پھر دوسرا دن سکون سے گزرا ۔ وہ جانے کیوں نہیں آئی ،مگر پھر دادو کے آتے ھی وہ بوتل کے جن کی طرح پھر سے نمودار ہو گئی۔ رازی نے بیزار کن انداز میں اخبار جھٹک کر منہ کے آگے پھیلا لیا۔ عنبر اسکی طرف دیکھے بغیر دادو سے لپٹ گئی۔اس کے شکوے تو ختم ہونے کا نام ھی نہیں لے رھے تھے ۔
” دادو آپ نہیں جانتیں ۔۔۔ آپ کے جاتے ھی خفیہ ہاتھ میرے اقتدار کو ڈانواں ڈول کرنے کے چکر میں پڑ گئے تھے ، مگر میں نے بھی انہیں دن میں تارے دکھا دیے ” وہ چہک کر بولی تو بابر اور احراز کی ہنسی چھوٹ گئی۔
رازی نے اخبار نیچے کر کے اسے ذرا گھور کے دیکھا۔
” کیا مطلب __! ” دادو ہونق ہو کے اسے دیکھنے لگی تو اس نے ٹال دیا ۔
” خیر چھوڑیں، مگر آپ آئندہ اتنے دنوں کے لیے کہیں نہیں جائیں گی ” وہ بڑے لاڈ سے بولی ۔
” اچھا بابا ٹھیک ھے ۔۔۔ اب بیٹھ تو جاؤ ” انہوں نے جان چھڑائی۔ اتنی دیر سے وہ انہیں کھڑا کیے لپٹی ہوئی تھی۔
” بیٹھیں آپ بھی ۔۔۔” اس نے جلدی سے انہیں صوفے پر بیٹھایا اور خود بابر اور احراز کے ساتھ ان کے صوفے پر عین رازی کے سامنے بیٹھ گئی ۔ دادو اس سے گھر والوں کی خیریت پوچھنے لگی ۔
” سب ٹھیک ہیں دادو ” وہ اطمینان سے بولی اور کینو چھیل کر کھانے لگی ۔ احراز اور بابر بھی اسی شغل میں مصروف تھے ۔
” دادو ، آپ کو دوں یہ چھیل کر ؟” اس نے پوچھا تو دادو گھٹنوں پر ہاتھ رکھ کر کھڑی ہوئیں۔
” نہیں بیٹا ، تم لوگ کھاؤ، میں ذرا آرام کروں گی اب ” وہ اسکا سر پیار سے تھپک کر اندر چلی گئی ۔
” آج تو موسم بہت خوشگوار ھے ” اس نے دادو کے جاتے ھی موسم کو آڑ بنا کے رازی پہ جملہ پھینکا تو بابر نے بوکھلا کر اس کے سامنے ہاتھ جوڑے ، مگر اسے کہاں احساس تھا ۔
” پرسوں تک تو خوب گرج چمک ہو رھی تھی ، بابر ! اس دن اولے تو نہیں پڑے تھے ؟” وہ بابر کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے شرارت سے اس روز کے واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بولی ۔
رازی تلملا اٹھا ۔ یہ لڑکی اسے مجبور کر دیتی تھی کہ وہ شائستگی کا لبادہ اتار پھینکے ۔
” کچھ بھی نہیں پڑا تھا ” احراز کو زیادہ دلچسپی کینو سے تھی اس لیے لاپرواہی سے بولا ، تو وہ منہ بنا کر رہ گئی۔ پھربھی چین نہیں آیا تو رازی سے مخاطب ہوئی ۔
” کیا اخبار میں بہت مزے کی نیوز ہیں ؟ ”
وہ سمجھ گیا کہ اسی سے مخاطب ھے مگر وہ ان سنی کرگیا ۔ویسے بھی اسکی قینچی کی طرح چلتی زبان اسکا دماغ کھولا دیتی تھی ۔ اس لیے نظر انداز کرنا ھی بہتر سمجھا ۔
” میں آپ سے بات کر رھی ہوں ___ اب تو دادو آگئی ہیں اب مجھ سے بات کرنے میں کیسی شرم ؟” اس نے بڑے مزے سے کہا تو وہ دونوں ہنس دئیے ۔جبکہ وہ مزید کڑھتے ہوئے اخبار کا صفحہ پلٹنے لگا ۔
“چچ چچ ___ یہ کیا بات ہوئی ، اتنی شرم بھی کس کام کی !!!” وہ اونچا سا بڑبڑائی۔
