شامل پس پردہ بھی ہیں اس کھیل میں کچھ لوگ
بولے گا کوئی ، ہونٹ ہلائے گا کوئی اور
آنس معین کے اس شعر میں ان کہی کہہ دی گئی ہے۔ با الفاظ دیگر اس شعر کے تناظر میں اگر ہم سیاسی منظر نامے پر ایک نظر ڈالیں تو ہمیں ساری کہانی سمجھ آجائے گی۔
ہمیں بہت اچھی طرح سے یاد ہے کہ محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنے ایک کالم میں آنس معین کا ایک مقبول عام شعر لکھ کر بہت کچھ کہہ ڈالا تھا یا آپ یوں کہہ لیجے کہ آنس معین کے ایک شعر کو لکھ کر ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے اپنے موقف اور دلائل کو بھرپور انداز میں بیان کردیا تھا۔ وہ شعر آپ بھی ملاحظہ فرمائیے
کیا عدالت کو یہ باور میں کرا پاؤں گا
ہاتھ تھا اور کسی کا مرے دستانے میں
آنس معین
اس شدید جاڑے میں ایک طرف سیاسی ہلچل بلکہ سیاسی موسم گرم ہے اور عجیب بے یقینی بلکہ اضطراب کا سا عالم ہے۔ ماحول پر افسردگی اور تشویش کی ملی جلی کیفیت طاری ہے۔ دوسری طرف علمی ، ادبی ، سیاسی اور سماجی حلقوں میں بحث و مباحثے کے لیے ایک نیا موضوع میسر آگیا ہے۔ پاکستان سے تعلق رکھنے والی خاتون صحافی ، سیاسی تجزیہ کار ، اینکر پرسن اور معروف کالم نویس محترمہ عاصمہ شیرازی کی کتاب کہانی بڑے گھر کی نے تہلکہ مچا رکھا ہے۔ نا صفف پاکستان میں بلکہ اب تو دنیا کے بیشتر ممالک میں بھی کہ جہاں پاکستان سے محبت کرنے والے یا کسی نہ کسی حوالے تعلق رکھنے والے بستے ہیں ان کی گفتگو کا موضوع بھی عاصمہ شیرازی صاحبہ کی کتاب کہانی بڑے گھر کی ہے۔ سہلانے ، جھنجوڑے اور لرزہ طاری کرنے کے لیے یہ ایک کہانی کیا کم تھی کہ سال دو ہزار تیئیس کا ایک اور بلکہ آخری دھماکہ بھی ہوگیا۔ پاکستان ٹیلی وژن کی مقبول ترین نیوز کاسٹر ، معروف شاعرہ ، مصنفہ ، بی بی سی لندن سے وابستہ ، آواز کی دنیا کا بڑا نام ، ادبی اور سیاسی حلقوں کی قابل تعظیم شخصیت محترمہ مہ پارہ صفدر صاحبہ کی خود نوشت ۔ میرا زمانہ ، میری کہانی منظر عام پر آگئی بلکہ آتے ہی چھا گئی ۔ پاکستان میں سیاسی ، ادبی اور ثقافتی معاملات پر نظر رکھنے والے دنیا بھر کے کسی بھی خطے میں بسنے والوں کو میڈم مہ پارہ صفدر کی کتاب میرا زمانہ ، میری کہانی نے حیران کردیا بلکہ ہم تو کہیں گے کہ جس جس تک بھی اس کتاب کی خوشبو اور مہک پہنچی وہ دم بخود رہ گیا۔ ابھی کتاب کو منظرعام پر آئے بمشکل پندرہ بیس روز ہی ہوئے ہوں گے کہ ہمیں ہر روز آٹھ ، دس تبصرے اور تجزیے میسر آئے۔ شنید ہے کہ پبلشر بک کارنر ، جہلم نے اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن منظر عام پر لانے کی تیاریاں شروع کردی ہیں۔
یونائیٹڈ کنگڈم میں پی پی سی یعنی پاکستان پریس کلب یو۔کے کے زیر اہتمام محترمہ عاصمہ شیرازی صاحبہ کی کتاب کہانی بڑے گھر کی تقریب رونمائی منعقد کی گئی۔ ہم سینئر نائب صدر پاکستان پریس کلب انٹرنیشنل محترم سید کوثر کاظمی کے تہہ دل سے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے معلومات فراہم کیں ۔
محترمہ سیدہ عاصمہ شیرازی صاحبہ کہ جو کہانی بڑے گھر کی مصنفہ ہیں نے کہا کہ ان کی کتاب اس بڑے گھر کی کہانی ہے کہ جس نے چار سالوں میں ایک صفحے پر مشتمل ہائبرڈ رجیم کے زریعے ملک میں وہ تجربہ کیا کہ جس ک خمیازہ آنے والی نسلوں کو سالوں تک بھگتنا پڑے گا۔ کتاب “کیسا ہو گا نیا پاکستان” سے “مجھے یوں نکالا” کے بیچ چار سالوں کی کہانی اور دستاویز ہے جب آئین کی عمل داری کو خواہشات کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ ایک صفحے کی حکومت نے آزادی اظہار پر قدغنیں لگائیں اور آوازیں دبانے کے لیے ہر حربہ اختیار کیا۔ عاصمہ شیرازی نے کہا کہ صحافی پاکستان کی نظریاتی حدود، آئین پاکستان، آزادی اظہار کے محافظ ہیں اور رہیں گے۔
