چند دن سکون سے گزر گۓ۔ اس دن وہ چاروں واہب کی پھوپھو کی جانب افطاری کے لئے انوائيٹڈ تھے۔
واہب ابھی ريسٹ کررہا تھا جب راديا کمرے ميں داخل ہوئ۔
“کس وقت نکلنا ہے” بيڈ پر نيم دراز موبائل پر گيم کھيلتے ہوۓ اس نے ايک نظر نماز کے سٹائل ميں دوپٹہ اوڑھے راديا کو ديکھا۔ جس کے ايک ہاتھ ميں قرآن تھا۔
“آنٹی کہہ رہی ہيں کہ بس آدھے گھنٹے تک تياری شروع کريں۔ پانچ تو بج جائيں گے۔ عصر پڑھ کر نکليں گے۔ اب بالکل افطاری کے ٹائم پر تو کسی کے گھر جاتے اچھا نہيں لگتا نا” اسکے دوسری جانب بيٹھ کر قرآن مجيد کو سرہانے کے اوپر رکھ کر کھولا اور آہستہ آواز ميں قرآت سے پڑھنے لگی۔
واہب کو اسکی دھيمی آواز ميں کی جانے والی قرآت اپنے سحر ميں جکڑنے لگی۔
سورہ رحمن پڑھ رہی تھی۔ ہر بار جب وہ ‘فبائ الاءربکما تکذبان’پڑھتی واہب کی آنکھيں نم ہو جاتيں۔
يکدم موبائل ہاتھ سے رکھ کر اسکے گھٹنے کے پاس سر رکھ کر وہ ليٹ گيا۔
راديا يکدم اسکی اس حرکت پر خاموش ہوئ۔ پھر سر جھٹک کر پڑھتی رہی اور وہ خاموش اسکے قريب ليٹ کر اسکی ميٹھی آواز کا رس قطرہ قطرہ اپنے اندر اتارتا رہا۔
جس لمحے وہ قرآن مجيد بند کرکے اسے چوم کر آنکھوں سے لگا کر اٹھی۔ واہب کو لگا اسکا وجود خالی سا ہوگيا ہے۔
“پورے بيڈ پر ليٹنے کی کوئ اور جگہ نہيں ملی۔ ايک تو پہلے ہی ميں کنارے پر تھی اور پيچھے ہوتی تو گر پڑتی” راديا نے اپنی ناہموار ہونے والی سانس اور کچھ دير پہلے کی کيفيت سے پيچھا چھڑاتے ہوۓ کہا۔
“ابھی اللہ کا نام لے کر فارغ ہوئ ہو اور لڑنے کھڑی ہوگئ ہو” واہب نے سيدھا ہوتے شرارت سے بھرپور نظروں سے اسے ديکھتے ہوۓ شرم دلائ۔
وہ منہ بنا کر قرآن مجيد الماری ميں رکھتے ہوۓ اپنے کپڑے نکالنے لگی۔
“آپ ميری امی کو آنٹی کيوں کہتی ہو” واہب نے ايسے پوچھا جيسے بڑے پتے کی بات جان رہا ہو۔
“اسی لئے کہ يہ حق کچھ عرصے بعد کسی اور کو ملنے والا ہے اور ميں پرائی جگہوں اور رشتوں کو اپنا نہيں بناتی” اسکی بات پر واہب نے سر اونچا کرکے اسکی پشت کو ديکھا۔ وہ تو بھول گيا تھا کہ اس نے دوسری شادی کے لئے کسی اجازت نامے پر اس سے سائن کروائے ہيں۔ جب سے اسکی محبت کا ادراک ہوا تھا وہ تو سب کچھ فراموش کربيٹھا تھا۔
لب بھينچ کر اس نے نظريں واپس موبائل پر ٹکائيں۔ جبکہ راديا کپڑے بدلنے واش روم ميں جاچکی تھی۔
“يار اور کتنی دير لگانی ہے” واہب راديا کے کپڑے چينج کرنے کے فورا بعد خود بھی چينج کرکے باہر آگيا۔