رازی نے جھلا کر اخبار میز پر پٹخ دیا اور کھڑا ہو کر اندر کی طرف چل دیا ۔
احراز ، عنبر کے ہاتھ پہ ہاتھ مار کر اتنی زور سے ہنسا۔
” کمال ھے ___ آپ تو زرا بھی خیال نہیں کرتی ۔ اگر کبھی بگ برادر کا ہاتھ پڑ گیا ناں تو یاد کریں گی ” بابر نے اس کی تعریف کرتے ہوئے ساتھ ھی ڈرا بھی دیا ۔ تو وہ ہاتھ جھلا کر جیسے مکھی اڑانے لگی ۔بابر تاسف سے سر ہلانے لگا ۔
” مجھے لگتا ھے آپ کا برا وقت آگیا ھے ”
” بکو مت ” وہ لاپرواہی سے کینو میں مصروف ہو گئی ۔
” آج موسم اچھا ھے ۔۔۔ بائیسکل لے کر باھر چلیں ___!!” اسے نئی ھی سوجھی تھی ۔
” بھائی سے ڈانت کھانا آپکو اچھا لگتا ھے ہمیں نہیں ” احراز طنزاً بولا ۔
” سو بورنگ یار ۔۔۔۔ پھر کیا کریں ؟” اب وہ اکتاہٹ آمیز لہجے میں بولی ۔
” پھر ایسا کرتے ہیں کہ کیرم کھیلتے ہیں ” احراز گیمز کا شوقین تھا ۔
” چلو __” وہ اٹھ کھڑی ہوئی اور ساتھ ھی منہ بناتے بابر کو ایک جھانپڑ رسید کیا ۔
_____________________
وہ گاڑی سے باھر نکلا ھی تھا کہ دادو پورچ میں چلی آئی۔
تھکے ہوئے لہجے میں اسنے دادو کو سلام کیا ۔
” وعلیکم السلام ، بلکل ٹائم پر آئے ہو تم ، ذرا بھاگ کر بچی کو نجمہ کے ہاں چھوڑ آؤ ” وہ جواب دے کر روانی سے بولی تو رازی حیرت سے انہیں دیکھنے لگا ۔
” کون سی بچی دادو ؟؟؟؟”
” ارے اپنی عنبر ۔۔۔ اور کون !” وہ یوں بولیں جیسے اس سے مشہور بندہ ھی دنیا میں کوئی نہ ہو ۔ رازی نے بمشکل ناگوار تاثرات کو دبایا ۔ بہت برے موقع پر آیا ہوں ، اسنے دل میں سوچا ۔
” دادو ! میں اتنا تھکا ہوا ہوں ، میرے سر میں بھی درد ہو رھا ھے ” وہ رکھائی سے کہتا اندر بڑھنے لگا مگر اتنی دیر میں وہ باھر نکل آئی ۔ وہ تو چکرا کر ھی رہ گیا ۔ بلیو جینز پر وائٹ فل سلیوز شرٹ اور وائٹ ھی جیکٹ پہنے ، وہ تو کوئی اور ھی لگ رھی تھی ۔عنبر اسے دیکھ کر مسکرائی مگر اس نے کوئی خاص رسپانس نہیں دیا ۔
“ارے بیٹا ! یہ گاڑی ھے ناں ، بس دو منٹ ھی لگیں گے ” دادو پچکار کر بولیں ۔ تو وہ حیرت کے غلبے سے نکلا۔
” یہ ۔۔۔ یہ ‘ بچی ‘ ایسے حلیے میں جائے گی؟” اسنے بچی پر خاصہ زور دیکر پوچھا ۔
” رازی اب بس نخرے مت کر ” دادو کو تو اس بچی کے آگے کچھ نظر ھی نہیں آرھا تھا ۔
” دادو ، اسکا حلیہ تو دیکھیں زرا۔۔!” وہ اب کی بار تھوڑا غصے سے بولا تو وہ جو کتنی ھی دیر سے خاموش کھڑی تھی بول پڑی ۔
” کیوں !!! کیا ھوا ھے میرے حلیے کو ؟”
رازی نے گھور کے اسے دیکھا ۔
” تم کبھی نہیں سدھر سکتی”
” آپ کوشش تو کر کے دیکھیں” وہ دھیرے سے بڑبڑائی تو وہ تلملا اٹھا۔
” دادو آپ بابر یا احراز کے ساتھ بھیج دیں اسے ..” وہ بمشکل غصہ ضبط کرتے ہوئے ان سے مخاطب ہوا حالانکہ جانتا تھا کہ وہ دونوں اس ٹائم کالج میں ہوں گے ۔
