زمین پر، اگر بہت سی زندہ مخلوقات ،کیکڑوں جیسے جانوروں میں ارتقاء ہوسکتی تھیں — تو کیا خلا ء اور کسی ایگزو پلانیٹ میں بھی ایسا ہی ہو سکتا ہے؟
بہت سارے بائلوجسٹ اور خلائی سائنسدانوں کا خیال ہے کہ اگر کہیں کسی زمین سے ملتے جلتے ایگزو پلانیٹ پر زندگی پائی گئی تو وہ یا کسی آکٹوپس یا کسی کیکڑے سے ملتی جلتی اسکی شکل ہوگی جیسے یہ جانور زمین پر پائے جاتےہیں۔
پر ہمارے سیارے زمین پر بہت سے جاندار کیکڑے نہیں ہیں۔ کتے، مثال کے طور پر اور یقینی طور پر وہ کیکڑے نہیں۔ سائنس یہ بھی بتاتی ہے کہ انسان درحقیقت کیکڑے نہیں ہیں یا کیکڑوں سے ارتقاء نہیں پائے۔ لیکن حیرت انگیز تعداد میں بہت ساری مخلوقات یا تو کیکڑے ہیں یا ان جیسی نظر آتی ہیں۔ مثال کے طور پر، ایک ہرمٹ کیکڑے کی شکل واضح طور پر کیکڑے کی طرح ہوتی ہے لیکن تکنیکی طور پر حقیقی کیکڑا نہیں ہے۔ ہرمیٹ کیکڑے اکیلے نہیں ہیں؛ زمین پر زندگی کی تاریخ کے دوران، پانچ الگ الگ معاملات سامنے آئے ہیں جن میں ڈیکا پیڈ decapod کرسٹیشینز (ایسی مخلوقات جنکے دس ہاتھ پیر ہوں) ۔ یہ جانور اس طرح سے ارتقائی عمل سے گزرے ہوئے ہیں اور یہ عمل اتنا عام ہے کہ اس پورے عمل کو ایک رسمی اصطلاح کا نام دیا گیا ہے جسکو کارسنائزیشن carcinizationکہتے ہیں۔کارسنائزیشن دراصل ایک ایسا مفروضہ ارتقائی عمل ہوتا ہے جس میں ایک کرسٹیشین جو ایک غیر کیکڑہ نما جاندار ہوتا ہے، وہ ایک کیکڑے نما جاندار میں تبدیل ہوجاتا ہے۔ یعنی ایک کیکڑہ دراصل ایک ارتقائی عمل کی ایک کامیاب ٹرانسفورمیشن ہے کہ اسکو دوسرے جاندار بھی حاصل کرلیتے ہیں۔
تقریباً دو تین سال پہلے، اس منفرد ارتقائی عمل نے انٹرنیٹ پر ہر ایک کے تخیل کو اپنی لپیٹ میں لے لیا تھا۔ اور مختلف سائنسی آرٹیکلز کی سرخیاں جیسے “ہر چیز آخر کار کیکڑے کیوں بن جاتی ہے” اور “کیوں ارتقا ہر چیز کو کیکڑوں میں تبدیل کرتا رہتا ہے” پاپ اپ ہوا۔ پی بی ایس جیسے پاپولر سائنس یوٹیوب شوز والوں نے بھی ایک ویڈیو اس موضوع پر بھی بنائی تھی۔”ہر چیز” ایک واضح طور ہر مبالغہ آمیز بڑبولا پن ہے – زمین پر چیزوں کی بھاری اکثریت کیکڑے نہیں ہیں اور نہ بظاہر ان جیسا انکو آگے بننے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ لیکن اگر زمین پر کیکڑے جیسی شکل رکھنے کے فوائد ہیں تو کیا ہمیں اسے زندگی کے عمومی اصول کے طور پر دیکھنا چاہیے؟ کیا یہ دوسرے سیاروں پر درست ہو سکتا ہے؟ اگر کارسنائزیشن کا عمل یہاں چلتا ہے، تو یہ توقع کرنا غیر معقول نہیں ہے کہ یہ کہیں اورکسی مختلف دنیا میں بھی ہو سکتا ہے؟ چونکہ ہم ان چیزوں کو بہت زیادہ سنجیدگی سے لیتے ہیں، اس لیے اے آر ایس (سائنسی جریدہ) نے یہ جاننے کے لیے کیکڑوں، ارتقاء اور ایک ایلین زندگی کے ماہرین سے بات کی۔ تو ہمیں یہ جواب ملا: یہ انتہائی قیاس آرائی پر مبنی ہے، یہ دیکھتے ہوئے کہ ہمیں زندگی – کیکڑے جیسی یا دوسری صورت میں – کہیں اور نہیں ملی، لیکن یہ مکمل طور پر ناممکن نہیں ہے۔