“کتنی دير لگے گی تيار ہونے ميں” ڈارک مونگيا رنگ کی شلوار قميض ميں کف فولڈ کرکے ‘اودھا’ کی شيشی سے رولر اپنی گردن اور بازوؤں پر لگا کر شيشے ميں ديکھتے بال سيٹ کرتا ہوا راديا کی جانب مڑا جو ايک جانب کھڑی بال اسٹريٹ کررہی تھی۔
“بس پندرہ منٹ” اس نے ايک نظر ہلکی سی شيو ميں وجيہہ سے واہب کی جانب ديکھ کر فورا نظروں کا رخ بدل ليا۔ راديا کادل اسکی نظروں کے ساتھ دھڑکنے لگا تھا۔
“اوکے” وہ اپنی تياری کو بھرپور انداز ميں ديکھتا کمرے سے نکل گيا۔
اب پندرہ کی جگہ بيس منٹ ہوچکے تھے مگر راديا تھی کہ باہر ہی نہيں نکل رہی تھی۔
وہ جھنجھلايا ہوا کمرے ميں داخل ہوا۔ مگر شيشے کے سامنے آف وائٹ پرلز کی بالياں پہنتی سجی سنوری وائٹ اور گرين ہی کلر کے سوٹ ميں ملبوس راديا پر نظر پڑی تو نظروں نے پلٹنے سے انکار کر ديا۔
“بس آگئ۔۔ ميری جيولری نہيں مل رہی تھی۔ اسی ميں دير ہوگئی” وہ مصروف سے انداز ميں کمر تک آتے کھلے بالوں کو ايک جانب کرتی جلدی جلدی نازک سی ہيل والی سينڈل پاؤں ميں پہنتی بولی۔
تيزی سے آگے بڑھ کر کلچ اٹھايا۔
“افطاری پر جا رہی ہو کا کسی کی شادی پہ”واہب نے جان بوجھ کر اسکا راستہ روکا۔
تاکہ وہ نظر اٹھا کر واہب کو ديکھے۔
“اب اتنا بھی تيار نہيں ہوئ” وہ بمشکل اسکی گہری بولتی آنکھوں سے نظريں چرا کر بولی۔
دھڑکنوں ميں عجيب بے ربط سا شور بڑھ رہا تھا۔
“بال باندھو” نجانے کيوں اسے راديا کے کھلے بالوں سے الجھن ہوئ۔۔۔
محبوب کی زلف کا اسير ہونے سے ڈر رہا تھا۔
“ميری مرضی ۔۔۔اتنی محنت سے اسٹريٹ کئے ہيں۔ کوئ نہيں باندھ رہی” وہ ہٹ دھرمی سے اسکے دائيں سائيڈ سے نکلنے لگی۔
“بال باندھو۔۔۔” وہ پھر سے اپنی بات پر زور دے کر بولا۔
“چاہے کيچر ہی لگا لو۔۔ ليکن کھلے نہيں چھوڑو” وہ نہيں چاہتا تھا يہ خوبصورتی کسی اور کی نظروں ميں آۓ۔ وہ اکيلا ہی ان گھنيری زلفوں کا ستم سہنے کے لئے بہت تھا۔
راديا نے حيرت سے اسکے دھونس بھرے انداز ديکھے۔
“کيوں مانوں آپکی بات۔۔ نہيں بند کرتی” وہ بھی کمر پر ہاتھ رکھے لڑنے کو تيار ہوئ۔
“اسی لئے کہ ميرے نکاح ميں ہو” وہ آںکھيں اسکے چہرے پر گاڑھ کر بولا۔
“اچھا ۔۔۔۔۔جب دل کرے گا تو نکاح ميں شامل کرليں گے۔ اور جب دل کرے گا دو کوڑی کا کرديں گے۔۔اچھی زبردستی ہے” وہ ہاتھ ہلا کر کندھے اچکا کر بولی۔
“واپس آکر لڑ لينا ابھی بال باندھو۔۔ کوئ بات سمجھ ہی نہيں آتی” وہ کيسے کہہ ديتا تمہاری خوبصورتی صرف مجھ تک اپنے محرم تک محدود رہنی چاہئے۔
