رقیہ بہت ہی جلدی میں کمرے میں داخل ہوئیں تو اسے ابھی تک سوئے ہوئے دیکھ کر ان کا پارہ ہائی ہو گیا تھا حالانکہ امتیاز صاحب نے ان دونوں ماں بیٹی کو یہاں سے جلدی جانے کا کہہ دیا تھا لیکن مجال ہے جو فاطمہ کی نیند پوری ہو جائے ،رقیہ نے غصے سے کمبل کھینچا اور اور بنا سوچے سمجھے ایک منٹ کی دیر کیے بنا اسے بستر سے نکالا
“حد ہوتی ہے فاطی کسی چیز کی میں نے تمہیں رات کو ہی بتا دیا تھا کہ تمہارے ماموں کے ہاں جانا ہو گا ہمیں اور مجھے لگتا ہے تم نے پیکنگ بھی نہیں کی ” رقیہ تھوڑا سختی سے بول گئیں تھیں حالانکہ انہیں اپنی یہ اکلوتی بیٹی دل و جان سے عزیز تھی اور پھر اسی کے لیے ہی تو اپنا گھر چھوڑ کر اپنے بھائی کے گھر جانے لگیں تھیں فاطمہ کے بہتر مستقبل کے لیے ہی تو وہ فکر مند تھیں
” مما مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا کہ آپ ماموں کے گھر جا کیوں رہی ہیں اسطرح مسئلے کا حل تو نکلنے سے رہا ” اس نے اپنی سوچ کے مطابق ہی یہ بات کی تھی جس پر رقیہ سر پکڑ کر بیٹھ گئیں
“تم اپنا اتنا ہی دماغ خرچ کرو جتنا تمہارے پاس ہے فی الوقت فریش ہو کر آؤ میں تمہاری پیکنگ کرتی ہوں ” انہوں نے فاطمہ کو واش روم کی طرف دھکیلا اور خود اس کے کپرے تہ کر کے بیگ میں رکھنے لگیں “پتہ نہیں یہ لڑکی کب بڑی ہو گی مجھے تو اس کی اتنی فکر کھائی جا رہی ہے انیس سال کی ہو گئی ہے لیکن بچوں والی عادتیں نہیں چھوڑے گی ” رقیہ کافی پریشان تھیں فاطمہ کو لیکر ،ان کی بیٹی تھوڑی سی چنچل تھی اور کافی حد تک معصوم اس لیے انہیں اس کی آگے والی زندگی کے بارے میں فکر مندی تھی
******** ****** ******* ********
اکرام اصغر اور فیصل تین بھائی تھے کافی اچھا کھاتا پیتا خاندان تھا ان کا ، اکرام صاحب بڑے تھے جبکہ اصغر بہت چھوٹے تھے ان سے ان، کے بعد فیصل تھا تینوں بھائیوں کا آپس میں بہت پیار تھا انہی دنوں اکرام صاحب کی شادی اپنی کزن منزہ سے ہوئی دونوں کو اللہ نے ایک خوبصورت بیٹے سے نوازا ،خاندان بھر میں ان دونوں کے سلوک کے کافی چرچے تھے جب اللہ کی مرضی سے ان کے خاندان پر مصیبت اور پریشانی کا طوفان ٹوٹا اور اکرام صاحب ایک روڈ ایکسیڈنٹ میں الله کو پیارے ہو گئے ،منزہ تو ٹوٹ کر بکھر گئیں تھیں اپنے بچے کو دیکھتیں تو خون کے آنسو روتیں ،لیکن تمام بڑوں نے فیصلہ کر کے اصغر صاحب کے ساتھ منزہ کی شادی تہ کر دی بہت ہی مشکل سے منزہ کو اس شادی کے لیے راضی کیا گیا تھا وقت گزرتا گیا اور فیصل کی بھی شادی