مبشرہ اور خالد صاحب نے حیرت سے میز پر پڑے مٹھائی کے ٹوکرے کو دیکھاتھا۔
“حیریت بھائی صاحب یہ کس خوشی میں”،سب سے پہلے خالد صاحب نے سوال کیا۔
“بتاتا ہوں پہلے سرفراز اور زرینہ کو تو آلینے دو”۔
مبشرہ بیگم نے خالد صاحب کی طرف دیکھا جیسے وہ اپنے بھائی اور بھابھی کے انداز سمجھنے کی کوشش کر رہے ہو۔
“اجالا بیٹااتنی دیر میں تم اچھی سی چائے بنا لاو”،افتحار صاحب نے پاس کھڑی اجالا سے کہا۔
جی تایا ابو۔۔۔اور اجالا مسکراتی ہوئی کچن میں چلی گئی جہاں پہلے سے ہی درِفشاں موبود تھی اور چائے کا پانی رکھ چکی تھی۔
“آپی یہ تایا ابو اتنی مٹھائی کیوں لے کر آئے ہیں”،درِفشاں کے چہرے پہ الجھن تھی۔
“ہو سکتا ہے فائق اور ارصم کی نوکری لگ گئی ہو یا پھر ان کا کہی رشتہ طے کر دیا ہو”،اجالا نے کیبنٹ سے کپ نکالتے ہوئے کہا۔
ِ
“یا پھر یہ بھی ہو سکتا ہے آپ کا رشتہ مانگنے آئے ہو”، درِفشاں نے شرارت سے بولا۔
لیکن شاید اجالا کو اس کا یہ مزاق پسند نہیں تھا آیا۔
“”درِفشاں مجھے تمہارا یہ بے ہودہ مذاق بالکل پسند نہیں آیا”۔
درِفشاں نے ایک نظر اپنی بہن کو دیکھا اور خاموش ہو گئی۔
“”السلام و علیکم”” سرفراز صاحب اور زرینہ نے اندر داخل ہوتے ہوئے کہا۔
“اؤوو بھائی تمہارا اور زرینہ کا ہے انتظار تھا”۔
“خیریت بھائی صاحب اتنے شارٹ نوٹس پر بولوایا ہے آپ نے”،زرینہ بیگم نے میز پر مٹھائی کے ٹوکرے کو دیکھتے ہوئے افتحار صاحب سے پوچھا۔
“بھئ میں کوئی سسپنس نہیں رکھوں گا سیدھی سیدھی سی بات کروں گا میں یہاں اجالا اور درِفشاں کا رشتہ لے کر آیا ہوں اور مٹھائی اس لیے لے کر آیا ہوں کہ میں یہاں پوچھنے نہیں رشتہ پکا کرنے آیا ہوں اور میرا بھائی یقینا مجھے نا نہیں کرےگا”،افتحار صاحب نے آخر میں خالد کا چہرہ دیکھتے ہوئے کہا۔
مبشرہ بیگم نے خالد کا چہرہ دیکھا کیوں کہ وہ نہیں چاہتی تھی کہ خالد صاحب فورا ہاں کرے۔
“بھائی صاحب اتنی جلدی کیا ہے دونوں بچیاں آپ کی ہیں لیکن درِفشاں تو ابھی گریجویٹ کر رہی ہے”،آخرکار مبشرہ بیگم بول ہی پڑی۔
“مبشرہ جانچ پڑتال غیروں میں کی جاتی ہے اپنوں میں نہیں ،کیوں تمہیں اس رشتے پر اعتراض ہے”،افتحار صاحب کو مبشرہ کا بولنا پسند نہیں تھا آیا۔
“نہیں بھائی صاحب”،مبشرہ بیگم گھبرا کر بولیں۔
اتنی دیر میں اجالا چائے لے کر اندر داخل ہوئ،مبشرہ بیگم نے اجالا کا چہرہ دیکھا جو سپاٹ تھا وہ اندازہ لگا رہی تھی کہ وہ بات سن چکی ہے یا نہیں۔
سب کچھ سنتی دیکھتی زرینہ نے اپنے شوہر کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا اور پھر مثبت اشارہ ملنے پر بول پڑیں۔
“معزرت چاہتی ہوں درمیان میں بولنے کے لئے لیکن یہ بات بھی ضروری ہے بھائ صاحب،جس طرح آپ کو اجالا پسند ہے اسی طرح مجھے اور سرفراز کو درِفشاں پسند ہے اور تایا تائی ہونے کے ناطے اتنا تو حق بنتا ہے ایک بیٹی آپ کی طرف اور دوسری بیٹی پر ہمارا حق بھی تو بنتا یے”،زرینہ نے افتحار صاحب سے کہا۔
