(Last Updated On: )
ہوئے آزاد باطل کے حصار قہر سے دونوں ابھی کچھ رات باقی تھی کہ نکلے شہر سے دونوں نبیؐ نے خانہ کعبہ کو دیکھا اور فرمایا کہ اے پیارے حرم میری تری فرقت کا وقت آیا ترے فرزند اب مجھ کو یہاں رہنے نہیں دیتے تری پاکیزگی کا وعظ تک کہنے نہیں دیتے جدائی عارضی ہے پھر بھی دل کو بے قراری ہے کہ تو اور تیری خدمت مجھ کو دنیا بھر سے پیاری ہے یہ فرماتا ہوا آگے بڑھا اسلام کا ہادیؐ سرا سرموم ہو کر رہ گئی یہ سنگ دل وادی چڑھائی سخت تھی سنگین و ناہموار رستہ تھا نکیلے پتھروں کا فرش تھا پرخار رستہ تھا نبیؐ کے پائے نازک ہر قدم پر چوٹ کھاتے تھے دل صدیقؓ کے جذبات زخمی ہوتے جاتے تھے نہ دیکھا جا سکا پائے محمدؐ کی جراحت کو بصد اصرار کندھوں پر اٹھایا شان رحمت کو اندھیرا ، پتھروں کے ڈھیر، کوہِ ثور کی گھاٹی خدا ہی جانتا ہے یہ مسافت جس طرح کاٹی بالاخر دو مسافر نزد غارِ ثور آ ٹھہرے مقدر تھا یہیں نورانیوں کا قافلہ ٹھہرے گئےاندر ابو بکر ؓاور اس کو صاف کر آئے عبا کو چاک کر کے روزنوں میں اس کے بھر آئے مہ و خورشید نے برج سفر میں استراحت کی کہ تھا نوروز تاریخ یکم تھی سن ہجرت کی ازل سے سو رہی تھی خاک کی توقیر جاگ اٹھی یکایک اس اندھیرے غار کی تقدیر جاگ اٹھی