” اور میری زبان کا کوئی پاس نہیں !! میں نے کتنے مان سے کہا تھا کہ ابھی رازی آئے گا تو تمہیں چھوڑ آئے گا ۔۔۔ مگر یہاں کسی کو پرواہ ھی نہیں” دادو نے بھی خوب ڈرامائی انداز میں کہا تو وہ بوکھلا گیا ۔
” کہاں جانا ھے آپ کو ؟” وہ اسے دیکھ کر ناگواری سے بولا۔
” راستہ تو میں آپکو بتا دوں گی لیکن اگر آپ دادو کا کہنا نہیں ماننا چاہتے تو آپکی مرضی ” وہ جان بوجھ کر جلتی پر تیل ڈالتے ہوئے بظاھر بڑے عام سے لہجے میں بولی ۔
” چلو گاڑی میں بیٹھو ” وہ کہنا تو کچھ اور چاہتا تھا مگر دادو کے سنجیدہ تاثرات دیکھ کر بس اتنا ھی کہہ پایا ۔
” دیکھیے ! اگر آپکا دل نہیں چاہ رھا تو آپ انکار کر سکتے ہیں ” عنبر کا انداز مدبرانہ تھا ۔
” شٹ اپ ! اور جاؤ گاڑی میں مرو ” بس اب تو اسکی ہمت جواب دے گئی تھی اسی لیے خاصا بدتمیزی سے بولا ۔
اسکی بدتمیزی پر دادو تو تڑپ کر رہ گئی اور عنبر تو تھی ھی پوری اداکارہ ، فوراً سے دادو کے شانے پر سر رکھ دیا .
” دیکھا دادو یہ کیسا سلوک کرتے ہیں میرے ساتھ “وہ بڑے درد بھرے لہجے میں بولی ۔
” دیکھ بچے ! آرام اور پیار سے لے کر جانا ھے تو ٹھیک ھے ورنہ میں خود رکشے میں اسے چھوڑ آؤں گی ، زیادہ سے زیادہ کیا ہو جائے گا !! لوگ یہی کہیں گے ناں کہ تین جوان پوتوں کے ہوتے ہوئے بڑھیا یوں رکشوں میں اکیلی دھکے کھا رھی ھے ..” دادو تو پوری کی پوری ملکہ جذبات بن گئی تھی ۔
اففف ___ پیار سے … رازی نے کھا جانے والی نظروں سے عنبر کو دیکھا ۔
” اب بھی اگر یہ گاڑی میں نہیں بیٹھی تو اسے پیدل ھی جانا پڑے گا ”
دادو نے دیکھا کہ اب مزید باتوں سے کام بگڑ سکتا ھے تو فوراً عنبر کو اشارہ کیا ، وہ بھی جلدی سے دوڑتی ہوئی گاڑی کی طرف بڑھی ۔
رازی نے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ کر اس کے لیے پچھلا دروازہ کھولا تو وہ جو اگلے دروازے پر ہاتھ رکھے کھڑی تھی فوراً دادو کو متوجہ کیا ۔
” یوں تو یہ میرے ڈرائیور لگیں گے ”
رازی سمجھ گیا کہ وہ جان بوجھ کر اسکی برداشت کو آزما رھی ھے اس لیے آرام سے بولا ۔
” مجھے اس بات سے کوئی ایشو نہیں ھے ” ۔
” رازی کیوں بہن کو تنگ کر رھے ہو ” دادو غصہ ہو رھی تھیں لیکن وہ یکدم بھڑک اٹھا ۔
” خبردار جو آپ نے اسے میری بہن کہا تو ۔۔۔ ہنہ ۔۔۔ یہ میری بہن ہوتی تو منہ توڑ کے رکھ دیتا پہلی دفعہ ھی زبان درازی پر ” انتہائی بدتمیزی سے رازی نے کہا ۔
” اسی لیئے تو خدا نے مجھے آپکی بہن نہیں بنایا ” اسنے شکر کرنے والے انداز میں کہا اور پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئی ۔
وہ چہرے پر ناگوار تاثرات لیے ناک کی سیدھ میں دیکھتا اسٹیئرنگ گھما رھا تھا ۔ اسنے بڑے انداز سے رازی کا کندھا تھپتھپایا ۔
” پہلے پوچھیں تو سہی کہ جانا کہاں ھے !”
