پورے دو سال بعد وہ واپس لوٹی تھی۔
پچھلے ساڑھے چار سال مشرق وسطی میں زندگی کے بجائے خبر کو اہمیت دیتے، اسکے پیچھے دوڑتے گزرے تھے۔ خون اور بارود کی باس میں سانس لینا معمول ہوگیا تھا۔ صرف پچھلا ایک سال ایسا تھا جو اسنے الجزیرہ کے ترکی اسٹیشن سے لائیو بروڈکاسٹ کرتے بنا جان کے خطرے کے گزارا تھا۔
زندگی سے ٹھراو نام کی شئے عرصہ ہوا ناپید ہو چکی تھی۔ ابا کے اس ایک گھر کے علاوہ دنیا میں کچھ بھی، کوئی بھی ایسا نہیں تھا جسے وہ اپنا کہہ پائے۔ جو مستقل ساتھ رہے۔
وہ چابی سے دروازہ کھول کر مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوئی۔
سب کچھ ویسا ہی تھا جیسا وہ چھوڑ کر گئی تھی۔ مٹیالہ پینٹ، جسے مزید دو ساون آکر کچھ اور مند مل کر چکے تھے۔ چھوٹا سا صحن، دیوار کے ساتھ لگی کیاریاں جو خالی تھیں۔
ابا کے بعد انکے پودے بھی نہیں رہے تھے۔
خانہ بدوشی اور تنہائی مقدر میں اسنے اپنے ہاتھوں سے لکھی تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ اسے کوئی پچھتاوا تھا۔ دوبارہ موقع ملتا تو وہ ان حالات میں وہی کرتی جو تب کیا تھا۔ پر اس بھاگتی دوڑتی روٹین میں کبھی یہ خالی پن چھبھنے لگتا تھا۔ احساس زیاں آسیب بن کر سایہ فگن ہو جاتا تھا۔
سوٹ کیس برآمدے میں رکھے وہ ابا کے کمرے میں انکے بستر پر آکر لیٹ گئی۔
خاص کر آج جب وہ یوں اچانک اسکے سامنے آگیا تھا۔ کیا دنیا اتنی چھوٹی تھی؟ یہاں تو بچھڑ جانے والے ایک اور ٹکراو کی آس میں خاک ہوجاتے ہیں۔ اور وہ جو منہ چھپائے پھر رہی تھی اسکی آزمائش کے لے قدرت نے کرہ ارض کو سکیڑ دیا تھا۔
مہینوں لگے تھے دل پر پیر رکھ کر فیصلہ کرنے میں، سالوں لگے تھے اس فیصلے پر عمل کرنے کے بعد صبر آنے میں۔۔ اور آج۔۔ اسکا ضبط تو ریت سے بنا محل ثابت ہوا، سمندر کی ایک لہر کی مار۔۔۔ زید کی ایک جھلک کی مار۔
تصور کے پردے پر وہ چہرہ پھر لہرایا۔ اسکا بدلہ بدلہ سا حلیہ، وہ سنجیدگی۔ اور اتنے حق سے اسکا بازو تھامے کھڑی وہ خوبصورت نازک سی ڈاکٹر لڑکی۔
بالکل ویسی جیسی ڈاکٹر سعدیہ ابراہیم کو اپنے بیٹے کے لیے چاہیے تھی۔ ان سب کی طرح ڈاکٹر۔ انکی ٹکر کے ہی کسی خاندان کی فرد۔
چلو کہیں کوئی تو خوش تھا۔
وہ سیدھا لیٹی آنکھیں موندے تھکا تھکا سا مسکرائی۔
زید خوش ہوگا اُسکے ساتھ۔ اگر تھا تو لگ کیوں نہیں رہا تھا؟ یا شاید اتنے سالوں میں وہ اسکا چہرہ پڑھنے کا ہنر بھلا بیٹھی تھی۔
پر وہ جو کہتا تھا کہ اسکی خوشی کے فارمولے کا لازم اور اہم ترین جز منیزے کی موجودگی ہے وہ اسکے بنا خوش رہنا سیکھ گیا تھا؟ یا گزرے ماہ و سال میں اسنے اپنے جذبات کے کلیے بدل لیے تھے۔ وہ منیزے کے ہونے کے محتاج نہیں رہے تھے۔ اچھا تھا ناں پھر تو۔ وہ بھی تو یہی چاہتی تھی۔
