غیر فعال پی ڈی ایم کے حالیہ اجلاس اور چیرمین پاکستان پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری کی جانب سے پی ڈی ایم کے اصل ایجنڈے کے مطابق موجودہ حکومت سے چھٹکارے کے لئے عدم اعتماد کے مشورے نے ایک بار پھر اس سیاسی بحث کو چھیڑ دیا ہے جواب ن لیگ کی چھیڑ بن چکی ہے۔ پی ڈی ایم کے قیام کا بنیادی مقصد موجودہ سلیکٹڈ حکومت سے چھٹکارہ حاصل کرکے ایک قومی حکومت کی طرح کی حکومت بنانا اور انتخابی اصلاحات کرکے نئے انتخابات کی طرف جانا تھا۔ اس مقصد کے حصول کے لئے ایک متفقہ چارٹر کی منظوری دی گئی تھی جس کے مطابق آگے بڑھتے ہوئے پی ڈی ایم نے نہایت کم وقت میں بے شمار سیاسی کامیابیاں حاصل کر لیں جس سے حکومت واضح طور پر شکست خوردہ نظر آنے لگی تھی اور یہ تاثر مضبوط ہو چکا تھا کہ اس حکومت کے دن اب گنے جا چکے ہیں لیکن اس موقع پر جب ایک آخری ضرب لگا کر حکومت کو چلتا کیا جا سکتا تھا، ایک نہایت متحرک اورجاندار تحریک جس سے حکومت کا پتہ پانی ہو چکا تھا اور حکومت خوف سے کانپ رہی تھی، ن لیگ نے استعفوں والی ناقابل عمل اور غیر متفقہ شرط رکھ کر پی ڈی ایم کی ساری کامیابیوں پر پانی پھیر دیا۔ سونے پہ سہاگے کا کام مریم نواز کے اس بیان نے کر دیا جس میں مریم نواز نے واشگاف الفاظ میں عمران حکومت کے پانچ سال پورے کروانے کا عندیہ دیا۔ مریم نواز کے اس بیان کے بعد تو پی ڈی ایم بنانے کا بنیادی مقصد ہی ختم ہو گیا اور پی ڈی ایم عملی طور بالکل غیر فعال ہو کر رہ گیا۔
ملک بھر میں ہونے والے ضمنی انتخابات اور قومی اسمبلی سے سینٹ کے حکومتی امیدوار کی ناکامی پی ڈی ایم کی ایسی کامیابیاں تھیں جن سے حکومت یقینی طور بوکھلاہٹ کا شکار ہو کر بیک فٹ پر جا چکی تھی۔ ان تمام کامیابیوں کے پیچھے پیپلزپارٹی کی قیادت کا وہ دانشمندانہ مشورہ تھا جس کے نتیجے میں پی ڈی ایم میں شریک جماعتیں ضمنی انتخابات اور سینٹ انتخابات میں شرکت پر آمادہ ہوئیں ورنہ تو ن لیگ کی قیادت اور مولانا فضل الرحمن ان انتخابات کا بائیکاٹ کرنے کا ارادہ ظاہر چکے تھے۔ انہی کامیابیوں کو آگےبڑھاتے ہوئے پیپلزپارٹی کی قیادت نے ن لیگ کو پنجاب حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی تجویز پیش کی اور بتایا کہ پیپلزپارٹی سےرابطے میں موجود ناراض حکومتی اراکین کی مدد سے عدم اعتماد کی تحریک کامیاب کروائی جا سکتی ہے اور پنجاب میں عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد مرکز میں موجود حکومت کو بڑی آسانی سے گرایا جا سکتا ہے۔ یہی وہ نکتہ تھا جہاں سے مریم نواز اور ن لیگ کی باقی قیادت نے نامعلوم وجوہات کی بنا پر مولانا فضل الرحمن کے ساتھ مل کر پی ڈی ایم کی حکومت کو ہٹانے کی ساری کوششوں پر پانی پھیرتے ہوئے پی ڈی ایم کی ساری تحریک کو ہی سبوتاژ کردیا۔ اس کے بعد جس طرح استعفوں کو بنیاد بنا کر لانگ مارچ کو ملتوی کیا گیا اور جو کچھ ہوا وہ اب تاریخ کو حصہ ہے۔
