(Last Updated On: دسمبر 22, 2022)
یہ خالی ایک دھمکی ہی نہ تھی کفار مکہ کی بہت بد ہو چکی تھیں نیتیں اشرار مکہ کی نبیؐ پر حملہ کرنے کے لیے تیار بیٹھے تھے بس اپنے قافلے کے منتظر کفار بیٹھے تھے ابو سفیاں گیا تھا شام کی جانب تجارت کو نکلنا تھا اسی کی واپسی پر قتل و غارت کو تجارت کے منافع پر مدار جنگ تھا سارا تجارت کیا تھی گویا کاروبار جنگ تھا سارا قریشی تاجروں کا قافلہ جب لوٹ کر آیا ابو سفیاں منافع کی رقم تھیلوں میں بھر لایا پہنچ کر مکہ میں اب جنگ کا سامان کرنا تھا مگر ڈر تھا کہ یثرت کے حوالی سے گزرنا تھا دغا ہوتی ہے جس دل میں وہی چھاتی دھڑکتی ہے فسادِ بلغمی سے آنکھ رہ رہ کر پھڑکتی ہے ابو سفیان کے دل میں بھی ہزاروں وہم آتے تھے خیالی وسوسے ہی بھوت بن بن کر ڈراتے تھے خیال آیا مسلماں نیک و بدپہچان جاتے ہیں محمد ؐ آدمی کے دل کی باتیں جان جاتے ہیں کہیں ایسا نہ ہو مقصد سمجھ لیں اس تجارت کا مبادا جان لیں سامان ہے یہ قتل و غارت کا چلے ہیں قاتلوں کے ہم دہانِ آز بھرنے کو قبائل ہیں یہ سارا مال و زر تقسیم کرنے کو سمجھ جائیں یہ سونا قبر کے اندر سلائے گا سمجھ جائیں کہ یہ کپڑا کفن ان کو پہنائے گا سمجھ جائیں کہ ان کی صبح پر شام آنے والی ہے منافع کی یہ دولت جنگ میں کام آنے والی ہے کہیں ایسا نہ ہو اس قا فلے کا حال کھل جائے سرِ منزل نہ پہنچیں اور ساری چال کھل جائے ہمارا قافلہ مکے پہنچ جائے تو بہتر ہے کسی صورت مدینے پر بلا آئے تو بہتر ہے یہ کیا ہے آج آگے پاؤں دھرتے ہول آتا ہے مدینے کے حوالی سے گزرتے ہول آتا ہے اگر اہل مدینہ رستے میں ہی ٹوک لیں ہم کو ارادوں سے ہمارے باخبر ہوں روک لیں ہم کو اکارت جائیں گے مکے میں پھر سامان لڑائی کے ہوا ہو جائیں گے امکان خنجر آزمائی کے یہ سارا مال اگر اہل مدینہ چھین لے جائیں تو شاید جا کے تلواریں خریدیں قلعے بنوائیں بڑی دقت ہے پھر اللہ والوں کو مٹانے میں محمد ہی کا مذہب پھیل جائے گا زمانے میں کوئی ترکیب ایسی ہو کہ ہم بچ کر نکل جائیں لڑائی کے لئے مکے سے واپس لوٹ کر آئیں نئے مذہب کی جڑ تیغ وتبر سے کاٹ دیں آ کر مدینے کی زمیں لاشوں سے یکسر پاٹ دیں آ کر