پھر یہ درد سا کہاں سے اٹھ رہا تھا؟ کیوں اٹھ رہا تھا۔
آنکھ سے ایک خاموش بوند بالوں میں جذب ہوئی۔
زید سے ملاقات کا اثر تھا یا اپنے شہر لوٹنے کا کہ ماضی کا قدیم صحیفہ ورق بہ ورق اسکے سامنے کھل رہا تھا۔ اس آخری اور پہلی ملاقات کے درمیان کتنے زمانے گزرے تھے، کتنے ادوار۔ کتنے آنسو، کتنے قہقہے۔
♤♤♤♤♤
گیارہ سال قبل
صبح آٹھ بجے وہ گھر کے قریب اس خالی روڈ پر کھڑی لوکل کا انتظار کر رہی تھی۔
گھسی ہوئی جینز اور نیلے کرتے میں بوسیدہ سے لنڈہ کے سنیکرز پہنے، سیاہ سکارف کو صافے کی صورت گردن کے گرد لپیٹے، سیاہ گھنگریالے بالوں کی اونچی پونی میں وہ خاصی اکتائی ہوئی وہاں کھڑی تھی۔ اس علاقے سے اس وقت یہ ایک ہی لوکل گزرتی تھی جس کا کوئی مقررہ وقت نہیں تھا۔ وہ صبح سات بجے سے آٹھ بجے تک کبھی بھی آسکتی تھی۔ نو بجے تک چینل پہنچنے کے لیے اسے اس کے بعد آدھے رستے میں ایک اور بس بدلنی پڑتی تھی۔
اگر وہ ایک اسکوٹر جتنی رقم جمع کر لے تو یہ مشقت تمام ہو سکتی تھی۔ وہ صبح میں ایک گھنٹا زیادہ سو سکتی تھی۔ یہ اگر جلد پورا نہیں ہونا تھا۔ وہ اب سے دگنا بھی کمانے لگے تب بھی ابا کا کڈنی ٹرانسپلانٹ اسکی پہلی ترجیح تھا۔ انکے ڈائلیسس اور دواوں کے بعد بس اتنی رقم بچتی تھی کہ گھر کا خرچ کھینچ تان کر پورا ہو سکے۔ وہ چاہ کر بھی اب تک ٹرانسپلانٹ کے لئے مطلوبہ رقم کے پانچ فیصد سے زیادہ جمع نہیں کر پائی تھی۔ وہ الگ سے اگر رقم جمع کر بھی لیتی تو ایسی بہت سی چیزیں تھی لسٹ میں جو اسکی ذاتی ضروریات سے بہت اوپر تھیں۔ پھوپھی حرمت کا قرضہ۔ گھر کے لئے یو پی ایس، کراچی کی گرمی اور بجلی کی بدحالی ابا کو نڈھال سا کیے رکھتی تھی۔ کچھ مزید رقم ہو جاتی تو آے سی۔
چینل کی کرائم رپورٹنگ ٹیم میں وہ واحد لڑکی تھی۔ اور اسے اس کی قابلیت کے بجائے صرف اس لئے لیا گیا تھا کیونکہ اگلے چھ ماہ میں کوئی بین القوامی واچ ڈاگ قومی سطح پر کام کرنے والے چینلز کو صنفی برابری کی بنیاد پر ریٹ کرنے والا تھا۔ ہر ڈپارٹمنٹ میں خواتین تھیں سوائے کرائم رپورٹنگ کے۔
کوئی بھی لڑکی 2010 کے کراچی میں اس جاب پر راضی نہیں تھی۔ اور ٹھیک ہی نہیں تھی۔ وہ بھی نہ ہوتی اگر بات اس جاب سے آنے والی معقول رقم کی نہ ہوتی۔ وہ یہ کر کے اپنے باپ کی زندگی بچا سکتی تھی تو وہ یہ کرنے کو تیار تھی۔ میڈیا میں پیسہ تو تھا۔ صحافت اسکا جنون تھا مگر کرائم رپورٹنگ وہ ازراہ مجبوری ہی کر رہی تھی۔ یہ نوکری اسے نہ صرف فیلڈ سے جڑے رہنے اور ترقی کرنے کا موقع دیتی تھی بلکہ اسکے معاشی مسائل کو بھی کسی حد تک سنبھالے ہوئے تھی۔ بابا کا ڈائلیسس سرکاری کے بجائے بہت اچھے ہسپتال میں ہو جاتا تھا، گھر بھی چل جاتا تھا۔ علیزے اور عمر کی فیسیں نکل آتی تھیں۔
