ایک تھا ' زیگلر ‘
(ہرمن ہیسے کی ’Ein Mensch mit Namen Ziegler ‘ نامی یہ کہانی پہلی بار جرمن جرنل ’ Simplicissimus ‘ میں 1908 ء میں شائع ہوئی تھی ۔ ہیسے اس وقت 30 برس کا تھا ۔ اس کا انگریزی ترجمہ ’ A Man by the Name of Ziegler ‘ مِنیسوٹا یونیورسٹی میں جرمن زبان کے پروفیسرجیک زیپیز ’ Jack Zipes‘ نے کیا ۔ یہ کہانی جیک زیپیز کی کتاب ’ Fairy Tales of Hermann Hesse ‘ میں شامل ہے جو 1995 ء میں شائع ہوئی تھی ۔)
ہرمن ہیسے، اردو قالب؛ قیصر نذیر خاور
ایک دفعہ کا ذکر ہے کہ’ برار‘ گلی میں زیگلر نامی ایک جوان رہتا تھا ۔ وہ ان جوانوں میں سے تھا جنہیں ہم ہر روز بار بار ملتے ہیں لیکن ہم ان کے بارے میں کچھ زیادہ توجہ نہیں دیتے کیونکہ ہر کوئی ایک دوسرے سے یوں مماثلت رکھتا ہے کہ ان کے چہرے مل کر ایک اجتماعی چہرہ بن جاتا ہے ۔
زیگلر سب کچھ وہی کرتا تھا جیسا ایسے لوگ کرتے ہیں کہ وہ بھی ان جیسا ہی تھا ۔ وہ نہ تو کند ذہن تھا اور نہ ہی ذہین ۔ وہ دولت اور تفریح کا دلدادہ تھا ، اچھے کپڑے پہننا پسند کرتا تھا اور اتنا ہی بزدل تھا جتنا کہ عام لوگوں میں سے اکثر ہوتے ہیں ۔ اس کی زندگی اوراعمال من کی موجوں اور دل سے اٹھتی چاہتوں کے تابع نہ تھے بلکہ ریاستی قوانین ، پابندیوں اور سزا کے خوف کے تابع تھے ۔ بہر حال اس میں کئی اچھی خصوصیات بھی تھیں اورسب چیزوں کو مد نظر رکھتے ہوئے عمومی طور پروہ ایک دلکش عام آدمی تھا جو ہر کام معمول کے مطابق کرتا تھا اور خود کو ایک اچھا اور اہم شخص سمجھتا تھا ۔ خود کو اچھا اور اہم سمجھنا کوئی غیر معمولی بات نہ تھی کیونکہ ہر کوئی خود کو منفرد فرد سمجھتا ہے ، اس لحاظ سے یہ بڑی عام سی بات تھی ۔ عام لوگوں کی طرح اسے بھی یقین تھا کہ اس کی زندگی اور اس کا مقصد حیات ہی تمام دنیا کی توجہ کا مرکز تھی ۔ وہ بہت کم شک و شبہات کا حامل تھا اور جب زندگی کے بارے میں حقائق اس کے خیالات سے متصادم ہوتے تو وہ انہیں رد کرتے ہوئے کبوتر کی طرح آنکھیں بند کر لیتا ۔
ایک جدید آدمی ہونے کے ناطے وہ دولت کی بے انتہا عزت کرتا تھا اور ساتھ ہی ساتھ اسے سائنس کی طاقت پر بھی یقین کامل تھا ۔ یہ الگ بات ہے کہ وہ اس بات کا اظہار نہ کر سکتا تھا کہ اصل میں سائنس ہے کیا ؟ اس کے نزدیک یہ کچھ شماریات جیسا علم تھا یا پھر اس کی حیثیت جراثیموں کے علم جیسی تھی ۔ اسے یہ علم تھا کہ حکومت سائنس کو کتنا اہم سمجھتی ہے اور اس پر کتنے پیسے خرچ کرتی ہے ۔ خاص طور پروہ سرطان پر تحقیق کا زیادہ آدر کرتا تھا ، کیونکہ اس کے باپ کی موت کا سبب کینسر ہی تھا ۔ اس کا خیال تھا کہ اب چونکہ سائنس بہت ترقی کر چکی ہے لہذٰا یہ اُسے اس مرض سے مرنے نہ دے گی ۔