مبشرہ نے بڑی ممنوں نظروں سے اپنی جھٹانی کی طرف دیکھا۔
“ہاں ہاں کیوں نہیں درِفشاں پر تمہارا ہی حق ہے اوراصولا بات بھی یہی ہے کیوں افتخار صاحب میں ٹھیک کہہ رہی ہوں نہ”،ان میں سے سب سے پہلے بولنے والی افراء بیگم تھی۔
ہاں بولو خالد،اب سرفراز صاحب نے خالد سے پوچھا۔
میں کیا بولوں بھائی صاحب مجھے تو ابھی تک یقین ہی نہیں آرہا کہ کس طرح میری پریشانیوں کس سدباب ہو گیا، خالد صاحب واقعی بہت خوش تھے۔
سب کچھ آناً فاناً طے ہوا تھا اور جن کے مستقبل کا فیصلہ ہوا تھا وہ دونوں ہی ناخوش تھی لیکن یہاں زبان کھولنے کی اجازت بھی نہ تھی۔
________________________
یشب کامیسج پڑھتے ہی زرینہ بیگم لیپ ٹاپ کھول کے بیٹھ گئیں کیمرہ آن کرتے ہی یشب کا مسکراتا ہوا چہرہ دیکھائی دیا۔
“کیسے ہو میری جان”۔
“میں ٹھیک امی آپ سنائیں کیسی ہیں”۔
“میں بھی ٹھیک ہوں بیٹا،کیا کر رہے تھے؟”
“کچھ خاص نہیں امی،ابھی کام سے واپس آیا ہوں اور پھر آکر شاور لیا ہے اور اب کھانا کھانے لگاہوں”،یشب نے زرینہ بیگم کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔
“کیا کھانے لگے ہو”،زرینہ بیگم اس کے رکھی ہوئی پلیٹ دیکھنے کی کوشش کرنے لگیں۔
“دیکھ لیں”،یشب نے پلیٹ میں رکھا ہوا سینڈوچ انہیں دیکھاتے ہوئے کہا۔
“یہ کھانا ہے”۔
“امی اسے کھانا ہی کہتے ہیں”،یشب نے سینڈوچ کا بائیٹ لیتے ہوئے کہا۔
“گھر میں کھانا نہیں تھاکیا اور تمہاری ممانی کہاں ہیں؟”
“پتہ نہیں امی جب میں آیا تو وہ گھر نہیں تھے”۔
اور حرا وہ کہاں ہے،انہوں نے اپنی بتیجھی کا نام لیا۔
“وہ گھر پر تھی لیکن جب جب میں آیا تو وہ کہیں جا رہی تھی”،یشب نے سینڈوچ ختم کرتے ہوئے بولا۔
“اس سے کچھ کہتے وہ بنا دیتی”۔
اور ان کی بات پر یشب نے دل کھول کر قہقہہ لگایا۔
“امی یہ امریکا ہے پاکستان نہیں،جو میری کزن مجھے مہمان یا گھر کا فرد سمجھ کراپنا پروگرام کینسل کر کے میرے لئے کھانا بنائے اور ویسے بھی اسے کوککنگ نہیں آتی”،یشب نے کوک پیتے ہوئے کہا۔
“اچھا خیر چھوڑیں ان سب باتوں کو آپ بتائے سارا دن کیا کرتیں ہیں”۔
“کچھ خاص نہیں بس سارا دن بور ہوتی رہتی ہوں اور آج تو افتحار بھا ئی نے فون کیا کہ سب خالد کے گھر پہنچ جائے اور وہاں جا کہ دیکھتے ہیں کہ ٹیبل پر مٹھائی کے ٹوکرے پڑے ہیں”۔
خیر تھی،یشب جھک کر آگے ہو کر پوچھنے لگا۔
“ہاں اجالا کا رشتہ پکا کرنے آئے تھے”۔
یشب سن کر حیران ہوا،اور چاچو مان گئے۔
“ہاں خوشی خوشی مان گئے”۔
“اور آپی وہ خوش تھی”،یشب نے پریشان ہو کر پوچھا۔
“پتہ نہیں بیٹا میں اندازہ نہیں لگا سکی”۔
“”اچھا۔ ۔۔۔””یشب پریشان ہو کر سوچ میں پڑگیا۔