اسے اپنی جگہ سے ٹس سے مس نہ ہوتے ديکھ کر راديا نے گھور کر اسے ديکھا۔ واپس مڑی غصے سے کيچر اٹھا کر بالوں ميں لگايا۔
واہب کے چہرے پر بڑی جاندار مسکراہٹ پھيلی۔
اس سے پہلے کمرے سے باہر نکلا۔
سيڑھياں اترتے موبائل پر کسی کو ميسج ٹائپ کررہا تھا۔
راديا دوپٹہ سر پر لينے لگی يکدم پاؤں مڑا۔ آگے چلتے واہب کا سہارا لينے کے لئے اس نے ہاتھ اسکے بازو پر رکھے۔
“کيا مسئلہ ہے يار” واہب کوئ آفيشل ميسج کررہا تھا۔ راديا کے اچانک خود کو ہاتھ لگانے پر چڑا۔ وہ ابھی بمشکل خود کو اسکے گھنيرے بالوں اور ساحر چہرے کے سحر سے بچا کر آيا تھا۔ اور وہ تھی کے پھر سے اس کا امتحان لينے پر تلی تھی۔
غصے ميں اسکے ہاتھ جھٹکنے پر وہ نہيں جانتا تھا کہ اگلے ہی پل کيا ہونے والا ہے۔
يکدم پيچھے سے راديا پھسلتی ہوئ اسکے پاس سے گرتی ہوئ تمام سيڑھياں گرتی ہی چلی گئ۔
يہ سب آناّّفاناّّ ہوا کہ واہب کو اسے سنبھالنے کا موقع ہی نہ ملا۔۔
نيچے گری اسکی دلدوز چيخيں اسکے حواس جھنجھوڑ کر رکھ گئيں۔
زيبا اور سميع دوڑ کر اسکے پاس آۓ جو چيخنے کے ساتھ ساتھ زور زور سے رو رہی تھی۔
واہب تيزی سے سيڑھياں اترتا اسکے قريب پہنچا۔۔
“اماں۔۔۔۔۔۔” وہ ماں کو پکار رہی تھی۔ ٹانگ تھامے وہ ادھر سے ادھے مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی۔ ماتھے پر بھی سيڑھی کا کوئ سرا لگا تھا جس کی وجہ سے وہاں گہرا کٹ پڑ چکا تھا اور خون رس رہا تھا۔
“گاڑی نکالو” سميع نے فورا واہب سے کہا۔
واہب نے اسے اٹھانا چاہا جب درد سے بے حال ہوتے ہوۓ بھی راديا نے اسکے ہاتھ جھٹکے سے خود سے دور ہٹاۓ۔
“ہاتھ مت لگائيں مجھے۔۔۔ اچھوت ہوں نا۔۔۔۔دھکا ديتے احساس نہيں تھا” آنسوؤں سے بھری آنکھوں ميں غصہ سموۓ وہ دھاڑی۔ زيبا اور سميع نے بے يقين نظروں سے اسے ديکھا۔
“تم نے دھکا ديا ہے” سميع اور زيبا نے افسوس اور حيرت سے اسے ديکھا۔
“ميں نے دھکا نہيں ديا۔۔”وہ بھی راديا کے الزام پر حيران ايک نظر اسے اور ايک نظر سميع اور زيبا کو ديکھ کر اپنی صفائ ميں بولا۔۔
“آہ۔۔۔۔۔ آۓ۔۔۔۔۔۔اماں” ايک بار پھر تکليف نے راديا کو گھيرا تو وہ پھر سے رونے اور چيخنے لگی۔
واہب نے اب کی بار کسی پر بھی غور کئے بغير تيزی سے اسے بازؤں ميں اٹھايا اور باہر کی جانب دوڑا۔
راديا اب تکليف سے اس قدر بے حال ہوچکی تھی کہ مزاحمت کرنے کی اس ميں ہمت نہيں تھی۔
پچھلی سيٹ پر احتياط سے اسے لٹاتے واہب ڈرائيونگ سيٹ کی جانب بڑھا۔