اوکے لیکن وہی سوال پھر، آخر کیکڑے ہی کیوں؟
مخلوقات میں کیکڑوں کی خصوصیات کے ارتقا کی وجوہات ابھی تک معلوم نہیں ہوسکی ہیں، حالانکہ بہت سے مفروضے موجود ہیں۔ ہارورڈ یونیورسٹی کے شعبہ آرگنائزمک اینڈ ایوولوشنری بائیولوجی کے ایک محقق جو وولف Jo Wolfe کے مطابق، کارسنائزیشن کا عمل ، جینز اور ماحولیات کا مرکب ہو سکتا ہے۔ تاہم، وولف ، جس نے سال 2020 مارچ میں اس موضوع پر ایک مقالہ لکھا تھا، نے یہ بھی نوٹ کیا کہ ابھی تک کوئی اس موضوع پر حتمی جواب نہیں ہے۔”اس کی کوئی واضح وجہ نہیں ہے کہ کیکڑے کا ہونا، کیکڑے جیسے کےنہ ہونے سے بہتر ہے،” اس نے اے آر ایس کو بتایا۔
پھر بھی ہمارے سیارے زمین پر مختلف جانداروں میں کیکڑے جیسی شکلیں اتنی عام ہیں کہ بہت سی چیزیں جنہیں ہم کیکڑے کہتے ہیں ان کا تعلق اصلی کیکڑوں سے نہیں ہوتاہے۔ مثال کے طور پر، ایک ہرمیٹ کیکڑا ایک ڈیکاپوڈ decapod کرسٹیشین ہے اور انومورا نامی Anomura گروپ کا حصہ ہے۔ اگرچہ وہ کیکڑے جیسی خصوصیات کے ساتھ تیار ہوئے ہیں، لیکن وہ حقیقی کیکڑے نہیں ہیں، جو بریچیورا Brachyuraکے انفرا آرڈر میں سے ہوتے ہیں۔وولف نے کہا کہ اسی طرح کے جسمانی منصوبے تیار ہوسکتے ہیں کیونکہ کیکڑے کی جسمانی شکل کے کچھ فوائد ہوسکتے ہیں۔ کیکڑے کاجسم کافی کمپیکٹ یعنی پچکے ہوئےاور کافی چپٹے ہوتے ہیں، ان کے پیٹ نیچے تک ہوتے ہیں۔ اس سے وہ شکاریوں کے لیے چھوٹے اہداف بن سکتے ہیں اور کیکڑوں کو چھوٹی شگافوں اور دڑاڑوں میں بھاگنے اور چھپنے کی صلاحیت و جگہ مل سکتی ہے۔
وولف نے کہا کہ کسی جاندار کے پنجے بھی اسکے لیے ایک نعمت ہوسکتے ہیں۔ (اگرچہ، ایک بار پھر، پنجوں کا ہونا کسی نوع کو کیکڑے نہیں بناتا — لابسٹر کے پنجے بھی بہت بڑے ہوتے ہیں لیکن وہ کیکڑے نہیں ہوتے ہیں) لیکن اس دلیل کا دفاع اس حقیقت سے مشکل ہوتا ہے کہ پنجوں کے متعدد افعال ہوتے ہیں۔ کچھ کیکڑے شکار کے لیے اپنے پنجوں کا استعمال بھی نہیں کرتے۔ مثال کے طور پر، ایک نر کیکڑا، جنسی نمائش کے لیے اپنا ایک بڑا پنجہ استعمال کرتا ہے۔وولف نے یہ بھی تجویز کیا کہ شاید کارسنازیشن کی کچھ جینیاتی حدود ہوتی ہیں۔ ایک نوع کے جینیاتی میک اپ ،جس نے کیکڑے کی طرح جسمانی منصوبہ تیار کیا اس عمل کے لئے اس میں موجود صحیح عمارت کی تعمیر کے لیےبلاکس کی ضرورت ہوگی۔ لہذا، مثال کے طور پر، شرمپ (جھینگا) اور کیکڑے دونوں کے پاس ایک جینیاتی ٹول کٹ ہے جو انہیں بہت سے اعضاء اور ایگزو اسکلیٹن پیدا کرنے دیتا ہے، جبکہ انسان ایسا نہیں کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے یعنی غالباً، افق پر سطح زمین پر کوئی انسانی رشتہ دار ، کیکڑے جیسے جاندار نہیں اتقاء پائے ہیں۔
