عاصمہ جہانگیر کی یادیں؛
(دوسری قسط)
میراتھن جو رک نہ سکی
کتنے بندے لاؤ گے؟ عاصمہ جہانگیر نے فون پر پوچھا، جتنے آپ کہتی ہیں۔ میرا جواب تھا۔ گوجرانوالہ میں مزھبی جنونی قوتوں نے ایک ایسی میراتھن ریس کو روک دیا تھا جس میں سکولوں کے طلبہ اور طالبات نے اکٹھے حصہ لینا تھا۔
۔”یہ کیا بات ہوئی، کیا ہم بچوں کو بھی اکٹھے رھنے، پڑھنے اور کھیلوں میں حصہ نہ لینے دیں گے” عاصمہ کہ رھی تھیں۔ “اب ہم ان کو بتائیں گے کہ ہم ملاؤں کے یہ جبری ضابطے نہیں مانتے۔ ہم اکٹھے دوڑیں گے، اکٹھے میراتھن ریس میں حصہ لیں گے”۔
ہم سب جوائینٹ ایکشن کمیٹی فار پیپلز رائیٹس والے اس پر متفق تھے۔
عاصمہ جہانگیر حال چال پوچھنے کی بجائے ڈاریکٹ بات کرتی تھیں۔ جو مطلب ہوتا تھا فون کرنے کے بعد وہ ان کا پہلا فقرہ ہوتا تھا۔
پروگرام طے پا گیا کہ لبرٹی چوک سے قذافی سٹیڈیم تک میراتھن ریس کریں گے۔ یہ ہمارا جواب تھا ملاؤں کو،
یہ 14 مئی 2005 کی بات ہے؛ جنرل مشرف کی حکومت تھی۔ پرویز الہی وزیر اعلی پنجاب تھے۔ حکومت نے طے کر لیا کہ یہ میراتھن نہیں کرنے دیں گے۔ وہ مولویوں کو ناراض نہیں کرنا چاھتے تھے۔ ہم نے بھی طے کر لیا کہ ہم یہ ریس ضرور لگائیں گے۔
عاصمہ جہانگیر نے مجھے کہا کہ اپکے ساتھ محترم اقبال حیدر (مرحوم) ہوں گے۔ ہم نے انہیں ریلوے سٹیشن پہنچنے کو کہا۔ روکے جانے کے ڈر کی وجہ سے ہم نے اپنے دفتر میں اکٹھے ہونے کی بجائے ساتھیوں کو ریلوے سٹیشن پہنچنے کو کہا تھا۔ معین نواز پنوں ہمارے ٹریڈ یونین کے راھنما کے زمہ رستم سہراب سائیکل فیکٹری کے محنت کشوں کو موبلائز کرنے کی تھی۔ محمود بٹ کے زمہ بھٹہ مزدوروں کو لانا تھا۔ عذرا شاد، نازلی جاوید اور رفعت مقصود نے عورتوں کو لے کر عاصمہ کے دفتر نزد لبرٹی چوک پہنچنا تھا۔
دو ویگنوں کا انتظام تھا۔ اقبال حیدر نہ پہنچ سکے۔ ریلوے سٹیشن سے یہ دونوں ویگنیں قزافی سٹیڈیم روانہ ہوئیں یہ وہی جگہ تھی جہاں کل 13 فروری 2018 کو ہم نے عاصمہ جہانگیر کا جنازہ پڑھا تھا۔
قزافی سٹیڈیم کو پولیس نے گھیرا ہوا تھا۔ میں نے ڈرائیورز کو کہا ہوا تھا، رکنا نہیں سیدھا اندر جانا ہے۔ بہادر ڈرائیورز نے ویگنیں پولیس کا حصار توڑتے ہوئے ویگنیں سٹیڈیم کے اندر بھگا دیں۔ پولیس نے منٹوں میں ہمیں روک لیا۔ اسی دوران مجھے فون آگیا کہ عاصمہ کے دفتر کو بھی پولیس نے گھیرا ہوا ہے۔