” جہنم میں ” وہ غصے میں بولا تو وہ متاثر نہیں ہوئی ۔
” مجھے دو اسٹاپ پہلے آنٹی نجمہ کے گھر اتار دیجئے گا ” انداز بے حد پر سکون تھا تو وہ دانت پیس کر رہ گیا ۔
” بس یہاں سے لیفٹ پر لے لیں ” وہ اچانک چیخی تو اس نے بوکھلا کر اسٹیئرنگ وھیل گھمایا ۔
” یہ کوئی طریقہ نہیں ھے ” وہ تلخی سے بولا ۔
” اچھا بھلا تو طریقہ ھے ، آپ نے کتنی مہارت سے لیفٹ پر لیا گاڑی کو ” اب کے انداز بے پروا تھا ۔
” وہ سامنے گرین گیٹ کے پاس لڑکا کھڑا ھے ناں ۔۔ بس وہیں اتار دیں ” ۔
“ہیلو ، شیری ” گاڑی رکتے ھی اسنے لڑکے کو آواز دی ۔
” اوہ عنبر !” وہ بھی خوشی سے آگے بڑھ آیا ۔
رازی اس سے پوچھنے لگا کہ واپس کیسے آؤ گی کیونکہ دادو کا ڈر بہرحال اپنی جگہ تھا، مگر ان دونوں کی گفتگو کانوں میں پڑی تو وہ سوچ میں پڑ گیا ۔
لڑکے کی ماں گھر نہیں تھی بلکہ کوئی بھی گھر میں موجود نہیں تھا اور وہ عنبر کو مشورہ دے رھا تھا کہ اندر بیٹھ کر انکا انتظار کر لیتے ہیں ۔
” اوہ شیور ۔۔۔ بلکہ یوں کرتے ہیں مووی دیکھتے ہیں ” وہ جوش سے بولی تو رازی جبڑے بھینچ کر رہ گیا ۔
” ایکسکیوزمی ! ” اسنے بےتکاں بولتی ہوئی عنبر کو پکارا تو وہ کھڑکی میں ہلکا سا جھکی ۔
” ابھی اگر تمہاری آنٹی گھر نہیں ھے تو پلیز میرے ساتھ زرا مارکیٹ تک چلو ،مجھے دادو کے لیے کچھ خریدنا ھے ۔” لہجے میں انتہائی نرمی دیکھ کر تو وہ مرنے کے قریب ہوگئی ۔
” میں ؟ آپ کے ساتھ ___!!!!!!” بے یقینی ھی بے یقینی۔۔۔
رازی نے فرنٹ ڈور کھول دیا ۔
” اچھا شیری ، میں تھوڑی دیر میں آتی ہوں ، تب تک آنٹی بھی آجائیں گی ” وہ بعجلت اس لڑکے سے مخاطب ہوئی مبادا رازی صاحب اپنی آفر واپس نہ لے لے .
