وہ کب سے ٹیبل پر بیٹھی انتظار کررہی تھی
دل ہی دل میں گالیاں بھی دے رہی, چہرا غصے سے لال ہو رہا تھا۔
ویٹر تیسری بار اس کے پاس آیا،
“میڈم آپ کو کچھ چاہئے”
“کیا تم بار بار آکر میرے سر پر کھڑے ہو جاتے ہو” وہ غصے سے بولی۔ “مجھے اگر کچھ چاہئے ہوگا تو منگوا سکتی ہوں۔ ایک تو سب میرے پیچھے پڑے ہیں، اب میرا منہ کیا دیکھ رہے ہو جاؤ یہاں سے” ویٹر سر جھکائے چلا گیا۔
اب اس نے فون ملایا، لیکن سامنے سے کال کاٹ دی گئی۔
“یہ فضاء کی بچی”
“میری بچی دنیا میں اب تک نہیں آئی” پیچھے سے آواز آئی۔
“تممم” اس نے غصے سے کہا۔ “میں آدھے گھنٹے سے تمھارا انتظار کررہی ہوں۔”
“صرف پندرہ منٹ ہوئے ہیں.”
“ہاں جب انتظار کرتے کرتے مر جاتی تب آنا تھا نا.” “اچھا نہ بس رانیہ اب بتاؤ بات کیا ہے کیوں اتنے غصے میں ہو۔” فضاء نے پوچھا۔
“پہلے تم میرے لئے جوس منگوؤ، مجھے بہت غصہ آرہا ہے” رانیہ نے کہا۔
فضاء نے جوس منگوایا۔
“نیو یارک سے میری خالہ تشریف لا رہی ہیں” رانیہ نے جوس پیتے پیتے اسے بتایا۔
“یہ تو اچھی خبر ہے وہ کتنی اچھی ہیں جب بھی آتی ہیں میرے لئے بھی گفٹس لاتی ہیں۔” فضاء نے اپنی خوشی کا اظہار کیا۔
“اور جو ان کے آنے سے پہلے امی ہر ایک چیز کی صفائی کراتی ہیں وہ بھی یاد کرو۔” رانیہ نے غصے سے کہا۔
“اور اس بار تو انکے وہ کھروس بیٹے سعد صاحب آرہے ہیں ان کا کیا” رانیہ نے مزید کہا۔
“تو یہ ہے اصل وجہ۔”
“جی” رانیہ نے “جی” پر زور دیا۔
“بچپن سے ماما نے اس کھروس کی مثالیں دے دے کر جینا دشوار کیا ہوا ہے، اب جناب خود تشریف لا رہے ہیں۔ میری قسمت میں روز ایک نیٔ مصیبت آنا ضروری ہے۔” رانیہ نے اپنی بات مکمل کی۔
“وہ تو ہے” فضاء نے کہا جس پر رانیہ کا اسے قتل کرنے کو جی چاہا مگر برداشت کیا۔
“بچپن میں جب وہ گیا تھا دو نوافل شکرانے کے ادا کیے تھے اور قسم کھائی تھی کہ اب اس کی صورت کبھی نہیں دیکھوں گی۔ لیکن اب قسم ٹوٹنے والی ہے”
“اچھا اچھا اب اپنا موڈ ٹھیک کرو، میں تمھیں آج کالج کی کہانی بتاتی ہوں تم تو آئی نہیں تھی۔” فضاء نے اس کا موڈ ٹھیک کرنے کو کہا۔
انھوں نے ایک گھنٹے تک باتیں کیں۔
“اچھا اب چلتے ہیں دیر ہو جائے گی” رانیہ نے کہا
“ٹھیک ہے میں بھی جاتی ہوں” فضاء نے کہا
“تم کہاں جا رہی ہو”
“گھر” فضاء نے اسکے سوال کا جواب دیا
“تم میرے ساتھ میرے گھر چل رہی ہو اور ایک ہفتے تک میرے گھر میں رہو گی” رانیہ نے اپنا فیصلہ سنایا
“پر کیوں”
“اگلے ہفتے خالہ تشریف لا رہی ہیں اور اس ہفتے اماں نے گھر کا ایک ایک کونہ صاف کرنے کا حکم جاری کیا ہے اور اس مشن میں تم میرے ساتھ ہو” اب کی بار اس نے اطلاع دینے والے انداز میں کہا۔
