ضلع بنوں کا ایک اہم اور طاقتور خیل ہے۔یہ زیادہ تر علاقہ سورانی میں میوہ خیل ،کوٹکہ کریم خان کلہ اور اس کے گرد ونواح میں رہائش پذیر ہے۔یہ ایک بہادر ، مہمان نواز اور معزز خاندان ہے۔دین اسلام اور وطن کی محبت اس خیل میں کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ حاجی میرز اعلی خان فقیر ایپی نے جب فرنگی راج کے خلاف علم بغاوت بلند کیا تو جس طرح بنوں کے ہر خیل کے لوگوں نے اس میں بھر پور حصہ لیا تھا اسی طرح اس خاندان کے ایک بہادر سپوت خلیفہ گل نواز نے بھی اس تحریک میں حصہ لیاتھا۔ آپ فقیر ایپی کے ہم رکاب اور دست و بازو تھے۔اسلا م سے بے پناہ محبت تھی۔تحریک آزادی میں ہمارے پشتون رہنماؤں نے سب سے زیادہ قربانیاں دی ہیں۔ واقعی پشتون ایک بہادر قوم ہے ۔اس کی بہادری دنیا نے مانی ہے۔ایک بار ہندوستان کے وزیراعظم نے پاکستان کو للکار کر کہا تھا کہ ہندوستا ن کی فوج میں ۲۰فیصد سکھ ہیں جو بہادر ہیں۔اس کے جواب میں پاکستان کے اس وقت کے صدر ایوب خان نے اس کو جواب دیا کہ اگر آپ کے پاس ۲۰ فیصد سکھ ہیں تو ہمارے پاس پورا ایک صوبہ ہے جس میں پٹھان نام کی ایک ایسی قوم رہتی ہے۔جس کی بہادری دنیا نے مانی ہے۔جو جنگ میں کسی اور کے خون اور اپنے خون میں فرق نہیں کرتا بس خون بہاتا ہے۔یہ جواب سن کر ہندو کی بولتی ہی بند ہو گئی۔
درانی خاندان سے تعلق رکھنے والے خلیفہ گل نواز خان نے اسلام کی سربلندی کیلئے دشوار گزار پہاڑیوں میں حاجی صاحب کے ساتھ بہت سی گوریلا جنگیں لڑی ہیں۔اس خاندان کے بنوں کیلئے بہت سی خدمات ہیں۔اس خاندان کے افراد میں حاجی سعداللہ خان سابقہ ایم پی اے، اعظم خان درانی سابقہ ایم پی اے،اکرم خان درانی سابقہ وزیر اعلیٰ صوبہ خیبرپختونخوا،میئر عرفان درانی اورڈپٹی سپیکرقومی اسمبلی اسلامی جمہوریہ پاکستان زاہداکرم خان درانی ہیں۔نوجوانوں میں عرفان درانی اس خاندان کے اہم فر د ہے جو ایک عاجزانہ طبیعت کے حامل انسان ہیں۔
بنوں کے عوام کیلئے بے شمار اجتماعی اور بڑے بڑے منصوبے جناب اکرم خان درانی کی مرہون منت ہیں۔جب آپ وزیر اعلیٰ تھے تو کسی کی مجال کے بنویان یا بنوی قوم کے کسی فردکا کوئی جائز کام نہ ہوا ہو۔ اکرم خان درانی اپنے بنویان پر مر مٹنے والے انسان ہیں۔جدید بنوں کا سہر ا آپ ہی کے سر ہے آپ کے بیٹے زاہداکرم خان درانی (ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی) سے بہت سی امیدیں ہیں کہ وہ بنویان کیلئے کچھ کرے گااور بنویان پر اسٹینڈ لے گا۔ میوہ خیل کے علاقہ کوٹکہ کریم خان میں بھی درانی خاندان کے افراد موجود ہیںجن میں افتخار درانی ایک اہم اور قابل شخص ہیں۔