کر دی گئی الله نے دو بیٹے عطا کیے ، فیصل کی اصغر سے اتنی خاص کبھی نہیں بنی تھی اس لحاظ سے وہ ان کے نزدیک کبھی بھی نہیں تھے منزہ اور اصغر کی اپنی کوئی اولاد نہیں تھی سوائے امتیاز کے ،امتیاز ہی ان دونوں کی جان تھا امتیاز بڑا ہوا زمین کے بٹوارے ہونے شروع ہو گئے امتیاز کو اپنے باپ اکرام اور اصغر دونوں کا حصہ ملنا تھا اور ایسا اصغر خود چاہتے تھے فیصل کے دونوں بیٹوں مجیب اور مطیع کو یہ برداشت نہیں تھا کہ امتیاز ان سے برتری لے جائے اس لیے ان سب میں اختلافات بڑھتے گئے حالانکہ اصغر یہ کبھی نہیں چاہتے تھے امتیاز کی شادی اپنی کلاس فیلو رقیہ سے ہوئی تو اللہ نے دس سال کی بعد ایک چھوٹی سی گڑیا انہیں دی فاطمہ بڑی ہوئی تو مجیب صاحب جن کا ایک بیٹا تھا انہوں نے ثاقب کے لیے فاطمہ کا رشتہ مانگنا شروع کر دیا حالانکہ ثاقب میٹرک کے بعد تعلیم حاصل نہیں کر پایا تھا اور امتیاز صاحب اسے اپنے بیٹی کے قابل نہیں سمجھتے تھے وے جانتے تھے کہ ایسا صرف اور صرف پراپرٹی کے حصول کے لیے کیا جا رہا ہے کیونکہ فاطمہ اکیلی ہی اتنی بڑی پراپرٹی کی مالک تھی امتیاز صاحب بزنس کے سلسلے میں امریکہ چلے گئے تھے اور انہوں نے کہہ دیا تھا کہ جب فاطمہ بڑی ہو گی تب ہی کوئی فیصلہ کیا جائے گا فاطمہ نے بی اے کے امتحان دے لیے تھے اس لیے مجیب صاحب بار بار امتیاز صاحب کو تنگ کر رہے تھے ادھر بیرون ملک وہ پریشان تھے ادھر رقیہ اپنی بیٹی کے مستقبل کے لیے ہلکان تھی اسی معاملے سے نپٹنے کے لیے امتیاز صاحب نے رقیہ کو اپنے بھائی احمد کے گھر جانے کا مشورہ دیا تھا
******** ******* ******* ********۔
” بہت اچھا کیا جو آپ لوگ ادھر آ گئے یہ بھی اپنا ہی گھر ہے میری بہن کا ” احمد نے رقیہ کے سر پر پیار دیا اور فاطمہ کو اپنے ساتھ لگا لیا ،گھر سے نکلتے وقت انہوں نے سب کو یہی بتایا تھا کہ وہ میکے جا رہی ہیں کچھ دن رہ کر ہی آئیں گی ادر مجیب کچھ حد تک معاملے تک پہنچ چکے تھے اس لیے وہ دونوں باپ بیٹا سخت غصے میں تھے رقیہ کی پریشانی کچھ کم ہوئی تھی لیکن پھر بھی بیٹی کا معاملہ تھا
” تھینک یو ماموں جان ” فاطمہ نے بہت پیار سے احمد کے گرد بازو جمائے اور ساتھ لگ گئی
“ارے پاگل تم کیوں تھینکس بول رہی ہو اپنا ہی گھر ہے ” انہوں نے پیار سے اس کے سر پر چپت لگائی تو سب اس کے بھولپن پر مسکرا اٹھے
” بھائی صاحب احسن کدھر ہے نظر نہیں آرہا ” رقیہ بیگم کی نظریں کب سے احسن کی متلاشی تھیں
