صبح اسکی آنکھ کھلی تو اسے اپنا سر بھاری بھاری سا محسوس ہوا۔ کافی دیر تک وہ تکیے پہ سر رکھے لیٹا رہا۔ رات والی کیفیت اب کافی حد تک کم ہوگٸ تھی۔ وہ اٹھ کہ بیٹھا تو اسے حیرت کا شدید جھٹکا لگا۔ اسکے سامنے والے صوفے پہ شہریار سویا ہوا تھا۔ مطلب وہ ساری رات گھر نہیں گیا تھا۔ دنیا میں مخلص دوست ہر کسی کو نہیں ملتے، اس حساب سے وہ خوش فسمت تھا۔ وہ بنا کوٸ آواز پیدا کۓ بستر سے اٹھنے لگا کہ کہیں شہریار کی نیند خراب نہ ہوجاۓ۔ لیکن وہ بہت الرٹ سویا تھا۔ ذرا سی آہٹ سے ہی اسکی آنکھ کھول گٸ، اور وہ اٹھ بیٹھا
”کیا ہوا ہے حنان؟ طبیعت کیسی ہے تمہاری؟“ اس نے فکر مندی سے اس سے پوچھا
”میں ٹھیک ہوں۔ تم ساری رات یہیں رہے، گھر چلے جاتے نہ۔ میری وجہ سے تمہیں اتنی تکلیف اٹھانی پڑی“ حنان نے کہا
”میں تمہیں اس حالت میں چھوڑ کے کہیں نہیں جاسکتا تھا۔ علی کو بھی زبردستی بھیجا ہے میں نے“ اس نے کہا اور اٹھ کر حنان کے پاس آیا اور اسکے ماتھے پر ہاتھ رکھا
”سر میں درد تو نہیں ہے اب؟“ وہ اب بھی اسکے لۓ پریشان تھا۔
”نہیں میں ٹھیک ہوں۔ تم جاٶ منہ ہاتھ دھو لو، میں ملازموں سے کہہ کر ناشتہ لگوادوں“ اس نے شہریار کو کہا اور باہر کی جانب چلا گیا۔ شہریار دیکھ رہا تھا کہ وہ اپنی رات والی حالت پر قابو پا چکا ہے۔ ایسا ہی تھا وہ، اس پہ کچھ بھی بیت جاۓ وہ دنیا کو پتہ نہ چلنے دیتا تھا۔ لوگوں کے سامنے مضبوظ بنا کھڑا رہتا تھا۔
اس وقت بھی وہ یہی کررہا تھا۔ رات میں جو بھی ہوا وہ سب بھلا کہ دن کی روشنی میں لوگوں سے نارمل طریقے سے ملے گا۔ اپنے آپ کو مضبوط ظاہر کرے گا، لیکن اندر سے وہ کتنا ٹوٹ چکا تھا صرف وہی جانتا تھا۔ یا اسکے دوست۔۔۔!!!
فریش ہوکر وہ ناشتہ کی ٹیبل پر آیا تو حنان کو دیکھ کر اسے حیرت ہوٸ، کیونکہ وہ فارمل ڈریسنگ کۓ بلکل آفس جانے کے لۓ تیار تھا
”تم آفس جاٶ گے؟“ اس نے حیرت سے پوچھا
”ہاں! کیا نہیں جانا چاہے؟“ اس نے چاۓ کا کپ اٹھاتے ہوۓ عام سے انداز میں پوچھا
”تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے تمہیں کم از کم آج کے دن تو گھر پہ رہنا چاہے“ شہریار نے سمجھانے والے انداز میں کہا اور کرسی گھسیٹ کے اسکے سامنے بیٹھ گیا
”گھر پر رہ کہ کیا کرونگا میں؟ فضول باتیں ہی سوچتا رہونگا ناں! اس سے بہتر ہے کہ آفس ہے چلا جاٶ کچھ کام ہی کر لونگا“ بات تو اسکی بھی درست تھی۔ یہ تو تہہ تھا کہ حنان اپنی تکلیفوں پر سوگ منانے والوں میں سے نہیں ہے۔ وہ اپنے چہرے سے کسی کو پتہ نہیں چلنے دیتا تھا کہ اسکے دل میں کیا چل رہا ہے
”چلو پھر میں تمہارے ساتھ ہی نکلونگا، لیکن پہلے گھر جاکے کپڑے چینچ کرونگا پھر وہاں سے آفس چلیں گے“ شہریار نے ناشتہ کرتے ہوۓ کہا، حنان نے محض سر ہلا دیا۔
”یہ علی کا فون کیوں آف جارہا ہے؟“ اس نے اچانک ہی شہریار سے پوچھا
”ہوسکتا ہے سورہا ہو“
ّاس وقت وہ سوتا تو نہیں ہے“
”تو پھر موباٸل کی بیٹری ڈٸیڈ ہوگٸ ہوگی“
”اچھا۔۔۔۔“ حنان
نے پرسوچ انداز میں کہا۔ علی اتنا لاپرواہ تو نہیں تھا کہ آفس جانے کہ ٹاٸم پر اسکے موباٸل کی بیٹری ختم ہوچکی ہو اور اسے پتہ نہ چلے، اسکی چھٹی حس کسی گڑبڑ کا اشارہ دے تھی۔ ناشتہ کرکے وہ دونوں آفس کے لۓ نکل گۓ
”اندر چلو“ اپنے گھر کے باہر گاڑی روکتے ہوۓ شہریار نے کہا
”نہیں میں گاڑی میں ہی بیٹھا ہوں، تم جلدی سے تیار ہوکے آجاٶ“
”چلو ٹھیک ہے، میں ابھی آتا ہوں“ شہریار گاڑی سے اتر کر چلا گیا۔ اتنی دیر میں حنان کٸ مرتبہ علی کو کال کرچکا تھا۔ لیکن ہر بار فون آف آتا تھا۔ اتنی دیر میں تو موباٸل دو مرتبہ چارج ہوجاتا ہے پھر اسکا فون کیوں اب تک آف تھا؟ کوٸ تو مسلہ تھا، شہریار تیار ہوکہ آگیا اور گاڑی اسٹارٹ کرنے لگا
”یار ایک کام کرو، گاڑی علی کے گھر کی طرف لے لو“ دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ حنان کو یہ محسوس ہوگیا تھا کہ علی کسی مصیبت میں ہے، کسی انہونی کا احساس تو شہریار کو بھی ہوگیا تھا لیکن وہ حنان کے سامنے اظہار کرکے اسے مزید پریشان نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اسی لۓ جب حنان نے اسے علی کی گھر کی جانب گاڑی موڑنے کہا تو اس نے بنا کسی سوال جواب کے گاڑی اسی کے گھر کے راستے پر ڈال دی۔
”کیا ہوا؟ ابھی تک نمبر آف جارہا ہے اسکا؟“
”ہاں! میں نے عابد انکل کا نمبر بھی ٹراٸ کیا ہے پر وہ بھی ریسیو نہیں کر رہے“