ہم سب کو جو پچاس کے لگ بھگ ہوں گے پولیس نے گھیرے میں لے لیا۔ پھر مجھے فون آیا کہ عاصمہ کو پولیس نے گرفتار کر لیا ہے۔ میں نے پولیس کے گھیراؤ میں یہ بات سنی اور اس پر کوئی ردعمل نہ کیا۔ ڈی ایس پی کو کہا کہ میراتھن کینسل ہو گئی ہے۔ ہم واپس جانا چاھتے ہیں۔ اس نے یقین کر لیا۔ اور ہمیں کہا ویگنیں واپس بھیج رھا ہوں اپ علیحدہ علیحدہ چلے جائیں۔ جلوس بنا کو واپس نہ جائیں۔ سب دوستوں کو ھدائیت کہ واپس ہو جائیں۔ اور یہ بھی اشاروں کناؤں میں سمجھا دیا کہ عاصمہ کے دفتر واقع مین بلیوارڈپہنچنا ہے۔
محمود بٹ اور میں دونوں تیزی سے مین بلیوارڈ کی طرف چلے۔ بٹ کو بتا دیا کہ عاصمہ گرفتار ہو گئی ہیں ان کی گرفتاری پر احتجاج کرنا ہے۔
جیسے ہی ہم مین بلیوارڈ پہنچے تو ہر طرف پولیس ہی پولیس تھی۔ میں نے نعرے لگانے شروع کئے “عاصمہ کو رھا کرو” صرف بٹ ہی جواب دے رھا تھا۔ بس سیکنڈز میں مجھے پولیس نے اٹھا لیا۔ مجھے کچھ گرفتاری دینے کا تجربہ تھا۔ یہ گر مجھے مرحوم اظہر جعفری فوٹوگرافر نے 2001 میں آے آر ڈی کی مہم کے دوران سمجھائی تھی کہ آرام سے گرفتار نہیں ہونا، مزاحمت کرنی ہے۔ اگر پریس وھاں موجود ہے تو اتنی مزاحمت کرنی ہے کہ وہ اپنا کام کر سکیں، کچھ فوٹو وغیرہ کھینچ سکیں۔
میں زمین پر لیٹ گیا، مجھے پولیس اٹھا کر لے جا رھی تھی، مجھے جب پولیس وین میں پھینک رھے تھے میں مسلسل نعرے لگا رھا تھا۔ پھر جب مجھے بالوں سے پکڑ کر دھکا دیا تو میں اندر پھینکا گیا۔ میں پھر بھی نعرے لگا رھا تھا۔ تب مجھے آواز آئی، “بس کرو اب تم پولیس وین کے اندر ہو” یہ تحسین (ساؤتھ ایشیا پارٹنرشپ) تھے جو مجھ سے قبل گرفتار ہو چکے تھے۔ ناصر اقبال بھی تھا۔ عرفان برکت بھی تھا۔ حنا جیلانی بھی تھیں۔ مدیحہ گوھر بھی تھیں۔
کچھ دیر پہلے یہاں سے عاصمہ کو گرفتار کر لیا گیا تھا۔ عذرا شاد کا تو پولیس والیوں نے گلا ہی تقریبا دبا دیا گیا تھا وہ سانس لینے سی بھی قاصر تھیں، رفعت مقصود لڑتے لڑتے گرفتار ہوئیں۔
نازلی جاوید بھاری بھر کم ہیں۔ وہ زمین پر بیٹھ گئیں۔ کئی پولیس والیاں اسے اٹھنے کی کوشش کر رھی تھیں۔ مگر ناکام، نازلی جس پر ھاتھ ڈالتی تھیں وہ ہائے ہائے کرنے لگ جاتیں۔ نازلی کو وہ اٹھا ہی نہ سکے۔ اس کے لئے انہیں کرین چاہیے تھی۔ وہ گرفتار نہ ہو سکیں۔
ہمیں پولیس سٹیشن لے گئے کچھ دیر بعد رھا کر دیا۔ ہم سارے ریس کورس پولیس سٹیشن آگئے جہاں عاصمہ جہانگیر بھی موجود تھیں۔ ہمارے ساتھی جان بلوچ ایڈوکیٹ (مرحوم) کا پتہ نہیں چل رھا تھا ہم نے انکی رھائی تک دھرنا دے دیا۔ ہم کوئی چالیس افراد گرفتار ہوئے تھے۔
اسی دوران میں نے دفتر والوں کو فون کیا کہ اخباروں کو فیکس کر دو کہ کل پھر میراتھن ہو گی۔ ہم اکٹھے دوڑیں گے اس پر کوئی کمپرومائز نہیں۔