اگر زیگلر کے حلیے کو مدنظر رکھا جائے تو وہ اپنے لباس پر اپنے وسائل سے کچھ بڑھ کر ہی خرچ کرتا تھا ۔ وہ سال کے ایک مخصوص فیشن کو اپناتا لیکن ساتھ ہی ساتھ مہینے یا موسمی اعتبار سے اپنائے جانے والی ملبوساتی روشوں کو بےوقوفانہ دکھاوا کہہ کررد کرتا ، کیونکہ اس کی جیب ان کو اپنانے اور ان کے ساتھ ساتھ چلنے کی اجازت نہ دیتی تھی ۔ اس کے دل میں دیانت داری کے بارے میں بہت احترام تھا اور وہ اپنے نگرانوں ، افسروں اور حکومت پر تنقید کرنے میں جھجک محسوس نہ کرتا ۔ ۔ ۔ لیکن صرف دوستوں میں یا ایسی جگہوں پر جہاں وہ خود کو محفوظ سمجھتا تھا ۔ میں شاید اس کے بارے میں کچھ زیادہ ہی تفصیل میں جا رہا ہوں ۔ قصہ مختصر ، زیگلر سچ میں دل کو اچھا لگنے والا ایک جوان تھا اور اس کے نقصان کو ہمیں اپنا ہی جاننا چاہئیے ۔ افسوس یہ ہے کہ وہ بہت جلد اپنے انجام کو پہنچ گیا ، وہ بھی عجیب سے حالات میں جس نے اس کے مستقبل کے بارے میں منصوبوں اورجائز امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا ۔
ہمارے شہر میں آنے کے بعد ایک موقع پر اس نے یہ فیصلہ کیا کہ وہ ایک اتوار کا پورا دن سیر سپاٹے میں گزارے ۔ ابھی اسے مناسب ساتھی نہ ملے تھے جن کے ساتھ وہ یہ کر سکتا اور نہ ہی اس نے شہر کے کسی کلب کی رکنیت حاصل کی تھی ، یہ شاید اس لئے تھا کہ وہ فیصلہ ہی نہ کر پایا تھا کہ کونسا اس کے لئے بہتر رہے گا ۔ شاید یہی اس کے لئے بدقسمتی کا باعث بنا ۔ یہ اچھا نہیں ہوتا کہ بندہ دنیا میں تنہا ہو ۔
اس کے لئے ، چنانچہ ، اور کوئی چارہ نہ تھا کہ وہ ، شہر کے دلچسپ اور اہم مقامات کو دیکھنے کے لئے ، اکیلا ہی نکل پڑے ۔ اس نے محنت سے معلومات اکٹھا کیں کہ اس شہر میں دیکھنے کے لائق کیا کچھ ہے ۔ محتاط مشاورت کے بعد اس نے شہر کے عجائب گھر اور چڑیا گھر میں جانے کا فیصلہ کیا ۔ عجائب گھر اتوارکو صبح کے وقت بِنا ٹکٹ کے دیکھا جا سکتا تھا جبکہ چڑیا گھر میں دوپہر کے بعد داخلے کے لئے رعایتی ٹکٹ کی سہولت تھی ۔
اتوار کی صبح ، زیگلر نے باہر پہن کر جانے والے کپڑوں میں سے ایک نیا جوڑا زیب تن کیا ، گلے میں اپنا پسندیدہ سکارف ڈالا اور عجائب گھر کی طرف روانہ ہوا ۔ اس کے ہاتھ میں ایک پتلی اور نفیس چھڑی تھی ۔ ۔ ۔ لال پالش شدہ چوکور چھڑی جو اسے اہم اور ممتاز بنا رہی تھی ۔ اسے ، البتہ ، اس وقت مایوسی ہوئی جب چوکیدار نے اسے چھڑی عجائب گھر میں لے جانے سے روکا اور مجبوراً اُسے چھڑی اس کے پاس الماری میں رکھوانی پڑی ۔