”تم پریشان مت ہو، ہوسکتا ہے علی کی طبیعت صیح نہ ہو اس لۓ وہ موباٸل آف کۓ سو رہا ہو“ شہریار نے اسے تسلی دی
” ہوسکتا ہے“
علی کے گھر کے سامنے گاڑی روک کر حنان نے اشارے سے گارڈ کو اپنے پاس بلایا۔ وہ حنان کی کھڑکی پر جھک کر کھڑا ہوا
”ہم علی کے دوست ہیں اسے بلا کر لانا ذرا“
”پر علی صاحب تو رات سے گھر پر نہیں ہیں“
”نہیں ہے؟ تو پھر کہاں ہے“ شہریا نے حیرت سے پوچھا
”وہ جی رات میں بڑے صاحب کی طبیعت خراب ہوگٸ تھی۔ وہ بے ہوش ہوگۓ تھے اور انکی ناک سے بھی خون بہہ رہا تھا۔ وہ انہی کو لے کر ہسپتال گۓ تھے پر اب تک واپس نہیں آۓ۔ میں کٸ مرتبہ کال کرچکا ہوں پر انکا نمبر بند آرہا ہے“ اس نے تفصیل سے بتایا تو دونوں ہی پریشان ہوگۓ
”کیا بہت زیادہ طبیعت خراب تھی انکی؟“ حنان نے فکرمندی سے پوچھا
”جی! علی صاحب تو انکو گود میں اٹھاکر گاڑی تک لاۓ تھے“
”انکل کی حالت اتنی خراب ہے اور ہمیں معلوم ہی نہیں ہے۔ اچھا تم یہ بتاٶ کہ کون سے ہسپتال لے گیا ہے انہیں؟“ حنان نے پہلے شہریار اور پھر گارڈ کو مخاطب کیا۔ اس سے ہسپتال کا پتہ معلوم کر کے گاڑی اسی جانب موڑ لی
————*———–*————-*
”بابا! پلیز، کچھ تو بولیں۔ مجھ سے بات کریں“ علی بستر پر لیٹے عابد کا ہاتھ تھامے کہہ رہا تھا۔ آنکھیں بار بار آنسوں سے بھر جاتی جسے وہ ہتھیلی سے صاف کرتا۔
”علی۔۔۔۔۔مم-۔۔۔۔میں بس جانے۔۔۔ہی والا ہوں“ عابد صاحب نے بڑی مشکلوں سے اپنا جملہ مکمل کیا۔ اور علی کا دل دہل گیا
”کیوں ایسی باتیں کررہے ہیں۔ کچھ نہیں ہوگا آپکو“ علی انکا جھریوں زدہ ہاتھ اتنے ہاتھوں میں مضبوطی سے پکڑے ہوۓ تھا جیسے اسے خوف ہو کہ اگر اس نے انکا ہاتھ چھوڑ دیا تو وہ بھی اسے چھوڑ جاٸینگے۔ اسے پتہ ہی نہ چلا کہ کب حنان اور شہریار بھی خاموشی سے اسکے پیچھے آکے کھڑے ہوگۓ۔
”آپ کو ٹیومر تھا۔ اور آپ نے مجھے بتایا ہی نہیں، اکیلے ہی اتنی بڑی تکلیف سہتے رہے اور مجھے پتہ تک نہ لگنے دیا۔ پھر سے غیر سمجھا نہ آپ نے مجھے“ آخر میں علی نے ہلکا سا شکوہ بھی کردیا
”تمہیں بتانے کی ہمت نہ تھی مجھ میں،۔۔۔۔میں اپنے سارے رشتے کھو چکا ہوں۔۔۔۔۔میں تمہیں ناراض کرکے نہیں مرنا چاہتا۔ ایک بار مجھے معاف کردو“ انہیں سانس لینے میں دشواری ہورہی تھی۔ لیکن وہ پھر بھی بول رہے تھے
”میں نے کہا ناں! کچھ نہیں ہوگا آپکو۔ میں علاج کروانگا آپ کا۔ آپ بلکل پہلے جیسے ہوجاۓ گے۔ پھر ہم اپنے گھر چلیں گے۔ میں کچھ نہیں ہونے دونگا آپکو“ وہ ان سے زیادہ خود کو تسلی دے رہا تھا۔ شہریار اسے دلاسا دینے کی خاطر آگے بڑھا پر حنان نے اسے روک دیا
”میرے پاس۔۔۔بہت۔۔۔۔بہت کم وقت ہے۔۔۔ایک بار کہہ۔۔۔۔۔کہہ دو کہ تم نے مجھے معاف کردیا۔۔۔ ایک بار کہہ دو تاکہ میں سکون سے۔۔۔۔۔۔مر سکوں“ انہوں نے اکھڑی اکھڑی سانسوں کے درمیان کہا
”بابا۔۔۔۔۔“ وہ تڑپ اٹھا
”ایک بار علی۔۔۔۔۔پلیز ایک بار“ وہ التجا کر رہے تھے
”میں نے آپ کو معاف کیا بابا۔۔۔۔۔۔میں نے معاف کیا آپکو“ علی نے کہتے ہوۓ انکے ہاتھ چوم کر اپنی آنسوں سے لبریز آنکھوں سے لگا لۓ۔ اور عابد صاحب نے ایک گہری سانس کھینچی جیسے دل و دماغ سے منوں بوجھ ہٹ گیا ہو، جیسے جلتے ہوۓ پر کسی نے ٹھنڈا پانی ڈال دیا ہو۔
انکی آنکھوں سے ایک آنسو ٹوٹ کے بہا، اور پھر وہ علی کو دیکھ کر مسکراۓ۔ ایک آخری بار مسکراۓ، پھر وہ زور زور سے سانسیں لینے لگے۔
”بابا! بابا! کیا ہوا بابا، کچھ تو بولیں“ انکا جسم جھٹکے کھانے لگا۔ شہریار بھاگ کے ڈاکٹر کو بلالایا۔ ڈاکٹرز اور نرسز نے اندر داخل ہوتے ہی سب سے پہلے علی کو باہر جانے کو کہا۔ پر نہ وہ اٹھا نہ ہی عابد صاحب نے اسکا ہاتھ چھوڑا
”سر آپ پلیز باہر جاۓ۔ آپکو یہاں رہنے کی اجازت نہیں ہے آپ باہر جاۓ“ ڈاکٹر نے علی کو مخاطب کیا
”مگر۔۔۔۔۔۔“وہ کچھ کہنا چاہتا تھا پر حنان نے پیچھے سے آکے اسے دونوں کندھوں سے تھاما
”باہر چلو علی۔۔۔۔۔۔“وہ اسے زبردستی اٹھا کر باہر لے آیا۔ وہ تینوں کوریڈور میں کھڑے تھے۔ اس نے ان دونوں سے نہیں پوچھا کہ انکو اسکے یہاں ہونے کی اطلاع کس نے دی۔ اس وقت وہ کچھ پوچھنے کی پوزیشن میں نہیں تھا۔ بار بار اپنی کوتھاٸ یاد آتی۔ صبح ملازم نے کہا بھی تھا کہ عابد صاحب کی طبیعت خراب ہے۔ کاش! وہ اس وقت وہ اپنی تمام نفرت اور انا کو ایک کنارے پر رکھ کہ انکے پاس چلا جاتا۔ انہیں اسی وقت ڈاکٹر کے پاس لے جاتا تو اس وقت وہ اس حالت میں نہ ہوتے، اے کاش!!