آپ پہلے پشتو نخوا ملی عوامی پارٹی میں تھے لیکن اب جمعیت علماء اسلام میں ہیں۔آپ ایک معزز اور باکردار انسان ہیں۔ہر کسی سے محبت سے ملتے ہیں شاید اس لئے کہ وہ ایک بہترین شاعر اور اد یب بھی ہیں۔موصوف کا ایک شعری مجموعہ سکروٹے(انگارے) کے نام سے مارکیٹ میں دستیاب ہے۔جو پشتو ادب کا ایک بہترین شعری مجموعہ ہے۔موصوف کو ادب اور اپنی پشتو ثقافت سے بے انتہا لگاو ٔہے۔یہاں کے لوگ مہمان نواز،بہادر اور نڈر ہیں دراصل یہ علاقہ ہی بنوں کا صدر مقا م ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دھرمہ خیل سورانی
یہ بھی ضلع بنوں کا ایک اہم اور طاقتور قوم ہے۔ دھرم خیل سورانی کا ایک بڑا قصبہ ہے دریائے کرم کے کنارے نیظم بازار کے ساتھ بنوں کے شمال مشرق کی جانب میں جو سر سبز اور کھلا علاقہ ہے نیظم دھرمہ خیل کہلاتا ہے۔یہاں کے لوگ محنتی،جفاکش اور تعلیم یافتہ ہیںملک حسن خان اس خاندان کا مورث اعلیٰ ہے اس نے ایک لڑکی ملکہ دھرمہ سے شادی کر لی اس حوالے سے اس قوم کو دھرمہ خیل کہتے ہیں۔ درانیوں کے دور میں اس قوم میں ملک شاہین خان پسر ملک بابرخان مقبول شخص تھے ملک شاہین کو اپنے ہی بھائیوں نے قتل کر دیا اور خود ملک بن گئے۔ ملک شاہین کا بیٹا جان بچا کر علاقہ بد ر ہوا کہتے ہیں کہ پشتون سو سال کے بعد بھی بدلہ لے تو کہتا ہے کہ جلد بازی سے کام لیا لیکن اپنا بدلہ کھبی بھی چھوڑتا نہیں ہے۔کچھ ایسا ہی ہوا کیونکہ ملک شاہین کا بیٹا ملک نیظم خان بڑا ہوا تو اپنے ساتھ تپہ دکس خیل بازار احمد خان اور تپہ عبید خیل(ابیت خیل) کی کچھ افرادی قوت لیکر دھرمہ خیل پر دھاوا بول دیااور دونوں چچاؤں کو قتل کر کے ملک اور سردار بنا۔ساتھ ہی یہاں پر کچھ دکانیں بھی بنوائیں جن کو نیظم بازار کہنے لگا۔ نیظم خان جب علاقہ بدر ہواتو اس وقت تپہ دکس خیل میں پناہ لی اور تپہ عبیدخیل کے ملک خوجہ گل عبید خیل نے اپنے ایک بھائی کی شادی نیظم خان کی بہن سے کرائی اس لئے یہ دونوں تپے کے ملک، نیظم خان کے ساتھ کھڑے تھے۔ ملک نیظم خان ایک زیرک اور بہادر انسان تھا۔ آس پاس کے ملکوں کے ساتھ اس کے بہت خوشگوار تعلقات تھے
یہاں کے لوگ عام طور پر کرکٹ اور والی با ل پسند کرتے ہیں۔یہاں کا ماحول بھی عام طور پر جھگڑالو ہے۔یہاں کے لوگ بھی ایک دوسرے کے ساتھ دست و گریباں ہی رہتے ہیں۔ یہاں کی اہم شخصیات میں ملک امین، ملک ہاشم خان، میاں شوکت رحمن (بوزہ خیل)ملک نادر خان(کچوزئی) اطلس خان AC (خونی خیل)جاوید (آباد خیل)میاں مستجب خان (بوزہ خیل) جو کبڈی اور فٹ بال کا انٹر نیشنل کھلاڑی ہے وہ بھی اس علاقے کا باسی ہے۔ موصوف نے کبڈی اور والی بال میں اپنے ملک و قوم کا نام روشن کیا ہے ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بوزیدخیل سورانی