“خالہ تمھاری آرہی ہیں اور قربانی میں دوں”
“تو پھر تحفے بھی بھول جاؤ” اس نے پر سکون لہجے میں کہا۔
“ٹھیک ہے رانیہ چل رہی ہوں، ناجانے دوست ہو کے دشمن” اس نے اٹھتے ہوئے کہا۔
اور دونوں گھر گئے بس پھر کیا ایک ہفتے تک دونوں کی شامت آئی اور دونوں نے آٹھ کلو تو وزن کم کرلیا۔
فضاء فضاء، فضاء کا پورا گھر اس نے سر پر اٹھایا ہوا تھا۔
“اوہو رانیہ کیا ہوگیا کیوں اتنا چلا رہی ہو”فضاء غصے سے بولی۔
“میں یہاں ہوں اور کل رات خالہ اپنے دو بیٹوں کے ساتھ آ چکی ہیں امی کا فون آیا تھا بہت غصے میں تھیں”رانیہ نے اطلاع دی۔”اب چلو” اس نے مزید کہا۔
“میں کیوں اور احسن گھر پر اکیلا ہے” فضاء ے کہا۔
“ہاں تو وہ کوئی دو سال کا دودھ پیتا بچہ نہیں جو اسے اکیلا نہیں چھوڑ سکتی اب چلو” رانیہ نے حکمیہ انداز میں کہا۔
“بالکل نہیں امی ابو آکر اس بات پر مجھ سے ناراض ہونگے۔”
“سوچ لو اگر تم چلی تو میں تمھیں وہ بات بتاؤں گی جو حماد نے تمھارے خلاف بولی”رانیہ نے اسے لالچ دی۔
“کیا اس حماد کے بچے دال دال کچے نے میرے خلاف کیا بولا”
“یہی کے تم توبہ توبہ میں کیسے بتاؤں مطلب میں کیسے بولوں مجھے تو شرم آرہی ہے سوچتے ہوئے بھی” رانیہ نے سر جھکاتے ہوئے کہا۔
“زیادہ ڈرامے نہ کرو سیدھا بتاؤ”
“اچھا بتاتی ہوں پہلے تم چلو”رانیہ نے بھی کہا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“یار بتاؤ نا حماد بیوقوف نے کیا کہا” فضاء نے ایک بار پھر پوچھا۔
“میرا دماغ نہ کھاؤ اور چپ چاپ گاری چلانے دو” رانیہ نے غصے سے کہا.
“اگر تم نے نہ بتایا تو میں میم کو بتا دونگی کے ان کے آفس میں نقلی سانپ تم نے رکھا تھا” فضاء نے بڑے اطمینان سے کہا-
“واہ خوب دوستی نبھائی اچھا حماد نے تمھارے خلاف کچھ نہیں کہا تھا” رانیہ نے ہنسی دباتے ہوئے کہا-
“تو پھر یہ سب کیا تھا”
“تمہیں ساتھ لے جانے کا بہانا”اس نے بڑے آرام سے جواب دیا
فضاء نے غصے میں اسے ہاتھ پر مکا مارا جس کی وجہ سے اس سے اسٹیٔرنگ ویل گھما اور اس کی گاری سامنے والی گاری سے ٹکرانے والی ہی تھی کہ رانیہ نے بریک لگا دیا۔ اسے غصہ پہلے سے ہی تھا رہی سہی کثر فضاء نے پوری کردی
___________
وہ فضاء کو کچھ کہتی کہ اس سے پہلے شیشے پر ناک ہوا اس نے شیشہ نیچے کیا سامنے ایک لڑکے کو دیکھا جو شرٹ پینٹ پہنے ہوئے تھا جو اس سے کچھ سال بڑا ہی لگ رہا تھا
لڑکا: مس آپ نیچے اتریں گی
وہ نیچے اتری اور سر جھکائے کھڑی تھی
“مس جب گاڑی چلانے آتی نہیں تو سیکھ کیوں نہیں لیتی-
“سوری” رانیہ نے کہا۔
“آپ کے سوری کا میں کیا کروں آپ کی لاپرواہ گاڑی چلانے کی وجہ سے یہاں نقصان ہو سکتا تھا.”