تاریخ کبھی نہ کبھی اپنے آپ کو دہراتی ضرور ہے۔ ایک وقت تھا جب علی ہسپتال میں پڑا زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہا تھا اور عابد صاحب اپنی تمام نفرت کو بھلاۓ اسکی زندگی کی دعا کر رہے تھے، اسکے لۓ رو رہے تھے۔ اور آج عابد صاحب اندر پڑے زندگی اور موت کی جنگ لڑ رہے تھے۔ اور علی باہر کھڑا رورہا تھا۔ تو ثابت ہوا کہ۔۔۔۔۔۔خون پانی سے گاڑھا ہوتا ہے، انسان ساری دنیا سے نفرت کرسکتا ہے، ہر رشتے سے منہ موڑ سکتا ہے، پر خونی رشتوں سے چاہ کر بھی نفرت نہیں کرسکتا۔ اس خون میں نہ جانے کیا کشش ہوتی ہے کہ ہزار رنجشوں اور ہزار ناراضگیوں کے باوجود ایک کی تکلیف دوسرے کو رلا دیتی ہے، ایک کی پریشانی میں دوسرا دوڑا چلا آتا ہے اور یہ خاصیت صرف خونی رشتوں میں ہی ہوتی ہے کہ خون کی کشش اپنی جانب کھینحتی ضرور ہے۔ پھر چاہے بہن بھاٸ ہوں، ماں باپ یا اولاد۔
کوریڈور میں تین افراد کی موجودگی کے باوجود موت کا سا سناٹا چھایا ہوا تھا۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر اور نرسسز سب باہر آگۓ۔ علی تیزی سے ڈاکٹر صاحب کی جانب بڑھا وہ اسی کے پاس آرہے تھے۔
”کیا ہوا؟ بابا ٹھیک ہیں؟“ علی نے بے چینی سے پوچھا
”سوری بیٹا! انکی ڈیتھ ہوگٸ ہے۔ اللّٰہ آپ کو صبر دے“ انہوں نے اسکے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوۓ کہا اور آگے پڑھ گۓ۔ ایسی اموات تو انکے پروفیشن کا حصہ تھی انکو اس بات سے کوٸ فرق نہیں پڑتا تھا۔ پر جسکا اپنا مرا تھا، اسکے تو پیروں تلے زمین نکل گٸ تھی۔ وہ ساکت کھڑا تھا، آنکھوں میں بےیقینی ہی بے یقینی تھی۔ حنان اسکے کندھے پر ہاتھ رکھے کچھ کہہ رہا تھا، شاید تسلی دے رہا تھا ،شہریار نے اسکا ہاتھ تھام رکھا تھا جو اس وقت برف کی طرح ٹھنڈا ہورہاتھا۔ لیکن اسے نہ کچھ سناٸ دے رہا تھا نہ کچھ سمجھ آرہا تھا۔ اسکے سوچنےسمجھنے کی صلاحیت مفلوج ہوگٸ تھی آس پاس کی تمام آوازیں آنا بند ہوگٸ۔ کچھ سناٸ دے رہا تھا تو اسٹریچر گھسیٹنے کی آواز، اور کچھ دکھاٸ دے رہا تھا تو سفید چادر سے ڈھکا وہ وجود، جو اسکا باپ تھا۔۔۔!!!
———–*————-*————*
رات کا نہ جانے کونسا پہر تھا جب اسکی آنکھ کھلی تھی۔ اسے شدید پیاس لگ رہی تھی۔ گلا بھی جیسے سوکھ گیا تھا۔ آنکھ کھلنے کا باعث بھی شاید پیاس ہی بنی تھی۔ وہ اٹھ بیٹھا، داٸیں طرف دو میٹرس بچھے تھے ایک پر حنان اور دوسرے پر شہریار سویا ہوا تھا۔ ظہر میں عابد صاحب کی تدفین کے بعد سے وہ دونوں یہیں تھے۔ تعزیت کے لۓ آنے والوں میں صرف عابد صاحب اور علی کے دوست اور کولیگز وغیرہ ہی تھے۔ سارے کام وہی دونوں دیکھ رہے تھے۔ علی آخری بار تب ہی رویا تھا جب اس نے، اپنی آخری سانسیں لیتے ڈاکٹر عابد کو معاف کیا تھا، اسکے بعد سے تو جیسے اسکے آنسو کہیں گم ہوگۓ تھے یا شاید وہ سب کے سامنےرونا نہیں چاہتا تھا۔ ماہین بھی کافی دیر تک اس کے پاس بیٹھی رہی اسے تسلیاں دیتی رہی تھی پھر وہ بھی چلی گٸ تھی۔
صبح سے بھاگ دوڑ کرتے حنان و شہریار تھک کر بے خبر سوۓ ہوۓ تھے۔ علی نے کہا بھی کہ وہ دونوں گھر چلے جاۓ مگر وہ علی کو کم از کم آج رات کے لۓ اکیلا نہیں چھوڑنا چاہتے تھے۔ اسے اپنے دوستوں پر ٹوٹ کہ پیار آیا تھا۔
وہ خاموشی سے اٹھا اور کمرے سے باہر آگیا۔ نیوی بلیو کلر کے شلوار کرتے میں ملبوس وہ چہرے سے خاصا تھکا تھکا لگ رہا تھا۔ کچن میں آکر اس نے گلاس اٹھایا اور سلیب پر رکھا پھر فریج سے بوتل نکالنے لگا، ابھی وہ پانی کی بوتل نکال ہی رہا تھا جب اسے کسی کی آواز آٸ
”علی بیٹا! ابھی تک جاگ رہے ہو، طبیعت تو ٹھیک ہے“ وہ ایک لمحے کے لۓ سن ہوگیا، پھر اگلے ہی لمحے وہ جھٹکے سے پیچھے مڑا اور ششدرہ رہ گیا۔ کچن کاٶنٹر سے ٹیک لگاۓ، سفید شلوار کرتے میں ملبوس عابد محمد کھڑے تھے۔ اسے دیکھ کر وہ مسکراۓ۔
”بابا!۔۔۔۔“ وہ بے چینی سے انکے پاس گیا۔ لیکن انکا عکس غاٸب ہوگیا۔ علی خاموش کھڑا رہ گیا، اسے اپنے پیچھے پھر سے انکی آواز سناٸ دی