یہ اصل اولاد شیتک ہیں یہ قوم بنوں کے شمال میں علاقہ سورانی میں آباد ہے یہ ایک بہادر اور جنگجو قوم ہے۔ اس کے علاوہ اس خاندان میں ایسے لوگ بھی گزرے ہیں جنہو ں نے قیام پاکستان میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ حاجی میرزا علی خان عرف فقیر ایپی کے ساتھ اسی قوم کا ایک بہادر خلیفہ فیض اللہ عرف فیضل استاجی انگریزوں کے خلاف بر سر پیکار رہے۔تحریک خلافت کے بھی سرگرم رکن رہے ہیں۔ کانگریس اور دوسری متعدد تحاریک میں آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ انگریزوں سے سخت نفرت کرتے تھے۔قوم بوزید خیل کا بانی بوزیدخان پسر عبدالخالق خان زندگی میں غیر معروف شخص تھا۔ ان کا کوئی بھی ہمددر اور دوست نہ تھا۔ لیکن اپنی بے پناہ جرأت اور بہادری سے اس نے بہت نام کمایا۔اس کے ساتھ ساتھ یہ ایک ایسا انسان تھا کہ ان کے نزدیک انسان کی کوئی قیمت ہی نہ تھی۔اپنی طاقت اور بے پنا ہ جبر کی وجہ سے اپنے تپہ کا ملک بنا اور اسی تپہ کا نام بھی آپ ہی کے نام سے ہوا ۔
بوزیدخان طاقتورہونے کے ساتھ ساتھ عقل ودانائی کامالک بھی تھا اپنی زندگی میں ۱۰۰ سے زیادہ قتل کر چکا تھا۔ بقول ایڈورڈ اگر یورپ میں کوئی ایسا بندہ ہوتا تو لوگ اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھتے لیکن بنوں میں لوگ اس کا احترام کرتے ہیں۔ ملک بوزید خان نے ۱۰۰ سال کی عمر پائی آپ نے ۸ شادیا ں کیں تھیں۔ جن سے ۲۰ بیٹے پیدا ہوئے۔ جن میں اہم یہ ہیں۔ علی محمد، تاج محمد، خانصوبہ نور، امجد آزاد، اسد خان(جن کے نام پر کچکوٹ اسد خان کا علاقہ بھی مشہور ہے)امجد خان، میر زمان اور جان ملک او ر کچھ اور ان کے دس بیٹے ملک بوزید خان کی زندگی میں ہی فوت ہوئے تھے۔ملک بہادر خان، ملک نواب خان، ملک ممتاز، ملک دراز خان،فیض اللہ استا جی،ملک ناصرخان،مولاناعبدلصمد خان سابق ایم پی اے اس خیل کے اہم شخصیا ت ہیں۔مولانا عبدالصمد خان اور فیضل استاد جی کے خاندان میں ملک صبغت اللہ خان ،ملک لطیف اللہ خان میں اپنے ابا و آجداد کی خوبیاں موجود ہیں نہایت مہمان نواز اور خدا تر س انسان ہیں۔بوزید خیل میں ملک ممتاز اور ملک دراز خان کی مہمان نوازی بہت مشہور تھی۔ یہ دونوں قابلِ التفات افراد تھے۔ سورانی کے سب لوگ ان دونوں افراد کی ایک آواز پر یکجا ہوجا تے۔ایک دفعہ ملک دراز خان سورانی ما ل منڈی بنوں آئے تھے اس وقت ملک اور اہم شخصیات بھی عام لوگوں کی طرح گھومتے پھیرتے۔ کوئی اسے پہچانتا نہیں تھا۔ ملک دراز خان بھی سادہ کپڑے پہنے سر پر بنوی پگڑی اور پاوں میں مزری سے بنے ہوئے جوتے پہنے ہوئے مال منڈی میں مویشی خریدنے کیلئے آئے کسی وزیر سے پوچھا کہ اس بیل کی قیمت کیا ہے؟ چونکہ گرمی کا موسم تھا اور آپ کی سادگی دیکھ کر وزیر نے آپ کو برا بلا کہا اور گالی دی۔ملک دراز خان آف بوزیدخیل خفا ہو کر مال منڈی کے ساتھ ایک ترکھان کی دکان تھی وہا ں گیا اور ترکھان سے کہا کہ جو بنوی(بنوسئی) بھی آپ کے پاس آئے آپ سب کو ایک ایک لکڑی جو آپ نے کلہاڑی کیلئے بنائی ہے دیا کرو آپ صرف لکڑیاں گنیں بعد میں حساب میں دوں گا۔پھر مال منڈی میں ایک اونچی جگہ پر کھڑا ہوااور اعلان کیا کہ آئے بنویان ! فلاں ترکھان سے لکڑیا ںاور بانس لیکر بنوں کے منڈی میں جو بھی وزیر کسی بھی بنوی کے سامنے آجائے اسے مارے سب کا ذمہ دار میں ہو ں اس کے بعد تو وزیروں کو بھی اس بات کا علم ہوا پھر وزیر بھی پبھر گئے اور مال منڈی بنوں میں وزیر اور بنویان کی ایک زبردست لڑائی ہوئی جس میں بہت زیادہ جانی و مالی نقصان ہوا۔ لڑائی کے دوران اس وقت کے حکومت نے لڑائی کو کنٹرول کرنے کیلئے پولیس بھیجی لیکن ملک دراز خا ن آف بوزیدخیل نے پولیس سے کہا کہ رکھ جاو اگر آپ لوگوں نے درمیان میں آنے کی کوشش کی تو مجبوراْ بنویان کو آپ پر بھی ہاتھ اٹھانا پڑے گا آج میں اپنی دراز خانی دیکھانا چاہتا ہوں۔ لڑائی ختم ہوئی تو وزیروں کے ملک کو جب پتہ چلا تو اس نے اپنے وزیر کو کھری کھری سنائی اور اسے ساتھ لیکر ملک دراز خان کے گاوں پہنچا۔اور اس وزیر نے پشتو روایات کے مطابق ملک دراز سے معافی مانگی۔ملک دراز خان آف بوزید خیل نے پشتون روایت کے مطابق اس کی مہمان نوازی کی اور سب وزیروں سے کہاکہ جس کا بھی کوئی نقصان ہوا ہے وہ میرے ڈیرے پر آجائے تا کہ میں اس کے نقصان کا ازالہ کروں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
علاقہ سورانی کی مجموعی صورت حال
ضلع بنوں کے شمال مغرب کی جانب دریائے کرم کے کنارے خوبصورت اور سر سبز علاقہ سورانی واقع ہے اس علاقے میں کئی بستیاں اور گاوں آباد ہیں اس طرح اس علاقے میں کئی اقوام بھی آباد ہیں علاقہ کچکوٹ اسد خان،علاقہ کریم خون کلہ، علاقہ نیظم ،علاقہ بوزہ خیل، علاقہ ہیبک شیرزا خان، علاہ کچوزئی، علاقہ طورکہ، علاقہ خونی خیل ، علاقہ حسنی دراں شاہ، علاقہ میوہ خیل وغیر ہ سورانی کے اہم گاوں اور بستیاں ہیں۔ان کے علاوں اس میں اور بھی چھوٹے چھوٹے گاؤں ہیں۔یہاں پر قریش، سید، اخوند، پشتون، اعوان،اور پیران کی اقوام آباد ہیں۔علاقہ سورانی میں زیادہ تر باغات ہیںجنہوں نے اس علاقے کے حسن کو دوبالا کیا ہے۔