اور پھر ایک ہفتہ قبل اسکے شہر کے سب سے بڑے میڈیکل کالج میں ڈرگ ڈیلنگ اسکینڈل کے انکشاف پر چینل نہ صرف اس سے بہت خوش تھا بلکہ اسکی جاب بھی عارضی سے مستقل ہو گئی تھی۔ دس فیصد تنخواہ بھی بڑھ گئی تھی۔
یہ چوراہا اس وقت نسبتاً سنسان ہوتا تھا۔ وہاں چند ایک گزرنے والی گاڑیوں کے علاوہ کوئی راہگیر موجود نہ تھا سوائے اس ایک انتظار کرتی لڑکی کے۔
تبھی بس سٹاپ سے کافی فاصلے پر کسی لگژری کار برینڈ کی سیاہ چمکتی سپورٹس کار آکر رکی۔
منیزے نے دائیں طرف گردن موڑ کر اس اچانک رکنے والی کار کو دیکھا۔
اس قدر مہنگا ماڈل۔ لوگ اتنی مہنگی چیزوں پر پیسہ جھونک کر کیا حاصل کر لیتے ہیں؟
خوشی؟ کس قدر کھوکھلی خوشی ہوتی ہوگی۔
اسنے سر جھٹک کر سوچا۔
اس گاڑی کی قیمت سے اسکی زندگی کے کتنے گھمبیر مسئلے حل ہو سکتے تھے۔ ابا کا ٹرانسپلانٹ۔ گھر کی مرمت ہو جاتی تو وہ بھی ساون کا مزہ لے سکتی بجائے چھت ٹپکنے کے خدشوں سے ہولنے کے۔ احد اور علیزے کی پوری دو سال کی فیس وہ ایڈوانس میں دے دیتی۔ پھوپھی حرمت سے لیا قرضہ لوٹا دیتی۔ اے سی، یو پی ایس۔۔۔ اور پھر بھی اتنے پیسے بچ جاتے کے وہ اپنے لیے ایک چھوٹے ماڈل کی گاڑی خرید کر کراچی کے لوکل ٹرانسپورٹ پر ہمیشہ کے لیے لعنت بھیج سکتی تھی۔ اور اپنا کھٹارا لیپ ٹاپ بھی تو بدل سکتی تھی وہ۔
اسکی سوچوں کو بریک اس سپورٹس کار کی ڈرائیونگ سیٹ سے نکلتے اس شخص کو دیکھ کر لگا۔
اٹھارہ انیس سالہ ملگجے سے حلیے میں ٹراوزر اور ٹی شرٹ اور باتھ روم سلیپرز میں وہ دراز قد لڑکا۔ جیسے دنوں سے کپڑے نہ بدلے ہوں، کنگھی نہ کی ہو۔
منیزے نے اس لڑکے کو دیکھا اور ایک نظر اس کی گاڑی کو۔
اسنے کبھی تمام عمر اس گاڑی کے ٹائر خریدنے جتنی بھی مشقت نہیں کی ہوگی۔
واہ مولا تیری شان۔
اسنے شکایتی انداز میں سر اٹھا کر آسمان کو دیکھا۔
وہ ایک ہاتھ ٹراوزر کی جیب میں ڈالے سر جھکائے منیزے کی سمت آرہا تھا۔
منیزے نے رات سونے سے قبل اللہ تعالی سے لمبا شکایتی پروگرام ترتیب دینے کا سوچتے ہوئے بائیں کلائی پر بندھی گھڑی دیکھی۔ ابھی سات پندرہ ہوئے تھے صرف۔
کاش وقت کی پابندی نہ کرنا بھی جرم ہوتا اور وہ اس لوکل کے ڈرائیور کو لاک اپ میں بند کروا سکتی۔ کم از کم بھی تین سال کے لئے، نہیں پانچ۔ بلکہ اسے ایک دن میں ہی پچاس کوڑے لگا کر بھی فارغ کیا جا سکتا تھا۔ حدود آرڈیننس میں یہ شق ڈالنے کا خیال کیوں نہ آیا آمرِ وقت کو۔ وہ پاکستانی قوانین کو مزید کوستی اگر اسے اپنی کمر پر کوئی ٹھوس شئے چھبتی ہوئی محسوس نہ ہوتی۔
وہ پچھلے چھ ماہ سے کرائم رپورٹنگ کی فیلڈ میں تھی اور بھلے ہی اپنی تئیس سالہ زندگی میں اس نے کوئی ایسا موقع پہلے نہیں دیکھا تھا پر وہ جانتی تھی کہ وہ کیا تھا، بندوق!