”علی میں نے تمہارے انتظار میں کھانا بھی نہیں کھایا، آٶ دونوں باپ بیٹا مل کر کھانا کھاتے ہیں“ پرشفیق سے انداز میں کہتے وہ ٹیبل پر کھانا لگا رہے تھے۔ اس بار علی انکے قریب نہیں گیا کہ کہیں انکا عکس پھر سے غاٸب نہ ہوجاۓ، وہ خاموشی سے کھڑا یک ٹک انکے عکس کو دیکھ رہا تھا۔ ایک بار پھر انکا عکس غاٸب ہوگیا اور اسکی جگہ ایک اور عکس بن گیا۔ وہ علی کے بلکل برابر میں کھڑے تھے۔ چہرے پر دکھ اور اذیت رقم تھی
”بیٹا میں تم سے بہت پیار کرتا ہوں۔ میں مانتا ہوں کہ میرا جرم بہت بڑا ہے پر مجھے ایک موقعہ دے دو“ وہ اس سے التجہ کررہے تھے علی کی آنکھیں برس پڑیں۔ وہ عکس بھی غاٸب ہوگیا۔ موقعہ ہی تو نہی دیا تھا علی نے انہیں۔ اب وہ خود یہ سوچ رہاتھا کے کاش کوٸ اسے ایک موقعہ دے
———*————*—————*
”شہی۔۔۔۔۔۔۔۔شہی۔۔۔۔۔۔۔کہاں ہو یار؟“شہریار گھر میں داخل ہوتے ہی شہرذاد کو پکارنے لگا
”آرہے ہیں۔۔۔۔۔۔آرہے ہیں۔ صبر کرلیں تھوڑا سا“اس نے کچن سے ہی جواب دیا اور تھوڑی دیر بعد پانی کا گلاس لیتی لاٶنج میں بیٹھے شہریار کے پاس آٸ۔ اندز کافی جھنجھلایا ہوا تھا۔ شہریار نے اسکے ہاتھ سے گلاس لے لیا
”کیا بات ہے؟ کیوں آواز دے رہے تھے“
”تمہارے لۓ ایک بہت اچھی خبر ہے“ اس نے مسکراتے ہوۓ کہا چہرے سے وہ کافی خوش لگ رہا تھا
”اچھا ایسی بھی کیا خبر ہے؟“ اس نےبہت عرصے بعد شہریار کو اتنا خوش دیکھا تھا
”پہلے تم یہاں بیٹھو“ شہریار نے اسکا ہاتھ پکڑ کہ اسے اپنے سامنے ٹیبل پر بیٹھایا
”اب بتا بھی دیں ورنہ ہم تجسّس سے ہی مر جاۓ گے“
”بات یہ ہے کہ ڈیڈ پاکستان آرہے ہیں، پورے دو ہفتے بعد“ اس نے خوشی سے بتایا
”یہ بتانے کے لۓ آپ نے اتنا سسپینس پھیلایا تھا؟ ہمیں تو بابا نے صبح ہی بتا دیا تھا“ اس نے منہ بسورتے ہوۓ کہا
”ارے۔۔۔۔۔پوری بات تو سنو۔ اصل بات یہ ہے کہ وہ ہماری شادی کی ڈیٹ فکس کرنے آرہے ہیں اور ہماری شادی کرواکے ہی واپس جاۓ گے“ شہریار نے کہا تو اسکی آنکھیں حیرت سے پھیل گٸ
”لیکن بابا نے تو کہا ہے کہ وہ صرف ایک ماہ کے لۓ آرہے ہیں ایک ماہ میں ہمارے شادی کیسے ہوگی؟“
”کیوں نہیں ہوسکتی تم ابھی سے تیاری شروع کردو“ شہریار نے مفت مشورہ دیا
”اتنی بھی کیا جلدی ہے؟“ اس نے منہ بناتے ہوۓ پوچھا تو وہ اچھل پڑا
”جلدی؟؟ چھ سال ہوگۓ ہیں ہمارے نکاح کو، اب تو شادی ہوجانی چاہیے، اور تم کہہ رہی ہو کے یہ جلدی ہے“
”اف۔۔۔۔۔۔ہم یہ کہنا چاہ رہے ہیں کہ اتنی جلدی تیاریاں کیسے ہونگی؟ اور۔۔۔۔۔۔یہ کچھ جلنے کی بو آریٕ ہے ناں“ بولتے بولتے شہرذاد نے یہاں وہاں دیکھا
”اوہ۔۔۔۔۔ہم نے تو توے پر روٹی ڈالی تھی۔اف شیری۔۔۔۔۔کن باتوں میں لگا دیا آپ نے ہمیں“ وہ تیزی سے اٹھ کر بھاگی۔ شہریار مسکرارہا تھا۔ آج بہت عرصے بعد وہ شہرذاد نے اس سے پہلے کی طرح بات کی تھی اور وہ بہت خوش تھا۔ اس نے موباٸل اٹھالیا تاکہ شہوار آپی کو بھی یہ خوش خبری سناسکے۔ وہ بچاری تو شاید اسکی شادی میں شریک ہی نہ ہو پاۓ
————–*———–*———–*
عابد صاحب کا چالیسواں ہوۓ چوتھا دن گزر چکا تھا۔ علی کافی حد تک زندگی کی روٹین میں واپس آچکا تھا لیکن ایک خلش سی دل میں ہمیشہ کے لۓ رہ گٸ تھی۔ آج آفس سے واپسی پر اسکی گاڑی خراب ہوگٸ تھی۔ اس نے کافی کوشش کی پر گاڑی چلنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ قریب میں کسی مکینک کی دوکان بھی نہ تھی۔
اسی وقت ایک گاڑی اسکے پاس آکر رکی۔ علی نے گاڑی کی طرف توجہ نہیں دی پر گاڑی میں بیٹھی لڑکی نے اسے دیکھ لیا تھا
”ارے۔۔۔۔۔یہ تو سر علی ہیں“ فاطمہ نے خود سے کہا۔ بلیک پینٹ پر واٸٹ شرٹ پہنے۔ آستینیں کہنیوں سے ذرا نیچے تک فولڈ کۓ، وہ گاڑی کا بونٹ کھولے کھڑا تھا۔ چہرے پر اچھی خاصی جھنجھلاہٹ طاری تھی۔ کوٹ اتار کہ اس نے گاڑی میں ہی رکھا ہوا تھا۔
”سر! آپ یہاں؟ خیریت تو ہے؟ اور گاڑی کو کیا ہوا ہے ؟“ فاطمہ نے شیشہ اتار کے اسے اپنی جانب متوجہ کیا اور بیک وقت کٸ سوال کر ڈالے۔ اسے اپنے سامنے دیکھ کر علی کے چہرے پر چھاٸ ساری بےزاری غاٸب ہوگٸ۔ وہ حیرت بھری خوشگواری لۓ اس تک آیا