کسی جاندار کا کیکڑے جیسا ہوجانا ہونا کب معنی خیز بن جاتاہے؟
ابھی، اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ دوسرے سیاروں (ہمارے اپنے نظام شمسی یا باہر کے کسی ایگز و پلانٹ پر)پر کوئی زندگی موجود ہے، کیکڑے جیسی کسی جاندار کی زندگی بہت کم ملنے کا چانس ہے۔ یہاں تک کہ اگر ہمیں ایسے ایلین مل گئے جو کیکڑوں کی طرح نظر آتے ہیں، تو ظاہر ہے کہ وہ کیکڑے نہیں ہوں گے جیسا کہ ہم نے ان کی تعریف زمین کے حساب سے کی ہے۔ تاہم، صحیح ماحول کے ساتھ، کیکڑے نما ایلین فرضی طور پر کہیں اور کائنات کے کسی اور گوشے میں ارتقائی عمل کے زریعے تیار ہو سکتے ہیں۔ وولف نے نوٹ کیا کہ ان مفروضہ سیاروں پر موجود کسی بھی مخلوق کو کیکڑے جیسی شکلوں میں تیار ہونے کے قابل ہونے کے لیے صحیح جینیاتی عمارت کے بلاکس کی ضرورت ہوگی۔ اور ایک الٹ بات بھی درست ہے، زمین سے مختلف حالات والے سیاروں میں کیکڑے یاان جیسی مخلوق کے ہونے کا امکان زرا کم ہی ہوگا ۔
مثال کے طور پر، سٹار وارز فلموں میں نابو جیسا سیارہ ، جس میں زمین، پانی، چٹان وغیرہ ہیں اور وہ کافی حد تک ہماری زمین سے ملتا جلتا ہے، کیکڑوں کا گھر ہو سکتا ہے، وولف نے کہا۔ زمین پر، زمینی کیکڑے ہیں، جو اپنے سمندری رشتہ داروں سے تیار ہوئے ہیں۔ زمینی جھوٹے کیکڑے بھی ہیں، جیسے خوفناک ناریل کیکڑے۔ لیکن بڑے پیمانے پر، ایسا لگتا ہے کہ کسی سیارے پر پانی یا کسی قسم کا مائع وہاں موجود کیکڑوں کی مشکلات کو بڑھا دے گا۔کیونکہ اگر کسی سیارے پر اگر زندگی پائی جائے، تو وہ مختلف حالات و ماحول میں پنپ رہی ہوگی جو زمینی ماحول و حالات سے یکسر مختلف بھی ہوسکتا ہے۔ اگر کسی کیکڑے نما مخلوق اس لیے کام کرتی ہے کہ یہ چٹانوں اور اس طرح کی چیزوں کو دور کرنا آسان بناتا ہے، تو پھر کسی قسم کا چٹانی جغرافیہ بھی کسی سیارے پر جانداروں کو کارسینائزیشن ہونے کے امکانات میں مدد کر سکتا ہے۔ سٹار وار کی تشبیہ پر واپس جائیں تو، صحرا کی دنیا ٹیٹوئن یا گیس دیو بیسپن (بادلوں کے شہر کا گھر) جیسے سیاروں کے پاس شاید وہ نہیں ہوگا جو اس عمل کو لیتا ہے۔
