اس قصّہ کو فقط ایک کہانی یا ایک فوجداری مقدمہ کا ترجمہ ہی نہ سمجھو؛ بلکہ یہ قصّہ تو آیات الٰہی میں سے ایک بڑی روشن آیت ہے، خداوند تعالی قرآن مجید میں ایسے ہی قصوں کے متعلق فرماتے ہیں:
لَقَدْ کانَ فِی قَصَصِهمْ عِبْرَةٌ لِأُولِی الْأَلْبَابِ [یوسف: 111]
ان کے قصے میں عقلمندوں کے لیے عبرت ہے۔
اور یہ میں نے زیب داستان کے لیے سپرد قلم نہیں کیا؛ بلکہ ارشاد خداوندی:
وَأَمَّا بِنِعْمَةِ رَبِّك فَحَدِّثْ [الضحى: 11]
اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کا بیان کرتے رہنا کی تعمیل ہے۔
میں نے اللہ ربّ العالمین جل جلالہ و عم نوالہ کے جملہ انعامات ظاہری و باطنی کو نہایت اختصار کے ساتھ لکھ کر آپ کے سامنے پیش کردیا ہے، اب آخر میں یہ دعا ہے کہ اللہ تعالی اس محنت و مشقت اور تکالیف قید کو ریا سے پاک کرکے قبول فرمالے اور قارئین کرام کو اس قصّہ سے عبرت و نصیحت حاصل کرنے کی توفیق بخشے۔ آمین اللّٰھم انا نجعلك فی نحورهم و نعوذ بك من شرورهم۔
تنوع کے فقدان کا عذاب
لاہور ایئرپورٹ سے فلائی کرنے والا ہوموپاکیئن دو تین گھنٹے بعد دوبئی یا دوحہ میں اترتا ہے تو ایک مختلف...