ہمارے ساتھ مزاکرات ایس پی مبین کر رھے تھے۔ یہ وہی پولیس افسر پیں جو 2017 کے اغاز میں چئرنگ کراس پر ایک خودکش حملے میں شہید ہوئے تھے۔
عاصمہ نے ان سے کہا کہ کہ ہم اب تو کوئی میراتھن نہیں کر رھے، ھمارے ساتھی کو رھا کریں۔ کیپٹن مبین نے کہا کہ آپ تو کل پھر میراتھن کر رھی ہیں۔ عاصمہ حیران ہو گئیں کہ یہ کیسے ہوا۔ میں نے انہیں بتایا کہ ایک دفعہ پھر میراتھن کا اعلان کیا ہے۔ عاصمہ جی نے مجھے کہا اعلان واپس لو، انکے ذھن میں کچھ اور چل رھا تھا۔ دفتر والوں کو کہا کہ نئی فیکس کر دیں کہ اگلے اتوار میراتھن نہیں ہو گی۔ جان بلوچ کی رھائی پر ہم رات گئے وھاں سے واپس ہوئے۔
عاصمہ نے مجھے کہا کہ میراتھن تو لازمی کرنی ہے لیکن مزید تیاری کے ساتھ اور کچھ وقت لے کر۔
دوبارہ جوائینٹ ایکشن کمیٹی کے اجلاس میں یہ فیصلہ ہوا کہ اب بڑی موبلائزیشن کریں گے اور میراتھن ہو گی۔ جماعت اسلامی سمیت دیگر مذھبی تنظیموں نے میراتھن کو روکنے کا اعلان کر دیا۔ اب یہ بڑی خبر بن گئی۔ 21 مئی کو دوبارہ میراتھن کا اعلان کر دیا گیا۔
عاصمہ جہانگیر نے مجھے، عرفان مفتی اور عرفان برکت کو علیحدہ بلا کر کہا کہ پچھلی گرفتاری کے دوران چند افراد نے انہیں ٹچ کیا تھا۔ ہم نے کہا کہ اپکی مکمل سیکورٹی کریں گے کوئی اپکے پاس نہیں پھٹکے گا۔
سینکڑوں افراد عاصمہ کے گھر جمع ہو گئے، جماعتئے لبرٹی چوک پر اکٹھے تھے۔ ہم جلوس کی صورت میں لبرٹی چوک پہنچے۔ عاصمہ کو ہم چند نے گھیر رکھا تھا۔ پولیس نے دونوں گروھوں کے درمیان زنجیر بنا رکھی تھی۔ اس دفعہ ہمیں روکا نہیں جا رھا تھا۔
دوڑ شروع ہوئی تو عاصمہ نے میرا اور عرفان برکت کا ہاتھ پکڑ رکھا تھا۔ یہ ہمارا ردعمل تھا کہ ہم عورتیں اور مرد اکٹھے دوڑنے کے ساتھ ساتھ ہاتھ بھی پکڑیں گے۔ قذافی سٹیڈیم پہنچے تو کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں اوپر کھٹے ہو کر عاصمہ بات کر سکتیں۔ ایک پولس وین کھڑی تھی۔ میں اسکے انجن پر چڑھ گیا اور عاصمہ جہانگیر کو بھی اوپر بلایا۔ اب پولیس وین ہمارے لئے سٹیج بن گئی تھی۔
عاصمہ جہانگیر نے وہ کام کر دکھایا جوملاء نہیں چاھتے تھے۔ مذھبی جنونیت کی پابندیوں کو توڑ کر رکھ دیا تھا۔
کل اسی جگہ ہم نے عاصمہ جی کا جنازہ پڑھا۔ میں نے ایک بار پھر میں عاصمہ جی کو ذھن میں رکھ کر نعرے بازی کی۔ بھرپور جواب ملا۔
عاصمہ کی روح کو زندہ رکھنے کا عزم انکے جنازے سے ہی شروع ہے۔
یہ تحریر فیس بُک کے اس پیج سے لی گئی ہے۔
“