وہ مجھے کچہری میں اکثر و بیشتر نظر آتا تھا۔ گو اس کا لباس صاف ستھرا ہوتا مگر ان کی خستگی و بوسیدگی چھپائے نہ چھپتی۔
عموماً وہ خاکی پینٹ پر سبز دھاری یا نیلی چیک کی قمیص پہنا کرتا تھا۔ جمعہ کے دن البتہ وہ کم ہی نظر آتا تھا، جو اگر کسی جمعہ کو نظر آ جاتا تو اس کا پہناوا علی گڑھ کٹ پائجامے اور کرتے پر مشتمل ہوتا۔ سفید ململ کا کشیدہ کیا گیا کرتہ جو کثرت استعمال سے اپنی چمک و سفیدی کھو چکا تھا اور جس کی سفیدی کو رابن نیل بھی وآپس لانے سے قاصر تھی۔ اس کی عمر یہی کوئی چھیاسٹھ ستر کے لگ بھگ ہو گی۔ اکہرا بدن جو اس کی طویل قامتی کو مزید نمایاں کرتا۔ پچکے ہوئے گال اور کچھڑی بال۔ کشادہ پیشانی حوادث زمانہ سہتے سہتے شکن آلودہ البتہ دھنسی ہوئی آنکھوں میں جیسے دو دیپ روشن۔ جس بات نے مجھے اس کی جانب متوجہ کیا تھا وہ اس کا بے نیازانہ انداز تھا۔ باوجود خستہ تنی کہ اس کے برتاؤ میں ایک افتخار اور شان استغنا نمایاں تھا۔ اس کے نشت و برخاست میں جھلکتی ایک صابر وضعداری اور سبھاؤ میں صدیوں کی رچی بسی تہذیب چھلکتی تھی۔ اس کا سر ہمیشہ بلند رہتا تھا اور چال میں ایک متوازن تیزی تھی۔ اس کے حال اور حلیے سے ہویدا تھا کہ وہ ایک غیور ضرورت مند ضرور ہے مگر منگتا نہیں ۔ اس کے ہاتھوں میں ایک کہنہ ضخیم فائل ہوتی اور وہ اکثر مختلف وکلاء کی ٹیبلوں کا چکر کاٹتا نظر آتا۔ ہر ٹبل سے اسے ایک ہی جواب ملتا، ” نفی میں” مگر مستقل نفی میں جواب سننے کے باوجود اس نے ہمت نہیں ہاری تھی۔ جانے کیسا ہیبت ناک کیس تھا کہ کوئی بھی وکیل اس کیس کی پیروی کرنے کو تیار ہی نہ تھا۔
میں نیا نیا جونیئر وکیل تھا اور ابا میاں نے بہت کہہ سن کر مجھے، صمد صاحب کے چیمبر میں بطورِ مددگار لگویا تھا۔ صمد صاحب کا چیمبر طویل راہ داری کے آخری سرے پر ایک کابک نما کمرہ تھا اور وہیں ان کے دروازے سے متصل ایک چھوٹی چوکور ٹیبل اور قدرے لنگڑاتی کرسی میری آفس تھی۔ گو لنگڑاتی کرسی کے اس پائے میں لکڑی کا گٹا لگا کر میں نے اس پائے کا قد باقی پایوں کے برابر کر لیا تھا پر کرسی پر بیٹھنا اب بھی شدید احتیاط کا متقاضی کہ بیٹھنے پر کرسی ہلکا سا ڈگمگاتی ضرور تھی۔
یہ پرسو ں کی بات ہے کہ کھانے کے وقفے کے دوران میں اور سینئر وکیل ہاشمی صاحب کینٹن میں کھانا کھا رہے تھے کہ کچہری کے احاطے میں مجھے وہ آشفتہ سر سرگرداں نظر آیا۔ میں نے ہاشمی صاحب سے اس کے متعلق استفسار کیا ۔
وہ ۔۔۔۔ وہ۔۔ ۔۔ہاشمی صاحب نے آنکھوں سے اس کی سمت اشارہ کیا۔
وہ ۔۔۔۔، وہ تو ایک دیوانہ ہے۔
کیا مطلب ؟؟
میرا لقمہ اٹھایا ہوا ہاتھ ہوا میں معلق رہ گیا ۔
“مگر وہ تو بہت سوبر اور صحیح الدماغ نظر آتا ہے ہاشمی صاحب۔”
میری حیرانی بجا تھی۔
ہاشمی صاحب نے مرغی کی ٹانگ چباتے ہوئے قدرے رنجیدگی سے کہا
” نہیں کمال میاں وہ واقعی سر پھرا ہے مگر سچا ہے ۔ وہ عوام کی جانب سے حکومت کے خلاف قتل کا مقدمہ کرنا چاہتا ہے۔ ”
کیا؟؟؟ عوام کی جناب سے حکومت کے خلاف !!!
کس کے قتل کا مقدمہ ؟؟
میں شدتِ حیرت سے ہکلا گیا تھا۔
جی ہاں !! پاکستان کے پہلے وزیر اعظم شہید خان لیاقت علی خان اور مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے سفاکانہ قتل کے خلاف مقدمہ بلکہ اب تو اس کی فہرست میں مقتولین کی تعداد بڑھتی ہی چلی جا رہی ہے۔
مضمون کیسے لکھا جائے؟
مضمون کیسے لکھا جائے؟ بطور مڈل اسکول، ہائی اسکول یا پھرکالج اسٹوڈنٹ ہر کسی کا واسطہ ایک نہیں بلکہ بیشترمرتبہ...