”میں بس گھر ہی جارہا تھا کہ راستے میں یہ گاڑی خراب ہوگٸ“
”آٸیں، میں آپ کو ڈراپ کردوں“ اس نے آفر کی
”نہیں اٹس اوکے۔ میں مینیج کرلونگا“
”تکلف مت دکھاۓ سر! آپ ساری رات بھی یہاں گزار دیں گے تب بھی کوٸ مکینک نہیں ملے گا۔ چلے میں آپ کو ڈراپ کردوں“ اس نے مسکراتے ہوۓ علی کی طرف کا دروازہ کھول دیا تو وہ اپنی گاڑی لاک کرکے اسکی گاڑی میں بیٹھ گیا،
”آپ کا بہت شکریہ میری وجہ سے آپ کو اتنی زحمت اٹھانی پڑرہی ہے“
”کیسی تکلیف سر؟ شرمندہ مت کریں مجھے“ اس نے کہتے ہوۓ گاڑی اسٹارٹ کردی
”یہاں سے لیفٹ لے لینا“ علی نے اسے کہا
”جی سر! لیکن پہلے آپ میرے گھر جاۓ گے“ فاطمہ نے مسکراتے ہوۓ کہا
”تمہارے گھر؟ کیوں؟“ علی نے حیرت سے پوچھا، وہ ڈاٸیریکٹ آپ سے تم پر آگیا تھا
”اس دن لنچ آپ کی طرف سے تھا، آج ڈنر میری طرف سے وہ بھی میرے امی کے ہاتھوں سے بنا ہوا، آپ کو کوٸ اعتراض تو نہیں ہے نہ“ اس نے اتنی اپناٸیت سے کہا علی منع نہ کرسکا
”اوکے۔۔۔۔۔تو تم ادھار چکارہی ہو“ اس نے شرارت سے پوچھا
”نہیں ایسی کوٸ بات نہیں ہے“ وہ ہنس دی
”ویسے تم تو وین پر جاتی تھی ناں۔۔۔۔۔یہ گاڑی کب لی؟“ علی کو اچانک یاد آیا
”یہ تو کراۓ کی ہے، ایکچوٸیلی! میرا وین ڈراٸیور ایک ہفتے کے لۓ گاٶں چلا گیا ہے۔ کوٸ دوسری وین ملی نہیں، اور پبلک ٹرانسپورٹ سے ویسے ہی میری جان جاتی ہے۔ اس لۓ رینٹ پر کار لینا مجھے بہترین آپشن لگا تھا۔“ وہ سادگی سے بتا رہی تھی۔ اسکی جگہ کوٸ اور لڑکی ہوتی تو کبھی بھی اپنے باس کو یہ نہ بتاتی کہ اس نے گاڑی کراۓ پر لی ہے بلکہ شو مارنے کے لۓ اسے اپنی گاڑی ہی بتاتی، مگر فاطمہ کی یہی بات علی کو بےحد پسند تھی کہ وہ دکھاوے کے خاطر بھی جھوٹ نہیں بولتی تھی، جو سچ ہوتا تھا وہی اسکی زبان پر ہوتا تھا۔ اور وہ اتنے جلدی کسی سے ایمپریس بھی نہیں ہوتی تھی، جیسے عموماً لڑکیاں علی سے بہت جلدی متاثر ہوجاتی اسکے مقابلے میں وہ اس سے اتنی متاثر نہیں ہوٸ تھی بلکہ اس سے نارمل طریقے سے بات کرتی تھی۔
باتوں میں وقت گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا اور فاطمہ کا گھر آگیا۔ وہ چھوٹا سا بمشکل چار کمرے کا گھر تھا۔ لیکن بہت خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ فاطمہ اسے ڈراٸنگ روم کے بجاۓ سیدھا لاٶنج میں لے آٸ۔ علی تھوڑا سا ہچکچا رہا تھا لیکن فاطمہ کی امی سے مل کر اسکی یہ ہچکچاہٹ بھی دور ہوگٸ۔ وہ بھی اس سے بہت اپناٸیت سے ملی تھیں۔
”فاطمہ نے مجھے بتایا تھا آپ کے والد کے انتقال کے بارے، میں بہت افسوس ہوا بیٹا“ زہرہ بیگم نے کہا تو کمرے میں ایک لمحے کے لۓ کمرے میں سوگوار سے خاموشی چھا گٸ
”بس کیا کر سکتے ہیں آنٹی، جو اللّٰہ کو منظور ہو“ علی نے کہا۔ وہ اور زہرہ بیگم آمنے سامنےبیٹھے باتیں کررہے تھے جبکہ فاطمہ ٹیبل پر کھانا لگارہی تھی۔
”باتیں بات میں کرلی گا امی، پہلے کھانا کھاتے ہیں“ فاطمہ نے مسکراتے ہوۓ کہا اور ڈونگا علی کی طرف بڑھایا۔
”یہ فاطمہ نہ ایسی ہی ہے، بلکل بھی اپنا خیال نہیں رکھتی۔ ابھی بھی بجاۓ آپ کہ کمپنی دینے کے مجھے یہاں بٹھادیا اور خود کام کرنے لگ گٸ“ وہ علی کو شکایت کررہی تھیں۔ اس نے مسکراتے ہوۓ فاطمہ کو دیکھا۔ وہ بھی مسکراتے ہوۓ پلیٹ میں چاول نکال رہی تھی۔ علی کا ہاتھ روکے فاطمہ کو دیکھنے لگا، وہ مسکراتے ہوۓ کتنی پیاری لگتی تھی۔ علی یک ٹک اسے دیکھے گیا
”بیٹا تمہارے گھر میں اور کون کون رہتا ہے؟“ زہرہ بیگم نے اس سے پوچھا تو وہ ہوش میں آیا
”جی بس میں اکیلے ہی رہتا ہوں“
”او۔۔۔۔اچھا“ باتوں باتوں میں کھانا بھی ختم ہوگیا۔ علی نے اپنے جاننے والے مکینک کو پہلے ہی فون کرکے گاڑی کے بارے میں بتادیا تھا۔ اس نے وہاں پہنچ کر گاڑی ٹھیک کردی تھی۔ فاطمہ اسے دوبارہ ڈراپ کرنے گٸ تو اس نے کہا
”تم مجھے وہیں پر چھوڑ دو جہاں میری گاڑی خراب ہوٸ تھی“
”کیوں؟“ اس نےحیرت سے پوچھا