عجائب گھر کے اونچی چھتوں والے کمروں میں دیکھنے کو بہت کچھ تھا اور یہ سادہ لوح مہمان اُس علمی تحقیق کی لامحدود طاقت کی سنجیدگی سے تعریف کرتا رہا جس کے مظاہر وہاں نمائش کے لئے رکھے ہوئے تھے ، جن کے بارے میں معلومات بھی ان کے نمائشی بکسوں پرآویزاں تھیں ۔ یہ حقیقت تھی کہ اِن لکھی معلومات نے، زنگ آلود چابیوں ، ٹوٹے پھوٹے تانبے کے ہاروں اور ان جیسی دیگر اشیاء پر مشتمل پرانے کاٹھ کباڑ کو حیرت انگیز اور دلچسپ نوادرات میں بدل دیا تھا ۔ یہ دیکھنا بہت ہی زبردست تھا کہ سائنس نے ان سب کا مناسب خیال رکھا ہوا تھا اور ان سب پر حاوی تھی اور جانتی تھی کہ اشیاء پر کیسے قابو پانا ہے ۔ ۔ ۔ او ہاں ، یہ ضرور ایک دن کینسر کا علاج دریافت کر لے گی بلکہ شاید موت پر بھی حتمی قابو پا لے ۔
دوسرے کمرے میں ، اس کے سامنے شیشے کا ایک بکسا تھا جس کے شیشوں سے بہت عمدہ عکس منعکس ہوتا تھا ، اُس نے اِس میں اپنا عکس دیکھ کر اپنے کپڑے دیکھے ، سنورے بالوں پر ہاتھ پھیرا ، قمیض کے کالر، چُنٹوں اور ٹائی کو درست کیا اور اس سارے عمل میں ایک منٹ لگا کر جب اس کی تسلی ہو گئی کہ سب مناسب ہے تو اس نے تسکین بھری گہری سانس لی اور قدیم لکڑہاروں کی بنائی اشیاء دیکھنے کے لئے آگے بڑھ گیا ۔ ’ یہ بہت ہی ہنر مند اور پیداواری لوگ تھے‘ ، اس نے فیاضی سے سوچا ، ’ گو کہ یہ بہت ہی سادہ لوگ تھے ‘۔ پھر اس نے ایک کھڑے گھڑیال کو دیکھا جس کے پیر ہاتھی دانت کے بنے ہوئے تھے جن کے گرداگرد مرد و زن کے ایسے جسم بنے ہوئے تھے جو گھنٹہ بجنے پر رقصاں ہو کر اس بات کی تائید کرتے کہ وقت ایک گھنٹہ اور آگے بڑھ گیا ہے ۔ جلد ہی اسے اس نظارے سے اکتاہٹ ہونے لگی ، اس نے جمائی لی اور اپنی جیبی گھڑی نکال کر وقت دیکھا ، وہ اسے نکال کر اس میں وقت دیکھنا اس لئے بھی چاہتا تھا کہ باپ سے وراثت میں ملی یہ گھڑی بھاری سونے کی بنی ہوئی تھی ، جسے دیکھ کر دوسروں پر رعب پڑتا تھا ۔
گھڑی دیکھ کر اسے مایوسی ہوئی کہ ابھی دوپہر کے کھانے کا وقت ہونے میں کافی دیر تھی ، چنانچہ وہ ایک اور کمرے میں چلا گیا جس نے اس کے تجسس کو ایک بار پھر جگا دیا ۔ اس کمرے میں قرون وسطیٰ کے زمانے کی ایسی اشیاء پڑی تھیں جو توہم پرستی سے جڑی تھیں؛ جادو کے بارے کتابیں ، تعویذ گنڈے اور جادوگرنیوں کے ملبوسات وغیرہ ۔ ایک کونے میں الکیمیا کا ایک کارخانہ سجا ہوا تھا؛ سِرکے ، ہاون دستے ، کانچ کی بنی تجربہ گاہ میں استعمال ہونے والی نالیاں ، سورﺅں کے حنوط شدہ مثانے ، دو تین دونکنیاں اور دیگر کئی اشیاء ۔ کمرے کے اس حصے کو ایک اونی رسی کے ذریعے الگ کیا گیا تھا اور وہاں لکھا بھی تھا کہ اشیاء کو ہاتھ لگانا منع ہے ۔ لوگ ایسی ہدایات توجہ سے نہیں پڑھتے اور اس وقت زیگلر تو ویسے بھی کمرے میں تنہا تھا چنانچہ اس نے بنا سوچے اپنا بازو رسی سے آگے بڑھایا اور کئی عجیب چیزوں کو چھو کر دیکھا ۔ اس نے قرون وسطیٰ اور اس زمانے کی توہم پرستی بارے کافی کچھ سن اور پڑھ رکھا تھا ۔ اسے سمجھ نہ آیا کہ اس زمانے کے لوگ کیوں توہم پرستی کا شکار تھے ، انہوں نے اس بچگانہ مواد کو کیوں نہ جھٹلایا اور جادوگرنیوں و اس طرح کے پاگل پنے پر پابندی کیوں نہ لگائی ۔ اس کے برعکس الکیمیا کو بڑھاوا دینا اور بات تھی کیونکہ کیمیا کا علم اسی سے پروان چڑھا تھا اور انسان کے لئے کارآمد تھا ۔ میرے خدایا ، اگر غور کیا جائے تو سونا بنانے والوں کی کٹھالیاں اور اسی طرح کے جادوئی آلات شاید ضروری تھے ورنہ آج نہ تو ہمارے پاس اسپرین ہوتی اورنہ ہی زہریلی گیس والے بم ہوتے ۔
بِنا سوچے کہ وہ کیا کر رہا ہے ، زیگلر نے ایک چھوٹا ' گلوبچہ‘ ، جیسے گولی ہوتی ہے، اٹھا کر ہاتھ میں رکھا ۔ یہ خشک اور بے وزن تھا ۔ اس نے اسے انگلیوں میں پکڑ کر گھما پھرا کر دیکھا اور واپس رکھنے کو تھا کہ اسے اپنے عقب میں قدموں کی چاپ سنائی دی ۔ اس نے مڑ کر دیکھا ۔ ایک اور مہمان کمرے میں داخل ہو چکا تھا ۔ زیگلر کو شرمندگی ہوئی کہ اس نے’ قرص‘ ہاتھ میں پکڑ رکھا ہے ، ظاہر ہے کہ وہ ہدایات کو پڑھ چکا تھا ، اس نے مٹھی بند کی ، ہاتھ جیب میں ڈالا اور کمرے سے باہر نکل گیا ۔
جب وہ سڑک پر پہنچا تو اسے یاد آیا کہ گولی ابھی بھی اس کے پاس ہے ۔ اس نے اسے جیب سے نکالا اور پھینک دینے کے بارے میں سوچا ۔ ایسا کرنے سے پہلے وہ اسے ناک کے پاس لے کر گیا اور اسے سونگھا ، اسے ’ تار ‘ جیسی ہلکی سی باس آئی جو اسے اچھی لگی اس نے ننھی ’ حُب ‘ پھر سے جیب میں رکھ لی ۔
وہ چلتا ہوا ایک ریستوراں میں گیا ، کھانے کےلئے بتایا اور اخبار دیکھنے لگا ، پھر اس نے اپنی ٹائی دوست کی ، وہاں بیٹھے دیگر گاہکوں پر نظر ڈالی ۔ اس کی نظروں میں کچھ کے لئے عزت تھی جبکہ باقیوں کے لئے تحقیر ۔ اس کا معیار ان کے کپڑے تھے ۔ کھانا آنے میں ابھی وقت تھا ، اس نے الکیمیا کی گولی نکالی ، جسے اس نے نادانستہ طور پر چرا لیا تھا ، اسے پھر سے سونگھا ، اپنی انگشت شہادت سے اسے کھرچ کر دیکھا ۔ پھر اس پر ایک بچگانہ خواہش حاوی ہو گئی اور اس نے اسے منہ میں رکھ لیا ۔ چند لمحوں میں یہ گھل گئی ، چونکہ اس کا ذائقہ برا نہ تھا اس لئے اس نے اسے بیئر کے ایک گھونٹ کے ساتھ نگل لیا ۔ اسی وقت بیرہ اس کے لئے کھانا لے آیا ۔
