اپنے پیارے بیٹے کے نام
افنان تم بڑھے ہوتے جا رہے ہو
کیا معلوم کسے بھولتے جا رہے ہو
تم کو شاید نہیں معلوم آفتاب کون ہے
ہاں اس گستاخ میں اک فرعون ہے
جس نے تجھ کو اپنے جگر سے نا آشنا کر رکھا ہے
کسی اور دل میں بھی تم نے گھر کر رکھا ہے
تمھیں کبھی پریوں نے پیار کیا ہے
کبھی تم نے کسی کا انتظار کیا ہے
ہر گام پہ ہر نام پہ ہر راہ پہ
تیرے نام کی کوئی بات کرتا ہے
کون جانے کون مانے
کس کے سہارے رہا ہے
تیری دید کوجس کے لئے کیا گیا مشکل
ہر شام تھی اس کے دل میں تمھاری منزل
میں نے سوچ رکھا ہے سارا
جہاں میں تم ہی ہو میرا سہارا
کون جانے تم کیا ہو
ہر راہ کے سپاہی ہو
میرا آئینہ ہو میرا قرینہ ہو
میں ہوں سنگ جس کے تم نگینہ ہو
ہر گھڑی ہر رات ہر بات تم ہو
میری عمرِ رفتہ کی سوغات تم ہو
تمھارے دم سے ہے جہاں میں روشنی
تمھارے لیے میرے ماہ و سال متمنی
تیرے دم سے ہو زیست میں اجالا
تیرے نقشِ قدم بنیں اعلی و ارفع
توں جہاں جائیں خوشحالی لائے
تجھ سا نہ کوئی مثالی آئے
ہر قدم زینت بنے تیرا افسانہ
نگوں ہوجائے تیرے دم سے آشیانہ
ہر بار کھلے تیرے لیے مہہ خانہ
وہ مہہ جس کی تاب نہ لائے دیوانہ
خودی کی پرتوں سے تو آشنا ہو
جہاں کا پیامبر ہو کہ بہارِ جاوداں ہو
آئے نہ تجھ پہ خزاں کبھی
جائے نہ تیرا اقبالِ جاوداں کبھی
توں لامکاں کے لئے بنے مکاں
تیرے ہی گن گائیں اہلِ زماں
چِلی کا صحرا، آسمان اور وسعتیں
صحرا زمین پر اّن علاقوں کو کہتے ہیں جہاں بارش سال میں شازو نادر ہی ہو۔ اس حوالے سے دنیا...