”وہ مکینک نےگاڑی ٹھیک کردی ہے۔ میں وہیں سے گھر چلا جاٶنگا ورنہ صبح پرابلم ہوگی“
”اوکے سر“
”میں نے تم سے کہا تھا کہ مجھے سر مت کہنا“ علی نے مسکراتے ہوۓ یاد دلایا
”میری عادت نہیں ہے آپ کا نام لینے کی۔ کیا کروں؟“ اس نے معصومیت سے کہا۔علی کو وہ اور بھی اچھی لگنے لگی، اسی لمحے اس نے ایک فیصلہ کیا۔ تھوڑی دیر میں وہ اپنی مطلوبہ جگہ پر پہنچ گیا۔ گاڑی سے اترنے سے پہلے وہ رکا اور فاطمہ کی طرف مڑا
”مجھے تم سے ایک بات کہنی ہے“
”جی، بولیں“ وہ حیران ہوٸ کہ اچانک اسے کونسی بات یاد آگٸ
”ہوسکتا ہے کہ تمہیں میری بات بری لگے لیکن میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔“وہ رکا جیسے بولنے کے لۓ الفاظ ڈھونڈ رہا ہو
”میں تمہیں پسند کرتا ہوں اور بہت جلد تمہاری امی سے تمہارا ہاتھ مانگنے بھی آٶنگا۔۔۔۔لیکن اس سے پہلے میں تمہاری راۓ جاننا چاہتا ہوں،“ فاطمہ کو سانپ سونگھ گیا، وہ دم سادھے اسکو دیکھ رہی تھی، اسکے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ کوٸ ایسی بات کریگا
”ابھی جواب مت دینا، پہلے تم سوچ لو۔ پھر میں تمہاری امی سے بات کرنے آٶنگا، خدا حافظ“ وہ کہہ کہ باہر نکل گیا اور اپنی گاڑی میں بیٹھ گیا۔ پتہ نہیں کیوں اسے یہ یقین تھا وہ اسے کبھی انکار نہیں کریگی۔ لیکن وہ جانتا نہیں تھا کہ فاطمہ اس سے پہلے کتنوں کو ٹھکرا چکی ہے
—-=——-*———–*————-*
وہ سڑکوں پر بے مقصد گاڑی دوڑا رہا تھا۔جب تک وہ فاطمہ کے ساتھ تھا تب تک وہ اپنے غم بھول گیا تھا، اب جب وہ پھر سے اکیلے ہوا تھا تو اسے بابا شدت سے یاد آنے لگے تھے۔
ایک وقت تھا جب وہ اس لۓ گھر نہیں جانا چاہتا تھا کہ وہاں عابد ہونگے اور وہ انکی شکل بھی نہیں دیکھنا چاہتا۔ اور آج ایک وقت ایسا آیا تھا جب وہ اس لۓ گھر نہیں جانا چاہتا تھا کہ وہاں عابد صاحب نہیں ہونگے، اسکے بابا نہیں ہونگے۔ وہ انکی شکل نہیں دیکھ پاۓ گا۔ وہ گھر نہیں جانا چاہتا تھا لیکن وہاں نہ جاتا تو پھر کہاں جاتا؟ مجبوراً اسے گھر ہی واپس آنا پڑا۔ گھر میں داخل ہوا تو لاٶنج اندھیرا پڑا تھا۔ بابا نہیں تھے تو کسی نے لاٸیٹ بھی نہیں جلاٸ تھی۔ اس نے سوٸچ بورڈ پر ہاتھ مار کر ساری لاٸیٹیں آن کردیں۔ اسے اندھیرے سے وحشت ہونے لگی تھی۔ جیسے ہی اس نے لاٸیٹ آن کری، اسے لگا کہ کوٸ اسکے پیچھے آکھڑا ہوا ہے
”علی! آج پھر دیر سے گھر آۓ ہو؟ مجھے بتادیتے میں تمہارے لۓ پریشان ہوتارہا تھا“ علی کی آنکھوں سے ایک آنسو بہہ نکلا۔ اس گھر کے کونے کونے پر اسے بابا کی آوازیں سناٸ دیتی تھیں۔ وہ پیچھے مڑا۔ سامنے ہی عابد صاحب پریشان سا چہرہ لۓ کھڑے تھے
”تم نے مجھے اپنے دوستوں کو کال کرنے سے بھی منع کردیا۔ تم خود ہی بتادیتے کے تم دیر سے گھر آٶگے۔ میں نے تمہارے انتظار میں رات کا کھانا بھی نہیں کھایا“ جب وہ زندہ تھے تو علی کو کبھی انکا دکھ محسوس نہیں ہوتا تھا اور اب جب کہ وہ نہیں رہے تھے تو۔۔۔۔۔۔۔۔
”کیوں یاد آتے ہیں اتنا مجھے؟ کیوں؟ اس گھر کے کونے کونے میں مجھے آپ کی آواز سناٸ دیتی ہے، ہر جگہ آپ نظر آتے ہیں۔ آپ ہی چاہتے تھے نہ کہ میں آپ کو معاف کردوں؟ تو جب میں نے آپ کو معاف کردیا تو کیوں آپ مجھے ایک موقعہ دیۓ بغیر ہی چلے گے، مجھے ایک موقعہ تو دیتے“ وہ روتے ہوۓ ان سے پوچھ رہا تھا، وہ کیا جواب دیتے وہ تو ایک عکس تھا ایک الوژن جو غاٸب ہوگیا۔ علی ہارنے کے سے انداز میں زمین پر بیٹھ گیا
”میں دکھاوا نہیں کرہا بیٹے، مجھے سچ میں تمہاری فکر ہورہی تھی۔“ انکی روتی ہوٸ آواز علی کے کانوں سے ٹکراٸ تو وہ شرم سے زمین میں گڑ گیا
”پتہ ہے بابا! مجھے آپ کے جانے کے بعد آپکے دکھ کا احساس ہوا ہے۔ اب قدر ہوٸ ہے مجھے آپکی۔ کتنے حیرت کی بات ہے ناں! جب آپ زندہ تھے تب میں نے آپ کو گھر کے بےکار سامان جتنی بھی اہمیت نہ دی، اور اب۔۔۔۔۔۔۔۔جب آپ چلے گۓ ہیں تو ایسا لگتا ہے جیسے یہ گھر ویران ہوگیا ہے۔ یہاں ساری روشنی اور سارا نور آپ ہی کے دم سے تھا۔ کیوں چلے گۓ آپ؟“ اس نے پوچھا پر وہاں کوٸ ہوتا تو جواب دیتا ناں۔ وہ بچوں کی طرح رودیا
