۹ نومبر ۱۸۸۳ء کو جب میں رخت سفر باندھنے کو تھا تو میں نے ایک عام دعوت کرکے اپنے سب دوستوں کو اس میں مدعو کیا، دعوت نامہ کی پیشانی پر میں نے لکھا تھا کہ:
“یہ خاکسار اٹھارہ برس کے قیام کے بعد اب بظاہر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہندوستان جا رہا ہے، امید ہے آج میرے تمام کرم فرما جن کے اسماء گرامی درج ذیل ہیں، قدم رنجہ فرما کر خاکسار کے ساتھ آخری ماحضر تناول فرما کر مشکور و ممنون فرمائیں گے”۔
جس کسی کو بھی یہ دعوت نامہ موصول ہوا بلا تکلف چلا آیا، یہ دعوت میرے گھر پر میرے روانہ ہونے سے صرف ایک گھنٹہ پہلے، قبل از دو پہر ہوئی تھی، میری جدائی کی وجہ سے حاضرین میں سے ہر ایک کی آنکھوں سے اشک جاری تھے، بہت سے احباب اس مجلس میں کچھ تقریر بھی کرنا چاہتے تھے، مگر دو لفظ کہنے کے بعد ہر کسی کی ہچکی بندھ جاتی تھی، میں خود بھی ایک نصیحت آمیز لمبی چوڑی تقریر کرنا چاہتا تھا لیکن ایک لفظ بھی نہ کہہ سکا اور دل کے ارمان دل ہی میں رہ گئے۔
مولانا لیاقت علی الہ آبادی
اس دن اتفاق سے جمعۃ المبارک تھا، تناول طعام اور مولانا لیاقت علی کے ساتھ آخری نماز جمعہ ادا کرنے کے بعد گاڑیاں تیار کھڑی تھیں، میں لواحقین کے ساتھ سوار ہو کر روس چلا آیا، صدہا مرد عورتیں مجھے روس تک الوداع کرنے میرے ساتھ آئیں، جب چار بجے شب بیوی بچوں کے ہمراہ کشتی پر سوار ہوا تو بے شمار خلقت خوشی اور رنج کے ملے جلے جذبات کے ساتھ زار زار رو رہی تھی۔
اس وقت بیوی اور آٹھ بچے میرے ساتھ تھے اور آٹھ ہزار کے قریب میرے پاس جائیداد تھی، اس وقت میں اس کیفیت پر نہایت تعجب کا اظہار کر رہا تھا کہ جب 11 جنوری ۱۸۶۶ء کو اسی گھاٹ پر جہاز سے اترا تھا تو میں نے لنگوٹی باندھ رکھی تھی اور تن تنہا، اور اب جب کہ اس رنج اور محن کی جگہ سے جا رہا تھا تو بیوی، آٹھ بچے اور آٹھ ہزار روپے کی جائیداد میرے پاس تھی، قدرت الٰہی کی کرشمہ سازی ملاحظہ فرمائیے کہ حکام دنیا نے مجھے بے خانماں کرکے سخت سزا کے لیے یہاں بھیجا تھا مگر اس حاکم حقیقی نے جس کے قبضۂ تصرف میں دنیا و مافیہا کا انتظام ہے دشمنوں کے ہاتھ سے میرے ساتھ کتنے اچھے سلوک کرائے۔
یہ جہاز جس پر سوار ہونے کے لیے میں تیار تھا، بالکل اسی جگہ کھڑا تھا جہاں وہ جمنا جہاز لنگر انداز ہوا تھاجس پر میں آیا تھا، اس دن صبح کے وقت جہاز سے اترا تھا اور آج شام کو سوار ہو رہا تھا، میں نے اس جزیرہ میں زندگی کی اٹھارہ بہاریں بسر کیں، لیکن آج یہ سب کچھ مجھے ایک خواب معلوم ہور ہاتھا اور چشم تصور سے یہاں محسوس ہو رہا تھا گویا آج ہی صبح جہاز ے اترا تھا اور شام کو سوار ہو رہا ہوں۔
میں نے چلنے سے چند روز پہلے زاد راہ کے سوا اپنی کل جائیداد شرعی حصوں کے مطابق اپنی دونوں فیملیوں پر تقسیم کردیں اور خود دولت دنیا سے سبکدوش ہوگیا، اب میری ذاتی جائیداد چند کتابوں اور چند جوڑے کپڑوں کے سوا اور کچھ نہیں۔
علامہ اقبال کی جاوید نامہ بنی نوع انسان کا ایک دستور نامہ ہے پروفیسر عبد الحق
علامہ اقبال کی جاوید نامہ بنی نوع انسان کا ایک دستور نامہ ہے: پروفیسر عبد الحق مؤسسۂ مطالعات فارسی درھند...