دو بجے زیگلر ٹرام سے اترا اور چڑیا گھر کے دروازے پر گیا ، اتوار کا رعائتی ٹکٹ لیا اورہونٹوں پر دوستانہ مسکراہٹ سجائے بندروں کے پنجروں کی طرف گیا ۔ وہ چمپینزیوں کے بڑے پنجرے کے سامنے رکا ۔ بڑے ’ایپ ‘ نے اسے دیکھ کر آنکھیں جھپکا کر اچھے اور مزاحیہ انداز میں سر ہلایا اور گھمبیر آواز میں بولا؛
” میرے پیارے بھائی ، معاملات کیسے چل رہے ہیں ؟ “
یہ سن کر اسے دھچکا لگا ، وہ خوفزدہ ہو کر پیچھے ہٹا ، مڑا اور وہاں سے چل دیا اور اس نے ایپ کو کوسنے دیتے سنا ؛
” یہ بندہ ابھی بھی مغرور ہے ! چپٹے پیروں والا ! نامعقول ! “
زیگلر تیز تیزچلتا لمبی دموں والے بندروں کے پنجرے کے پاس گیا ۔ یہ بندر آزادی سے ناچ کر رہے تھے اورچِلا رہے تھے ، ” ہمیں کچھ میٹھا دو کامریڈ ! “ لیکن وہ انہیں ایسا کچھ نہ دے سکا ۔ اس پر وہ غصہ میں آئے اور اس کی نقلیں اتارنے لگے ، مفلس شیطان کہتے ہوئے اپنے دانت دکھا کراسے منہ چڑھانے لگے ۔ وہ وہاں بھی نہ رک سکا ۔ حیران و پریشان وہ بندروں کے پنجروں سے بھاگا اور ہرنوں اور بارہ سنگھوں کے باڑے کی طرف بڑھا ، اس کا خیال تھا کہ ان کارویہ بہتر ہو گا ۔
ایک بڑا اور خوبصورت بارہ سنگھا جنگلے کے قریب ہی کھڑا تھا ۔ اس نے آتے مہمان کودیکھا ۔ زیگلر بری طرح سے خوفزدہ تھا اسے اندازہ ہو گیا تھا کہ گولی کے اثر کی وجہ سے اسے جانوروں کی زبان سمجھ آنے لگی تھی ۔ ایسا ہی کچھ بارہ سنگھے کے ساتھ بھی تھا جس نے اس سے آنکھوں آنکھوں میں بات کی ۔ ۔ ۔ دو بڑی بڑی بھوری آنکھیں ۔ اس کی خاموش سرسری سی نظر میں پُر وقار ماتم تھا ۔ بارہ سنگھے نے اس پر واضع کیا کہ وہ اس سے کتنی نفرت کرتا ہے اور یہ کہ وہ خود کتنا برتر ہے اوراسے کتنا حقیر جانتا ہے۔ زیگلر نے اس کی تمکنت بھری سرسری نظر سے ہی یہ جان لیا تھا کہ باوجود اپنے اتوارکو پہنے جانے والے عمدہ لباس ، جیبی گھڑی ، چھڑی اور ٹوپی کے ، وہ اس کے لئے ایک قابل نفرت عفریت ہے ، مضحکہ خیز ہے اور پیروں کی دھول جیسا ہے ۔
زیگلر بارہ سنگھے سے بھاگا اور پہاڑی بکریوں کے پاس جا کر دم لیا ۔ وہاں سے پہاڑی بکروں ، چھوٹے قد کے اونٹوں ، بڑے سر والے افریقی ہرنوں اور جنگلی سورﺅں سے ہوتا ہوا ریچھوں کے پاس گیا ۔ ان جانوروں نے اس کی ہتک تو نہ کی لیکن سب نے ہی اسے حقیر ہی جانا ۔ اس نے انہیں سنا اور ان کی گفتگو سے یہ جانا کہ وہ انسانوں کو کیا سمجھتے تھے ۔ وہ جو سمجھتے تھے وہ بہت ہی ہولناک تھا ۔ انہیں اس بات پر حیرت تھی کہ اور باتوں کے علاوہ انسان ایک بدصورت ، بدبو دار اور گھٹیا دو پایوں والی مخلوق تھی جسے مضحکہ خیز بھیسوں میں آزادانہ گھومنے پھرنے کی اجازت تھی ۔