زيبا اور سميع بھی فورا گاڑی ميں بيٹھے۔ زيبا پيچھے ہی اسکے ساتھ بيٹھ کر اسکا سر اپنی گود ميں رکھتيں اسے سہلانے لگيں۔
جبکہ سميع بالکل خاموش واہب کے ساتھ اگلی سيٹ پر تھے۔
پاسپٹل پہنچتے ہی وہ اسی طرح اسے بازوؤں ميں اٹھاۓ ايمرجنسی ميں پہنچا۔
اسے کوئ پرواہ نہيں تھی کون اسے ديکھ رہا ہے اسے پرواہ تھی تو اسکی جو تکليف سے نڈھال ہورہی تھی۔ چہرے پر خون کی لکير اب سوکھ رہی تھی۔
فورا ايمرجنس الرٹ ہوئ۔
اسے باہر جانے کو کہا۔
واہب، زيبا اور سميع باہر کھڑے ڈاکٹرز کا انتظار کرنے لگے۔ سميع نے بہن کو فون کرکے آنے سے معذرت کر لی۔ فی الحال يہ نہيں بتايا کہ راديا سيڑھيوں سے گری ہے بس اتنا کہا کہ اسکی طبيعت نہيں ٹھيک۔
“شرم آتی ہے مجھے يہ سوچ کر کہ ميں نے اس جيسے جنگلی سے اسے بياہ ديا” فون بند کرکے سميع نے سرجھکاۓ کاريڈور کی ديوار کے ساتھ پشت ٹکا کر کھڑے واہب کو ايک نظر تنفر سے ديکھ کر کہا۔
اس نے سر اٹھايا۔
“آئ سوئير ميں نے اسے نہيں گرايا” وہ پھر سے اپنی بات دہرانے لگا۔ زيبا نے بس ايک تيزی چبھتی ہوئ نظر اس پر ڈالی بوليں کچھ نہيں سر پر دوپٹہ جماۓ وہ تسبيح کرنے ميں مصروف تھيں۔
تھوڑی دير بعد ڈاکٹر باہر آيا۔
وہ تينوں اسکے گرد کھڑے ہوگۓ۔
“بچی کيسے گری ہے۔ اسکی ٹانگ کی راڈ دو جگہ سے کريک ہوگئ ہے نئ ڈالنی پڑے گی۔ تکليف دہ مرحلہ ہے مگر اسکے ساتھ ساتھ آپ کو بھی صبر سے کام لينا پڑے گا” واہب نے الجھ کر سميع اور زيبا کو ديکھا ۔۔
“بس سيڑھيوں سے اترتے اچانک پاؤں مڑ گيا تھا” زيبا نے نظريں چراتے ہوۓ کہا۔
“اوہ۔۔۔ خير اللہ بہتر کرے گا آپ لوگ دعا کريں” ڈاکٹر انہيں تسلی دلا کر اپنے روم کی جانب بڑھا۔
“کون سی راڈ” ڈاکٹر کے جانے کے بعد وہ ان سے مخاطب ہوا۔
“تمہيں اس سے کيا” زيبا نے خشمگيں نگاہوں سے اسے ديکھا۔
“کيون نہيں مجھےاس سے کچھ۔۔ بيوی ہے وہ ميری” وہ بے بس سا اپنی بات پر زور دے کر بولا۔
“کون سی بيوی ہاں۔۔۔۔ جسے تم نے بيوی نہيں مانا۔ اندھے نہيں ہيں ہم۔۔ تمہارا گريز ۔ تمہاری بيزاری سب نظر آتی ہے ہميں۔ يہی سوچا تھا کہ چلو شروعات ہے ابھی آہستہ آہستہ ٹھيک ہو جاؤ گے۔۔ ليکن نہيں۔، تم نے تو اسکی بڑی عمر کو اس کا جرم بنا ديا۔ نفرت کی اس انتہا تک پہنچ گۓ کہ اس معصوم کے ساتھ يہ سلوک کيا آج” سميع اسے بخشنے کو تيار نہيں تھے۔
