پاکستان، بھارت ،بنگلہ دیش ،ترکی اورایران سمیت بہت سے ممالک میں مفکر پاکستان ، حکیم الامت شاعر ِ مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کا یوم ِ ولادت باسعادت بڑے جوش و خروش کے ساتھ منایا جارہاہے۔ شہر شہر میں کانفرنسیں، سیمینار،علمی اورادبی محفلوں کااہتمام کیاگیا ہے ۔
بہاول پور شہر میں اقبال ڈے پر تین روزہ تقریبات سجانے کیلئے اقبال کو اپنا روحانی باپ سمجھنے والی سماجی شخصیت اورادب دوست محترم مسعود صابرنے وسیب میں ایوان ِ اقبال قائم کردیا ہے ۔ اس ایوان ِ اقبال کے گیارہ دروازے ہیں ۔ہردروازے پر شاعر ِ مشرق کی شخصیت ، شاعری ،فن اور تاریخی خدمات کے حوالے سے اقبالیات کے ماہراساتذہ کی نگارشات کے اقتباسات اجاگر کئے گئے ہیں۔ کچھ دروازوں پریاان کے ارد گرد اقبال کی شان میں نظمیں بھی پینافلیکس پر آویزاں کی گئی ہیں ۔فضاءوں میں بابا جانی تُم میرے ہو کی صدائیں سنائی دے رہی ہیں ۔ دراصل اقبال میلے پر یہ سلوگن ہر ایک کی زبان پر ہے۔یہ سلوگن اسی لئے دیا گیا ہے تاکہ اقبال کے ساتھ فکری اور روحانی رشتے کی تجدید کا سامان بہم پہنچایا جاسکے ۔عاشقان ِ اقبال کے سینوں پر جو بیجز سجے ہوئے ہیں ،اُن پر بھی یہی عبارت درج ہےیعنی بابا جانی تُم میرے ہو اوروہ بھی اقبال کی تصویر کے ساتھ ۔اقبال کی کتابوں کے حوالے سے بھی دانشور اظہار ِ خیال کررہے ہیں ۔ کچھ ادیبوں نے افکار ِ اقبال کی روشنی پھیلانے کیلئے خوبصورت تجاویز بھی دی ہیں ۔ یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ اقبال نے قوم میں احساس ِ زیاں جگایا۔آزادی کے حصول کیلئے بھرپور جدوجہد کرنے کےجذبے کوبھڑکایا۔رَل مِل کر آگے بڑھنے اور ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر منزل کی طرف پیش قدمی جاری رکھنے کیلئے اُکسایا۔خطبہ ء الہ آباد میں ایک علیحدہ وطن کا تصور پیش کیا اور قائد اعظم محمد علی جناح کو خطوط لکھ کربلوایا تاکہ ان کی ولولہ انگیز قیادت میں اتحاد ، ایمان اور تنظیم کوشعار بنانے والے اسلامیان ِ پاک و ہند منزلوں سے ہم کنار ہوسکیں۔اقبال کے فلسفہء خودی پر بھی بات ہوئی اور انہوں نے جو رموز ِ بے خودی منکشف کئے ہیں ،اقبال کے چاہنے والوں نے انہیں بھی سلامی پیش کی۔تین روزہ جشن ِ اقبال بڑے زور شور سے منایا جارہاہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس کیلئے کئی ہفتے سے تیاریاں جاری تھیں۔ اسلامیہ یونیورسٹی کےاساتذہ سے تجاویز بھی مانگی گئی تھیں اور قابل عمل تجاویز جہاں جہاں سے بھی آئیں ، ان میں حقیقت کے رنگ بھر دئیے گئے ۔پرنٹ میڈیا، الیکٹرانک میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے اس تین روزہ اقبال میلے کی جھلکیاں آپ کو نظر آرہی ہیں۔اس اقبال میلے کے جو رنگ گیارہ دری ایوان ِ اقبال میں دکھائی دےرہے ہیں ،وہ دیدنی ہیں ۔ ذرا ہٹ کر تقریبات سجائی گئی ہیں۔ قرآنی خطاطی کے فن پاروں کی نمائش بھی ہورہی ہے اور روہی چولستان کے ثقافتی اور تہذیبی رنگ بھی ایوان ِ اقبال کی زینت ہیں ۔تقریبات روایات سے ہٹ کر منفرد انداز میں سجی ہیں ، اس لئے میں ان کا احوال اور ایوان ِ اقبال کے اندر کا حال بھی شعری زبان میں سپرد قلم کررہاہوں ۔کوشش ہے کہ اس گیارہ دری ایوان ِ اقبال کی فضا بھی قار ئین کو دکھا دی جائے۔جو کچھ گیارہ دری ایوان کے دروازوں پر لکھاہے ، اس کی جھلک بھی اشعار کے آئینے میں آپ کے سامنے رکھ دی جائے تاکہ اگر آپ بہاول پور کے ایوان ِ اقبال میں نہیں ہیں یا وہاں نہیں جاسکے اور ابھی جابھی نہیں سکتے تو گھر بیٹھ کر بھی اقبال میلے کے مزے لوٹ سکیں۔
بسم اللہ الرحمان الرحیم
خالق و مالک ہے بس رَبّ ِ کریم
سرپرست ِ دو جہاں دُر ِ یتیم
چابی ہر تالے کی ، ہر مشکل کا حل
بسم اللہ الرحمان الرحیم
مختصر نظم ۔گیارہ دری
