عطیہ ربانی، بیلجیئم میں مقیم اردو زبان کی مصنفہ/ادیبہ/ افسانہ نگار/ناول نگار ہیں اور ان کی پہلی تصنیف “لافانیت ایک سراب” کو بہت پذیرائی ملی۔ ان کے تحریر کردہ چند افسانوں میں سے ایک افسانہ “مکافات عمل (انوکھا ایثار)” اس کے مرکزی کردار عبدالمجید بھائی کی زندگی پر روشنی ڈالتی ہے، اور انسانی مایوسی، اخلاقی مخمصوں اور کسی کے انتخاب کے نتائج کی ایک پُرجوش تحقیق پیش کرتی ہے۔
کہانی کا آغاز عبدالمجید بھائی کی زندگی کی تاریک تصویر کھینچنے سے ہوتا ہے۔ اسے ایک آنے والی پرواز کے لیے کافی رقم جمع کرنے کے مشکل کام کا سامنا ہے، لیکن حالات نے اسے چھوٹے جرائم کی دنیا میں دھکیل دیا ہے تاکہ وہ اپنے خواہشات کو پورا کر سکے۔ یہ افسانہ اس اخلاقی مخمصے کا مرحلہ طے کرتا ہے جو کہانی کا مرکزی مرکز بن جاتا ہے۔
مجرمانہ سرگرمیوں میں ملوث ہونے کے باوجود عبدالمجید بھائی کو ایک سنگدل مجرم کے طور پر پیش نہیں کیا گیا۔ اس کے بجائے کہانی اسے یہ دکھا کر انسان بناتی ہے کہ کس طرح معاشی مشکلات افراد کو ایسے کاموں کی طرف لے جا سکتی ہیں جن پر شاید انہوں نے کبھی غور نہیں کیا ہو۔ یہ افسانہ سنگین حالات کا سامنا کرنے پر افراد کی موافقت کو بھی چھوتا ہے، اس بات پر روشنی ڈالتا ہے کہ لوگ اپنے اعمال کو کس طرح معقول بناتے ہیں جب ان کے پاس کوئی دوسرا انتخاب نہیں ہوتا۔
کہانی اس وقت تاریک موڑ لیتی ہے جب عبدالمجید بھائی بظاہر ایک خالی گھر سے ٹھوکر کھاکر نکلتے ہیں، اور اندر سے ایک بزرگ سے ان کی ملاقات داستان کی جڑ بن جاتی ہے۔ بوڑھے کی مایوسی اور رحم کی التجا دل کو دہلا دینے والی ہے۔ یہ تصادم عبدالمجید بھائی کو ایک اخلاقی دوراہے کا سامنا کرنے پر مجبور کرتا ہے – چاہے بوڑھے آدمی کی تکالیف کو ختم کرکے احسان مندانہ عمل کا ارتکاب کریں یا اس کے ضابطے پر عمل کریں کہ پہلے کبھی کسی کو قتل نہیں کیا تھا۔
کہانی ہمدردی، انسانی زندگی کی قدر، اور ان کے ضمیر پر کسی کے اعمال کے وزن کے بارے میں فکر انگیز سوالات اٹھاتی ہے۔ یہ اخلاقیات کی پیچیدگی اور ان فیصلوں کی تصویر کشی کرتا ہے جو لوگ اپنی حدود میں دھکیلتے ہوئے کرتے ہیں۔
آخر میں کہانی ایک ڈرامائی اور المناک موڑ لیتی ہے جب عبدالمجید بھائی بوڑھے کی تکلیف کو ختم کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں۔ یہ عمل، جب کہ رحم سے چلتا ہے، اس کے اب بھی گہرے نتائج ہیں، جو اس کی اپنی موت کا باعث بنتے ہیں۔ کہانی کا اختتام اس تصور کے ساتھ ہوتا ہے کہ یہ قتل نہیں بلکہ اپنے والد کی قربانی کو فراموش کرنے کی سزا تھی۔
عطیہ ربانی کی “مکافات عمل (انوکھا ایثار)” ایک دل چسپ کہانی ہے جو قارئین کو چیلنج کرتی ہے کہ وہ اخلاقیات کی حدود اور غیر معمولی حالات کا سامنا کرنے پر جو انتخاب کرتے ہیں اس پر غور کریں۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو ذہن میں رہتی ہے اور قارئین کو انسانی فطرت کی پیچیدگی اور ہمارے فیصلوں کے دیرپا اثرات کا احساس دلاتی ہے۔
علامہ اقبال يا اکبر علی ايم اے اصل رہبر کون؟
کسی بھی قوم کا اصل رہبر کون ہوتا ہے خواب بیچنے والا شاعر يا حقیقت کو سامنے رکھ کر عملیت...