کیمبرج یونیورسٹی کے ماہر حیوانیات اور 2020 کی دی زولوجسٹ گائیڈ ٹو دی گلیکسی کے مصنف، ایرک کرشنبام Arik Kershenbaum کے مطابق، کیکڑے جیسی مخلوق زمین جیسے ماحول والے سیاروں میں انواع کے لیے مخصوص خالی جگہوں کو بھی بھر سکتی ہے۔ کیکڑے کی کچھ انواع سمندر کی تہہ میں گھومتی ہیں اور یا تو وہ تمام جانداروں کافضلہ کھاتے ہیں جو پانی کے کالم میں اوپر سے نیچے بہتا ہے یا ان دوسرے جانوروں کی نسلیں کھاتے ہیں جو کچرے کو غذائی اجزاء کے لیے استعمال کرتی ہیں۔فرض کریں کہ کسی دوسرے سیارے میں آبی حیات ہے جو مر جاتی ہے اور نیچے ڈوب جاتی ہے، یہ جانوروں کی قابل رہائش جگہ پھر وہاں بھی موجود ہو سکتی ہے۔ اس نے اے آر ایس کو بتایا کہ “آپ اس طرح کے ارتقائی کھیل کو اسی طرح کھیلتے ہوئے اور مزید ارتقاء کو ہوتےدیکھ سکتے ہیں جیسا ممکنہ طور پر زمین پر ماضی میں ہوا تھا۔”
تاہم، اس کا لازمی طور پر یہ مطلب نہیں ہے کہ انکا رہائشی علاقہ صرف کیکڑے کی طرح مخلوقات سے ہی بھر جائے گا۔ کرشنبام نے کہا کہ کیکڑوں کے جسم ہونے کے کچھ فائدے بھی ہیں، جیسے پنجے، ایک سے زیادہ ٹانگیں جن پر گھومنا پڑتا ہے، اور منقسم جسم۔ لیکن اس نے کہا کہ ارتقائی خصلتوں کے مقاصد کے بارے میں ہمارے اندازے ہمیشہ درست نہیں ہوتے۔ مزید، اس نے نوٹ کیا کہ بہت سے معاملات میں، انواع کو صرف پچھلی نسلوں سے خصائص وراثت میں ملتے ہیں، یہاں تک کہ ان خصلتوں کے بعد بھی بقا میں کوئی کردار ادا نہیں ہوتا ہے۔یعنی یہ ضروری نہیں ہے کہ ہر خصلت کوئی مددگار خصلت ہی ثابت ہو، جیسے ہماری اپنڈکس کے ساتھ معاملہ ہے
تو کیا وہ زمین جیسے سیاروں پر ہوں گے؟
ایسا لگتا ہے کہ اگر خلائی کیکڑے ہوں گے تو وہ شاید ایسے سیاروں پر آئیں گے جن کا ماحول زمین سے ملتا جلتا ہے۔ اپنی طرف سے، وولف کو یہ توقع نہیں ہے کہ زندگی کے ظہور کو زمین جیسے سیاروں تک محدود رکھنے کی ضرورت ہوگی۔ ہر قسم کی عجیب و غریب شکلیں ہو سکتی ہیں جو ایلین ماحول میں رہنے کے لیے تیار ہوتی ہیں۔ “میرا خیال ہے کہ آپ ان دوسرے ایگزو سیاروں پر کیکڑے جیسی مخلوق رکھ سکتے ہیں۔لیکن ساتھ ساتھ مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ آپ کو شائد ایسی چیزیں بھی مل سکتی ہیں جو زمین پر بالکل بھی نظر نہیں آتیں،” اس نے کہا۔
لیکن ایرک کرشنبام یہ نہیں سوچتا کہ ستاروں میں زندگی کو بالکل زمین پر زندگی کی طرح نظر آنے کی ضرورت ہے۔ بلکہ، عجیب و غریب ایلین ، ہماری زندگی کے مقابلے میں نایاب ہونے کا امکان زیادہ ہے۔ مثال کے طور پر، خلاء کی وسعتوں میں وہاں بہت سارے چٹانی سیارے موجود ہیں جن پر شاید پانی موجود ہے، جو زندگی کا ایک ضروری پیش خیمہ ہو سکتا ہے۔ لیکن کیا یہ ممکن ہے کہ زندگی انہی ترتیبات اور ترکیبات میں موجود ہو جو زمین سے بالکل مختلف ہوں جیسے زہرہ کے تیزابی ماحول میں رہنے والے بیضوں کی طرح ممکنہ ہوسکتی ہو۔