“ہاں وہ ابھی آفس میں ہی ہے اس کی ضروری میٹینگ ہے جس کی وجہ سے شام کو گھر آئے گا سارا معاملہ نپٹا کر ، میرا بچہ بلکل اپنی پھوپھو پر گیا ہے کسی کام کو کرنے کا ٹھان لیا تو کر کے ہی رہے گا ” احمد صاحب نے ہنستے ہوئے کہا تو وہ بھی ہنس دیں
” ممانی جآن بہت بھوک لگی ہے قسم سے مجھ سے تو برداشت نہیں ہو رہی پیٹ میں چوہے دوڑ رہے ہیں ” فاطمہ نے معصوم سی شکل بنائی ، بلیک کلر کی قمیض اوپر سفید کلر کا کام ہوا تھا ساتھ میں بلیک کلر کا چوڑی پاجامہ زیب تن کیے وہ اور بھی معصوم لگ رہی تھی ، انسہ ممانی کو فاطمہ پر بہت پیار آیا
“ہاں ہاں میں ابھی کھانا لگاتی ہوں ، احسن جب آئے گا تو اسے بعد میں گرم کر کے دے دوں گی ابھی سب کھاتے ہیں ” انہوں نے اس کے گال کو سہلایا اور باورچی خانے میں چلی گئیں ،احمد اور رقیہ اپنی باتیں کرنے لگے جبکہ فاطمہ پورے گھر کا جائزہ لینے لگی
****** ******* ****** ********
کھانا کھانے کے بعد وہ لوگ لان میں بیٹھے چائے سے لطف اندوز ہو رہے تھے جب احسن بھی لوٹ آیا اپنی بہت ہی دل کے قریب پھوپھو کو دیکھ کر احسن کو بہت خوشی ہوئی ان سے گلے مل کر وہ اپنے کمرے میں چلا گیا ،کمرے میں داخل ہوا تو اس کے چاروں طبق روشن ہو گئے
فاطمہ اپنے ہی دھیان میں اس کی تمام درازوں کا جائزہ لے چکی تھی اور دراز کھلے ہوئے تھے بیڈ پر بکسں بکھری ہوئی تھیں جس سے ظاہر ہو رہآ تھا میڈم کو کتابوں سے کوئی لگاؤ نہیں ،احسن کو جب اپنے کمرے کی نازک حالت دیکھ کر یقین نہ آیا تو اس نے آنکھیں سختی سے بند کیں اور پھر انہیں بہت ہی احتیاط سے کھولا کہ کاش سب کچھ نہ ہوا ہو جیسا اسے نظر آ رہا تھا اپنا بلیک کوٹ اس نے صوفحے پر پھینکا اور آہستہ آہستہ چلتے اس کے پیچھے کھڑا ہو گیا جو اپنے ہی دھیان میں اب اس کے بیڈ کے سائیڈ والی دراز چیک کر رہی تھی
“ہیلو مادام آپ یہاں اس وقت میرے کمرے میں کیا کر رہی ہیں ” احسن جیسے ہی بولا فاطمہ نے چیخ ماری اور پلٹ کر اسے دیکھا اس کی چیخ بہت حد تک دل دہلا دینے والی تھی ایکدم تو احسن بھی ڈر گیا اس کے بھنویں اچک گئے سانسوں کو درست کیا اور پھر اس کی کلاس لینے کا سوچا
“حد ہوتی ہے مسٹر کزن آپ بغیر اجازت کے یہاں کیا کر رہے ہیں ” فاطمہ نے بہت ہی معصوم انداز میں آنکھیں پٹپٹائیں جب کہ وہ اس کے سوال پر بھڑک اٹھا
” اکسکیوزمی یہ میرا کمرہ ہے آپ کا نہیں جو میں اجازت لے کر آتا ”
“ایکسکیوزمی ٹو مسٹر کزن میں آپ کی مہمان ہوں ” فاطمہ نے تو اسے پریشان کر کے رکھ دیا تھا