لیکن وہاں تو کوئی نہیں تھا، وہ لڑکا۔۔ اسنے بے یقینی سے مڑ کر اپنے اندازے کی درستگی جانچنی چاہی۔ پر کمر پر پڑتے مزید دباو نے اسے یہ کرنے نہ دیا۔
” بنا کوئی سین کرییٹ کئے میرے ساتھ چل کر اس گاڑی میں بیٹھیں، اف یو وانا لو۔۔” (if you wanna live)
اسکے پیچھے کھڑے اس شخص نے دبی دبی سی غراہٹ لیے سرگوشیانہ انداز میں اس کے کان میں کہا۔
اس قدر تمیز لیے غصے بھری ایلیٹ ایکسنٹ والی دھمکی۔
وہ کار، اس لڑکے کا حلیہ، اور یہ با ادب دھمکی۔ اسکا لہجہ بتاتا تھا کہ اسنے زندگی میں بیڈمنٹن کی چڑی کے علاوہ کبھی کچھ بھی نہیں مارا ہوگا۔
کس اناڑی رائٹر سے لکھوائی تھی اللہ نے اسکی زندگی کی آج کے ایپیسوڈ کی سکرپٹ؟
پھر بھی وہ اصلح بردار تھا، منیزے نے اس کی بات ماننے میں ہی عافیت جانی۔
وہ خاموشی سے اسکے ساتھ چلتی یوں کہ کمر پر رکھی بندوق چھپ جائے اس لگژری کار کی پیسنجر سیٹ پر بیٹھی۔
♤♤♤♤♤♤
چند لمحوں بعد کار شہر کی خالی سڑکوں پر پوری رفتار سے دوڑ رہی تھی۔
پورے رستے وہ لڑکا ہونٹ سختی سے بھینچے رہا۔ منیزے نے ایک دو دفعہ منہ کھولنے کی کوشش کی جسے مقابل نے بندوق دکھا کر ناکام کر دیا۔
ایک گھنٹے کی خاموش ڈرائیو کے بعد گاڑی کراچی حیدرآباد ہائی وے پر بنے ایک وسیع فارم ہاوس کے باہر موجود تھی۔
منیزے کا اب سوچ سوچ کر دماغ شل ہو رہا تھا۔کون تھا وہ؟ اور یہ سب کیوں کر رہا تھا؟
تبھی وہ اسکی طرف مڑا۔
” ابھی واچ مین گیٹ کھولے گا اور میں نہیں چاہتا وہ آپ کو دیکھے سو جھک جائیں”
وہ اسے بندوق دکھاتے آرڈر دے رہا تھا اور منیزے یوں ہی بت بنی اسے دیکھ رہی تھی۔
” دیکھیں،مجھے آپ پر چند بلٹس یوز (bullets use) کر کے کوئی پچھتاوا نہیں ہوگا، کیونکہ آپ سے بدلہ لینے سے پہلے میں خودکشی کا سوچ رہا تھا۔ سو آپ کو مار کر پھانسی چڑھنے پر کوئی خاص افسوس نہیں ہوگا مجھے، سو فار دا سیک آف یور اون لائف (for the sake of your own life) جھک جائیں”
وہ ایک ایک حرف آنکھوں میں رتجگوں کی سرخی لئے چبا چبا کر ادا کر رہا تھا۔
” کیسا بدلہ؟ میں تمھیں نہیں جانتی، کون ہو تم”
وہ جو سمجھ رہی تھی اس کے منہ کھولنے سے یہ معما کچھ سلجھے گا وہ مزید الجھ گیا تھا۔
” آئی سیڈ، جھک جائیں”
اب کے اسنے بندوق اسکی کھوپڑی پر رکھی۔
منیزے ہر سوال بھول کر جھک گئی ۔ اب باہر کھڑے کسی شخص کو سرسری دیکھنے پر گاڑی میں اس لڑکے کے علاوہ کوئی نظر نہ آتا۔
گیٹ کھلا اور گاڑی ایک وسیع و عریض فارم ہاوس میں داخل ہوئی، اصل عمارت ایک منزلہ اور کم رقبے پر بنی تھی باقی سارا رقبہ باغ، بینڈمنٹن کورٹ، سویمنگ پول اور ایک طرف بنی مصنوعی جھیل نے گھیر رکھا تھا۔وہ طویل روش پر گاڑی گھما کر فارم ہاوس کے پچھلے حصے کی طرف آیا اور اسے اترنے کا اشارہ کیا۔
♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤♤
اس روشن حوادار عمارت میں یہ ایک ہی کمرہ تھا جس میں کوئی کھڑکی نہیں تھی وہ اسے بندوق کے زور پر یہیں لایا تھا۔