رازی گاڑی کو مین روڈ پر لے آیا تو وہ اشتیاق سے پوچھنے لگی ۔
” کیا خریدنا ھے آپ نے دادو کے لیے؟”
” دادو کے لیے نہیں ، تمہارے لیے خریدنا ھے ”
عنبر کی تو آنکھیں حیرت سے پھیل گئی۔
” میرے لیے!!!! کیا ؟؟ ”
” اگر مل سکی تو تھوڑی سی عقل۔” اور ایک ھی پل میں عنبر کا سارا اشتیاق خاک میں مل گیا ۔
” اچھا ، آپ تو ہیں ناں عقلمند!!” وہ بہت جل کر بولی ۔
” تمیں بس زبان ھی چلانی آتی ھے اتنی رفتار سے اگر دماغ بھی چلاؤ تو بہتر ھے تمہارے لیے” وہ اچھا خاصا برھم ہوا تھا اس پر ۔
” خیر اب اتنا بھی دماغ نہیں چلا ہوا میرا ” وہ مضحکہ خیزی سے بولی ۔
” تمہارا دماغ ھی تو چل گیا ھے ” اب کے انداز سنجیدہ تھا ۔رازی کو افسوس ہو رھا تھا کہ یہ زبان چلانے میں اتنی ماھر ھے کہ کسی کو اپنے سامنے ٹکنے نہیں دیتی مگر دماغ کے معاملے میں تو بلکل ھی پیدل ھے ۔
” کیوں ؟ میں نے ایسا کیا کردیا ھے ؟” اب کے وہ بھی چڑ گئی تھی ۔
” تمہاری آنٹی گھر پہ نہیں تھی ، اس کے باوجود تم اس لڑکے کے ساتھ اکیلی گھر میں جا رھی تھی !!!” اسنے لفظوں کو خاصا چبا چبا کر بولا ۔
” تو کیا ہوا !! شیری میرا بہت اچھا دوست ھے ، ھم مووی دیکھ لیتے جبتک آنٹی نہ آتیں ” وہ مزے سے بتانے لگی ۔
” تمہیں زرا بھی احساس نہیں۔ کہ میں کیا سمجھانا چاہ رھا ہوں ؟؟” وہ چڑ گیا ۔
” میں کوئی بیوقوف نہیں ہوں جو آپ مجھے سمجھائیں گے ” وہ بڑی خفگی سے بولی تو وہ گہری سانس لیکر رہ گیا ۔گاڑی گھر جانے والے راستے پر وہ ڈال چکا تھا ۔
” میں تمہیں صرف یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ___” بڑی روانی سے بات کرتے ہوئے وہ ایکدم جھجھک گیا ۔
” یعنی ۔۔۔ جیسے کہ ۔۔۔ وہ لڑکا گھر میں اکیلا تھا تو تمہیں وہاں نہیں جانا چاہیے تھا ۔ ہمیں دوسروں کی نیت کا نہیں پتا ہوتا ناں ، یہ ٹھیک ھے کہ تمہاری اس سے دوستی ھے مگر گھر والوں کے ساتھ اکھٹے بیٹھنا ، موویز دیکھنا اور بات ھے ۔۔ مگر یوں کسی لڑکے کے ساتھ بیٹھ کر مووی دیکھنا ۔۔۔ یہ غلط ھے ” اب عنبر کی برین واشنگ تو کیا ہونی تھی الٹا وہ انتہائی بے یقینی سے آنکھیں پھاڑ کر اسے دیکھ رھی تھی ۔
” کیا ۔۔۔ یعنی ، آپکا مطلب ھے کہ ۔۔۔” اسکی سمجھ میں نہیں آ رھا تھا کہ اپنے غصے اک اظہار کیسے کرے وہ یکدم بھڑک اٹھی ” آپ کو شرم نہیں آتی ایسی باتیں کرتے ہوئے۔۔۔ آپکا اپنا دماغ خراب ھے تو آپ نے باقی سب کو بھی اپنے جیسا سمجھ کیا ہوا ھے ۔ آپ تو دوستی جیسے رشتے کو بھی شک سے دیکھتے ہیں ۔ ساری بات کردار کی ہوتی ھے مسٹر رازی فاروقی، اور ہاں ۔۔ واقعی آپکی بات ٹھیک ھے ۔۔۔ ہمیں کسی کی نیت کا کیا پتا ۔۔۔گاڑی روکیے ” وہ زور زور سے چلانے لگی تو اسنے گھبرا کر گاڑی روک دی ۔
وہ گاڑی سے نکل کر کھڑکی پہ جھکی
” آپ انتہائی فضول اور گھٹیا سوچ رکھنے والے انسان ہیں ، آپکو بلکل بھی تمیز نہیں کہ لڑکیوں سے کیسے بات کی جاتی ھے ”