کہتے ہیں ناں! دل کو دل سے راہ ہوتی ہے۔ شہریار اپنے کسی رشتہ دار سے ملنے آیا ہوا تھا، اسے وہاں سے واپس گھر جانا تھا پر نہ جانے اسکے دل میں کیا خیال آیا کہ اس نے گاڑی علی کے گھر کی جانب موڑ لی۔ جب سے علی کے بابا کا انتقال ہوا تھا، وہ بلکل ہی چپ سا ہوگیا تھا۔ نہ زیادہ بات کرتا تھا نہ ہنستا بولتا تھا۔ شہریار کو لگتا تھا کہ وہ اس لۓ ایسا ہوگیا تھا کیونکہ وہ ابھی تک رویا نہیں ہے لیکن اسے یہ معلوم نہیں تھا کہ وہ کتنی بار چھپ چھپ کر روتا تھا، دوسری طرف حنان کا بھی کچھ مختلف حال نہ تھا، جب سے اس نے مرجان کی اتنی بےرحم موت کی خبر سنی تھی، تب سے وہ ایک خول میں بند ہوگیا تھا۔ بس اپنے گھر سے اپنے آفس اور آفس سے واپس گھر۔ کمپنی میں ایمپلاٸز کی ٹاٸمنگ نو سے پانچ بجے تک تھی۔ جبکہ مالکان پہلے آتے تھے۔
حنان آٹھ بجے جو اپنے آفس آتا تو پھر وہ رات آٹھ بجے ہی واپس نکلتا۔ نہ کسی ایمپلاٸ سے ملتا نہ کسی مینیجر سے۔ اگر مینیجر وغیرہ سے کوٸ کام بھی ہوتا تو بس انٹرکام پر رابطہ کرلیتا، یا بہت زیادہ ہوتا تو علی یا شہریار کے روم میں چلا جاتا۔ لوگوں سے ملنا جلنا اس نے بلکل ہی ترک کردیا تھا۔ کبھی کبھی شہریار کو لگتا کہ اسکے دوستوں کے نصیب میں کوٸ خوشی ہے ہی نہیں۔
اس نے گاڑی علی کے گھر کے باہر روکی۔ گارڈ نے اس سے کچھ بھی پوچھے بغیر اسے اندر جانے دے دیا۔ وہ اندر داخل ہوا تو اسے توقع کے مطابق علی وہیں ملا۔ وہ آفس والے کپڑوں ہی میں ملبوس تھا، کوٹ اتار کر صوفے پہ رکھا ہوا تھا۔ جب کہ وہ خود سیڑھیوں پر بیٹھا نہ جانے کن سوچوں میں گم تھا۔ شہریار خاموشی سے اسکے برابر میں آکہ بیٹھ گیا۔ لیکن وہ ہنوز اسی طرح بیٹھا رہا، نظر اٹھا کر بھی اسے نہیں دیکھا۔
”کیا سوچ رہے ہو علی؟“ اس نے پوچھا لیکن علی نے تب بھی کوٸ رسپانس نہیں دیا
”میں جانتا ہوں تم دکھی ہو۔ لیکن اب ہم جانے والوں کو روک تو نہیں سکتے ناں“ اس نے سمجھانے والے انداز میں کہا
”پتہ ہے شیری جب میں چھ سال کا تھا تب ماما مجھے اور بابا کہ چھوڑ کر چلی گٸ تھیں۔ بابا انکے جانے کے بات آدھے سے زیادہ پاگل ہوگۓ تھے۔۔۔۔۔۔انہوں نے ماما کہ جانے کا بدلہ مجھ سے لیا“ وہ رکا۔ شہریار یہ سب باتیں پہلے سے جانتا تھا لیکن اس نے علی کو ٹوکا نہیں کیونکہ وہ چاہتا تھا کہ علی اپنے دل کا غبار نکال دے، خود کو ہلکا کرلے اور اپنے دل پر پڑا بوجھ اتار پھینکے۔ اور اگر ایسا کرنے کے لۓ شہریار کو ایک دفعہ پھر سے وہ ساری باتیں سنی پڑیں گی تو کوٸ بات نہیں، وہ سن لے گا پھر سے۔ لیکن کم از کم وہ ایک دفعہ اپنا غم تو کسی سے بانٹ لے گا ناں۔۔۔۔
”پھر میں نے سوچا کہ میں انکے ساتھ وہی سب کچھ کرونگا، جو بابا نے میرے ساتھ کیا میں انہیں وہی سب واپس لوٹاٶں گا۔ میں بدلہ لینا چاہتا تھا ان سے،۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دیکھو! میں کامیاب ہوگیا۔ لے لیا میں نے ان سے بدلہ، انہیں سب کچھ سود سمیت واپس لوٹا دیا میں نے،“ وہ پھر سے رکا اور پھر جب دوبارہ گویا ہوا تھا تو اسکی آواز بھراٸ ہوٸ تھی۔
”مگر اب میں پچھتا رہا ہوں یار!!“ اسکی آنکھوں سے ایک آنسو ٹوٹ کر بہہ نکلا شہریار نے دکھ سے اسے دیکھا۔ مرنے والوں کے لواحقیں کے چہرے پر غم اور دکھ تو ہوتا ہی ہے پر علی کے چہرے پر پچھتاوا، کرب، اذیت اور نہ جانے کیا کیا تھا؟
”میں آفس میں اوور ٹاٸم کرتا ہوں تو مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے۔۔۔۔۔۔۔۔جیسے ابھی بابا کی کال آۓ گی۔ انکا میسج آۓ گا کہ میں کہاں ہوں اور کب تک گھر آٶں گا۔ اور جب میں گھر آٶں گا تو وہ میرا انتظار کر رہے ہوں گے۔ مگر۔۔۔۔۔۔۔۔۔مگر ایسا کچھ نہیں ہوتا، میرا دل چاہتا ہے کہ میں انہیں کہیں سے بھی واپس لے آٶں۔ کاش! میں ایک بار انہیں گلے لگا سکتا۔ کاش!“ بس اتنا ہی ضبط تھا اسکا اور وہ رودیا۔ شہریار نے اسے گلے لگالیا اور اسے تو جیسے ایک کندھا چاہیے تھا۔ اتنے دنوں سے قاٸم کیا ہوا سارا بھرم ٹوٹ گیا۔ اور وہ اپنے آنسوں پر قابو نہ رکھ پایا۔ شہریار نے اسے رونے دیا۔ اور وہ روتا رہا، روتا رہا۔۔۔۔۔کافی دیر بعد جب اسکا دل کچھ ہلکا ہوا تو وہ اس سے الگ ہوکر اپنے آنسو صاف کرنے لگا۔ شہریار نے اسے اپنے ساتھ لگا لیا اور اسے سمجھانے لگا