رانیہ کو اس کے لاپرواہ کہنے پر غصہ تو آیا لیکن ضبط کیا۔
“وہ دراصل میں اور میری دوست باتیں۔۔۔”
لڑکے نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا “بس لڑکیوں کا کام ہی باتیں ہوتا ہے اب اس کی وجہ سے مجھے یا میری گاڑی کو کچھ ہو جاتا تو پھر بھی آپ اپنی باتوں میں لگیں ہوتی جواب دیں”
بس اب رانیہ کا ضبط جواب دے گیا.
“میں نے آپ کو شاید سوری کہہ دیا لیکن میں بھول گئی جاہلوں کو سوری کا مطلب کیا پتا” رانیہ نے کہا
“تم نے مجھے جاہل کہا” لڑکے نے غصے میں کہا۔
“کہنے کا کیا مطلب آپ کی حرکتیں ظاہر کر رہی ہیں کہ آپ جاہل ہیں” اس نے بھی اسی انداز میں کہا۔
آج تک کسی لڑکی کی ہمت نہیں ہوئی سعد ملک سے اس طرح بات کرنے کی لیکن یہ بے وقوف۔۔۔
“تممم” سعد نے اسے انگلی دکھاتے ہوئے کہا
“او ییلو پہلے تو یہ انگلی کسی اور کو دکھاؤ اور دوسری بات میں آپ کی دوست نہیں جو مجھ سے تم کرکے بات کر رہے ہیں آپ” رانیہ نے بھی انگلی دکھاتے ہوئے کہا۔
اتنے میں فضاء بھی گاڑی سے نکل گئی اسے ڈر تھا رانیہ اس لڑکے کا سر نہ پھاڑ ڈالے۔
“رانیہ چلو چھوڑو یہ سب ہمیں لیٹ ہو جائے گا”
“تم تو چپ ہی کرو اور ایسے لوگوں کا دماغ جب تک درست نہ کرو وہ ٹھیک نہیں ہوتے” رانیہ اب اس پر آگئی۔
فضاء بھی ہوشیاری سے ایک طرف ہوگئی ورنہ اسے پتا تھا کیا ہو سکتا ہے۔
“تم بیوقوف لڑکی بس کرو” سعد نے پناہ مانگتے ہوئے کہا
“اور آپ مسٹر بندر” وہ بھی کسی سے کم نہ تھی۔
“تم سے بات کرنا ہی بیکار ہے” یہ کہہ کر وہ اپنی گاڑی کی طرف پلٹا۔
“ایک منٹ رکیں میں نے غلطی کی ہے تو مجھے کچھ کرنا تو چاہئے نا آپ بس دو منٹ رکیں” یہ کہہ کر وہ اپنی گاڑی میں بیٹھی۔
“بڑی جلدی ٹھیک ہو گئی واہ سعد”
لیکن رانیہ کی گاڑی آگے بڑھ گئی اور سعد حیران رہ گیا۔
“عجیب لڑکی ہے” وہ یہ کہہ کر پلٹ ہی رہا تھا کہ رانیہ کی گاڑی تیز رفتار میں اس کی طرف آرہی تھی اور پھر اس کے پاس سے گزری اور سارا گندا پانی جو کہ دو دن سے سڑک پر کھڑا تھا اس پر اڑا کر گئی اور سعد کے سارے کپڑے گندے ہوگئے۔
وہ گاڑی کے پیچھے بھاگا کہ اس گاڑی سے رانیہ کا ہاتھ باہر نکلا جس میں چشما پکڑا ہوا تھا اور گاڑی آگے نکل گئی۔
سعد وہیں رک گیا “سٹوپڈ گرل” کہتے ہوئے لال پیلے چہرے کے ساتھ اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا۔
وہ خوشی سے گاڑی چلا رہی تھی اسے ہمیشہ سے اپنے دشمنوں کو مات دے کر سکوں ملتا ہے۔
فضاء جانتی تھی کہ اگر اس کے سامنے اس لڑکے کی طرفداری کی تو وہ اس سے لڑنے لگ جائے گی اس لئے اسے خوش کرنے کے لئے اس کی فیملی کی بات شروع کی۔