ممتاز اور استاد صحافی ، سینئیر براڈکاسٹر ، عالمی اخبار ، انگلینڈ کے مدیر اعلی ، معروف تجزیہ کار اور قادرالکلام شاعر صفدر ہمدانی نے اظہار خیال کرتے ہوئے فرمایا کہ عاصمہ شیرازی کی کتاب حق کی آواز ہے۔ سچ بولنے کی سزا آپ کو بھگتنا پڑتی ہے، عاصمہ شیرازی نے ثابت کیا کہ خواتین مردانہ وار صلاحیتوں کی حامل ہوتی ہیں اور حق بات کرنے میں کسی خوف کو خاطر میں نہیں لاتیں۔ انہوں نے مذید فرمایا کہ 432 صفحات میں 191 کالم کی عاصمہ شیرازی کی کتاب کہانی بڑے گھر کی دراصل اس عہد کی عکاسی ہے جب ریاست مدینہ کے دعوےداروں نے مدینہ تو نہ بنایا ملک کو کوفے سے بدتر بنا دیا جہاں اختلاف رائے کی وجہ سے عاصمہ سمیت کتنی ہی خواتین صحافیوں کو گالی بنایا اور انکے گھروں پر دھاوے بولے اور لفافہ صحافی کی رٹ لگانے والوں نے اپنی سوشل میڈیا بریگیڈ میں لفافے تقسیم کیئے۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے بتایا کہ چند برس پہلے عاصمہ شیرازی سے میری ملاقات میرے مرحوم شاگرد ارشد مراد نے کروائی تھی اور اس دن سے عاصمہ شیرازی نے محبت اور عزت کا رشتہ برقرار رکھا ہے۔ اس مہذب خاتون نے اس طالب علم سے دس نہیں تو بیس لفظ سیکھے ہونگے لیکن ان ہی چند لفظوں کے عوض مجھے اپنا محسن بنائے ہوئے ہے جبکہ میں ایسے محسن کُشوں کے درمیان رہتا ہوں کہ جنکی دو دو کتابیں مکمل درست کر کے دیں وہ کہتے ہیں صفدر ھمدانی کی اردو ادب میں کنٹری بیوشن کیا ہے۔۔۔۔۔۔ کالم کا معیار مولانا چراغ حسن حسرت مولانا عبدلمجید سالک اور احمد ندیم قاسمی نے بنایا تھا لیکن مرحوم عبدالقادر حسن نے کالم کو روزنامچہ بنا دیا۔۔ تا ہم خوشی ہے کہ عاصمہ نے کالم کی ہیئت اور روایتی معیار کو بھی بہت حد تک برقرار رکھا اور اس بات کو بھی غلط ثابت کیا کہ کالم بس ایک روز کے لیئے ہوتا ہے اگلے روز ردی بن جاتا ہے۔ عاصمہ شیرازی اس قافلے کی رکن ہے جنہوں نے کالم کو تاریخی سند اور دستاویز بنایا اور بڑے گھر کی کہانی میں یہ تاریخ ہر کالم میں موجود ہے
صدر پاکستان پریس کلب انٹرنیشنل برطانیہ شوکت ڈار نے کہا کہ عاصمہ شیرازی کی کتاب کی لندن میں رونمائی پاکستان پریس کلب کے لیے اعزاز کی بات ہے۔ عاصمہ شیرازی کو یقین دلاتے ہیں پاکستان پریس کلب انٹرنیشنل کے صحافی ان کے ساتھ ہیں اور ساتھ دیتے رہیں گے۔ تقریب رونمائی میں نظامت کے فرائض ترجمان پاکستان پریس کلب انٹرنیشنل عرفان الحق نے سرانجام دیے جبکہ سینئر نائب صدر پاکستان پریس کلب انٹرنیشنل سید کوثر کاظمی ، سیکرٹری جنرل پاکستان پریس کلب انٹرنیشنل فرید قریشی، اظہر جاوید ، تیمور اقبال ، فیصل پاشا اور معروف براڈ کاسٹر و مصنفہ مہ پارہ صفدر نے بھی اظہار خیال کیا جنکی اپنی یاداشتوں کی کتاب ۔۔۔ میرا زمانہ میری کہانی ۔۔۔۔ابھی شائع ہوئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ ملک کے سیاسی نظام میں فوج کی عشروں سے مداخلت سے انکار ممکن نہیں لیکن اس سے بھی انکار نہیں کہ ملکی سیاسی جماعتوں نے بھی ہر دور اسی فوج کو اپنی بیساکھی بنایا اور ووٹ دینے والے عوام کو مایوس کیا۔
نظم نزول ِقرآن
نظم : ۔۔۔۔ ۔ نزول ِقرآن ۔۔۔۔۔۔۔ نظم نگار : سید فخرالدین بَلّے چار سو جلوۂ لَولَاکَ لَما رقص میں...