جبکہ زرینہ بیگم سوچنےلگیں کہ کیسے بات شروع کروں۔
“یشب تمہارا شادی کے بارے میں کیا خیال ہے”۔
میرا۔ ۔۔وہ حیران ہوا، “میرا یہاں کیا زکر”۔
“کوئی لڑکی پسند ہے”۔
“نہیں۔۔۔”،یشب مسکرا دیا۔
“پکی بات ہے نہ”۔
“امی!!!اب میں سونے لگا ہوں کل بات کرے گے”،یشب جمائی روکتے ہوئے بولا۔
“نہیں یشب مجھے تم سے ضروری بات کرنی ہے”۔
“جی بولیں ۔۔۔”یشب جلدی میں بولا۔
“یشب اگر میں تمہارے لئے کوئی لڑکی پسند کروں تمہیں کوئی اعتراض تو نہیں ہوگا”۔
“امی!!!!! “یشب زچ ہو کر بولا۔
“یشب میں نےکچھ پوچھا ہے تم سے”۔
“امی مجھے کیوں اعتراض ہوگا، آپ کی پسند ہی میری پسند ہے”۔
“ہاں تو پھر تیار ہو جاوٴ میں نے تمہاری منگنی کر دی ہے”۔
“میری منگنی۔۔۔۔۔”یشب کو لگا اس نے غلط سناہے،”مگر کس سے”۔
“درِفشاں سے۔ ۔۔۔”اب لگنے والا جھٹکا پہلے سے زیادہ تھا۔
“امی یہ سب کیا ہے آپ نے میری منگنی طے کردی اور وہ بھی مجھ سے پوچھے بغیر”،یشب نے غصہ کرتے ہوئے کہا۔
“آئ نو بیٹا۔۔۔سب اتنا اچانک ہوا میں نے سوچا تھا کہ میں پہلے تم سے بات کروں گی جب افتحار بھائی نے جلدی میں بلایا تھا تو مجھے بالکل اندازہ نہیں تھا وہ یہ بات کرے گے اور پھر تمہارے ابو اور مجمجھے درِفشاں بہت پسندتھی اتنی اچھی لڑکی کیسے جانے دیتے”۔
“”یشب بیٹا کیا تمہیں درِفشاں نہیں پسند””،زرینہ نے مسکراتے ہوئے پوچھا۔
“بالکل نہیں امی۔۔۔۔”،یشب دوٹوک انداز میں بولا۔
“کیوں بیٹا وہ اتنی پیاری بچی ہے”۔
“امی ہو گی وہ اچھی، لیکن وہ میرے ٹائپ کی لڑکی نہیں اگر میں درِفشاں کو اپنی بیوی کے طور پر دیکھوں تووہ میرے امیج پر پورا نہیں اتر رہی،بچپن سے اس کی میرے ساتھ بنی نہیں عجیب ےوقوف غصیلی سی ہے”،یشب نے برا منہ بنا کر کہا۔
زرینہ بیگم اس کی بات سن کر مسکرانے لگی۔
“بس اتنی سی بات یے”۔
“یہ اتنی سی بات یے”،یشب نے آنکھیں پھیلائیں۔
“ہاں کیونکہ تم نے اسے اسی اینگل سے دیکھ رہے ہو لیکن اب تو تمہیں گے ہوئے بھی ساڈھے چار سال ہو گئے ہیں اب تو وہ بہت پیاری ہو گئی ہے”زرینہ بیگم نے شرارتی انداز میں کہا۔
“اور ویسے بھی بیٹا بچپنا صرف اپنے ماں باپ کے گھر ہی ہوتا ہے سسرال میں جا کر سب ختم ہو جاتا ہے اور درِفشاں بہت اچھی بیوی ثابت ہو گی”۔زرینہ بیگم سمجھاتے ہوئے بولیں۔
“یشب جب تمہاری اپنی کوئی پسند نہیں تو ماں باپ کی پسند پر اعتبار کر کے دیکھ لو”۔
“اوکے امی جو آپ کو ٹھیک لگے فی الحال ابھی میں سونا چاہتا ہوں”،یشب کو واقعی بہت سخت نیند آئی تھی اس لئے اس بارے میں سوچنا بھی نہیں چاہتا۔
“اوکے بیٹا اپنا خیال رکھنا، اللّه حافظ”۔
“اور آپ بھی۔۔۔”یشب لیپ ٹاپ بند کر کے گرنے کے انداز میں بیڈ پر گرگیا۔
________________________
اچھا مطلع کیسے لکھیں؟
(پہلا حصہ) میں پہلے ہی اس موضوع پر لکھنے کا سوچ رہا تھا اب "بزمِ شاذ" میں بھی ایک دوست...