“تو مہمان ہیں تو کسی اور روم میں جائیں میرے روم میں کیا کر رہی ہیں ” احسن اب چڑ رہا تھا
“آپ کو نظر نہیں آرہا میں متعلقہ بک ڈھونڈ رہی ہوں ” احسن کا تو دل کیا اپنا سر کسی چیز میں مار دے
“دیکھیں پلیز آپ باہر جائیں مجھے ریسٹ کرنے دیں ”
” اتنے شوخے نہ بنیں جا رہی ہوں لیکن ممانی سے کہوں گی یہ کمرہ مجھے پسند آیا ہے تو مجھے دے دیں ” انتہائی فضول بات کہہ گئی تھی وہ اور اس پتہ بھی نہیں چلا تھا احسن کو ہنسی آئی تھی لیکن روک چکا تھا کمرے سے نکلنے لگی تو اس سے زور سے ٹکرائی
” دھیان سے چلا کریں سر بھی پھٹ سکتا ہے ”
” توبہ اتنی صاف گوئی یعنی کہ انتہا تھی احسن نے تاسف سے سر ہلایا اور اسے جاتے ہوئے دیکھا جو اپنا آنچل ادھر۔ہی چھوڑ گئی تھی احسن کی نظریں اس کی دراز گھنی زلفوں میں ہی الجھ گئیں تھیں لیکن پھر اس نہ سر جھٹکتے ہوئے واش روم کا رخ کیا یہ سوچ کر کہ اس طرح کے ہنگامے تو اسے اب برداشت کرنا پڑیں گے
***** ******* ******* ********
بھائی صاحب مجیب بھائی کئی دفعہ گھر آنے کا کہہ چکے ہیں امتیاز بھی ادھر نہیں مجھے تو ڈر آ رہا ہے کہ میری بیٹی کا کیا ہو گا ” رقیہ کافی حد تک ڈر چکی تھیں کیونکہ ان لوگوں کو آئے ہوئے ایک ہفتہ ہو چکا تھا اور مجیب کئی دفعہ دھمکی بھی دے چکے تھے یہ بات امتیاز صاحب کو پتہ چلی تو وہ بھی بھڑک اٹھے اپنے ہی بھائی ان کی زندگی اجیرن کرنے چلے تھے اس لیے انہوں نے واپس آنے کا فیصلہ کر لیا تھا “تم فکر نہ کرو ابھی میں ہوں نہ کچھ بھی نہیں ہو گا ” احمد صاحب نے ان کے سر پر ہاتھ رکھ کر تسلی دی
مجھے اب فاطمہ کی پرھائی کی بھی فکر ہے ایڈمیشن بھی کروانا ہے اور واپس میں جا نہیں سکتی”
“میں احسن کو کہتا ہوں کہ فاطمہ کا ایڈمیشن کروا دے بس اب آپ لوگ یہاں ہی رہیں گے امتیاز سے میں خود بات کر لوں گا ”
ان کے خیال میں اب وہاں جانا بلکل بھی ٹھیک نہیں تھا اس لیے اب یہی مناسب تھا کہ وہ دونوں ماں بیٹی یہاں ہی سکونت اختیار کر لیں
******* ****** ****** *********
سب لوگ ناشتہ کر رہے تھے جب امتیاز صاحب ہاتھوں میں بیگ پکڑے دروازے سے داخل ہوئے سب کے لیے ایک سر پرائز تھا فاطمہ تو باپ سے چمٹ گئی تھی اور بار بار ان سے لپٹ جاتی رقیہ کی آنکھوں میں آنسو آ گئے سر پر شوہر کا سایہ ہو تو پھر کسی چیز کی فکر نہیں ہوتی انہیں ایسا لگ رہا تھا جیسے اب ان کی آدھی فکر دور ہو گئی ہو