“اسکی ہڈياں شروع سے مضبوط نہيں تھيں۔ خاص کردائيں ٹانگ کی ہڈياں کمزور تھيں اسی لئے چھوٹے ہوتے ہی ايک دو بار گرنے پر جب اسکی ٹانگ کی ہڈياں ٹوٹيں تو ڈاکٹرز نے راڈ لگا دئيے۔ اور کہاکہ يہ راڈز اب ساری زندگیی اسکی ٹانگ ميں لگيں گے۔ ذرا سا دھچکا يا ٹانگ کا مڑنا اسے عمر بھر کی معذوری کی طرف لے جاۓ گا۔ لہذا احتياط برتيں۔ يہی وجہ تھی اسکی دو بار منگنی ٹوٹنے کی۔سب يہی سمجھتے تھے کہ وہ معذور ہے حالانکہ صرف ہڈياں کمزور تھيں۔ اور ان کا علاج بھی راڈز کی صورت کرکے اس کمزوری کو کوور کر ليا گيا تھا
مجھے جب شائستہ بھابھی نے بتايا مجھے بے حد تکليف پہنچی تبھی فيصلہ کرليا کہ اس نگينے کو اپنے گھر لے آؤں گی۔ کيا کسی کی ذرا سی کمزوری کو ہم اس کا گناہ بنا ديں۔ ہم کون ہوتے ہيں يہ سب کرنے والے۔
تمہيں اس سے دلچسپی ہی نہيں تھی تو تمہيں کيا بتاتے اور پھر جس طرح تم اس رشتے سے ہتھے سے اکھڑ رہے تھے عين ممکن تھا تمہيں بتا ديتے تو تم اسی بات کو جواز بنا کر اس سے شادی سے انکار کرليتے۔
مگر مجھے کيا پتہ تھا کہ اس بچی کے ساتھ ايسی ناقدری ميرے ہی گھر ميں ہوگی” زيبا نے روتے ہوۓ اس پر سب راز افشاں کئے۔
‘اوہ خدايا’ سر تھامے بينچ پر بيٹھے اسے اپنی ہر زيادتی اور اسکی خاموشی ياد آئ۔ تو يہ وجہ تھی اسکی ہر الٹی سيدھی بکواس کو برداشت کرنے کی۔ اف وہ لڑکی اسکے لفظوں کے کون کون سے وار نہيں سہہ گئ۔
اسے شديد ندامت نے آگھيرا۔
کاش وہ اسے تھام ليتا۔۔ کاش وہ اپنے حواسوں ميں رہتا۔ ايک سيکنڈ کو موبائل چھوڑ کر اسکی جانب ديکھ ليتا۔
‘يقینا اسکا پاؤں مڑا ہوگا اور ساتھ ہی راڈ بھی کريک ہونے کی وجہ سے وہ توازن برقرار نہيں رکھ پائ ہوگی۔ اسی لئے اس نے مجھے تھاما ہوگا’ سر ہاتھوں پر گراۓ اسے وہ ايک ايک لمحہ ياد آيا۔ اس کا بس نہيں چل رہا تھا وقت کو پیچھے موڑ لے۔ اسکی دلدوز چيخيں اب بھی اسکے کانوں ميں سنائ دے رہی تھيں۔
يکدم وہ وہاں سے اٹھ کر ڈاکٹر کے روم مين گيا۔
اس سے ڈيٹيل ميں اسکی کنڈيشن کے متعلق بات کی۔
“جتنا پيسہ چاہئيے ميں دوں گا۔ مگر اسے معذوری سے بچا ليں۔” وہ آج اس لڑکی کے لئے گڑگڑا رہا تھا جسے وہ اپنی بيوی ماننے سے انکاری تھا۔ جس سے تعلق توڑنے کا بہانا ڈھوںڈتا تھا۔
آج دل اسکی تکليف پر رو رہا تھا۔۔۔ کرلا رہا تھا۔
ڈاکٹر کے روم سے باہر آکر وہ سيدھا سامنے بينچ پر بيٹھی زيبا کے پاس آيا۔
“آئ سوئير ماں ميں نے اسے دھکا نہيں ديا تھا” واہب نے ايک آخری کوشش کی اپنی صفائ دينے کی۔
“تھاما بھی تو نہيں تھا” دل سے کہيں آواز آئ۔