اس نے تیندوے کی اپنے بچوں کے ساتھ گفتگو سنی جو عمدہ ہونے کے ساتھ ساتھ معروضی ذہانت سے لبریز تھی ، ایسی گفتگو اس نے انسانوں سے کم کم ہی سنی تھی ۔ اس نے ایک خوبصورت چیتے کا ، چڑیا گھر میں اتوار کو آئے ہوئے مہمانوں پر تبصرہ سنا؛ یہ مختصر اور مطلب کی بات پر مبنی تھا ۔ چیتے نے اعلیٰ نسبی کا مظاہرہ کرتے ہوئے عمدہ اختصار سے کام لیا تھا ۔ اس نے سنہرے بالوں والے ببر شیر کی آنکھوں میں جھانکا تو پایا کہ جانوروں کی دنیا ،جس میں نہ پنجرے ہوں اور نہ ہی انسان، کتنی بڑی ، متنوع اور حسین تھی ۔ اس نے ایک باز کو ایک مردہ شاخ پر، کاہل کر دینے والی تنہائی میں اداس مگر گھمنڈ میں بیٹھا دیکھا ۔ اس نے نیلی چڑیوں کو اپنی قید کو، کندھے اچکاتے ہوئے اور ایک دوسرے سے مزاح کرتے ، پر وقار طریقے سے جھیلتے دیکھا ۔ اپنی سوچ کے عمومی طریقوں سے بری طرح ناامید ، حیران اور مایوس زیگلر ایک بار پھر انسانوں کی طرف مڑا ۔ اس نے اتوار کو آئے اپنے اُن سب ہمراہیوں پر نظر ڈالی تاکہ اپنے مضطرب ہونے اور پریشانی کی وجہ تلاش کر سکے ۔ اس نے اُن کی گفتگو سنی اور اس میں ہمدردی ، قابل فہم ، کچھ ایسا ، جو اسے اچھا لگ سکے ، ڈھونڈنے کی کوشش کی لیکن وہ زیادہ تر تو خود اپنی برتری ، عالی ظرفی ، کردار اور شان کے حوالے سے اشارے ، آثار اور علامتیں تلاشتے پھر رہے تھے ۔
وہ بری طرح مایوس ہو گیا ۔ وہ ان کی آوازیں اور الفاظ سنتا رہا ، ان کی حرکتیں ، اشارے کنایے اور آنکھوں کی حرکات دیکھتا رہا اور اب چونکہ وہ جانوروں کی نظر سے سب کچھ دیکھ چکا تھا ، اسے یہ سب جھوٹ اور نمائشی لگا اور انسانی سماج بھی وحشیوں کا ایک مضحکہ خیز آمیزہ ہی نظر آیا ۔
زیگلر، خود سے بری طرح شرمندہ ، دیوانہ وار ادھر ادھر پھرتا رہا ۔ وہ اس دوران اپنی چوکور چھڑی بہت پہلے ہی جھاڑیوں کی نذر کر چکا تھا اور بعد میں اپنے دستانے بھی وہیں اتار پھینک دئیے تھے ۔ لیکن اُس وقت ، جب اس نے اپنی ٹوپی اتار کر ہوا میں اچھالی ، جوتے اتار ے ، گلے سے ٹائی کا پھندا اتار کر اسے پھاڑا اور بارہ سنگھے کے باڑے کے جنگلے کے ساتھ لگ کر رونا شروع کر دیا تو چڑیا گھر میں سنسنی پھیل گئی ، انتظامیہ نے اسے حراست میں لے لیا اور ۔ ۔ ۔ اور بالآخر اسے ایک پاگل خانے میں پہنچا دیا گیا ۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