“پاپا اب آپ کہیں نہیں جائیں گے ، ادھر ہی ہمارے پاس رہیں گے ” فاطمہ نے ان کا ہاتھ پکڑتے ہوئے کہا تو انہوں نے اس کے سر پر بوسہ دیتے ہوئے اپنے ساتھ لگا لیا پاس بیٹھا احسن کب سے ان دونوں باپ بیٹی کے پیار کو دیکھ رہا تھا بلکل بچوں کی طرح وہ اپنے باپ سے لپٹ رہی تھی
” اور سناؤ برخوردار کیا ہو رہا ہے آجکل ” امتیاز صاحب احسن کی طرف متوجہ ہوئے
” بس انکل پڑھائی مکمل ہو گئی اب بس بزنس کو ہی دیکھتا ہوں ”
” بہت اچھی بات ہے میں تو خود اب بزنس سنبھال سنبھال کر تھک چکا ہوں خوش قسمت ہے احمد ”
” پاپا آپ بھی خوش قسمت ہی ہیں الله نے آپ کہ اتنی پیاری اور زہین بیٹی دی ہے میں آپ کا بزنس اب خود سنبھالوں گی ” فاطمہ کو جیسے احسن کی کی گئی تعریف ہضم نہ ہو سکی اس لیے فورا بول پڑی احسن کو اس کی بات سن کر اچھو لگ گئے اس نے ہنسی کا زبردست فوارہ ضبط کیا امتیاز اس کی بات سن کر ہنس پڑے
” نہیں بلکل نہیں تم پہلے پڑھو گی اور پھر چاہے بزنس سنبھال لینا ”
“لیکن پاپا مجھے شوق ہے میں ابھی اسٹارٹ کرنا چاہتی ہوں” اس نے ضد کی تھی ،کیونکہ احسن کی ہنسی اس نے محسوس کی تھی
کہہ رہا ہوں نا ابھی نہیں ،تم ابھی سو جاؤ جا کر صبح بات کریں گے اس موضوع پر” امتیاز صاحب نے فی الوقت ٹالا تو وہ احسن کو گھورتی چپ کر گئی جو اب اس کی خطرناک نظروں سے بچنے کی اپنی سی سعی کر رہا تھا
***** ***** ***** ****
آج چھٹی کا دن تھا احسن کو صبح خیزی کی عادت تھی اس لیے وہ جلدی اٹھ چکا تھا ٹی وی لان میں وہ صوفحے پر بیٹھا گیم کھیلنے میں مصروف تھا جب فاطمہ اسے دیکھ کر ادھر ہی چلی آئی
“کزن کیا تم میرا ایک کام کرو گے ” احسن کو بہت قریب سے اس کی آواز سنائی دی تو اس کی طرف آنکھیں نکال کر دیکھا جس کی وجہ سے وہ ایٹ بال پول میں ہار چکا تھا
“ایک تو تم جب آتی ہو کوئی نہ کوئی نقصان کر دیتی ہو میرا اب بھی میں گیم ہار گیا بتاؤ کیا مسئلہ ہے جو مجھے ڈسڑب کرنے آئی ہو ”
وہ فاطمہ کی جانب ہی متوجہ تھا لیکن فاطمہ کا سارا دھیان اس کے موبائل کی طرف تھا
“یہ گیم کیسے کھیلتے ہیں ؟مجھے تو پتہ ہی نہیں چلتا کہ میری والی بالز کونسی ہیں ،آپ مجھے سکھائیں گے کیا ؟”
فاطمہ نے آنکھیں پٹپٹاتے ہوئے بات عرض کی تو وہ سن کر بھونچکا رہ گیا
“تو مس فاطمہ عرف فاطی بلکہ عرف بجلی آپ یہ کہنے آئیں تھیں کیا ” احسن نے کافی بلند آواز سے کہا ،وہ خود ایک اٹھائیس سال کا خوبرو اور سمجھ دار انسان اس وقت گیم کھیل رہا تھا اور ساتھ اسے گیم کی وجہ سے ہی ڈانٹ رہا تھا
