(Last Updated On: دسمبر 22, 2022)
سفینہ مہر کا جس دم شفق کے خون میں ڈوبا کیا تاریکیوں نے دن پہ چھا جانے کا منصوبا کئی فتنے جگا کر رات نے پھیلا دیے دامن فضا پر لشکر ظلمات نے پھیلا دیے دان مسلط ہو گئیں خاموشیاں دنیائے ہستی پر ستاروں کی نگاہیں جم گئیں مکے کی بستی پر نہیں تھا دامن کعبہ پہ زمزم اشک جاری تھا چٹانیں دم بخود تھیں وادیوں پر ہول طاری تھا نظر آتی ہو جس میں روشنی وہ ایک ہی گھر تھا مصلے پر وہاں جو شخص بیٹھا تھا پیمبر تھا عبادت ختم کی تسکین اطمینان سے اس نے اٹھا، باندھی کمر اللہ کے فرمان سے اس نے جگایا نیند سے شیر خدا کو اور فرمایا کہ فرماں ہجرت یثرب کا ہے میرے لیے آیا مثال موسیٰ ؑو دائود ؑہجرت فرض ہے مجھ پر کمال دین حق اتمام حجت فرض ہے مجھ پر اتھو دیکھو کہ تلواروں سے گھر محصور ہے میرا کہ میری قوم کو اب قتل ہی منظور ہے میرا نکلنا اور اس عالم میں تلواروں پہ چلنا ہے مگر حکم خدا ہے اس لیے مجھ کو نکلنا ہے یہ چادر اوڑھ لو! سو جائو آکر میرے بستر پر محافظ ہے وہی رکھو بھروسہ شانِ داور پر یہ مال و زر انہی لوگوں کا میرے پاس امانت ہے مانت کا ادا کرنا ہی اسلامی دیانت ہے خدا حافظ ہے دیکھو دل میں اندیشہ نہ کچھ لانا یہ چیزیں ان کی پہنچا کر سوئے یثرب چلے آنا علی ؓنے حکم کی تعمیل کی اور اوڑھ لی چادر بہ اطمینان آکر سو گئے حضرت کے بستر پر ارادہ کر لیا جب سرور عالم ؐ نے چلنے کا تو دیکھا راستہ مسدود ہے گھر سے نکلنے کا درازوں میں سے جھانکا ہر طرف گہرا اندھیرا تھا مگر پہرے کھڑے تھے گھر کو جلادوں نے گھیرا تھا اندھیرے میں چمک اٹھتی تھیں بجلی کی طرح دھاریں نظر آیا کہ ہیں ہر سمت تلواریں ہی تلواریں یہ آدھی رات کا عالم یہ ہیبت ناک نظارہ مگر ڈرتا تھا باطل سے وہ اللہ کا پیارا وہ دراتا ہوا وحدت کا دم بھرتا ہوا نکلا تلاوت سورہ یس کی کرتا ہوا نکلا گری برق نظر اس مجمع قاتل کی آنکھوں پر کہ پٹی خیرگی کی بندھ گئی باطل کی آنکھوں پر کھنچی ہی رہ گئیں خوں ریز خوں آشام شمشیریں کسی نے کھینچ دی ہوں جس طرح کاغذ کی تصویریں خدا نے خاکِ غفلت ڈال دی کفار کے سر میں رسول پاک پہنچے حضرت صدیق کے گھر میں سنایا دوست کو فرمان حق یثرت کی ہجرت کا نوید زندگی بخشی دیا مژدہ رفاقت کا بعجلت دختر صدیقؓ نے سامان کو باندھا نطاق اپنی اتاری اس سے توشہ دان کو باندھا حبیب حق کی خوشنودی صلہ تھا جوشِ خدمت کا شرف پایا ہوئیں ذات النطاقین آج سےا سما