“چلو ميں مان ليتی ہوں کہ تم نے ايسی حرکت نہيں کی۔ ليکن آخر وہ تمہارے ساتھ ہی سيڑھياں اتر رہی تھی اگر وہ لڑکھڑائ تھی تو کيا تم سنبھال نہيں سکتے تھے۔” ماں تھيں کيسے نہ اصل بات کی تہہ تک پہنچتيں۔
وہ نادم سا خاموش ہوگيا۔
دو دن ہوگۓ تھے انہيں ہاسپٹل مين ڈاکٹرز نے اسی دن نئ راڈ ڈال دی تھی۔ راديا کے گھر والوں کو بھی بتا ديا تھا۔ ايک رات اسکی امی رہيں اور ايک رات زيبا۔
تيسرے دن ڈاکٹرز نے ڈسچارج کا کہا۔
“مجھے امی کے ساتھ جانا ہے” راديا نے ماں کو ديکھتے ہوۓ کہا۔ وہ مسلسل دو دن واہب کو نظر انداز کرتی رہی۔ حالانکہ وہ سارا وقت وہيں ہوتا تھا۔
مگر وہ ايسے شو کرتی جيسے وہ اسکے آس پاس کہيں ہے ہی نہيں۔ سب نے اسکی يہ سردمہری نوٹ کرلی تھی۔
“ديکھيں آپ کو جہاں بھی بچی کو لے کر جانا ہے بس يہ ياد رکھئيے گا کہ بيس دن تک اسے وہاں سے کہيں اور موو نہيں کرنا۔” ڈاکٹر اس وقت ڈسچارج شيٹ تيار کررہا تھا جب اس نے يہ بحث ديکھی۔
“آنٹی ہم اسے گھر لے جاتے ہيں کوئ ايشو نہيں ہے۔ ويسے بھی آپ لوگوں کا عمرے کا پلين ہے۔ اسے خراب مت کريں۔ يہ سعادت بار بار نہيں ملتی۔ راديا آرام سے گھر پر ہی رہے گی” واہب نے سنجيدگی سے شائستہ سے کہا۔
راديا کے علاوہ انکی دو ہی بيٹياں تھيں۔ فرح کی تو شادی ہوچکی تھی اب ساميہ ہی رہ گئ تھی وہ فی الحال پڑھ رہی تھی۔ شائستہ۔۔۔وہاج اور ساميہ کی دو دن بعد عمرہ کی فلائٹ تھی۔
راديا نے ايک خفا سی نگاہ ماں پر ڈالی جو واہب کی بات مان گئ تھيں۔
وہ منہ پھلاۓ گھر آئ۔
“ايسا کرتے ہيں يہ نيچے والے ہمارے کمرے ميں تم لوگ رہ لو ميں اور تمہارے ابو گيسٹ روم ميں شفٹ ہوجاتے ہيں” زيبا نے گھر پہنچتے ہی کہا۔
“نہيں امی آپ اور ابو تنگ ہوں گے۔ کوئ مسئلہ نہيں ميں اور راديا گيسٹ روم ميں شفٹ ہو جاتے ہيں۔”واہب نے انہيں فورا منع کيا۔
کام والی کو اپنے کمرے ميں بھيجا تاکہ وہ انکے کپڑے گيسٹ روم والی الماری ميں شفٹ کردے۔
راديا کو احتياط سے بيڈ پر بٹھايا۔ فی الحال اسے ٹانگ کو موڑنے سے منع کيا گيا تھا۔
راديا مسلسل خاموش تھی۔ اسکے چہرے پر ناگواری صاف پڑھی جاسکتی تھی۔
زيبا اور سميع کے ساتھ وہ نارمل تھی مگر واہب کو مخاطب تک نہيں کررہی تھی۔ نہ اسکی جانب ديکھ رہی تھی۔
واہب نے اسے حق بجانب سمجھا جو کچھ وہ اسکے ساتھ کر چکا تھا اسکے بدلے راديا کا رويہ اسے اپنے ساتھ بالکل ٹھيک لگا۔
اچھا مطلع کیسے لکھیں؟
(پہلا حصہ) میں پہلے ہی اس موضوع پر لکھنے کا سوچ رہا تھا اب "بزمِ شاذ" میں بھی ایک دوست...