“میں آپ کا نوکرنہیں ہوں جو آپ کو سکھاؤں آپ جا سکتی ہیں مجھے تنگ مت کریں ” احسن نے الجھتے ہوئے کہا اور ساتھ ہی انگلی سے اشارہ کیا کہ آپ یہاں سے جا سکتی ہیں ،فاطمہ سیڑھیوں کے پاس آئی تو اس کے زہن میں آیا کہ آئی تو وہ کوئی اور بات کرنے تھی مگر گیم میں الجھ گئی اور خیر سے گیم کی بات آئی تو مس فاطمہ کے زہن میں ایک اور خیال کوندا کہ وہ بارہا اپنے موبائل میں گیم ڈاؤنلوڈ کر چکی ہی لیکن ہر دفعہ اس کا موبائل ہینگ ہو جاتا اور وہ کھیل نہ پاتی اسی بات کو سوچتے سوچتے مس فاطمہ ایک نیا پلین تیار کرتے اپنے کمرے میں چلی آئیں اسے اب اپنی وہ بات بھول چکی تھی جو وہ احسن سے کرنے آئی تھی
**** ***** ***** ******
فاطمہ کو جب محسوس ہوا کہ سب سو چکے ہیں تب وہ دبے پاؤں اٹھتی احسن کے کمرے کی طرف گئی تھی اتنی رات کو بلکل بچوں کی طرح اپنی ضد پر قائم اسے یہ بھی خیال نہیں رہا تھا کہ یہ بلکل غلط حرکت ہے ، دروازہ لاک تو نہیں تھا البتہ بند ضرور تھا اس نے بڑے آرام سے دروازہ کھولا اور کمرے میں داخل ہو گئی ، احسن سو رہا تھا اس کا چہرہ بھی اسی کی طرف تھا ، فاطمہ نے اردگرد نظر دوڑائی اور مطلوبہ چیز جس کے لیے وہ کمرے میں آئی تھی وہ پاس پڑی ٹیبل پر تھی اس نے بنا شور کیے موبائل کو پکڑا اور موبائل میں موجود گیم پر کلک کیا اور پھر جان بوجھ کر اس نے احسن کے سارے کوئنز ضائع کیے تھے تا کہ وہ کھیل نہ سکے اور وہ اس سے جیت جائے بلکل بچوں والی حرکت تھی ابھی وہ اپنے کارنامے پر خوش ہو رہی تھی جب اچانک سے احسن نے اس کے ہاتھ سے موبائل جھپٹا تھا، اس دوران فاطمہ کی چیخ بہت زبردست ہوتی اگر اسی پل احسن اس کے منہ پر ہاتھ نہ رکھ چکا ہوتا
فاطمہ کی آنکھوں میں ایک دم سے خوف آیا تھا ، پکڑی گئی تھی وہ پاگل بنا کسی مقصد کے ہی اس کے کمرے میں آئی تھی
“کیا لینے آئی ہو اس وقت میرے کمرے میں ” احسن نے آہستگی سے اپنا ہاتھ اس کے لبوں سے ہٹایا اور اپنا موبائل چیک کرنے لگا کہ کونسا فنکشن اوپن ہوا ہے
فاطمہ نے سہمی ہوئی نظروں سے احسن کی طرف دیکھا ، اس کی خوبصورت موٹی آنکھوں میں ہراس ہلکورے لے رہا تھا ، احسن یک لخت رک گیا ، کوئی حصار تھا جو اس پل اسے اپنے اندر باندھ رہا تھا فاطمہ تو نیچے زمین پر بیٹھی تھی اور خود وہ بیڈ پرلیٹا تھا جس کی وجہ سے ایسا لگ رہا تھا جیسےوہ اس کی طرف جھکا ہوا ہو
” اٹھو یہاں سے ” احسن نے اپنی بھاری زور دار آواز کو قدرے دھیما کیا ،لیکن دوسری طرف وہ ویسے ہی شرمندگی سے اسے دیکھ رہی تھی
“میں کیا کہہ رہا ہوں فاطمہ ” احسن نے اب کی بار اسے بازو سے پکڑ کر کھڑا کیا