یہاں سے ن لیگ کے اندر موجود کنفیوژن اور کشمکش بھی سامنے آتی ہے کہ ن لیگ مسلسل پی ٹی آئی سے پِٹ بھی رہی ہے لیکن پی ٹی آئی حکومت کی ضمانت بھی بنی ہوئی ہے۔ میاں صاحب کے نام نہاد بیانیے کی کنفیوژن بھی ن لیگ کے گلے کا ہار بنی ہوئی ہے۔میاں صاحب بڑھکیں تو مار چکے ہیں لیکن اب یہ بڑھکیں ن لیگ سے سنبھالی نہیں جا رہیں۔ اس لئے کبھی تو مریم نواز اور میاں صاحب بڑی بڑی انقلابی باتیں کرنے لگتے ہیں اور کبھی لمبی خاموشی سادھ لیتے ہیں اور پھر محمد زبیر اور شاہد خاقان عباسی کےبیانات سامنے آنا شروع ہو جاتے ہیں کہ ہماری پنڈی والوں سے صلح ہو چکی ہے اور کبھی کہا جاتا ہے کہ ہماری تو پنڈی والوں سےکوئی لڑائی تھی ہی نہیں، دوسری طرف شہباز شریف بھی ایک ٹھنڈے ٹھار اپوزیشن لیڈر کا کردار نبھائے چلے جارہے ہیں اور بجٹ کی منظوری کے وقت اپنے ارکان سمیت اسمبلی سے ہی غیر حاضر ہو جاتے ہیں اور پیپلزپارٹی کے چیرمین بلاول بھٹو زرداری اپنے ارکان سمیت پارلیمنٹ کے فلور پر انتظار ہی کرتے رہ جاتے ہیں اور حکومت باآسانی بجٹ منظور کروانے میں کامیاب ہو جاتی ہے۔ لگتا ہی نہیں کہ یہ وہی ن لیگ اور شہباز شریف ہیں جو پیپلزپارٹی کے دور میں پیپلزپارٹی کے خلاف سخت ترین اپوزیشن کرتےرہے ہیں، لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاج کے دوران واپڈا کے دفاتر پر حملے، آئے دن پیپلزپارٹی کی حکومت کے خلاف جلسے جلوس اور مینار پاکستان پر شہباز شریف کی پکھیاں جھلنا کسے یاد نہیں اور اب ن لیگ ایسی خاموش ہے، ملائم ہے کہ لگتا ہی نہیں کہ کہیں ن لیگ کا وجود بھی ہے۔ پنجاب اور مرکز میں اپوزیشن لیڈر کا عہدہ ہونے کے باوجود ن لیگ بالکل خاموش ہے۔ موجودہ حکومت کی اپوزیشن سے زیادہ اپوزیشن تو ن لیگ آج بھی پیپلزپارٹی کی کرتی نظر آتی ہے۔ کراچی بلدیہ ٹاون سے اگر پیپلزپارٹی الیکشن جیت جائے تو مریم نواز اور ن لیگ فورا دھاندلی کا الزام لگا کر دوبارہ گنتی کرواتے ہیں لیکن پنجاب سے کشمیری مہاجرین کی تمام سیٹیں ہارنے اور سیالکوٹ سے صوبائی اسمبلی کی اپنی پکی سیٹ ہارنے کے باوجود ن لیگ کی آواز تک نہیں نکلتی۔
ن لیگ کو ہمیشہ کی طرح درست وقت پر درست فیصلے کرنے میں ناکامی کا سامنا ہے۔ سینٹ الیکشن میں قومی اسمبلی سے اپوزیشن کے متفقہ امیدوار گیلانی صاحب کی جیت کے بعد اپوزیشن کے پاس بہت اچھا موقع تھا کہ وہ حکومت بدل کر الیکشن اصلاحات کرنے کے بعد الیکشن میں چلے جاتے لیکن ن لیگ نے اپنی ڈھٹائی اور غلط فیصلے سے وہ نادر موقع بھی گنوا دیا۔ اب سچویشن یہ ہےکہ اپوزیشن کی مشاورت کے بغیر ہی حکومت اپنی مرضی کی الیکشن اصلاحات کرنے کی کوشش کررہی ہے تاکہ اگلا الیکشن بھی کنٹرول کیا جا سکے۔
اسی خطرے کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے پیپلزپارٹی کی جانب سے ن لیگ کی قیادت کو ایک بار پھر موجودہ حکومت کے خلاف عدم اعتماد کی دعوت دی گئی ہے اور ن لیگ کی قیادت کے سامنے عدم اعتماد کے لئے درکار نمبر بھی شو کردئیے گئے ہیں لیکن ن لیگ کی طرف سے پھر وہی ڈھاک کے تین پات والی بات کہ پہلے سینٹ کے چیرمین کے خلاف عدم اعتماد لایا جائے۔ کیا ن لیگی قیادت یہ بتانا پسند کرے گی کہ سینٹ کے چیرمین کو ہٹانے سے اپوزیشن کو کیا فائدہ حاصل ہو سکتا ہے؟ یا چیرمین سینٹ کو بدلنے سےحکومت کو کیا فرق پڑے گا؟ جو نقصان وفاقی حکومت کو پنجاب حکومت کے گرائے جانے سے ہو سکتا ہے وہ سینٹ چیرمین کوہٹانے سے کیسے ہو سکتا ہے؟