سیاسی لحاظ سے یہ علاقہ بنوں کا درالخلافہ کہلاتا ہے۔اس علاقے میں سیاسی لوگ کافی زیادہ پائے جاتے ہیں اس صوبہ خیبر پختونخوا کے سابق وزیر اعلیٰ جناب اکرم خان درانی، زیاد اکرم خان درانی،سعداللہ خان جمعیت علماء اسلام سے تعلق رکھتے ہیں جبکہ ملک ناصر خان، ملک عدنان خان تحریک انصاف کے ارکان ہیں۔ ملک نواب خان مسلم لیگ نواز کے سر گرم رکن ہے۔ مولانا صدر شہید اور مولناٰ عبدلصمد صاحب بھی اسی علاقے کے باسی ہیں ۔انتخابات کے دنوں میں کافی گرما گرمی ہوتی ہے ۔
یہاں کے لوگ خوبصورت، قداور، خوش آخلاق،ملنسار اور مہمان نواز ہیں۔کرکٹ، والی بال اور کبڈی یہاں کے اہم اور پسندیدہ کھیل ہیں۔علاقہ سورانی کے لوگ بہت زیادہ ادب شناس بھی ہیں۔ ان لوگوں میں ادب کوٹ کوٹ بھر ی ہوئی ہے۔اگر یوں کہا جائے کہ علاقہ سورانی کا ہر دوسرا آدمی شاعر ہے تو بے جا نہ ہوگا۔ سورانی ادبی کاروان اور سورانی ادبی مکتب بوزہ خیل یہاں کے دو اہم پشتو ادبی تنظیمیں ہیں۔ ادبی لحاظ سے ان دو ادبی تنظیموں کا کردار بہت جاندار ہے۔علاقہ سورانی کے اہم شعراء وادباء نے مطیع اللہ قریشی،مجبور سورانی،عصمت سورانی(پشاور)، شاہین سورانی، گل عزیز نزار، افتخار درانی،ادریس سورانی،ہارون سورانی، رفعت سورانی، بلیاز خاکساؔر،خیا ل میرخیالی وزیر،جنگبر علی بادل، شہاب سورانی(صحافی،کالم نگار)،رحمت سورانی،سخی بادشاہ ہمدرد،،تاج سورانی،نعیم سورانی،تاج علی خان،میر گل شاہ استاد(میدانی شاعر)،نیک سورانی،ماسٹرروشان،مولاناعبدالحق وغیرہ ہیں۔ان میں مجبور سورانی، عصمت سورانی، مطیع اللہ قریشی،شاہین سورانی،افتخار درانی، رحمت سورانی،ہارون سورانی اور نعیم سورانی قومی سطح پر جانی پہچانی شخصیا ت ہیں۔مجبور سورانی کے فن و شخصیت پر پشاور کے Ph.d ڈاکٹر ، ڈاکٹر نگاہ حسین نے ایک ضخیم کتاب بھی لکھی ہے۔ڈسٹرکٹ خطیب مفتی عبدالغنی صاحب کا تعلق بھی سورانی سے ہے ۔
یہاں کے لوگ عام طور پر مہمان نواز، غیرت مند،اور پشتون روایات پر مر مٹتے ہیں۔اس علاقے کے لوگوں میں بہت خوبیوں کے ساتھ ساتھ بنویا ن کے دوسرے قبائل کی طرح کچھ خامیا ں بھی ہیں جس میں سر فہرست لڑائیاں ہیں یہاں کے لوگ بھی بہت غصیلے ہیں بات بات پر لڑائیاں کرتے ہیں۔لیکن بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جو امن پسند ہیں اور امن سے رہتے ہیں ۔تعلیم کی وجہ سے یہاں کی نئی نسل اب ترقی کی طرف گامزن ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
روہتاس کے سرکٹے بزرگ حضرت سخی خواص شاہ آف خواص پور
برِّ صغیر، جی ہاں ہمارے والے برِّصغیر میں سن سینتالیس میں کھنچی سرحد کے اِس پار یعنی ہماری طرف کچھ...