” اب نہ آنا میرے کمرے میں،خاص طور پہ رات کے وقت ، پتہ نہیں کہاں عقل گئی ہے تمہاری، وقت دیکھو اور اپنی حرکت ،مطلب حد ہی ہو گئی ایک گیم کے لیے تم چوروں کی طرح کمرے میں گھسی ہو،کوئی اس وقت تمہیں یہاں دیکھ لے تو ؟ ” احسن نے تواس کی اچھی خاصی واٹ لگائی تھی ، فاطمہ بنا کچھ کہے قدم اٹھاتی دھڑکتے دل کے ساتھ اس کے کمرے سے نکل گئی جبکہ احسن نے تاسف سے سر ہلایا اور دروازے کا بولٹ چڑھا کےدوبارہ بستر پرلیٹ گیا ،ہاں لیکن ایک کام وہ کرنا نہ بھولا تھا اور وہ یہ تھا کہ اس نے گیم کو ان انسٹال کر دیا تھا ۔۔۔یعنی کہ خس کم جہاں پاک
******* ********** *******
صبح ٹیبل پر سب ہی موجود تھے احمد اور امتیاز باتوں میں مصروف تھے احسن ناشتہ کرنے کے ساتھ ساتھ اخبار کا مطالعہ کر رہا تھا جبکہ رقیہ اور انسہ دونوں ناشتہ تیار کر کے ان کے آگے رکھ رہی تھیں
“رقیہ یہ فاطمہ کیوں نہیں آئی اب تک ” امتیاز صاحب نے ان سے پوچھا تو وہ اپنے سر پر ہاتھ مار کر ہی رہ گئی
“ایک تو میں اس کی اس عادت سے بہت تنگ ہوں ، اٹھتی ہی نہیں ہے ” رقیہ بیگم اسے اٹھانے گئیں تھیں جبکہ احسن اخبار کی ورق گردانی کرتے ہوئے بڑبڑایا
“میڈم کو الٹے کام کرنے کے سوا آتا ہی کیا ہے ”
” بھئی برخوردار تم کیا کہہ رہے ہو؟ ” احمد صاحب کے بولنے پر وہ ایکدم سے ہڑبڑایا
“کچھ نہیں بابا کہہ رہا ہوں کہ آفس سے دیر ہو رہی ہے ”
اچھا اچھا میں سمجھا کچھ اور کہہ رہے ہو ” احسن نے دل ہی دل میں احمد صاحب کی سماعت کی حس کی داد دی ،
لو وہ آ گئی ہے اپنی فاطمہ بیٹی بھی ” احمد صاحب کی تو وہ لاڈلی تھی
احسن نے اس کی طرف نہیں دیکھا تھا
فاطمہ چئیر گھسیٹ کر احمد صاحب کے پاس ہی بیٹھ گئی
” بچے طبیعت ٹھیک ہے آپکی ؟” امتیاز صاحب نے فاطمہ کی پیشانی پر ہاتھ دھرتے ہوئے فکر مندی سے کہا
” جی بابا میں ٹھیک ہوں بس رات کو دیر سے نیند آئی تھی اسی وجہ سے ، سارا دن بور ہوتی رہتی ہوں پھر اکتا کر سونا ہی ہوتا ہے” فاطمہ نے کن اکھیوں سےاحسن کی طرف دیکھا تو اس نے طنز سے بھنویں اچکائے
“تو بیٹا آپ یونیورسٹی میں ایڈمیشن کیوں نہیں لے لیتیں ؟” احمد صاحب نے فراغت سےنجات کا اچھا راستہ بتایا تھا
” جی ماموں میں بھی سوچ رہی تھی ، یہ کام اب آپ کو ہی کرنا پڑے گا کہ کونسی یونیورسٹی یہاں کی بیسٹ ہے ، میری دلچسپی زیادہ تو اردو لٹریچر سے ہے
آپ کا کیا خیال ہے ؟”
تنوع کے فقدان کا عذاب
لاہور ایئرپورٹ سے فلائی کرنے والا ہوموپاکیئن دو تین گھنٹے بعد دوبئی یا دوحہ میں اترتا ہے تو ایک مختلف...