“تمھاری گھر والے میر پور سے کب آ رہے ہیں” فضاء نے پوچھا”۔
“شاید اگلے ہفتے مجھے تو پاپا اور ان کی بہت یاد آتی ہے گھر میں بہت بوریت محسوس ہوتی ہے” رانیہ نے جواب دیا۔
اس کے گھر والے اس کی پھوپھو کے گھر گئے تھے اور اس کے گھر میں صرف وہ اور امی تھے۔
مرحوم اشد صاحب کے تین بچے تھے۔
ارشد، حفیظ اور بیٹی شازیہ۔
ارشد صاحب کی ایک بیٹی رانیہ تھی، حفیظ صاحب دو سال پہلے اپنی بیوی شاہانہ اور اپنے بیٹے اور بیٹی فارس اور نمرہ کو چھوڑ کر اس دنیا سے رخصت ہوگئے اور شازیہ کی دو بیٹی عینی جو کہ شادی شدہ تھی اور انوشے اور بیٹا عرش تھا جس کا نکاح ایک سال پہلے نمرہ سے ہوا مگر دونوں ہی اس سے ناراض تھے۔
سعد گاڑی غصے سے چلا رہا تھا اسے یاد تھا کہ کل اسی جگہ سے گزرتے وقت پاکستان کی برائیاں کر رہا تھا اور امی کو وہی گندا پانی بھی دکھایا تھا اور شایان نے اس سے کہا تھا کہ ایسا نہ ہو یہ پانی تم پر ہی اڑے۔ اس نے اس پر بڑا سا منہ بنایا جیسے ایسا کبھی نہیں ہو سکتا اور آج یہی ہوا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میرپور میں وہ پھوپھو کے گھر ایک سال بعد اسی لئے آئی تھی کہ عرش ریاض اسلام آباد گیا ہے لیکن اس کی بدقسمتی سے وہ آج کل میں لوٹ رہا ہے۔ نمرہ کو عرش کے اکھڑے مزاج سے چڑ تھی، اتنا ہی اس سے خوف بھی تھا۔ اسی وجہ سے آج اسے چرچراہٹ بھی تھی آدھی رات کو جہاں سب کزن کمرے میں مل کر فلم دیکھ رہے تھے وہیں یہ روٹھ کر اکیلی کمرے میں بیٹھی تھی اسے رانیہ کی ازحد یاد آئی۔ اس کی نظر لان میں پڑی اور وہ نیچے اتر گئی بات کرنے کے لئے کوئی تو چاہئیے تھا اسی لیے پھولوں سے بات کرنا شروع کردی۔
____________
وہ نیچے اتری بات کرنے کے لئے کوئی تو چاہئیے تھا اسی لیے پھولوں سے بات کرنا شروع کردی۔
“تم رانیہ سب سے اچھی،تم فارس بھائی تم ماما، پھوپھو، تائج۔۔۔”
ایسے سب گھر والوں کے نام لیے اور پھر نظر ایک پھول پر رکی، جس کا عجیب سا رنگ تھا اس کی کچھ پتیاں نکلی ہوئی تھی اور وہ سب سے الگ ٹہنی میں لگا ہوا تھا وہ بھی اکیلا۔
“تمھارا نام عرش ریاض سب سے الگ اور عجیب ،مطلب جب دیکھے تو ایسا لگے جیسے ابھی کھا جائے گا شیر کی طرح” اور یہ کہہ کر اپنی بات پر ہنسی “دل تو کررہا ہے تمہیں ابھی سامنے کھڑا کرکے تمھارے بال کھینچ کر نکال دوں ہاۓ کتنا مزا آۓ گا بس تم سامنے آؤ تو کوشش کروں”۔
“ویسے تم پیچھے مڑ کر بھی کھینچ سکتی ہو” ایک رعب دار آواز نمرہ نے سنی اور اسے ایک سیکنڈ ہی لگا پہچاننے کے لئے، وہ ساکت کھڑی رہ گئی۔