دوسری طرف وفاقی حکومت کو ہٹائے بغیر اس چیز کی ضمانت کیسے دی جا سکتی ہے کہ اگلے الیکشن میں دھاندلی نہیں ہو گی۔ موجودہ حکومت باقی رہی تو اپنی مرضی سے الیکشن قواعد میں تبدیلیاں کرے گی جس کے آثار نظر بھی آرہے ہیں مثلاً حلقہ بندیوں میں الیکشن کمیشن کا کردار ختم کرکے نادرہ کے حوالے کرنا، سمندر پار پاکستانیوں کے ووٹ کا طریقہ کار اور سب سے بڑھ کر الیکٹرونک مشینوں کا استعمال۔ جہاں اپوزیشن سے ان تمام تبدیلیوں پر کسی بھی سطح پر مشاورت نہیں کی گئی وہاں الیکشن کروانے کے ذمہ دار آئینی ادارے الیکشن کمیشن سے بھی کوئی مشاورت نہیں کی گئی۔ تاہم الیکشن کمیشن نے ان تمام مجوزہ تبدیلیوں پر اپنے شدید ردعمل کااظہار کیا ہے۔ اپوزیشن جماعتیں بھی الیکشن قواعد میں ان مجوزہ تبدیلیوں پر شدید تخفظات رکھتی ہیں لیکن ن لیگ کو ہمیشہ کی طرح وقت گزر جانے کے بعد اور نقصان اٹھا لینے کے بعد سمجھ آئے گی کہ اپنی ہٹ دھرمی اور درست وقت پر فیصلہ نہ کرنے کےباعث اور عوام کے حق حاکمیت کے خلاف کی جانے والی سازشوں کے خلاف اپنا کردار ادا نہ کرنے کے باعث وہ دراصل موجودہ سلیکٹڈ حکومت کی مضبوطی کا باعث بن رہے ہیں۔ چونکہ نواز شریف اور ان کی بیٹی مریم نواز نااہل ہیں اور موجودہ حکومت کو ہٹانے کے بعد بھی ان دونوں کے لئے آنے والے حکومتی سیٹ اپ میں کوئی کردار نظر نہیں آتا شائد اسی لئے وہ اس حکومت کوہٹانے میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتے اور اپنے کنفیوز بیانئیے سے اور موجودہ حکومت کو طول دے کر نہ صرف اپنی پارٹی بلکہ ملک و قوم اور عوام کا بھی بہت بڑا نقصان کررہے ہیں۔
ن لیگ کی اس کنفیوژن اور دوُ رخی سیاست سے جہاں اپوزیشن کی سیاست کو بہت زیادہ نقصان پہنچا ہے وہاں بطور جماعت ن لیگ کے اندر بھی کافی بے چینی پیدا ہو رہی۔ ن لیگ کے اراکین اسمبلی اور کارکنان بھی کنفیوز نظر آتے ہیں کہ ان کی جماعت کی اصل میں پالیسی ہے کیا؟ کبھی ایک دم انقلابی اور کبھی بالکل خاموشی اور موافقانہ طرزعمل، حکومت کے خلاف شکایت بھی اورجہاں حکومت کسی مشکل سے دوچار نظر آئے تو خاموشی کے ساتھ اس کی سہولت کاری کرکے مشکل سے نکال بھی دیا جاتا ہے۔اگر ن لیگ نے جلد ہی اپنی سمت کا تعین نہ کیا اور ایک واضح پالیسی کا انتخاب نہ کیا تو جوں جوں الیکشن کا وقت قریب آتا جائےگا ن لیگ کے اندر موجود کشمکش بڑھتی جائے گی جس کے نتیجے میں ن لیگ کے اندر بھی توڑ پھوڑ کا عمل شروع ہو جائے گا جس کے خدشے کا اظہار ن لیگ کے بہت سے رہنما کافی عرصے سے اندرونی اجلاسوں میں کر بھی رہے ہیں۔ ن لیگ کی اسی کنفیوزڈ پالیسی اور سہولت کاری پر مبنی سیاست کے باعث موجودہ حکومت جو ضمنی الیکشنز اور سینٹ الیکشن میں ناکامی کے بعد آدھ موئی ہو چکی تھی ایک دفعہ پھر بڑھکیں مارنے لگی ہے اور اگلے پانچ سال کی بھی باتیں کرنے لگی ہے۔
موجودہ حکومت کے پانچ سال پورے کروانے کے پیچھے ن لیگ کی کیا مجبوری ہے، کونسی مصلحت ہے یا کونسی سیاست ہے جسکی وجہ سے ن لیگ موجودہ حکومت کو ہٹانے کے لئے عدم اعتماد جیسی ایک نہایت قابل عمل تجویز سے گریزاں نظر آتی ہے اسکے بارے تو ن لیگ کے عمائدین ہی بہتر بنا سکتے ہیں لیکن یہ بات کوئی تھوڑی بہت سیاسی سمجھ بوجھ رکھنے والا شخص بھی سمجھ سکتا ہے کہ ن لیگ کی اس پالیسی سے ن لیگ یا اپوزیشن کو کوئی فائدہ ہو نہ ہو موجودہ حکومت بہرحال فائدے میں نظر آتی ہے جبکہ نقصان صرف اور صرف اپوزیشن اور مہنگائی میں پستے ہوئے غریب عوام کا ہوتا نظر آرہا ہے۔
ظفر اقبال کی شاعری میں فنی اور لسانی خامیاں
ظفر اقبال کی شاعری اردو ادب میں جدیدیت اور انفرادیت کی مثال سمجھی جاتی ہے۔ ان کی شاعری میں جدید...