انہوں نے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ زمین جیسے سیارے عجیب و غریب اور حیرت انگیز سیاروں کے مقابلے نسبتاً بہتر زندگی کے حامل ہوں گے۔ “زیادہ معقول زندگی عام ہونے کا زیادہ امکان ہے۔”یونیورسٹی آف کیلی فورنیا میوزیم آف پیلیونٹولوجی کے ڈائریکٹر چارلس مارشل Charles Marshall نے کہا، تاہم، یہ انواع کا ایک کافی تنگ گروپ ہے جو زمین پر کیکڑے بننے کے لیے تیار ہوا ہے۔ اس کے علاوہ، یہ انواع پہلے سے ہی کیکڑوں سے ملتے جلتے ہیں. اس نے ا ے آر ایس کو بتایا کہ “کسی جاندار کو کیکڑے بننے سے پہلے ہی وہ کیکڑے بننے کے اتنے قریب پہنچ چکا ہوگا،اور یہ ایک اہم بات ہے۔ بہت کم وہ پھر مختلف ارتقائی اسٹیپس کے زریعے کیکڑا جیسا بن سکتا ہے اور ان جیسے فیچرز اختیار کرسکتا ہے۔” “زندگی بہت زیادہ شکلوں میں پیدا ہوتی ہے، اور کریب بننا ان میں سے ایک ہے۔”
مارشل نے مزید کہا کہ کسی سیارے پر کیکڑے نما مخلوق کی موجودگی یہ بتا سکتی ہے کہ سیارے میں کچھ مزیددلچسپ بننے کی صلاحیت ہے۔ اس نے کہا کہ اگر وہ زندگی کی تلاش کے لیے خلاء میں تحقیقات بھیجیں گے تو وہ کیڑے کی شکل کی بہت سی چیزیں دیکھنے کی توقع کریں گے – وہ زمین پر کافی عام ہیں اور 500 ملین سال سے زیادہ عرصے سے موجود ہیں۔ کسی چیز کو کارسنائز کرنے کے لیے، اس کے ارد گرد ایک متحرک ماحولیات کی ضرورت ہے۔ جاندار کے لیے اپنے آپ کو بچانے یا چھپانے کے لیے شکاریوں کی ضرورت ہوگی، نیز کھانے کی ایک اچھی قسم بھی انکو یقینا درکار ہوگی۔ کیڑے جیسی شکلوں کو شاید ان سب کی ضرورت نہیں ہے۔تو اس لیے ان جانوروں کو ایک کریب نما ہو نا پڑے گا، چاہے وہ سمندری پا نی کی مخلوق ہوں یا پھر خشکی پر پائے جائے۔ انہوں نے کہا کہ ” کسی کیکڑے یا اس سے ملتی جلتی ماورائے زمین مخلوق کو تلاش کرنا کافی امکانات سے بھرپور حیاتیاتی میدان اور ایک کافی کثیر تعداد کی جینومک صلاحیت کا اشارہ ہوسکتا ہے جس سے آپ ابھی تک انسانوں کی طرح کچھ بھی ارتقاء کے زریعے تیار کرنے کی توقع کر سکتے ہیں،” انہوں نے کہا۔ “لہذا، کیکڑے جیسی چیز کی تلاش ایک اچھا خیال ہو سکتا ہے۔ اگر کسی بیرون نظام شمسی کے سیارے نےکیکڑے جیسی کوئی چیز تیار نہیں کی ہے، تو آپ کو معلوم ہوگا کہ آپ کو ایک ایسی دنیا مل گئی ہے جو اب بھی نسبتاً زندگی کی کسی کھوج کے لیےآسان ہے۔ اور اس میں نئے جانداروں کے بننے کے واضح چانسز ہونگے۔”
ترتیب، تحقیق اور ترجمہ
#حمیر_یوسف
اوریجنل مضمون
اورٹ کلاؤڈ جہاں ہمارا نظام شمسی ختم ہوتا ہے
کیا آپ برف اور گردوغبار کے اس بلبلے کے بارے میں جانتے ہیں جو ہمارے نظام شمسی کو گھیرے ہوئے...