عرش تھکا ہوا گھر پر پہنچا اور سوچ رہا تھا جا کر ہی امی سے مل کر سو جائے گا مگر لان میں نمرہ کو دیکھا جو اسے اپنی بیوقویوں کی وجہ سے ناپسند تھی۔ وہ اسے پھولوں کے نام رکھتے دیکھ کر گھر میں جانے ہی والا تھا کہ اس نے اپنا نام سن لیا بس پھر اس کی باتیں سن کے عجیب لگا آور بال والی بات سن کر اسے ازحد غصہ آگیا کیونکہ اسے اپنے گولڈن بالوں سے عشق تھا۔
جب نمرہ کو ہوش آیا، وہ پیچھے مڑی اور عرش کو دیکھا جس کے چہرے پر غصے کی لہر تھی ،اس کے پیروں تلے زمین نکل گئی۔
“آپ کہاں سے آگئے” اس نے دھیمے لہجے میں کہا۔
“تم نے کچھ کہا” عرش نے رعب دار آواز میں کہا۔
نمرہ نے سر اٹھا کر اسے دیکھا اور نفی میں سر ہلایا اچانک سے نظر گولڈن بالوں پہ رکی اور منہ عجیب سا بن گیا۔
نمرہ نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے دھیمی آواز میں کہا “بس کچھ ماہ اور پھر یہ آسمان سے باتیں کریں گے”
لیکن عرش نے یہ بات سن لی، بات اس کے گولڈن بالوں کی تھی اس لئے انگلی اٹھا کہ اسے وارن کرنا چاہا لیکن اسی وقت نمرہ نے آنکھیں بند کرلی وہ بھی سر ہلا کر وہاں سے نکل گیا۔
سیڑھیاں چڑھتے ہوئے نظر کھڑکی پر پڑی تو وہ اب بھی ایسے آنکھیں بند کیے کھڑی تھی۔
نمرہ نے جب محسوس کیا کہ تین منٹ تک عرش نے کوئی رد عمل نہ دکھایا تو آنکھ کھول کر ادھر ادھر دیکھا اور پھر ڈریکولا کہہ کر اسی پھول کو زبان دکھا کر گھر میں آگئی اور عرش بھی بلی کہہ کر اپنے کمرے میں پہنچ گیا۔
تھکاوٹ کے باعث بغیر کچھ نوٹس کیے چینج کر کے سو گیا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سعد گھر پہنچا تو اس کا حال دیکھ کر نور اور ثمر حیران رہ گئی جبکہ شایان کی ہنسی چھوٹی اور اپنی کل والی بات یاد آئی.
” یہ کیا ہوا سعد تمھارے کپڑے کیسے خراب ہوئے” ثمر نے پوچھا۔
“امی کوئی پاگل لڑکی کے کرتوت ہیں” سعد نے رانیہ کو یاد کر کے غصے سے کہا.
“واہ پاکستان آئے نہیں لڑکیوں سے پالا بھی پڑگیا” شایان نے مسکراہٹ دباتے ہوئے کہا.
“ویسے ایسی لڑکیوں پر غصہ بہت آتا ہے ماں باپ تمیز سکھاتے نہیں اور باہر بھیج دیتے ہیں” نور نے کہا۔
“بیٹا تم چینج کرلو میں ابھی دھو دیتی ہوں” ثمر نے کہا۔
“آپ کیوں دھوئیں گی رانیہ دھو دے گی” نور نے بیٹی کو غصے سے یاد کرتے ہوئے کہا۔
“تم میری بچی سے کیوں کرواؤ گی”
“آپی اس کی سزا ہے کہا تھا آدھے گھنٹے میں آ رہی ہوں اور اب تک نہیں آئی گھر میں خالہ آئی ہے لیکن اس لڑکی کو کوئی فرق نہیں” نور نے بھی غصے سے کہا۔
سعد غصے میں اپنے کمرے کی طرف بڑھا لیکن نظر ایک تصویر پر رکی وہی بدتمیز لومڑی شایان سے اس کے بارے میں پوچھا.