”دیکھو علی اسطرح رونے سے انکل واپس تو نہیں آجاۓ گے۔ نہ گزرا ہوا وقت واپس آسکتا ہے نہ ہی تم کچھ بھی پہلے جیسا کر سکتے ہو۔ اگر تم واقعی اپنے کۓ پر شرمندہ ہوتو انکے لۓ وہ کرو جسکی انہیں ضرورت ہے۔ تم انکے لۓ دعا کرو۔ انکی بخشش کے لۓ قرآن پڑھا کرو۔ ٹھیک ہے؟“ اس نے پوچھا تو علی نے بس سر ہلادیا
”چلو اب رو مت“ شہریار نے اسے تسلی دی۔ علی چپ رہا دوسری طرف شہریار یہ سوچ رہا تھا کہ کب تک وہ شہرذاد، حنان اور علی کو کندھے ہی دیتا رہے گا؟ کب تک انکے آنسو پونچھتا رہے گا؟ کب مشکلیں حل ہونگی انکی؟ کب آخر کب؟
———–*————*————-*
”ماہین باہر نکلو“ وہ کچن میں کھڑی کھانا گرم کر رہی تھی کہ کسی کی چنگھاڑتی ہوٸ آواز کانوں سے ٹکراٸ اور ماہین کا حلق تک کڑوا ہوگیا۔ وہ اظہر تھا، اسکی پھوپھو کا بیٹا، وہ غصے سے باہر آٸ
”تمہاری ہمت کیسے ہوٸ اسطرح میرے گھر میں گھس کر چیخنے چلانے کی“ وہ غصے سے بولی
”ہمت کا سوال تو کرو ہی مت، تمہارا ہونے والا شوہر ہوں اس گھر میں آنے کے لۓ کسی کی اجازت کی ضرورت نہیں ہے“ اسکی اس بات پر ماہین کا خون کھول گیا
”کیوں آۓ ہو تم؟“ اس نے سخت لہجے میں پوچھا
”تم نے ماما کو شادی سے کیوں انکار کیا؟“
”تم کون ہوتے ہو مجھ سے یہ سوال کرنے والے؟“
”بار بار بتانا پڑے گا کہ میں کون ہوتا ہوں؟“
”دفعہ ہوجاٶ میرے گھر سے، ابھی اور اسی وقت“
”آج میں تمہیں اپنے ساتھ لے کر ہی جاٶں گا“ وہ کہتا ہوا اسے بازو سے پکڑ کر باہر کی جانب گھسیٹنے لگا
”ہاتھ چھوڑو میرا کہاں لے کر جارہے ہو مجھے“
”تم سے نکاح کرنے لے کر جارہا ہوں تمہیں“ ماہین کے چودہ طبق روشن ہوگۓ
”میں کہیں نہیں جارہی تمہارے ساتھ“ وہ اپنا ہاتھ چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی
”گارڈ۔۔۔۔گارڈ“ وہ اپنے گارڈ کو آوازیں دینے لگی۔ اسکا گارڈ بھاگ کر اندر آیا اور اظہر پر پستول تان لی
”خبردار ہلنا مت ورنہ گولی مار دونگا“
”تو کیا گولی مارے گا میں خود تمہیں زندہ نہیں چھوڑونگا۔“ اس نے اپنی پسٹل نکال کر سیدھا گارڈ کے کندھے پر گولی چلادی۔ وہ وہیں پر ڈھیر ہوگیا۔ اسکے کندھے سے خون نکلنے لگا، خون دیکھ کر ماہین کی آنکھیں خوف سے پھیل گٸ۔ وہ اسے پھر سے اپنے ساتھ لے جانے لگا۔ ماہین نے ہمت کی اور زور سے اسے دھکا دےکر خود سے دور کیا
”چاہے تم کچھ بھی کرلو میں تم سے شادی نہیں کروں گی۔ چاہے تم گولی کیوں نہ ماردو مجھے“
”ٹھیک ہے اگر تم میری نہیں ہو گی تو میں تمہیں کسی کا بھی نہ ہونے دونگا“ اس نے کہتے ساتھ ہی گولی چلا دی جو ماہین کے سینے کے آر پار ہوگٸ۔ وہ پہلے تو ساکت نظروں سے اسے دیکھتی رہی پھر لڑکھڑا کر نیچے گری۔ وہ گارڈ جسکے کندھے پر گولی لگی تھی وہ اٹھا اور اظہر کے پیچھے بھاگا مگر وہ وہاں سے بھاگ نکلا تھا۔ گارڈ محلے کے تین چار لوگوں کو لۓ واپس اندر آیا۔ ماہین زمین پر پڑی تھی۔ زمین پر جابجا خون بکھرا ہوا تھا۔ لوگ اسکے آس پاس کھڑے اسے اٹھانے کی کوشش کررہے تھے۔ لیکن اسے کچھ سناٸ نہیں دے رہا تھا، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھارہا تھا۔ نظروں کے سامنے بہت سے چہرے گھومنے لگے، علی، شہریار، بابا، آفس کی کرسی، وہاں کے ورکرز اور ایمپلاٸز۔ اسکے آنکھیں بند ہونے لگی، آنکھیں بند ہونے سے پہلے جو آخری چہرہ اسکی نظروں کے سامنے آیا وہ حنان کا چہرہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
———-*————-*————-*
عالمی دنوں پر اردو کی پہلی منفرد کتاب صحت اور آگہی
صحت عربی زبان کے لفظ ’’صَحَّ‘‘سے مشتق ہے۔جو درست اور صحیح کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔جسم کی وہ کیفیت...