وہ اور بھی پتا نہیں کیا کیا بولے جارھی تھی ، رازی نے فوراً گاڑی اسٹارٹ کی اور اپنے گیٹ کے سامنے لا کر ہارن بجایا ۔
اسکا دماغ اتنی بری طرح سے کھول رھا تھا کہ کوئی حساب نہیں۔
” خیر تو ھے بگ برادر!!” احراز نے اسے اندر آتے دیکھا تو دبے دبے لچے میں پوچھا ، کیونکہ رازی کا چہرہ اشتعال سے سرخ ہو رھا تھا ۔
وہ احراز کو نظر انداز کرتا اپنے کمرے کی طرف بڑھ گیا ۔
احراز مسکراتے ہوئے بابر کی طرف گیا ۔
” رازی بھائی آگئے ہیں ” وہ جوش بھرے انداز میں بولا تو بابر بھی بھی اچھل پڑا ۔
” کیا صورتحال ھے ؟”
” وھی ۔۔۔جو کسی بھی لڑکے کی عنبر سے ملاقات کے بعد ہو سکتی ھے ” احراز نے گہری سانس لیکر اپنے جوش کو تھوڑا کم کیا ۔
” یعنی انہوں نے بگ برادر کو بھی انکار کردیا ” بابر نے منہ لٹکا لیا ۔
” تو بھائی کونسا ان پر ڈورے ڈال رھے تھے یا انہیں پرپوز کر رھے تھے جو انہوں نے انکار کردیا ” وہ چڑ کر بولا ۔
” تو یار اب کیا کریں ؟” بابر پریشان ہوگیا .
ویسے بھی انہیں آجکل یہ خیال ستا رھا تھا کہ کیوں نہ عنبر کو اپنی بھابی بنا لیں ۔۔۔ ویسے بھی ان سے اچھی خاصی دوستی ھے ان دونوں کی ۔
یہ خیال بابر کے ذہن میں آیا تو اسنے فوراً احراز کو بتایا ، احراز اس قدر خوش ہوا کہ بابر کا ماتھا چوم لیا ۔
” میرا خیال ھے کہ دادو سے بات کرنی چاہیے” احراز پرسوچ انداز میں بولا تو بابر نے اختلاف کیا ۔
” نہیں یار ، اس طرح نہیں ۔۔۔ پہلے ان دونوں کے درمیان انڈرسٹینڈنگ ہونی چاہیے، تم نے دیکھا نہیں ھے کیسے دونوں تیتر اور بٹیر کی طرح لڑتے ہیں اگر ، میں چاہتا ہوں کہ پہلے دونوں ایک دوسرے کو اچھے سے جان لیں پھر بات آگے بڑھے ” بابر نے اچھا خاصا فلسفہ جھاڑا ، تو احراز فرطِ مسرت سے پھر سے اسے چومنے کے لیے آگے بڑھا تو بابر بدک کر پیچھے ہوا ۔
” تیری تو عادت ھی بنتی جا رھی ھے ، پچھلی دفعہ بھی سات دفعہ منہ دھویا تھا میں نے ” بابر کی بات پر احراز کھسیا کر رہ گیا
” اچھا اب یہ تو سنو کہ کرنا کیا ھے ” بابر تھوڑا سا آگے ہوکے بیٹھا اور احراز کے کان میں کھسر پھسر کرنے لگا ۔
احراز کی آنکھیں چمک اٹھیں مگر وہ ایکدم تذبذب کا شکار ہوا ۔
” لیکن اگر بھائی اپنا ٹیمپر لوز کر گئے تو بات بگڑ سکتی ھے ”
” کم آن ، عنبر کس لیے ھے ! اور یوں بھی انہیں بہت شوق ھے بولنے کا تو اسی بہانے انکی مہارت بھی دیکھ کی جائے” بابر نے گویا تصور میں مزہ لیا ۔
بابر کا پلان تو کیا کامیاب ہوتا ۔۔۔ اس دن کے بعد تو عنبر ادھر کا راستہ ھی بھول گئی ۔دادو کو تو ہول اٹھ رھے تھے ۔بابر اور احراز الگ پریشان تھے ایک ہفتہ ہونے کو تھا ۔
روہتاس کے سرکٹے بزرگ حضرت سخی خواص شاہ آف خواص پور
برِّ صغیر، جی ہاں ہمارے والے برِّصغیر میں سن سینتالیس میں کھنچی سرحد کے اِس پار یعنی ہماری طرف کچھ...