“یہ میری پیاری کزن اور تمھاری بچپن کی دشمن رانیہ” سعد پہلے تو حیران ہوا لیکن پھر اپنے بدلے کا موقع پا کر مسکرانے لگا۔
“واہ بچپن کی دشمن کو دیکھ کر مسکراہٹ” شایان نے بھی کہا
“بچپن کی نہیں ابھی کی بھی”
“کیا” شایان نے اس کی بات سن کر دریافت کیا۔
کچھ نہیں کہہ کر وہ کمرے میں چلا گیا اور اپنی خراب شرٹ سنبھال کر رکھ دی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“رانیہ ہم واپس میرے گھر کیوں آگئے” فضاء نے پوچھا۔
“کیونکہ اس بندر نے میرا دماغ خراب کر دیا ہے اور اب گھر جاؤں گی تو اس کھروس سعد کی شکل دیکھ کر مزید خراب ہو جائے گا.”
احسن جو کہ کالج کا اسٹوڈنٹ تھا ان کو دیکھ کر اپنا موبائل بند کرکے رکھ دیا کیونکہ اب وہ اپنی نئی دوست کے بارے میں ان دونوں کو نہیں بتانا چاہتا تھا، جب آخری بار دونوں نے اس کے میسج کے سکرین شوٹ لے کر پرنٹ کروا کر پورے محلے کی ہر دیوار پر لگائے تھے تو پھر یہ تھا اور امی کے آلات چپل، جاڑو، ہینگر وغیرہ آج بھی ان کے نشان موجود ہیں۔
فضاء کا فون بجا۔
“تمھاری امی کا ہے” فضاء نے بتایا
“اچھا اٹھاؤ”
“اور وہ پوچھیں گی کہ میرے گھر تم کیا کر رہی ہو”
“کہہ دینا کہ ہم راستے میں تھے اور احسن کی کال آئی اس کا چھوٹا سا ایکسیڈنٹ ہوگیا اس لئے واپس آنا پڑا” رانیہ نے جواب سوچ کر کہا۔
“کیوں مجھ مسکین کا ایکسیڈنٹ کروا رہی ہو تم دونوں” احسن بھی میدان میں کود پڑا۔
“مار نہیں رہے چھوٹا سا ایکسیڈنٹ کروا رہی ہوں اور ویسے بھی پہلے بھی پانچ ایکسیڈنٹ ہوچکے ہیں” رانیہ نے غصے سے کہا۔
“صرف دو بار ہوئے ہیں باقی پانچ بار آپ لوگوں نے کروائے ہیں۔ یونی نہیں گئے احسن کا ایکسیڈنٹ ہوگیا تھا۔ اسائمنٹ پورا نہیں کیا، کسی کے گھر نہیں جانا یا آپ کو یہاں ٹہرنا ہے احسن تو فالتو ہے بغیر کسی وجہ کہ جی رہا ہے بس مار دو اب تو کہیں جاتا ہوں تو سب ایک ہی سوال کرتے ہیں احسن اس ہفتے کون سا نیا ایکسیڈنٹ ہوا” احسن نے نقلی آنسو پونچھتے ہوئے بات ختم کی۔
“ہوگیا اب بتاؤ کیا ڈیمانڈ ہے” رانیہ نے پوچھا۔
“زیادہ نہیں بس فضاء کو بولو اس کے لیے جو نیا فون آرہا ہے وہ میرا ہو جائے تو بات بن جائے” احسن نے مطمئین انداز میں کہا۔
“ٹھیک” رانیہ نے بھی فیصلہ کیا۔
“جی نہیں وہ میرا فون ہے میں نہیں دونگی” فضاء نے اپنا فیصلہ سنایا۔
“اس بھکاری کو دے دو تم اتنا بھی نہیں کر سکتی میرے لئے” رانیہ نے حقیر سا منہ بنایا.
” جی نہیں”
“سوچ لو تمھاری بیسٹ فرینڈ ہوں سارے راز جانتی ہو اور میں کر کیا سکتی ہوں تم تو جانتی ہو” رانیہ بھی سب سے الگ تھی
“اچھا ٹھیک مجھے قربانی کا بکرا بناؤ”
رانیہ نے بھی اسے خوشی سےخود لگا لیا اور احسن الگ خوش تھا اور نور کو یہی خبر دی۔
عالمی دنوں پر اردو کی پہلی منفرد کتاب صحت اور آگہی
صحت عربی زبان کے لفظ ’’صَحَّ‘‘سے مشتق ہے۔جو درست اور صحیح کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔جسم کی وہ کیفیت...