” دیکھو، تمھیں کوئی غلط فہمی ہوئی ہے، میں تمھیں نہیں جانتی، جلد بازی میں بنا تصدیق کچھ بھی کرو گے تو بعد میں پچھتاو گے، تمھارا فیوچر تبا۔۔”
وہ جو ایک ہاتھ سے بندوق اس پر تانے دوسرے سے دروازہ بند کر رہا تھا اسکی بات پر پوری قوت سے دروازہ دے مارا۔
الفاظ منیزے کی زبان پر لرزے۔
اسنے جیب سے ریموٹ نکال کر دروازہ لاک کیا اور اسکی طرف بڑھا۔ منیزے نے اسے جیب میں ریموٹ ڈالتے دیکھا، دماغ میں حساب کتاب کیا کہ یہاں سے نکلنا کیسے ہے۔
“بیٹھیں یہاں”
وہ بندوق والے ہاتھ سے وہاں موجود دو کرسیوں میں سے ایک کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔
منیزے کو اب ڈر کے بجائے غصہ آرہا تھا جس طرح وہ لڑکا اسے بندوق دکھا کر سب کروا رہا تھا۔
وہ بیٹھ گئی، چارہ ہی کیا تھا؟
وہ دوسری کرسی کھینچ کر عین اسکے سامنے بیٹھا۔
” غلط فہمی، تصدیق، جلد بازی اور فیوچر جیسے ورڈز کم از کم آپ جیسوں پر سوٹ نہیں کرتے”
اسکی انگارہ آنکھیں منیزے کے چہرے پر ٹکی تھیں۔
” اور مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی ہے۔ آپ کی شکل تو مجھے زندگی بھر نہیں بھول سکتی۔۔”
اسکا لہجہ زہر خند تھا۔
منیزے اس لڑکے کی کم عمری، تیش بھرے چہرے پر معصومیت کے باوجود پہلے یہ سمجھی تھی کہ وہ شاید کوئی عیاش امیر زادہ ہے جو باپ کی طاقت کے نشے میں کچھ بھی کر کے بچ جانے کی گارنٹی کے ساتھ یہ سمجھتا ہے کہ وہ کسی بھی لڑکی کو یوں اٹھا کر اپنے فارم ہاوس لا سکتا ہے۔ پر ایسا نہیں تھا وہ طاقت کے نشے میں چور نہیں بلکہ غصے میں تھا۔ بہت زیادہ غصے میں۔
” میں پھر کہہ رہی ہوں میں تمھیں نہیں جانتی، میں نے تمھیں پہلے کبھی نہیں دیکھا،نہ میں نے کچھ کیا۔۔”
وہ اب بھی خوش فہم رہنا چاہتی تھی کہ اسے کوئی غلط فہمی ہوئی ہے اور وہ اسے سمجھا بجھا کر یہاں سے نکل سکتی ہے۔
” بلیو می یور ” میں تمھیں نہیں جانتی” لائن آف ارگیومنٹ از اکچولی ڈوئینگ مور ڈیمج دن ہلپنگ یو”
( believe me your ‘main tmhe nhi janti’ line of argument is actually doing more damage than helping you)
وہ اسکی بات پھر درمیان میں اچک چکا تھا۔
” آپ منیزے فاروق ہیں۔ سویرا ٹی وی میں ایز آ کرائم رپورٹر جاب کرتی ہیں اور لیٹسٹ آپ نے ایک میڈیکل کالج میں ڈرگ ڈیلنگ سٹوری بریک کی تھی۔ مجھے کوئی غلط فہمی نہیں ہوئی ہے”
اسنے تسلی سے ایک ایک لفظ ادا کرکے منیزے کا یہ گمان دور کیا کہ اسے شاید یہاں کسی اور کے دھوکے میں لایا گیا ہے۔
” اور جہاں تک آپ کا مجھے نہ جاننے کا سوال ہے تو آئی ایم امیزڈ (I am amazed) کہ میری لائف میرا فیوچر ایسے برباد کرنے کے بعد یو ہیو دی اوڈیسیٹی ٹو ٹیل می آن مائے فیس (you have the audacity to tell me on my face ) کہ آپ مجھے نہیں جانتیں۔۔”
اسنے تیش کے عالم میں ہاتھ میں پکڑی گن منیزے کی کرسی کے ہتھے پر ماری۔
وہ ڈر کر پیچھے ہوئی۔
♤♤♤
محمد عارف کشمیری۔۔۔ ایک تعارف
خطہ کشمیر میں بہت سے ایسی قابل قدر شخصیات ہیں جنھوں نے کم وقت میں اپنی محنت اور خداداد صلاحیت...