے قصور وار آپ دونوں والدیں ہیں جو آپ نے اپنی بیگناھ بچی کو دوزخ میں دکھیل دیا- لڑکی کے سخت دل والد کی ہچکیاں بندھ گئیں لڑکی کی والدہ بھی بے حال ہورہی تھیں اور دونوں کے رویئے سے مجھے لگ رہا تھا اُن کے آنسوؤں کے پیچھے پچھتاوا ہے
میں نے آخر میں لڑکی کے والد سے کہا کہ آگر آپ اجازت دیں تو میں لڑکی کو بلوا لوں وہ یہاں قریب ہی ڈفینس میں میرے دوست کے گھر میں مقیم ہے –
لڑکی کے والد نے آنسو پوچتے ہوئے سر ہلاکر انکار کیا اور پہر روتے ہوئے کہا کہ میں اپنی لالڈلی بیٹی کا مجرم ہوں میں اُس کو لینے کیلئے خود چلتا ہوں-
میں نے اپنے دوست کو فون کرکے سارا ماجرا بتایا اور اُس کو کہا کہ آپ اجازت دیں میں لڑکی کے والدیں کو لیکر آپ کے گھر آرہا ہوں – لیکن آپ لڑکی کو یہ نہ بتائیں کہ اُس کے والدین آرہے ہیں- میرے دوست نے کہا کہ میں گھر پر نہیں ہوں – میں اپنی بیوی کو سمجھا دیتا ہوں آپ بھلے میرے گھر چلے جائیں –
تھوڑی دیر میں ہم اپنے دوست کے گھر پہنچ گئے، میری دوست کی بیوی گیٹ پر ہی ہمارا انتظار کررہی تھی- لڑکی کے والدیں اپنی کار میں میری جیپ کے پیچھے آئے تھے- میں نے اپنی دوست کی بیوی کو کہا کہ ان کو لڑکی کے کمرے تک چھوڑ کر آپ واپس آجائیں
میں نے بہت سے پولیس افسران ، وکلا اور ججز سے مشورہ کیا مگر اس کیس میں کچھ بھی نہیں ہوسکتا تھا چوکیدار کو ایس ایچ او ہاکس بے کو کہ کر چرس کے کیس میں بند کروادیا- خاتون تو امریکہ سفٹ ہوچکی تھیں- لڑکی نے جو کچھ بھی بُھگتا وہ تفتیشی افسر کے وجہ سے بُھگتا-
تفتیشی افسر کی پوسٹنگ اپنے پاس کرواکر اُس رگڑا دیا جاسکتا تھا اور اُس کو میں ڈسمس کرسکتا تھا مگر میرا ڈسمس کیا ہوا ڈی آئی جی بحال کرسکتا تھا – میں نے ایک مس کنڈکٹ رپورٹ بنا کر آئی جی جناب فیاض لغاری صاحب کو دی اور اُن سے تفتیشی افسر کو ڈسمس کرادیا کیونکہ آئی جی صاحب کا ڈسمس کیا ہوا بندہ سروس ٹربیونل ہی بحال کرسکتا ہے، سروس ٹربیونل نے اُس افسر کو جبری رٹائر کردیا۔
https://www.facebook.com/photo?fbid=833389114829022&set=a.511929060308364
ہزار جہانِ جستجو
1992 سے 2023 کم و بیش تیس سال میں سائنسدانوں نے صفر سے 5500 ایسے سیارے ڈھونڈے ہیں جو ہماری...