اللہ اللہ ، یا محمد ، یا علی
آپ کےدرسے ملی ہے روشنی
ہوگئی اپنی منوّر زندگی
مرحبا ، یہ بھی ملی ہے آگہی
خدمت ِ خلق ِ خدا ہے لازمی
ورنہ کچھ بھی تو نہیں ہے بندگی
دیکھتے ہیں ، آئیے گیارہ دری
جوہے رنگ و نور و نکہت سے سجی
کھل رہے ہیں ہم پہ اَسرار ِ خودی
منکشف ہوں گے رموز ِ بے خودی
کیا کہوں اقبال منزل ہے مِری
دیکھتے ہیں ، آئیے گیارہ دری
جوہے رنگ و نور و نکہت سے سجی
سیدعارف معین بلے
تین روزہ جشن ِ اقبال
تین روزہ جشن ہے یہ شاعر ِ مشرق کے نام
جی اُٹھا شہر ِ بہاول پور میں ہر خاص و عام
دے دیا اقبال نے کردار سازی کے لئے
اپنے فکر و فن کی صورت ہم کو آفاقی پیام
قومی پرچم کے رنگ
اب سفید و سبز دونوں رنگ ہم آغوش ہیں
قلب ِ پاکستان دھڑکے گا تو ہم پُرجوش ہیں
کھول دو پہلا در رَل مِل کے
کھول دو پہلا دَررَل مِل کے
بج اُٹھیں گے ساز اب دل کے
خوشبو پھیلے گی انگنا میں
کہتی ہیں یہ کلیاں کِھل کے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایوا ن ِ اقبال کادوسرا در
دوسرا دَر مہمانوں کا ہے
جمگھٹ یہ فرزانوں کاہے
روشن شمعیں دیکھ کے آئیں
وقت یہی پروانوں کا ہے
سیدعارف معین بلے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روہی چولستان میں میلہ سجا ہے شاندار
آگئی ہے دیکھئے صحرا میں رنگوں کی بہار
روہی چولستان میں میلہ سجا ہے شاندار
گوہر ِ عرفاں لُٹانے آرہے ہیں دیدہ ور
سامنے آئیں گےاب علم و ادب کے شاہکار
گیارہ دروازے کھلیں گے رفتہ رفتہ ، دیکھنا
آگیاوہ دن کہ جس دن کاتھا،سب کو ا نتظار
کیاکہوں کہ ہیں ندی کےدوکنارے سامنے
موج مستی میں بھی ہے لُطف و عنایت کی پھوار
کام آجائیں کسی کے ، کام آتا ہے یہی
جو بھی کہلایا تفکروا ، وہی ہے کامگار
آرہے ہیں قافلے شہر ِ ِ درود ِ پاک میں
یہ تو بتلاؤکہ کس نے تھام رکھی ہے مہار
شہر ِ درود میں قلب ِ پاکستان
منبع ہے قرآن و سنّت ہی تِرے منشور کا
مرحبا ،صلّ ِ علی ٰ مخزن یہی ہے نور کا
بن گیا شہر ِ ِ درود ِ پاک میں قصر ِ وفا
کارنامہ ہے یہ فرزند ِ بہاول پور کا
کیا کہوں مسعود صابر ، سب کی منزل ہے وسیب
علم کا پیاسا کوئی نزدیک ہو یا دُور کا
شاعر ِ مشرق کی بات
شاعر ِ مشرق کی ہو یا شاعر ِ روہی کی بات
فکر و فن میں ان کے ہے موجود عکس ِ کائنات
آؤ رَل مِل کر سنواریں گیسوئے حالات کو
دُنیا یہ جنّت بنی توعُقبیٰ میں ہوگی نجات
ثلاثی قطعہ
آگیا وہ دن کہ جس دن کاتھا ،سب کوانتظار
ہے منادی ساتواں دَر کھل رہا ہے دوستو
آٹھویں دَر پر ہے اظہار ِ تشکر بار بار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
قلب ِ پاکستان کی دھڑکنیں
چاہتا ہے جو کوئی بھی تازگی ایمان کی
نعتیں ہیں پڑھ لے کہیں سے آیتیں قرآن کی
برکتیں شہر ِ ِ درود ِ پاک کی ہیں ، دیکھئے
گونج اُٹھیں دھڑکنیں بھی قلب ِ پاکستان کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مرحبا ، اہلاً و سھلاً مر حبا
جگمگا اُٹھے ہیں دالان و در و دیوار و بام
پہلےدروازے پہ لکھ رکھے ہیں مہمانوں کے نام
مرحبا، اہلاً و سہلاً مرحبا ، خوش آمدید
کہہ رہا ہے سارے مہمانوں کو ہر اِک خاص و عام
کام کریں گے سب رَل مِل کے
دے دِیا ہے پیغام ِ بہاراں غُنچہ ء اُمید نے کِھل کے
کُھل گئے ہیں دروازے دِل کے، کام کریں گے سَب رَل مِل کے
قرآنی خطاطی کے فن پارے
کھول کر رکھ دیں گے فن پارے جو ہے رَب کا پیام
تین روزہ بزم ہے بے شک یہ بسم اللہ کے نام
مرد مومن کاتصور دے دیا اقبال نے
ایماں ہے کامل کہاں حُب ِ رسالت ﷺ کے بغیر
آپﷺ کے ہیں ،کیسے ہو ثابت اطاعت کے بغیر
مرد ِ مومن کا تصور دے دیا اقبال نے
زندگی بے رنگ ہے قرآن و سنّت کے بغیر
گیارہ دروازوں کا چرچا
پیغامات کا ہے یہ جہاں ، مفہوم سُنو آوازوں کا
میرے دیس میں چرچا ہے بے شک گیارہ دروازوں کا
بہاول پور میں تین روزہ جشن ِ اقبال
سید عارف معین بلے